جھوٹ کے نقصانات

جھوٹ کے نقصانات

محترم احسان عبدالله

انسانی مزاج اور نفسیات مختلف عناصر کا مجموعہ ہے۔ اسی طرح ایک انسان جھوٹ کیوں بولتا ہے؟ وہ کون سے عوامل ہیں جو انسان کو جھوٹ بولنے پر آمادہ کرتے ہیں؟ اگر آج قوم کو اسلام پسندی کے حوالے سے دیکھیں تو ہر شخص سب سے پہلے یہ نعرہ بلند کرتا ہے کہ میں ہی سب سے اچھا مسلمان ہوں اور یہ محسوس ہوتا ہے کہ اسلام سے محبت اور اس کا تحفظ صرف اور صرف ان کا ذمہ ہے، مگر جب اس کی عملی زندگی کو دیکھا جائے تو خرابی ہی خرابی ہے۔ ایک پانچ وقت کا نمازی جتنے جذبے اور خلوص کے ساتھ نماز پڑھتا ہے، اس سے بڑھ کر رشوت لیتا ہے، جتنی مہربانی سے روزے رکھتا ہے اتنے ہی خلوص کے ساتھ ملاوٹ کرتا ہے، جتنی خاموشی اور پراسرار طریقے سے غریب کی مدد کرتا ہے اسی خاموشی سے وہ قومی دولت کو چراتا ہے۔

انسان جب دوسروں سے جھوٹ بولتا ہے تو معاملہ ایک حد میں رہتا ہے، مگر جب وہ اپنے آپ سے بھی جھوٹ بولنا شروع کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے ضمیر کے پست ترین درجے سے بھی محروم ہو چکا ہے۔ جھوٹ کا ایک خطرناک پہلو یہ ہے کہ وہ سچ کہ جب ترازو میں تولا جاتا ہے تو اس صورت میں سچ کو بھی منھ چھپا نا پڑتا ہے، سوال یہ ہے کہ اس صورت حال کاسبب کیا ہے؟ اور جھوٹ کی نفسیات کیا ہیں؟ یعنی انسان جھوٹ کیوں بولتا ہے؟ ایک عربی کہاوت ہے کہ مچھلی ہمیشہ سرکی جانب سے سڑتی ہے۔ قومی یا اجتماعی معاملہ بھی اسی طرح ہے، یعنی کسی بھی قوم کے سڑنے یا خراب ہونے کا آغاز اس کے سرکی جانب سے ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ سب سے پہلے قوم کے اہل دانش میں یہ بیماری پیدا ہوتی ہے، جن میں اہل علم، ادیب، شاعر، فلسفی وغیرہ شامل ہیں۔ جب یہ طبقہ جھوٹ کی شروعات کرتا ہے تو باقی قوم کا خدا حافظ!!

جھوٹ بولنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے ایک دانش ور لکھتے ہیں کہ انسان مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر جھوٹ بولتا ہے، ناکام ہونے کا احساس، ذمہ داری سے بچنے کی خواہش، جب کوئی انسان اپنے آپ کسی خاص صورت حال میں ناکامی محسوس کرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو اس صورت حال میں (کافی) بنانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے، یہ انسان بیک وقت کئی اقسام کے ماحول اور صورت حال میں زندہ رہتا ہے۔ مثال کے طو رپر علمی صورت حال، معاشی صورت حال،سماجی صورت حال، سماجی مرتبے کی صورت حال، خاندانی صورت حال،جسمانی خصوصیات کی صورت حال وغیرہ۔ ان صورتوں میں اعلی اور ادنیٰ کے کچھ معاشرتی پیمانے مقرر ہیں۔ انسان ان صورتوں سے کسی خاص صورت میں موجود ہوتا ہے تو وہ کسی دوسرے شخص یا اشخاص کے سامنے اپنے آپ کو اسی صورت کے حوالے سے ناکام ہونے کا احساس، اس کے اندر احساس کم تری پیدا ہوتا ہے، جس کے باعث وہ جھوٹ کے ذریعے اپنے آپ کو کافی ثابت کرتا ہے۔

معاشرے میں جھوٹ بولنے کے رجحان نے معاشرے کے چہرے کو مسخ کر دیا ہے، ایک دوسرے سے مقابلے اور دوڑ نے مذہب کی تمام حدیں چھین لی ہیں۔ ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ پاکستان کے دو ٹکرے اسی جھوٹ کی بنیاد پہ ہوئے۔ اتنے بڑے سانحے سے بھی ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا، جب قوم کے بڑے اپنی خلاصی جھوٹ میں سمجھیں تو الامان والحفیظ! حکم رانوں نے جھوٹ کی کس طرح دستار فضیلت باندھی او رکس طرح پُر اسرار طریقے سے جھوٹ کو مصلحت کا نام دیا۔

جھوٹ ناصرف ایک معاشرتی برائی ہے، بلکہ دین ِ اسلام میں بھی اس حوالے سے سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ سب سے بڑی بات کہ جھوٹ ہزاروں برائیوں کی جڑ ہے۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا، جس میں کئی برائیاں تھی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسے صرف جھوٹ بولنے سے منع کیا، جھوٹ نہ بولنے کی وجہ سے وہ تمام برائیوں سے چھٹکارا پا گیا، قرآن مجید میں جھوٹ بولنے سے منع کیا گیا ہے۔ سورہ آل عمران میں فرمایا گیا کہ جھوٹ بولنے والے پر الله کی لعنت ہے۔ سچ اور جھوٹ کے بارے میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ تم پر سچ بولنا لازم ہے، کیوں کہ سچ بولنا نیکی کا راستہ دکھاتا ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے او رانسان سچ بولتا رہتا ہے، یہاں تک کہ الله کے ہاں سچا لکھ دیا جاتا ہے اور تم لوگ جھوٹ سے بچو، کیوں کہ جھوٹ برائی کا راستہ دکھاتا ہے او رانسان جھوٹ بولتا رہتا ہے، جھوٹ بولنے کا متمنی رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ الله کے ہاں جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔

نبوت سے پہلے تاج دار ختم نبوت علیہ السلام صادق اور امین کے لقب سے مشہو رتھے۔ ہر قل روم کا بادشاہ تھا، اس نے قریش کے سردار ابوسفیان سے اس وقت پوچھا جب وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے اور اسلام کے سخت مخالفین میں سے تھے کہ جو شخص اپنے آپ کو نبی کہتے ہیں کیا انہوں نے تم سے کبھی جھوٹ بولا ہے؟ ابوسفیان نے بتایا کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے ہیں۔ بات پھر وہی ہوئی فضیلت اور خوبی وہ ہے جس کا دشمن بھی اعتراف کریں، دشمن بھی آپ علیہ السلام کے صادق ہونے کے معترف تھے۔ جھوٹ بولنے سے انسان باطنی طور پر کھوکھلاہو جاتا ہے اور اس کی شخصیت مسخ ہو جاتی ہے،جھوٹ سے انسان اپنا کردار، بھروسہ او راعتماد کھو دیتا ہے۔

بعض لوگ مذاق کی آڑ میں جھوٹ بولتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مذاق میں جھوٹ بولنے سے کچھ نہیں ہوتا، لیکن اس میں بھی جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مزاح کے طور پر جھوٹ بولنے سے اس شخص پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ہلاکت ہے ایسے شخص کے لیے جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے اپنے بیان میں جھوٹ بولے۔ ہلاکت ہے اس کے لیے، ہلاکت ہے اس کے لیے ! معاشرے میں بعض ایسے جھوٹ ہیں جن کو بہت سے لوگ جھوٹ نہیں سمجھتے، حالاں کہ وہ بھی جھوٹ میں داخل ہیں۔ حضرت عبدالله بن عامر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف فرما تھے، میری والدہ نے مجھے پکارا اوربلایا کہ میں تجھے کچھ دوں گی، رسول ا لله صلی الله علیہ وسلم نے میری ماں سے فرمایا کہ تم نے اس بچے کو کیا چیز دینے کا ارادہ کیا ہے؟ میری ماں نے عرض کیا کہ میں نے کھجور دینے کا ارادہ کیا ہے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”یاد رکھو! اگر اس کہنے کے بعد اس بچے کو کوئی چیز بھی نہ دیتی تو تمہارے نامہ اعمال میں ایک جھوٹ لکھا جاتا۔“

اندازہ لگائیں کہ ایک ماں نے اپنے بچے کو بلایا، کچھ دینے کا ارادہ تھا ،مگر حضور صلی الله علیہ وسلم نے اس پر خبردار کیا کہ تم جس نیت سے بلاؤ گی اس کا ثواب او رگناہ بھی لکھا جائے گا۔ حضور صلی الله علیہ سلم کے ارشادکا منشا یہ ہے کہ بچوں کو بلانے کے لیے بھی جھوٹ کا استعمال نہ کیا جائے، کیوں کہ مسلمان کی زبان جھوٹ سے پاک ہونی چاہیے۔ علاوہ ازیں، اس کی ایک بڑی حکمت یہبھی ہے کہ ماں باپ بچوں سے جھوٹ نہ بلوائیں تو بچے ان پہ اعتماد کریں گے، بصورت دیگر پھر بچوں کا والدین سے اعتماد ختم ہو گا، اگرچہ والدین کا مقصد صرف بہلانا ہو، پھر بچے ان سے جھوٹ بولنا سیکھیں گے اورجھوٹ بولنے میں کوئی قباحت نہیں سمجھیں گے۔ بطور قوم ہم نے جھوٹ کو موم کی ناک بنا دیا ہے، جس طرف اور جس وقت چاہیں موڑ لیں۔

سچ سے تعلقات مضبوط ہوتے ہیں او رجھوٹ سے تعلقات ٹوٹتے ہیں، بہتر حکمت عملی اختیار کرنے کے لیے سچ پہ مبنی پالیساں وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے لوگوں کو ذمے داریاں سونپنی چاہییں جو جھوٹ سے کنارہ کش رہتے ہوں۔ میڈیا سے وابستہ افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے سامنے سچ لائیں اور جھوٹ سے قطعاً گریز کریں۔ سنی ہوئی بات کو بغیر تحقیق کے آگے بیان نہ کریں۔اسلام میں تحقیق کے لیے کی جانے والی کوشش کو حسن نظر سے دیکھا جاتا ہے، صحافت، وکالت، عدالت سے وابستہ افراد پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سچ کا ساتھ دیں اور سچ اختیار کریں، تاکہ معاشرے میں سچ کا پر چار او رامن وسکون کو فروغ حاصل ہو۔

اپنے بچوں کو سچ کی تلقین او رجھوٹ سے بچنے کی تاکید کریں۔ اگر ہم ان کے سامنے خود سچ بولیں تو وہ بھی خود بخود سچ بولنے کے عادی ہو جائیں گے۔ یادر رکھیں! سچ نجات کا باعث ہے اور جھوٹ تباہی وبربادی لاتا ہے۔