جھوٹ کی ہلاکت خیزیاں

جھوٹ کی ہلاکت خیزیاں

مولانا حافظ زبیر حسن

حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ذات بڑی خوبیوں والی ہے، اس لیے آپ کی زندگی کو اسوہٴ حسنہ اور قرآنی اخلاق کا مجسمہ قرار دیا گیا ہے، ان تمام صفات میں سے بعض ایسی صفات بھی ہیں جنہیں اہل ایمان تو کیا آں حضور صلی الله علیہ وسلم کے جانی دشمن بھی تسلیم کرتے تھے، ان میں سے ایک سچائی ہے۔ جب آپ نے قریش کے سامنے دعوت ِ اسلام کا آغاز فرمایا تو پوری تاریخ میں کہیں اس بات کا ثبوت نہیں ملے گا کہ آپ کے مخالف، آپ کے دشمن یا کسی اور کافر نے آپ کو جھوٹا کہا ہو ،حتی کہ ابوجہل بھی آپ کی توحید کی تعلیم کے جواب میں یہ کہتا تھا کہ اے محمد (صلی الله علیہ وسلم )میں آپ کو جھوٹا تو نہیں کہوں گا، لیکن آپ کو ہمارے دیوتاؤں کی بد دعا لگ گئی ہے۔ حتیٰ کہ آپ کے مخالفین آپ کو صادق او رامین کے لقب سے پکارتے تھے۔ اس عملی انداز سے حضور صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں یہ سکھایا کہ اگر ہم دنیا میں اسلام پھیلانا چاہتے ہیں اور یہ ہماری آرزو ہو کہ کفار بھی اسلامی تعلیمات کو سچ او رصحیح مان لیں تو اس کے لیے مجسمہ سچائی بن جانا ہو گا۔

چناں چہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مومن کی فطرت میں اور اُس کی طبیعت میں ہر خصلت کی گنجائش ہے، سوائے جھوٹ اور خیانت کے۔ حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
ترجمہ:” جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو فرشتہ اس کے جھوٹ کی بدبو کی وجہ سے ایک میل دور چلا جاتا ہے۔“

معلوم ہوا کہ جس طرح اس مادی عالم میں مادی چیزوں کی خوش بو اور بد بو ہوتی ہے، اسی طرح اچھے اور برے اعمال اور کلمات میں بھی خوش بو اور بدبو ہوتی ہے، جس کو الله کے فرشتے اسی طرح محسوس کرتے ہیں جس طرح ہم یہاں کی مادی خوش بو اور بد بومحسوس کرتے ہیں، ایسی مخصوص خوش بو او ربد بو کبھی کبھی الله کے وہ بندے بھی محسوس کر لیتے ہیں جن کی روحانیت ان کی مادیت پر غالب آجاتی ہے۔

جھوٹ کی بعض قسمیں تو انتہائی سخت گناہ لازم کر دیتی ہیں، کتب حدیث میں ہے کہ ایک دن حضور صلی الله علیہ وسلم صبح کی نماز سے فارغ ہوئے تو ایک دم کھڑے ہو گئے اور فرمایا جھوٹی گواہی کا اتنا ہی گناہ ہے جتنا الله کے ساتھ شرک کرنے کا او رپھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے سورہٴ حج کی یہ آیت تین مرتبہ تلاوت فرمائی:
ترجمہ:” یعنی بت پرستی کی گندگی سے بچو اور جھوٹی بات کہنے سے بچتے رہو۔“

اس آیت میں خدائے عزوجل کے طرز کلام سے معلوم ہو رہا ہے کہ بت پرستی اور جھوٹ کہنا دونوں برابر ہیں۔ کیوں کہ الله تعالیٰ نے دونوں کے لیے ﴿اجتنبوا﴾کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔

یہ تو جھوٹ کی وہ شکلیں تھیں جنہیں ہمارے معاشرہ کے سمجھ دار افراد بھی بُرا سمجھتے ہیں، لیکن یہاں جھوٹ کی ایک ایسی شکل بھی ہے، جسے اہل معاشرہجھوٹ ہی نہیں سمجھتے، بلکہ اسے مختلف نام دے کر اچھا سمجھتے ہیں، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس سے بھی بچنے کی تاکید فرمائی، چناں چہ عبدالله بن عمر رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضور صلی الله علیہ وسلم ہمارے گھر میں تشریف فرما تھے کہ میری والدہ نے مجھے پکارا ہاتعال أعطیتک۔ جلدی سے آؤ! میں تجھے کچھ دوں گی۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فوراً میری والدہ سے پوچھا تم اس بچے کو کیا چیز دینا چاہتی ہو؟ والدہ نے کہا میں اسے ایک کھجور دینا چاہتی ہوں۔ پھر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
ترجمہ:”یاد رکھنا اگر اس کہنے کے بعد تم بچے کو کوئی چیز نہ دیتیں تو تمہارے نامہٴ اعمال میں ایک جھوٹ لکھ دیا جاتا ہے۔“

اس ارشاد سے آپ نے اُمت کو ایک اہم سبق سکھایا کہ بچوں کو بہلانے کے لیے بھی جھوٹ نہیں بولنا چاہیے، اس کی بڑی اہم حکمت یہ ہے کہ ماں باپ اگر بچوں سے جھوٹ بولیں اگرچہ ان کا مقصد بہلانا ہی ہو پھر بھی بچے اس سے جھوٹ بولنا سیکھیں گے اور وہ بھی یہی سمجھیں گے کہ کبھی کبھار جھوٹ بولنے میں کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح سنی سنائی باتیں لوگوں تک بغیر تحقیق کے پھیلانا بھی جھوٹ میں داخل ہے۔ معاشرہ میں افواہیں بھی اسی طرح پھیلتی ہیں اور لوگ ذہنی کوفت اور پریشانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں، اس کا الگ گناہ ہوتا ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کی روایت مسلم شریف میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
ترجمہ:” آدمی کے لیے یہی جھوٹ کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے اُسے بیان کرتا پھرے۔“

بیہقی میں عبدالرحمن بن ابی قراد سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ایک دن وضو فرمارہے تھے، صحابہ کرام آپ کے وضو کا پانی لے لے کر اپنے چہروں او رجسم پر مل لیتے تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا اس بات پر تمہیں کیا چیز آمادہ کرتی ہے او رتمہارے اندر کون سا ایسا جذبہ ہے جس کی وجہ سے یہ کر رہے ہو؟ صحابہ نے عرض کیا الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی محبت۔ آپ نے یہ جواب سن کر فرمایا:
ترجمہ: ”جس شخص کی یہ خوشی ہو اور وہ یہ چاہے کہ اُسے الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم سے حقیقی محبت ہو اور الله اور اس کے رسول بھی اُس سے محبت کریں تو اسے چاہیے کہ وہ بات کرے تو ہمیشہ سچ بولے اورجب کوئی امانت اُس کے سپرد کی جائے تو اسے ادا کر دے او رجس شخص کے ہمسائے میں رہے اس کے ساتھ بہتر سلوک کرے۔“ سچ بولنے کی عادت انسان اپنے اندر پیدا کرلے تو یہ خوبی آدمی کو زندگی کے دوسرے پہلوؤں میں بھی نیک کردار اور صالح بنا کر دنیا کی زندگی کو پاکیزہ بنانے کے ساتھ ساتھ جنت کا مستحق بنا دیتی ہے اور سب سے بڑا انعام تو وہ ہے جسے عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
ترجمہ:”جو آدمی ہمیشہ سچ بولتا رہے اور صرف سچائی ہی کو اختیار کرے تو الله کے نزدیک وہ سچا لکھا جاتا ہے اور اسے صدیق کا مرتبہ عطا کر دیا جاتا ہے۔“

الله رب العزت ہمیں جھوٹ بولنے سے بچائے او رپوری زندگی سچ بولنے کی توفیق عطا فرمائے۔