جامعہ فاروقیہ کراچی کا جلسہ ٴ دستار بندی

جامعہ فاروقیہ کراچی کا جلسہ ٴ دستار بندی

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

جامعہ فاروقیہ کراچی کی تقرب دستار بندی میں دنیا کے معروف ومشہور عالم دین شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے بھی شرکت فرمائی۔حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم کو جامعہ فاروقیہ سے ایک خاص تعلق ہے اور یہ تعلق کیوں نہ ہو کہ جامعہ فاروقیہ کے استاذ، شیخ المشائخ، شیخ المحدثین حضرت اقدس مولانا سلیم الله خان صاحب نوّرالله مرقدہ کا لگا یا ہوا گلستان ہے۔حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم نے اس موقع پر مجمع عام سے خطاب بھی فرمایا، جس کو نذر قارئین کیا جاتا ہے۔

الحمدلله رب العالمین والصلوٰة والسلام علی سیدنا ومولانا محمد خاتم النبیین وامام المرسلین والمبعوث رحمة للعالمین، وعلی آلہ واصحابہ اجمعین وعلی کل من تبعھم بإحسان إلی یوم الدین․

أما بعد! حضرت علمائے کرام، معزز حاضرین او رمیرے طالب علم ساتھیو! میرے لیے یہ ہمیشہ خوش نصیبی اور سعادت رہی ہے کہ اس مبارک جامعہ فاروقیہ میں، جو میرے محبوب او رمکرم اور معظم استاذ گرامی، شیخ الکل حضرت مولانا سلیم الله خان صاحب قدس سرہ کا ایک صدقہ جاریہ ہے، جو ان شا ء الله رہتی دنیا تک ہم جیسے طالب علموں کی راہ نمائی کرتا رہے گا، یہاں حاضری میرے لیے ہمیشہ باسعادت رہی ہے او رمیں اپنے ان استاذ گرامی کی شخصیت کے بارے میں الفاظ نہیں پاتا، جن کے ذریعے میں ان کے ساتھ اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کرسکوں۔

انہوں نے مجھے علم کی وادی میں انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا اور ان کے عظیم احسانات سے میں کبھی بھی اپنے آپ کو، اپنے سر کو، جسم کو ،ان کے احسانات کے بوجھ سے کبھی بھی ہلکا نہیں کرسکوں گا۔

آج وہ یہاں جلوہ افروز نہیں ہیں اور اس سے بھی زیادہ یہ کہ ان کے جلیل القدر فرزند،، میرے انتہائی محبوب او رمکرم دوست حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان صاحب شہید رحمة الله علیہ کی شہادت کا ایک اندوہ ناک سانحہ اسی سال پیش آیا او رمجھے ایسا لگا کہ جیسے میرے ہاتھوں سے کوئی اٹھا کر لے گیا، کیوں کہ آخری اوقات ان کے میرے ساتھ گزرے تھے، الله تبارک وتعالیٰ حضرت والا کو، ان کے صاحب زادے کو پنے مقامات قرب میں اعلیٰ ترین درجہ عطا فرمائیں اور انہوں نے جو یہ صدقہ جاریہ چھوڑا ہے، الله تبارک و تعالیٰ اس کے فیوض سے دنیا کو ہمیشہ منور وروشن کرتے رہیں۔

میں حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب دامت برکاتہم کا تہہ دل سے ممنون ہوں کہ انہوں نے اپنی شفقت او رمحبت سے مجھے آج اس اجتماع میں حاضری کی دعوت دی او رمیری عزت افزائی فرمائی۔ الله تبارک وتعالیٰ ان کو اپنے پیش رو حضرت شیخ الکل حضرت مولانا سلیم الله خان صاحب قدس الله تعالیٰ سرہ او ران کے جلیل القدر فرزند رحمة الله علیہ کے کام کو مستقل اوربہتر طریقے پر آگے بڑھانے اور اس جامعہ کی ظاہری اور باطنی ترقیات کا سبب بننے کی توفیق عطا فرمائے۔

اس موقع پر جب کہ الحمدلله دورہ حدیث کے طلباء کی ایک بڑی تعداد اپنے علمی سفر کا ایک مرحلہ مکمل کر رہی ہے، میں جامعہ کو، حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب دامت برکاتہم کو، ان کے اساتذہ کرام کو، ان کے والدین او رخاندانوں کو تہہ دل سے مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ الله جل جلالہ نے انہیں ایک عظیم نعمت سے نوازا کہ اتنی بڑی تعداد الله تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے اس سال دستار فضیلت پہن رہی ہے، الله تعالیٰ اس کو مبارک فرمائے۔

عام طور سے ایک لفظ استعمال ہوتا ہے، جب کوئی دورہ حدیث کی تکمیل کرتا ہے تو الفاظ یہ استعمال کرتے ہیں کہ فارغ التحصیل ہو گیا، مجھے یہ لفظ اچھا نہیں لگتا، فارغ التحصیل کے لفظی معنی یہ ہیں کہ اب تحصیل علم سے فارغ ہو گئے، یعنی جو کچھ علم حاصل کرنا تھا وہ پورا ہو گیا اور اس کے بعد فراغت ہے۔

لیکن ظاہر ہے کہ یہ اس کا اصطلاحی مفہوم نہیں ہے، مطلب یہ ہے کہ تحصیل علم تو ایسی چیز ہے جو مہد سے لحد تک چلتی ہے او رانسان زندگی کے کسی بھی مرحلے پر اپنے آپ کو طلب علم سے مستغنی نہیں کرسکتا، جب کہ رسول کریم، سرور دو عالم صلی الله علیہ وسلم سے باری تعالیٰ نے یہ فرمایا:﴿ وقل رب زدنی علماً﴾ یعنی آپ یہ دعا کیجیے کہ میرے پروردگار! میرے علم میں اضافہ فرمائیے، وہ ذات اقدس جو علوم الاولین والآخرین کی جامع تھی، اس سے زیادہ کوئی اس کائنات میں اعلم پیدا نہیں ہوا، نہ پیدا ہو گا، ان کو بھی ،الله جل جلالہ فرماتے ہیں کہ یہ دعا کرتے رہو کہ اے میرے پروردگار! میرے علم میں اضافہ فرما۔

لہٰذا درحقیقت جب ہم دورہ حدیث کی تکمیل کرتے ہیں ، تو یہ علم سے فراغت نہیں ہے، اس کی ذمہ داری تو زندگی بھر تک ہمارے ذمے عائد ہوتی ہے، علم سے کبھی فراغت نہیں ہوتی، علم کی طلب کبھی ختم نہیں ہوتی اور مرتے دم تک جاری رہتی ہے، ہمارے تمام سلف صالحین او راکابر علماء نے کبھی بھی اپنے آپ کو مکمل عالم نہیں سمجھا، ہمیشہ اپنے آپ کوطالب العلم کہتے رہے۔

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس الله تعالیٰ سرہ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ ساری دنیا کے عقلاء عقل کے دعوے کرنے والے، جو آج کی اصطلاح میں دانش ور کہلاتے ہیں، ساری دنیا کے عقلاء جمع ہو کر شریعت اسلامیہ کے کسی ایک جزئیے پر کوئی اعتراض لے کر آجائیں الحمدلله الله تعالیٰ کے بھروسے پر میں کہتا ہوں کہ ان شاء الله دو منٹ میں ان کو لاجواب کرسکتا ہوں او رمیں تو ایک طالب علم ہوں، علماء کی تو بڑی شان ہوتی ہے۔

تو ہمیشہ اپنے آپ کو طالب علم سمجھا اور یہ ایک بڑی ناپسندیدہ صورت حال ہمارے معاشرے میں پیدا ہوتی جارہی ہے کہ انسان خود اپنے آپ کو عالم کہتا ہے کہ ہم علماء ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ یہ الفاظ ہم جیسے طالب علم کے لیے زیب نہیں دیتے، ہم اگر ساری زندگی طالب علم رہیں تو یہی ہمارے لیے بہت بڑا اعزاز ہے کہ الله تعالیٰ ہمیں طالب علموں کی حیثیت سے اس دنیا سے اٹھائے، لہٰذا میری اپنے عزیز طلباء سے، جو الحمدلله اس وقت درس نظامی کی تکمیل کر رہے ہیں، ان سے میری انتہائی عاجزانہ درخواست ہے کہ وہ اس کو اپنے لیے فراغت تحصیل نہ سمجھیں بلکہ یہ سمجھیں کہ طالب علمی تو اب شروع ہوئی ہے، یہ سارے علوم جو ہم پڑھتے پڑھاتے ہیں، ان کا حاصل صرف یہ ہے کہ الله تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے ان علوم کے نتیجے میں انسان کے اندر قوت مطالعہ پیدا ہو جاتی ہے اور استعداد پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ آگے ان علوم کے اندر ترقی کرے اور علوم ومعارف کا جو سمندر ہے اس میں غواصی کا فن اس کو آجائے، مبارک باد کے ساتھ میں یہ بڑی عاجزانہ گزارش کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو کبھی بھی طلب علم سے مستغنی نہ سمجھیں او ران شا ء الله یہ طلب علم مرتے دم تک جاری رہے گی۔

میں نے اپنے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نوّرالله مرقدہ سے سنا، وہ حضرت امام العصر علامہ انور شاہ صاحب کشمیری رحمة الله علیہ کے خصوصی شاگرد تھے او رانہوں نے مجھے یہ واقعہ سنایا کہ حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیری رحمة الله علیہ ایک مرتبہ دیوبند میں بیمار ہو گئے تھے اور رات کے وقت دیوبند میں یہ افواہ پھیل گئی کہ حضرت شاہ صاحب قدس الله سرہ کا وصال ہو گیا، تو حضرت کے جتنے شاگرد تھے، وہ پریشان ہو کر حضرت کے گھر کی طرف دوڑے، آخر شب کا وقت تھا، انتظار کیا، تو معلوم ہوا کہ وہاں گھر کے اوپر بظاہر وفات کے آثار نہیں تھے، لیکن سوچا کہ نماز فجر کے بعد حضرت کی خدمت میں عیادت کے لیے حاضر ہوں، تو حضرت والدماجد رحمہ الله فرماتے ہیں کہ ہم فجر کی نماز کے بعد حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کا ایک حجرہ تھا، چھوٹا سا، اس کے اندر حضرت کی زیارت اور ملاقات کے لیے پہنچے تو دیکھا کہ حضرت شاہ صاحب رحمة الله علیہ نے اپنے سامنے ایک چوکی رکھی ہوئی ہے جائے نماز کے ساتھ او راس کے اوپر ایک کتاب کھلی ہوئی ہے، اندھیرا تھا، ابھی تک سورج کی روشنی پوری طرح نہیں پھیلی تھی، اس لیے حضرت اس کے اوپر جھک کر اس کا مطالعہ کر رہے تھے، جب جاکر یہ منظر دیکھا حضرت کے بعض شاگردوں نے، حضرت سے عرض کیا کہ حضرت! آپ نے ہماری زندگی کے بہت سارے مسائل حل کیے او رکتنے علوم ومعارف آپ نے اپنی تدریس، تقریر اور تحریر کے ذریعے دنیا میں پھیلائے۔

ایک سوال کا جواب ہمیں دے دیجیے، وہ یہ کہ آپ اتنے بیمار ہیں کہ سارے دیوبند میں آپ کی وفات کی خبر مشہور ہو گئی او را س حالت میں آپ مصلیٰ پر بیٹھ کر سامنے کتاب رکھ کر او رجھک کر اس کا مطالعہ کر رہے ہیں تو ذرا ہمیں یہ بتائیے کہ ایسا کون سا فوری مسئلہ پیش آگیا تھا جس کی وجہ سے آپ کو کتاب کی مراجعت کی ضرورت پیش آئی؟ الله تعالیٰ نے آپ کو تو علوم ایسے دیے ہیں، ساری دنیا کی کتابیں آپ کی نگاہ سے گزر چکی ہیں، سارے مسائل آپ نے حل کرکے ہم لوگوں کو خیرات کیے ہیں، تو ایسا کونسا مسئلہ ہے جو ابھی تک آپ کے علم میں نہیں آیا؟ اور اگر علم میں آیا تو ایسی فوری ضرورت کیا تھی کہ ابھی ابھی اسی حالت میں اس کو دیکھنا تھا؟ اگر ایسا کوئی مسئلہ تھا بھی تو آپ کے شاگرد موجود تھے، کسی بھی شاگرد سے فرما دیتے کہ اس مسئلے کو تلاش کرکے مجھے بتا دو، لیکن آپ اپنی جان پر جو یہ ظلم کر رہے ہیں کہ اس بیماری کی حالت میں جھک جھک کر کتاب پڑھ رہے ہیں، یہ کیوں کر رہے ہیں؟

تو حضرت نے بہت ہی معصومانہ انداز میں سر اقدس اٹھایا اور فرمایا کہ بھائی! تم صحیح کہتے ہو، لیکن میں کیا کروں، یہ بھی تو ایک بیماری ہے، یہ کتاب دیکھنا یہ بھی توایک بیماری ہے، یہ ایسی بیماری ہے کہ جب تک کتاب سامنے نہ ہو اس وقت تک زندگی بے کار معلوم ہوتی ہے۔

یہ تھے ہمارے اکابر،طالب علم ،جن کی کتابوں سے، جن کی تقاریر سے، جن کے فیوض سے اب ہم سیراب ہوتے ہیں۔

تو طلب علم کبھی ختم نہیں ہوتی اور کسی وقت ختم نہیں ہوتی۔ حضرت امام ابویوسف رحمہ الله کا واقعہ آپ نے سنا ہو گا، حضرت اامام ابویوسف رحمہ الله بیمار تھے، ان کے شاگرد ان کی عیادت کے لیے حاضر ہوئے، تو حضرت امام ابویوسف رحمة الله علیہ سے خیریت دریافت کی، انہوں نے رسمی جواب دے کر فرمایا کہ بھائی اذرا یہ بتاؤ کہ جو جمرات کی رمی ہوتی ہے حج میں، وہ سوار ہو کر کرنا افضل ہے یا پیدل کرنا افضل ہے ؟ یعنی عین مرض وفات کے اندر یہ مسئلہ ذہن میں چکر کھا رہا ہے کہ رمی جمار راکباً افضل ہے یا ماشیاً افضل ہے؟ شاگرد نے کہا حضرت راکباً افضل معلوم ہوتی ہے ۔کہا کہ نہیں، کہا کہ ماشیاً افضل ہو گی، کہا کہ نہیں۔

پھر حضرت! آپ ہی فرمائیے تو فرمانے لگے کہ مجھے یہ خیال آرہا ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے جمرہ عقبہ کی جو پہلے دن رمی کی تھے وہ سوار ہو کر کی تھی اور باقی دنوں کی رمی پیدل کی تھے، لہٰذا پہلے دن کی رمی تو راکباً افضل ہے اور باقی دنوں میں ماشیاً افضل ہے۔ پیدل چل کر رمی کرنا افضل ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ میں یہ بات سن کر نکلا، چند قدم چلا تھا کہ اسی گھر سے آواز آئی کہ حضرت امام ابویوسف رحمة الله علیہ کی روح پرواز کر گئی ہے!!

یعنی آخر وقت تک مسئلہ ذہن میں چکر کاٹ رہا تھا او راسی کی طرف دھیان تھا، اس کو کہتے ہیں:” طلب العلم من المہد الی اللحد“ الله تبارک وتعالیٰ نے ہمارے بزرگوں کو ایسے ہی بنایا تھا، الله تعالیٰ اس طلب کا کچھ حصہ ہمارے اندر بھی پیدا فرما دے۔

اور بھائی! یہ طلب بھی اس وقت معتبر ہے جب کہ اس طلب کا مقصود الله جل جلالہ کی رضا ہو، اگر طالب علمی ہے، آدمی علم طلب کر رہا ہے، لیکن اس لیے کر رہا ہے کہ دنیا کماؤں گا، اس لیے کر رہا ہے کہ وہ دنیا میں اپنا نام پیدا کرے گا، دنیا اس کو بڑے بڑے القاب سے یاد کرے گی او راس کی دنیا جہاں میں شہرت ہوگی، اگر اس نیت سے کر رہا ہے تو اس علم کی ایک دَمڑی قیمت نہیں ہے، یہ طلب علم اسی وقت معتبر ہے جب کہ اس سے مقصود الله تبارک وتعالیٰ کی رضائے کامل ہو، آج ہم سے کہا جارہا ہے اور اس پر زور دیا جارہا ہے، اس پر دلائل قائم کیے جارہے ہیں کہ تم اپنے طلبا کو اس لیے پڑھاؤ تاکہ ان کو بڑی بڑی ملازمتیں مل سکیں، تاکہ یہ سرکاری محکموں کے اندر جاکر اعلیٰ مناصب حاصل کرسکیں، ان کو حیرت ہوتی ہے، ان کے تصور میں یہ بات نہیں آتی کہ کوئی انسان دولت کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے پڑھ سکتا ہے، اس لیے کہ پوری قوم کا ذہن یہ بنا دیا گیا ہے کہ تعلیم کا اصل مقصد دنیا کا حصول ہے، تعلیم کا اصل مقصود بڑی بڑی ملازمتیں ہیں، تعلیم کا اصل مقصود مال ودولت کا حاصل کرنا ہے۔ یہ ذہن بنا دیا گیا ہے، جتنے یہ تعلیمی ادارے ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں آپ کسی بھی ان کے طالب علم سے پوچھیے کہ بھائی! کیوں پڑھ رہے ہو؟ تو جواب یہ آئے گا کہ جی کیرئیر اچھا بنانا ہے اورکیریئر اچھا بنانے کے لیے میں یہ تعلیم حاصل کر رہا ہوں، تاکہ میں ایک تویہ کہ اس میں اچھی ملازمت ملے، اچھی معیشت میری ہو، خوش حال زندگی گزاروں اور یہ کہ میرا نام ہو کہ فلاں نے فلاں علم کے اندر اتنی ترقی حاصل کی ہے۔

ہمارے مدارس کو چھوڑ کر، اس وقت جتنے تعلیمی ادارے ہیں پوری دنیا میں، سب کا مقصود ایک ہے ،وہ یہ کہ زیادہ سے زیادہ دنیا کا حصول، زیادہ سے زیادہ خوش حالی، اس سے آگے کچھ نہیں۔

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمیں تو گھٹی میں یہ پلایا گیا ہے ۔ ہماری جب باتیں ہوتی ہیں حکومت کے لوگوں سے او ران لوگوں سے جو ہمارے مدارس کا حلیہ بگاڑنا چاہتے ہیں، جب ہم ان سے بات کرتے ہیں، تو وہ کہتے ہیں کہ آپ ہماری بات کو کیوں تسلیم نہیں کرتے کہ آپ کے طلباء فارغ ہو کر دردر پھرتے ہیں اور کوئی امام بن جاتا ہے ، کوئی مؤذن بن جاتا ہے او رزیادہ سے زیادہ کوئی مدرس بن جاتا ہے، تنخواہیں ان کی کم ہوتی ہیں، پیسے ان کو کم ملتے ہیں او رہم آپ کے طلباء کا بھلا چاہتے ہیں ۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ آپ کے طلباء ایسے علوم کے ماہر ہوں کہ جس کے نتیجے میں وہ بڑے بڑے مناصب تک پہنچیں، بڑے پیسے کمائیں او ران کی زندگی خوش حال ہو، تو آپ اس میں کیوں رکاوٹ بنتے ہیں؟ میں نے ان سے عرض کیا کہ بھائی! خدا کے لیے ہمیں اپنے حال پر چھوڑ دیجیے اور ہمیں یہ راستہ نہ دکھائیے۔ احسان یہ کیجیے کہ یہ احسان نہ کیجیے۔

آپ ہم سے یہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے طلباء کو اس لیے پڑھائیں تاکہ ان کے پیش نظر یہ ہو کہ ہم پڑھنے کے بعد زیادہ پیسے کمائیں گے اور زیادہ دولت کمائیں گے تو اس میں ہمارے اصل مقصود تعلیم کی نفی ہے ، ہمیں اپنی گھٹی میں یہ پڑھا یا جاتا ہے کہ تمہارا علم اس لیے ہے کہ تم اس پر پہلے عمل کرو اور دوسرے مسلمانوں کی خدمت کرو، دعوت کے ذریعے، تبلیغ کے ذریعے، تحقیق کے ذریعے خدمت انجام دو۔

پیسے تو الله تعالیٰ دینے والا ہے، الله تعالیٰ رزاق ہے، اس نے رزق اپنے ذمے لیا ہے:﴿وَمَا مِن دَابَّةٍ فِی الْأَرْضِ إِلَّا عَلَی اللَّہِ رِزْقُہَا وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّہَا وَمُسْتَوْدَعَہَا﴾․(سورہ ھود، آیت:6)رزق تو وہ دینے والا ہے، آج تک ہم نے کسی مولوی کو یہ نہیں سنا کہ وہ بھوک کی وجہ سے او رفاقہ مستی کی وجہ سے خودکشی کر گیا ہو اور دنیاوی تعلیم حاصل کرنے والوں نے پتہ نہیں کتنے آپ سنیں گے کہ خودکشی کر لی، کیوں کر لی؟ اس لیے کہ جو معیار زندگی تھا وہ حاصل نہیں ہو رہا تھا، خود کشی کر لی، الحمدلله ہمارے ہاں کوئی آدمی ایسا نہیں کرتا۔

ایک مرتبہ مجھ سے ایک عالم کہنے لگے کہ بھائی! بات تو یہ لوگ ٹھیک کہہ رہے ہیں، آپ کیوں ان کی بات نہیں مانتے؟ بات تو ٹھیک ہے کیوں کہ بہرحال ہمارے طلبا ہوتے ہیں جب فارغ التحصیل ہوتے ہیں تو ان کو اپنی معیشت کی فکر ہوتی ہے، کچھ معیشت کا انتظام کر لیں تو اچھا ہے۔ میں نے کہا اچھا ہونا اور بات ہے اور مقصد ہونا او ربات ہے، بے شک زندگی کی ضرورت معاش بھی ہے او رہماری دعائیں ہیں کہ الله تبارک وتعالیٰ ہمارے طلباء کو معاش کے اند ربھی اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔لیکن یہ ہمارا مقصد زندگی نہیں ہوسکتا۔

الله تعالیٰ کا فضل وکرم ہے، اس کا احسان ہے کہ یہ جذبہ ابھی ہمارے طلباء کے اندر باقی ہے اور جو لوگ اس کو کھرچنا چاہتے ہیں ،جو اس جذبے کو فنا کرنا چاہتے ہیں، ان شاء الله وہ فنا ہوجائیں گے، لیکن یہ جذبہ فنا نہیں ہو گا۔

آج ہمارے سامنے لایا جاتا ہے کہ تم تو ہمار ی بات مانتے نہیں ہو تم تو ہمارے ساتھ بحثیں کرتے ہو او رکہتے ہو کہ ہم اپنے طلبا کو آزاد اور خود مختار مدارس کے ماحول میں پڑھائیں گے، ہمیں کسی حکومت کا دباؤ منظور نہیں۔ ہمیں کسی خارجی اور بیرونی عناصر کا دباؤ منظور نہیں،چلو ہم وفاق الگ قائم کر لیتے ہیں ، پانچ وفاق حکومت کے زیر اثر قائم کر دیے گئے ہیں اور اس لیے قائم کیے گئے کہ تم تو کہتے ہو کہ ہم الله کی رضا کے لیے پڑھتے ہیں، دیکھو! ہمارے پاس کیسے لوگ آرہے ہیں؟

تو جب ایک صاحب نے مجھ سے یہ کہا تو میں نے ان کو حضرت امام مالک رحمہ الله کا ایک مقولہسنایا، حضرت امام مالک رحمہ الله نے جب مؤطا لکھی تھی تو اس وقت بہت سے لوگوں نے حدیث کے اسی طرح کے مجموعے تیار کیے اور بعض نے ان کا نام بھی مؤطا رکھا، تو کسی نے امام مالک رحمہ الله سے کہا کہ حضرت آپ نے تو مؤطا لکھ دی، لیکن یہ جتنے لوگ ہیں انہوں نے بھی آپ کے مقابلے میں مؤطا لکھی ہے ،وہ بھی مؤطا لکھ رہے ہیں، وہ بھی حدیث کے مجموعے تیار کر رہے ہیں، تو آپ کا کیا تبصرہ ہے؟

حضرت امام مالک رحمہ الله نے ایک جملہ فرمایا:
میرے دوستو! اس جملے کو ہمیشہ یاد رکھنا۔
فرمایا: ”ما کان لله یبقی“ جو الله کے لیے ہو گا وہ باقی رہے گا، لہٰذا جو مؤطا الله تعالیٰ کی رضا کی خاطر لکھی گئی ہے، الله تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے لکھی گئی ہے وہ تو باقی رہے گی او رجو محض مقابلے کے لیے لکھی گئی ہے یا محض اپنا نام روشن کرنے کے لیے لکھی گئی ہے وہ باقی رہنے والی نہیں ہے۔

میرے عزیز ساتھیو! اس جملے کو بھولنا مت:”ما کان لله یبقی“، جو الله کے لیے ہو گا وہ باقی رہے گا، جو غیر الله کے لیے ہو گا وہ فنا ہو جائے گا۔

آج اس واقعے کو تقریباً ساڑھے بارہ سو سال ہو رہے ہیں، اورآج آپ ذرا دیکھ لیجیے کتابوں کی فہرست میں کون سی مؤطا باقی رہی ؟ مؤطا امام مالک کے راوی کون سے ہیں؟ یحییٰ بن یحییٰ ہیں ،امام محمد ہیں اور بہت سے راوی ہیں، لیکن ہے مؤطا امام مالک۔

او رمؤطات کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ تو بھائی! کوئی اگر وفاق الگ بناتا ہے، تعلیم کا نظام الگ بناتا ہے توشوق سے بنائے، میں کہتا ہوں ماکان لله یبقی جو الله کے لیے ہو گا وہ باقی رہے گا، اگر تم الله کے لیے کر رہے ہو، ٹھیک ہے تم باقی رہو گے اور اگر ہم الله کے لیے کر رہے ہیں تو ان شاء الله ہم باقی رہیں گے۔

کتنے تجربے کر لیے؟ میرے عزیزو! میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ آج آپ اس وقت مغربی طاقتوں کا نشانہ ہیں، آج ان کے اوپر یہ راز کھل گیا ہے کہ اگر ہمارے راستے میں کوئی رکاوٹ ہے تو یہ ملاّ ہے، یہ راز ان کے اوپر کھل گیا کہ ہمارے عزائم اور منصوبوں کے راستے میں صرف ایک رکاوٹ ہے او روہ ہے ملاّ ۔اقبال نے کہا تھا #
        افغانیوں کی غیرت دین کا ہے یہ علاج
        مُلاّ کو اس کے کوہ ودمن سے نکال دو
        وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
        روح محمد اس کے بدن سے نکال دو

یہ ہے مغرب کا ایجنڈا، وہ سمجھتا ہے کہ یہ قوم ہے، جب تک یہ باقی رہے گی ہمارے منصوبے عالم اسلام میں کام یاب نہیں ہوں گے۔ جب تک یہ مُلاَّ بیٹھا ہے، اس وقت تک ہمارے منصوبے کام یاب نہیں ہوں گے اور اس کے سمجھنے کے نتیجے میں آپ نشانہ ہیں۔

الله تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے اور ہمارے حضرت! حضرت مولانا سلیم الله خان صاحب قدس الله تعالیٰ سرہ کی روح پر فتوح پر انوار کی بارش فرمائے، انہوں نے قریہ قریہ، گلی گلی، گاؤں گاؤں جاکر اس طرح مدرسے قائم کر دیے کہ خیبر سے لے کر کیماڑی تک اور بلوچستان کی آخری حدود سے لے کر گوادر تک، آپ کو کوئی دس میل ایسے نہیں ملیں گے جس میں کوئی مدرسہ نہ ہو۔

تو آج یہ سوچتے ہیں کہ اتنی بڑی تعداد کو ہم کیسے ختم کر دیں؟ اوران شاء الله کبھی نہیں ختم کرسکیں گے، یہ ایڑی چوٹی کا زو رلگالیں، لالچ استعمال کر لیں، ان شاء الله ختم نہیں ہوں گے، لیکن وہ سوچتے ہیں کہ چلو بھائی! ہم طلباء کو دوسری طرف لگادیں او ران کو دنیوی لالچ دینا شروع کردیں، تو کبھی ایسا ہوتا ہے کہ یونی ورسٹیوں کے اند رایک گروپ بنایا گیا تھا، درس نظامی گروپ، علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی میں ایک گروپ بنایا گیا تھا درس نظامی گروپ، وہ درس نظامی گروپ اس لیے بنا تھا کہ جب یہ درس نظامی گروپ کے لوگ تیار ہوں گے تو ایسے عالم ہوں گے جو عصر جدید کے تقاضوں سے باخبر ہوں گے، لہٰذا جب یہ آئیں گے سامنے، تو یہ مُلاَّ خود ہی ختم ہو جائیں گے، لیکن کچھ عرصے بعد خود یونی ورسٹی نے اور خود حکومت نے کہا کہ یہ چلنے والے نہیں، درس نظامی گروپ کو ختم کرو، بعد میں کیا ہوا؟ پرویز مشرف صاحب کے زمانے میں انہوں نے کہا کہ کچھ ایسے ماڈل مدارس تیار کرو، ماڈل کا معنی نمونہ ہوں دوسروں کے لیے، ماڈل مدارس قائم کرو، اس میں علوم دین بھی پڑھائے جائیں گے، اس میں عصری تعلیم بھی پڑھائی جائے گی، تین ماڈل مدارس پاکستان میں قائم کر دیے، اب اس کے اندر سبھی کچھ بظاہر پڑھا یا جارہا ہے، درس نظامی کی بھی اہم کتابیں پڑھائی جارہی ہیں اور عصری علوم بھی پڑھائے جارہے ہیں، کچھ سالوں کے بعد، خود وزیر مذہبی امور نے ہمارے آدمیوں سے کہا کہ بھائی! خدا کے لیے یہ ماڈل مدارس آپ لے لو، ہم سے نہیں چلتے اور آج جاکے وہاں دیکھو، خاک اڑ رہی ہے۔

اور خدا جانے کیا کیا حربے استعمال کیے گئے، جامعہ اسلامیہ اسلام آباد میں قائم ہے او رمیں کہتا ہوں کہ اچھے معیار کی یونی ورسٹی ہے، اس میں کوئی شک نہیں، لیکن میں ایک سوال پوچھتا ہوں اگر کسی مسلمان کو کوئی شرعی مسئلہ پوچھنا ہوتا ہے، تو آج تک اس نے جامعہ اسلامیہ اسلام آباد کے کسی مہتمم سے کسی عالم سے پوچھا کہ بھائی! بتاؤ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ کوئی نہیں جاتا، جب شرعی مسئلہ معلوم کرنا ہوتا ہے تو بوریہ نشینوں کے پاس آتے ہیں او ران کو پتہ ہے کہ دین کا صحیح علم کہاں ہے!!

اس لیے ہزار حربے آزمالیے جائیں، لیکن الله تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے یہ ہمارے بزرگوں کا فیض ہے۔ یہ ان کی میراث ہے، ان کی رات کے وقت میں کی ہوئی دعاؤں کا ثمرہ ہے کہ الحمدلله سارے ملک کے اندر صرف اسلامی مدارس ہیں جو لوگوں کے لیے دین کا مرجع بنے ہوئے ہیں اور ان شاء الله تعالیٰ بنے رہیں گے۔

لہٰذا دو پیغام میں آپ کو دینا چاہتا ہوں، ایک یہ کہ طلب علم کو کبھی مت چھوڑنا، کسی بھی مرحلے پر، ہر وقت اپنے آپ کو طالب علم سمجھو۔ اور دوسرا یہ کہ طلب علم الله کے لیے ہونا چاہیے، جب کوئی الله کا ہو جاتا ہے، الله اس کا ہو جاتا ہے، الله تعالیٰ پھر دیکھو کیسے اسے سرفراز فرماتا ہے، کیسے اس کو عزت دیتا ہے، کس طرح ظاہری اعتبار سے بھی، جب طلب صادق ہوتی ہے، اخلاص ہوتا ہے تو دولت بھی ملتی ہے:” تاتیہ الدنیا وھی راغمہ“ دنیا ذلیل ہو کر آتی ہے تمہارے قدموں میں، ایک مرتبہ تم دنیا سے منھ موڑ کر الله تبارک و تعالیٰ کی طرف رخ کر لو، دنیا آئے گی، ذلیل ہو کر آئے گی، تم ان شاء الله دولت کے اعتبار سے بھی ،معاش کے اعتبار سے بھی، ان شا ء الله کسی سے پیچھے نہیں رہو گے۔

مگر یہ دنیا سے انکار اور دنیا سے اعراض اس آخری نتیجے کی و جہ سے نہ ہو کہ دنیا میرے قدموں میں آجائے گی، بلکہ الله کے لیے ہو او رجب الله کے لیے ہوگی تو پھر دیکھنا کہ ان شاء الله دنیا میں بھی کام یاب او ران شاء الله آخرت میں بھی کام یاب۔

الله تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے، اپنی رحمت سے، ہم سب کو، اپنے بزرگوں کی میراث اخلاص کے ساتھ حاصل کرنے اور باقی رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

وآخردعوانا أن الحمدلله رب العالمین.