حسن ِ گفتار اور حسنِ کردار کی ضرورت

حسن ِ گفتار اور حسنِ کردار کی ضرورت

محترم محمدکوکب جمیل ہاشمی

پاکستان ہمارے لیے الله کی بڑی نعمت ہے۔ ہم پہ لازم ہے کہ اس کی قدر کریں، اسے عزت دیں، اس میں بسنے والوں کے مفاد اور سہولت کے لیے دل وجان سے کام کریں، اس کے شب وروز کو اپنے عمل سے روشن وتاباں بنائیں، آپس میں محبت بانٹیں، اچھے برتاؤ اور اعلی اخلاق سے ایک دوسرے کے دل جیتیں ، مدد کے جذبے سے سرشار ہو کر ضرورت مند کی طرف دل وجان سے لپکیں، دکھی دل والوں کو وفا کے گجرے پہنا کر ان کے لبوں پر مسکراہٹ کے پھول کھلائیں، کوئی آپ کی کسی عادت سے نالاں ہو تو دل رکھنے کو ہی اس سے معذرت کرکے اچھا پیغام دیں، دوسرے کی دل آزاری سے گریز کریں، کسی کی مجبوری سے کبھی فائدہ نہ اٹھائیں، اپنے ہوں یا غیر سب کے ساتھ اچھا اور یکساں سلوک کریں، آپ کو جو پسند ہو وہی دوسرے کے لیے پسند کریں، لیکن اپنی پسند او راپنی رائے کو دوسرے پر نہ تھوپیں۔ آپ تعلیم یافتہ ہیں تو جاہل یا کم تعلیم یافتہ کو کبھی کم تر نہ سمجھیں، خود کو دوسروں سے برتر نہ سمجھیں، نہ ہی کسی کے پرانے لباس کو نفرت سے دیکھیں، جو غریب اور مفلس ہو ، حتی الوسع اس کی مدد اس طریقے سے کریں کہ اس کی عزت نفس متاثر نہ ہو، الله نے ہمیں دوسروں کے دکھ درد بانٹنے کے لیے پیدا کیا ہے ۔ کوشش کریں کہ ہمارے جو بھی نظریات یا سیاسی خیالات ہوں، ان کے اثرات آپ کے تعلقات کو متاثر نہ کریں، نرمی اور شگفتگی سے بات کریں، کرخت لہجے اور سختی ہمیشہ رقابت وعداوت کو جنم دیتی ہے، یہیں سے اختلاف او رکشیدگی کا آغاز ہوتا ہے، جہاں تک ممکن ہورنجش سے احتراز کریں، کوئی آپ کی نظر میں کیسا بھی ہو، کسی بھی فکر وخیال کا حامل ہو، اسے برا نہ سمجھیں او راس کی رائے سے اختلاف اس طرح نہ کریں کہ وہ ہزیمت محسوس کرے۔

یہ سب خصوصیات ایک باوقار ملک اور عزت دار قوم کے لیے از بس ضروری ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم سب اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنے کردار، رویوں اور آپس داری کو ڈھالیں، اسی میں ہماری عافیت ہے، ہمارے دین نے ہمیں اوپر بیان کردہ خصوصیات سے کہیں زیادہ اخلاق واخلاص ، شائستگی، نرم خوئی، صداقت وسچائی، ایک دوسرے سے اظہار ہمدردی ، دوسروں کے حقوق کی ادائی اور دینی اعتبار سے اپنے فرائض کی پابندی کا تقاضا کیا ہے۔ ہمارا حسن گفت گو صرف دوسرے کے دل میں ہی گداز پیدا نہیں کرتا، بلکہ آخرت میں بھی باعث اجروثواب ہوتا ہے۔ الله کا کلام قرآن مجید فرقان حمید سارا کا سارا ہمارے لیے ہی نہیں، پوری دنیا کے لے ایک ضابطہٴ حیات ہے اور خاتم النبیین کی سیرت مبارکہ اور سنت مطہرہ دین ودنیا کی بھلائی اور عافیت کے لیے عمل وعہد کو لائق تحسین بنا کر اچھا مسلمان بننے کی ترغیب دیتے ہیں۔

کیا ہی اچھا ہو کہ ہم وہم اور گمان کو یقین کے ترازو میں نہ تولیں۔ بسا اوقات ہم جو کچھ سوچ رہے ہوتے ہیں ضرور ی نہیں کہ وہی درست ہو۔ اگر واقعتا ہم ایسا سمجھ بیٹھیں تو رائے تبدیل کر لیں، وگرنہ اس طرح آپس کی کش مکش شروع ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے، سیاست میں اس حد تک ملوث نہ ہوں کہ اپنے پرائے کو غلط، جھوٹا اور بھٹکا ہوا سمجھنے لگیں، اس سے اشتعال، غصہ اور ملال جیسے جذبات پیدا ہوتے ہیں او رباہمی ہم آہنگی کو نقصان پہنچتا ہے۔ سب کو اپنے خیالات، آرا اور فہم کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی ہوتی ہے ، لہٰذا آپ جو کچھ سوچتے ہیں، ضروری نہیں کہ کوئی دوسرا بھی اسے اسی زاویہ نگاہ سے دیکھے، لہٰذا دوسرے کو بھی اس کی رائے کے اظہار کی آزادی دیں ۔ ضبط وتحمل اور صبر واستقامت ایک اچھے انسان کی صفات ہوتی ہیں۔ کسی کے ساتھ حسد ، تکبر اورحقارت سے پیش نہ آئیں۔ ہمارا اشارہ کسی ایک جماعت یا راہ نما کی طرف نہیں ہے۔ یہ باتیں تمام سیاسی جماعتوں ، راہ نماؤں اور معاشرے کی سب تنظیموں کے لیے ہیں۔ آپا دھاپی، ہنگامہ خیزی ، شورش، تشویش اور بے امنی کو ہم خود ختم کرسکتے ہیں۔ ہم کیوں آپس میں جھگڑیں، کیوں کسی پہ جملے کسیں، ایک دوسرے کی تضحیک نہ کریں، آپس داری، صلہ رحمی اور دل بستگی کے ساتھ دوسروں سے پیش آئیں۔ نفرت اور اہانت سے آپ دوسرے کو اپنے خیالات پہ قائل نہیں کرسکتے۔ مفاہمت او رنرمی کے ساتھ دوسرے کے دل میں گھر کرکے بات کریں تو دوسرا بھی آپ کے خیالات اور آراسے متفق ہوسکتا ہے۔ جنون ، دھمکی، زور زبردستی اور نفی جذبات سے حتی الوسع گریز کریں۔ اسی میں خوب صورتی او ربرکت ہے۔ حکومت ہو یا مخالف جماعتیں دونوں کی ذمہ داری ہے کہ قانون کی پابندی کریں، شہریوں پر بھی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون کاا حترام کریں، قانون کی پابندی میں ہی شہریوں کا مفاد ہے، جہاں فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو اس کا حصہ بننے سے احتراز کریں ، اس طرح ملک اور شہریوں کے آرام میں خلل نہیں پڑے گا۔ محبت کی زبان آنکھوں پر پڑے پردے کو ہٹا دیتی ہے۔ دُکھ درد بانٹیں اور محبت بھی۔

اپنی عادات، مزاج اور طبیعت میں ٹھہراؤ پیدا کریں۔ عجلت، جلد بازی اور فیصلوں میں چھلانگ لگانے کی بجائے سمجھ داری، فہم وفراست، ہوش مندی اور سوچ بچار کے لیے وقت کا بھرپور استعمال کریں، کیوں کہ جلدی میں کیے گئے فیصلوں سے کبھی کبھار نقصان اٹھانا پڑتاہے۔ اپنی اصلاح پہ توجہ دیں ، روزانہ رات کو سونے سے پہلے اپنے بارے میں سوچیں کہ سارے دن کون کون سے اچھے کام کیے ہیں اور کون سے ایسے اعمال آپ سے سرزد ہوئے ہیں جو دوسروں کے لیے ناقابل قبول ہیں۔ اگر ہر شخص اس اصول پر عمل کرے تو ایک نہ ایک دن پورا معاشرہ اور پوری قوم کی اصلاح ہوسکے گی۔ کبھی کسی کام کے لیے رشوت دیں اور نہ لیں، یہ تو ہم جانتے ہیں کہ یہ حرام کاموں میں شامل ہے۔ اسی طرح اگر آپ با اختیار ہیں تو اپنے اختیار کو دوسروں کی فلاح او راعانت کے لیے استعمال کریں، صوم وصلوٰة کی پابندی کریں، گھر کے دوسرے افراد کو بھی اس پر راغب کریں، یہ عمل ہمارے طرز عمل کی ہی اصلاح نہیں کرتا، بلکہ خبث باطن سے بھی نجات دیتا ہے۔ اپنے بچوں کی صحیح تربیت او رتعلیم کا اہتمام کریں، آج کے بچے کل قوم کے معمار بنیں گے۔ محض نعروں اور راہ نماؤں کی اندھی تقلید بھٹکنے کا راستہ کھول دیتی ہے، کبھی کبھی سیاسی خیالات میں عقل وخرد جذباتیت کا شکار ہو کر راستے سے ہٹا دیتی ہے، اگر اپنی توانائیاں اچھائی کے لیے صرف کریں گے تو ایک حسین سماج کی بنیاد ڈالی جاسکے گی، خود آپ کو اپنے گن پیارے لگنے لگیں گے۔

وطن سے محبت اور ملکی ترقی کی جستجو وطن کو نکھارنے میں ممد ومعاون ثابت ہوتی ہے۔ وطن سے لگاؤ دل میں محنت اور قربانی کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو ہم وطن دیار غیر میں مقیم ہوتے ہیں وہ اپنے وطن اور دیس میں واپس لوٹنے کے لیے تڑپتے ہیں۔ سخت مزاج اور ترش نوئی کرنے والوں کو ٹوکیں او راپنی خوش اخلاقی اور محبت آمیز گفت گو سے انہیں متاثر کریں۔ یہ امر حسن گفتار اور حسن کردار کے پھول کھلاتا ہے، جس کی خوش بو سے وطن کی فضائیں معطر ہوتی ہیں۔ دوسروں کی جانب سے دی گئی دعوت کو قبول کریں، یہ ایک پسندیدہ عمل ہے، آپس میں تحفے تحائف کا تبادلہ کریں، اس سے مروت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، الله تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے اوراچھا شہری بننے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!