جھوٹ سے اجتناب سچائی کو اپنائیں!

جھوٹ سے اجتناب سچائی کو اپنائیں!!!

محترم سجاد سعدی

خلیفہ دوم حضرت فارق اعظم رضی الله عنہ معمول کے مطابق باہر سے آنے والے قبیلوں، مسافروں اور پردیسیوں کی خبرگیری کے لیے رات کے گشت پر نکلے ہوئے ہیں، مدینہ منورہ کی گلی کوچوں سے گزرتے ہوئے کھجوروں کے باغات میں نکل آتے ہیں، مدینہ منورہ دو طرف سیاہ پہاڑی سلسلوں سے گھرا ہوا ہے، ایک کو مغربی حرہ اور دوسرے کو مشرقی حرہ کہا جاتا ہے، تیسری جانب کھجور کے خوب صورت باغ دور تک پھیلے ہوئے ہیں،شمالی جانب کھلا میدان ہے، اسی طرف سے مختلف سمتوں سے آنے والے لوگ مدینہ منورہ میں داخل ہوتے ہیں ،راستے میں مدینہ کی مشہور وادی عقیق ہے ،جس نے شعر وادب میں بڑی محبوبیت اور مقبولیت حاصل کی، حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ باغات سے نکل کر شمال کی جانب مڑ جاتے ہیں، ان کے ہم راہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله عنہ بھی ہیں، اچانک دونوں کی نظر ایک تاجر قافلہ پر پڑتی ہے، جس میں مردوں کے علاوہ عورتیں اوربچے بھی ہیں، حضرت عمر رضی الله عنہ، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله عنہ کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں، آؤ! آج رات ان کی پہرہ داری کریں، دونوں حضرات رات بھر جاگتے اور نوافل نماز پڑھتے رہے، اسی اثناء ایک بچے کے رونے کی آواز آتی ہے، حضرت عمر رضی الله عنہ آواز سن کر اس بچے کی جانب جاتے ہیں او ربچہ کی ماں سے کہتے ہیں خدا را!اس بچے کے ساتھ اچھا سلوک کرو، ماں کو توجہ دلا کر اپنی جگہ واپس آگئے، تھوڑی دیر کے بعد رونے کی آواز پھر سنی ،پھر دوبارہ گئے او رماں سے کہا کہ خیال رکھو اور اس بچہ کو سلا دو، ماں کو نصیحت کرکے اپنی جگہ پر واپس آگئے، رات کے آخری پہر پھر بچہ کے رونے سے پریشان ہو گئے، بچہ کی ماں کے پاس آکر کہا کہ تم اچھی ماں نہیں لگتی ہو، آج رات اس بچہ کو آرام نہیں ملا اور یہ روتا ہی رہا، ماں کو معلوم نہ تھا کہ یہ صاحب امیر المومنین ہیں، اس نے غضب ناک ہو کر جواب دیا کہ خدا کے بندے! تم نے تو آج ہمیں تنگ کر ڈالا تم کو اس سے کیا سروکار میں اس بچہ کا دودھ چھڑا رہی ہوں اور وہ چھوڑ نہیں رہا ہے۔ انہوں نے نرمی سے دریافت کیا کہ ایسا کیوں کر رہی ہو اور آخر یہ زبردستی کیوں ہے؟ ماں نے جواب دیا کہ ایسا میں اس لیے کر رہی ہوں کہ عمر رضی الله عنہ دودھ پیتے بچہ کو وظیفہ نہیں دیتے ہیں، صرف اسی وقت بچہ کا روزینہ مقرر کرتے ہیں جب وہ دودھ پینا چھوڑ دیتا ہے، فرمایا اس کی عمر کتنی ہے؟ جواب دیا اتنے ماہ کا۔فرمایا خدا تمہارا بھلاکرے، جلدی نہ کرو۔

حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ کو اس واقعہ نے بے حد متاثر ودل گرفتہ کیا ،فجر کی نماز کے دوران آنسو جاری رہے، گریہ وزاری کی وجہ سے لوگ پوری طور پر قرات نہ سمجھ سکے، سلام پھیرتے ہی فرمایا بد نصیب عمر کتنے مسلمان بچوں کے قتل کا سبب بنا، ایک شخص کو مخاطب کرکے فرمایا جاؤ پکار پکار کر اعلان کر دو کہ اے لوگو اپنے بچوں کا دودھ چھڑانے میں جلدی نہ کرو، ہم ہر مسلمان بچے کے لیے پیدا ہوتے ہی وظیفہ مقرر کردیں گے او رملک کے سارے علاقوں اور صوبوں میں اس بات کی منادی کرادی گئی۔

یہ وہ خلیفہ اسلام ہیں جنہوں نے ایک ہاتھ سے کسریٰ اور دوسرے ہاتھ سے قیصر کی سلطنتوں کو پاش پاش کرکے اسلام کی گود میں لا کر ڈال دیا، جن کے نام سے اس دور کی معروف دنیا لرز اٹھتی تھی، آئیے دیکھیے کس طرح وہ رات کو پہرہ داری کا کام انجام دیتے ہیں او رایک بچے کے رونے پر تین بار اس کی ماں کے پاس جاتے ہیں اور خوشامد کرتے ہیں کہ اسے سکون سے سلا دے، پھر عظمت انسانی کی اعلی مثال ملاحظہ کیجیے کیا ہم اس طرح کی کوئی مثال پیش کرسکتے ہیں؟

آئیے! اس جیسی ایک اور اسلامی عظمت او رانسانی شفقت اوراعلیٰ اخلاق کی مثال ملاحظہ کیجیے:
حضرت عمر رضی الله عنہ آج شب پھر حسب معمول خبر گیری کے لیے نکلے ہوئے ہیں، مدینہ منورہ کے ایک کشادہ میدان سے گزر رہے ہیں، ناگاہ، بالوں کا بنا ہوا ایک خیمہ ہے، اس کے اندر سے ایک عورت کے کراہنے کی آواز آرہی ہے، خیمہ کے دروازہ پر ایک آدمی فکرو تشویش میں ڈوبا ہوا بیٹھا ہے۔ حضرت عمر رضی الله عنہ آگے بڑھ کر اس شخص کو سلام کرتے ہیں اور دریافت کرتے ہیں کہ آپ کون ہیں او رکہاں سے آئے ہیں؟ جواب ملتا ہے بدوی ہیں، امیر المومنین سے تعاون او رامداد کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔ پوچھا خیمہ کے اندر سے یہ آواز وکراہ کیسی ہے؟ وہ بدوی نہیں جانتا تھا کہ یہ امیر المومنین حضرت عمر رضی الله عنہ ہیں، کہا کہ میاں! اپنا کام کرو ،ایسی بات مت پوچھو جس سے تمہارا واسطہ نہ ہو، جاؤ خدا تمہارا بھلاکرے۔ حضرت عمر رضی الله عنہ نے بڑی محبت او رنرمی سے اصرار کرکے پوچھا نہیں، بتاؤ !کیا بات ہے؟ تو اس نے بتایا کہ عورت کے یہاں ولادت کا وقت قریب ہے اور درد زہ میں مبتلا ہے، اس کے پاس کوئی نہیں ہے ۔ حضرت عمر رضی الله عنہ یہ سنتے ہی بڑی تیر رفتاری سے گھر واپس گئے او راپنی اہلیہ حضرت ام کلثوم بنت علی کرم الله وجہہ سے فرمایا کہ خدا نے تمہیں ثواب کا ایک موقع دیا ہے، کیا ثواب حاصل کرنا چاہتی ہو؟ پوچھا کیا معاملہ ہے؟ ان سے اس بدوی کا حال بیان کیا او رپھر فرمایا اپنے ساتھ نو مولود بچے کے لیے کچھ کپڑے اور عورت کے لیے تیل وغیرہ لے لو اور ایک پتیلی گھی اور کچھ کھانے کا سامان بھی لے لو، اہلیہ سب سامان لے کر نکلیں تو آپ نے پتیلی او رسامان وغیرہ خود اٹھایا اور وہ ان کے پیچھے پیچھے روانہ ہو گئیں۔

بدوی کے خیمے پر پہنچے، بیوی اندر داخل ہوگئیں اور خود بدوی کے پاس بیٹھ کر آگ جلانے اور کھانا پکانے لگے، بدوی بیٹھا ہوا دیکھتا رہا، اسے یہ علم نہ تھا کہ یہ کون ہیں؟ تھوڑی دیر کے بعد حضرت عمر رضی الله عنہ کی اہلیہ نے آواز دی کہ امیر المؤمنین!اپنے دوست کو لڑکے کی مبارک باد دیجیے۔ بدوی یہ سنتے ہی سناٹے میں آگیا اور لرز کر دور جاکھڑا ہوا، حضرت عمر رضی الله عنہ نے فرمایا کہ اپنی جگہ پر بیٹھو او رگھبراؤ نہیں۔ پیتلی اٹھا کر اپنی بیوی کو دی اور کہا کہ عورت کو کھلا پلا دو، جب وہ کھا چکی تو امیر المومنین نے بدوی کے سپرد کی اورفرمایا کہ لو، کھا لو اور آرام کر لو، تم رات بھر جاگتے اور بے آرام رہے۔

امیر المؤمنین کی اہلیہ خیمہ سے نکلیں تو آپ واپس ہونے لگے، اس بدوی کو سلام کیا اور فرمایا کل ہمارے پاس آنا، ہم تمہارا تعاون کریں گے۔

جب وہ شخص امیر المؤمنین کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے اس کے بچے او راس کے لیے وظیفہ مقرر فرما دیا۔ دنیا میں فرماں رواؤں اور حکم رانوں کی خدمت ِ خلق اور مدد وتعاون کے اکادکا واقعات مل سکتے ہیں، مگر اس جیسا واقعہ شاید ہی مل سکے کہ رات کی تاریکی میں شہر کے گوشہ وگلی میں سربراہ مملکت عوام اور قوم کی خبر گیری کرنے کے لیے اپنی نیند اور آرام حرام کرے، پھر اپنی بیوی کو ساتھ لے کر اس سے دایہ او رنرس کا کام اور خودباورچی کی خدمت انجام دے او راس وقت تک آرام وسکون نہ لے جب تک اس گھر او رخیمہ میں رہنے والوں کو آرام وسکون کی نیند سلا نہ دے۔

آئیے! امیر المومنین کا ایک اور مشہور واقعہ پڑھتے چلیے:
حسب معمول رات کے گشت میں مدینہ منورہ کی آبادی کے ایک کنارے نکل آتے ہیں، دفعتاً ایک آواز سنائی دیتی ہے، بیٹی! جلدی اٹھو، دودھ نکال کر اس میں تھوڑا پانی ملا دو، صبح ہونے جارہی ہے۔ بیٹی کی آواز ابھرتی ہے، اماں جان! امیر المومنین نے دودھ میں پانی ملانے سے منع فرمایا ہے۔ ماں نے ڈانٹتے ہوئے کہا ارے! تو پانی ملا دے، امیر المومنین یہاں کہاں دیکھ رہے ہیں؟ بچی نے اپنی پوری قوت ایمانی سے جواب دیا اماں جان! اگر امیر المومنین نہیں تو امیر المومنین کا آقا او رہمارا مالک ومولیٰ تودیکھ رہا ہے! امیر المومنین اس ایمان افروز جملہ کو سنتے ہی آگے بڑھتے ہیں اور اس گھر پرنشان لگا دیتے ہیں اور تیز تیز قدم بڑھاتے ہوئے مسجد نبوی میں داخل ہو جاتے ہیں ،بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز ہوجاتے ہیں، خدائے عزوجل کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ایمان وامانت دار ی امت مسلمہ کی رگوں میں رواں دواں ہے، اتنے میں موذن فجر کی اذان دیتا ہے ،حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ سجدہ سے سر اٹھاتے ہیں اور سنت میں مشغول ہو جاتے ہیں، نماز کے بعد اپنے صاحب زادہ حضرت عاصم کو بلا کر کچھ مشورہ کرتے ہیں، رات جس گھر پر نشان لگا آئے تھے، اس کے متعلق کچھ معلومات کرتے ہیں اور آخر میں اس نیک بخت لڑکی سے اپنے صاحب زادہ حضرت عاصم رضی الله عنہ کی شادی کر دیتے ہیں، اس جیسی خدا ترس، دیانت دار، دین دار بچی کا اس سے بہتر اور کیا صلہ ہوسکتاہے؟ اسی بچی کے بطن سے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ الله پیداہوئے، جنہوں نے عصر اموی میں خلافت کی باگ ڈور سنبھالی اوربہت ہی مختصر مدت میں عہد فاروقی کی یاد تازہ کر دی، ملوکیت کو خلافت میں، عیش وتنعم کی زندگی کو فقرو درویشی میں تبدیل کر دیا ،خدا ان سے راضی ہو اورامت مسلمہ کو ان کے نقش قدم پر چلنے او راحکام شریعت کو زندگی کے ہر گوشہ میں نافذ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین۔