تیری آمد، آمد ِ فصل بہار

تیری آمد، آمد ِ فصل بہار

مولانا خالد سیف الله رحمانی

ہجری کیلنڈر کا تیسرا مہینہ”ربیع الاول“ شروع ہو چکا ہے، اس مہینہ کا نام رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تشریف آوری کے پہلے سے ربیع الاول ہے، جس کے معنی ”پہلی بہار“ کے ہیں، ممکن ہے کہ جب اس مہینہ کا نام رکھا گیا ہو تو یہ دن موسم ِ بہار کے آغاز کے رہے ہوں، موسم کی آمد چوں کہ شمسی کیلنڈر کے حساب سے ہوتی ہے؛ اس لیے ہجری تقویم میں ہمیشہ موسم ِ بہار کا مہینہ ایک ہی نہیں ہوتا، بلکہ مہینے بدلتے رہتے ہیں، لیکن اس مہینہ سے قدرتی طور پر کچھ ایسی یادیں وابستہ ہو گئی ہیں کہ اب یہ مہینہ واقعی بہار، بلکہ سدا بہار ہو گیا ہے، اس ماہ سے تاریخی طور پر خاتم النبیین جناب محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے مختلف واقعات متعلق ہیں، اسی ماہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی، اسی میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی اور اسی میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی، دنیا میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی تشریف آوری کو ایک مسلمان محض خوش اعتقادی کی وجہ سے سب سے بڑی نعمت وسعادت نہیں سمجھتا، بلکہ یہ ایک ایسی حقیقت اور سچائی ہے جس کا اعتراف پوری انسانیت کو کرنا چاہیے، کیوں کہ اسی ماہ میں انسانیت کو اپنے خالق ومالک کی طرف سے ابدی پیغام اور زندگی گزارنے کا طریقہ معلوم ہوا۔

خدا نے انسانوں کی جو بستی بسائی ہے، وہ کتنی وسیع خوب صورت اور کتنی متنوع ہے! ہزاروں مخلوقات ہیں اور ہر ایک دوسرے سے مختلف، بلکہ اپنی صلاحیتوں او رعادتوں کے اعتبارسے بالکل متضاد کیفیتوں کی حاصل، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کو ان کے کاموں کے بارے میں قدرت نے کوئی کتاب پڑھا دی ہے، وہ ایک مقررہ دستور کے مطابق اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہیں، سورج کو معلوم ہے کہ اسے مشرق سے نکلنا ہے او رمغرب کی سمت میں ڈوبنا ہے، سمندر ہزاروں سال سے اپنے دائرہ میں مسلسل بہہ رہا ہے او راپنی تلاطم خیز موجوں کے ساتھ کروٹیں لیتا رہتا ہے، وہ فضا کو بادل کی سوغات دیتا ہے اور دن رات زمین کی آلائشوں کو تحلیل کرنے میں لگا ہوا ہے، درخت مسلسل پھل پھول دینے او رانسان کو آکسیجن فراہم کرنے میں لگے ہوئے ہیں، لگتا ہے کہ یہ سب پڑھی پڑھائی اورسیکھی سکھائی مخلوقات ہیں، جن کو اپنی ایک ایک ڈیوٹی کا علم ہے۔

جمادات ونباتات ہی نہیں، حیوانات کا بھی یہی حال ہے، جو چلتے پھرتے دوڑتے بھاگتے ہیں، ان کا کھانا پینا، لڑنا جھگڑنا، اپنی غذاؤں کا تلاش کرنا،حملہ کرنا اور مدافعت کرنا ہم اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ قدرت نے ان کو بھی ان کی زندگی کا دستور پڑھا اور سمجھا دیا ہے، گائے، بکری گھاس اور درخت کے پتے کھاتی ہے، شیر اور باززندہ جانوروں کا شکار کرتا ہے، چیل مردار کی تلاش میں چپہ چپہ ڈھونڈتا پھرتا ہے، بعض جانور ہیں جو چارہ بھی کھاتے ہیں او راپنے سے چھوٹے جانوروں کو بھی ہضم کر جاتے ہیں، پرندوں کو اپنا گھونسلہ بنانا اور چوہوں کو اپنا سرنگ نما مکان بنانا معلوم ہے ، مکڑے جالے بنتے ہیں اور شہد کی مکھیاں اپنا چھتہ تیار کرتی ہیں، جس میں اتنے کمرے ہوتے ہیں کہ شاید بادشاہوں کے محلات میں بھی نہ ہوتے ہوں۔

کیا یہ سب کچھ ان مخلوقات نے آپ سے آپ جان لیا؟ قرآن نے اس کا جو جواب دیا ہے وہ یہ کہ یہ سب الله کی راہ نمائی اور ہدایت کا نتیجہ ہے، اسی کو الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:﴿رَبُّنَا الَّذِی أَعْطَیٰ کُلَّ شَیْء ٍ خَلْقَہُ ثُمَّ ہَدَیٰ﴾․(طٰہ:50) یعنی یہ سب خالقِ کائنات کا کمال ہے کہ اس نے ہر چیز کو صورت بھی بخشی، اسے اپنے وجود اور زندگی کے بارے میں راہ بھی سجھائی اور سلیقہ بھی سکھایا، قرآن نے ایک اور موقعہ پر بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے:﴿الَّذِی خَلَقَ فَسَوَّیٰ ،وَالَّذِی قَدَّرَ فَہَدَیٰ﴾․ (الأعلیٰ:2-3) جیسے دین اور آخرت کے بارے میں راہ نمائی ہدایت ہے، ویسے ہی دنیا میں کسی بھی مخلوق کو زندہ رہنے او رزندگی گزارنے کا جو طریقہ ودیعت کیا گیا ہے، اسے بھی قرآن”ہدایت“ سے تعبیر کرتا ہے۔

اور یہ کچھ جانوروں ہی کے ساتھ مخصوص نہیں،حضرت انسان کے وجود میں بھی اس ہدایت ربانی کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے، بچہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے او رماں کی چھاتی کی طرف لپکتا او راس سے دودھ پیتا ہے، آخر اس شیرخوار بچے کو کس نے بتایا کہ تمہاری غذا ماں کے سینہ میں ہے اورپھر اس غذا کو ماں کے سینہ سے کشید کرنے کا سلیقہ کس نے سکھایا؟ ذراسی بے توجہی ہو تو بچہ کا رونا اور پیار وچمتکار پر بچہ کا مسکرانا، یہ بھی اسی ہدایت ربانی کا مظہر ہے، اس گونگے، بے زبان اور بے شعور بچہ کو کس نے سکھایا کہ دکھ اور درد کا اظہار رو کر او رخوشی کا اظہار ہنس کر او رمسکرا کر کیا جاتا ہے؟

تو جب خدا نے ہر چیز کو ایک مقصد کے لیے پیدا کیا ہے اور اسے قدرتی طور پر دنیا میں رہنے سہنے کا طریقہ بتا دیا ہے، تو کیا انسان کو اپنی زندگی بسر کرنے کے لیے کسی طریقہ اور نظام کی ضرورت نہ ہوگی؟ یقینا ہو گی، بلکہ زیادہ ہوگی، کیوں کہ انسان ایک گونہ با اختیار مخلوق ہے او رعقل وخرد کی نعمت نے اس کی نیکی اور بدی کے دائرہ کو بہت وسیع کر دیا ہے ، شیر ایک وقت میں ایک ہی انسان یا حیوان کو شکار بناتا ہے، سانپ ایک بارڈس کر ایک وجود کو فنا کرسکتاہے۔ لیکن انسان کا حال یہ ہے کہ وہ ایک ایٹم بم کے ذریعہ بیک وقت ایک پورے خطہ کو تباہ وبرباد کرسکتا ہے او ربیک جنبش ِ پلک لاکھوں انسانوں کی جان لے سکتا ہے، اس لیے ظاہر ہے کہ وہ سب سے زیادہ اس بات کا محتاج ہے کہ جینے اور مرنے کا سلیقہ سیکھے اور زندگی گزارنے کا طور وطریق جانے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ انسان کو زندگی گزارنے کا طریقہ کون بتائے؟ ہم اپنی عملی زندگی میں غو رکریں تو ایک سیدھی سادھی اور دیکھی جانی حقیقت یہ ہے کہ جو شخص کسی مشین کو بناتا ہے اور کسی شے کو ایجاد کرتا ہے، وہی اس کی ضروریات سے آگاہ بھی ہوتا ہے او راس کے لیے مناسب اورغیر مناسب اور درست ونادرست طریقہٴ استعمال کے فیصلے بھی کرسکتا ہے، صانع ہی بتا سکتا ہے کہ اس کی صنعت کو کس طرح استعمال کیا جائے؟ اورموجود ہی راہ نمائی کرسکتا ہے کہ اس کی ایجاد کس طور کام میں لائی جائے؟ اس لیے جب الله تعالیٰ انسان کے خالق اور رب ہیں، اسی نے ہمیں پیدا کیا ہے اور اسی کے اشارہ وحکم سے ہم اس کائنات میں زندہ ہیں، تو ضرور ہے کہ وہی ہمیں زندگی کے طور وطریق بھی سمجھائے او راسی کا دیا ہوا نظام حیات ہمارے لیے مفید ہوسکتا ہے، اسی لیے الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:﴿أَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ﴾ (الاعراف:54) کہ الله ہی انسان کا خالق ہے او راسی کے اوامرواحکام انسان کے لیے واجب الاطاعت ہیں۔ ایک او رموقعہ پر ارشاد ہوا کہ حکم اور فیصلہ کا حق صرف الله ہی کو ہے:﴿إِنِ الْحُکْمُ إِلَّا لِلَّہِ﴾․(یوسف:40)

دنیا میں بھی آپ جب کسی کمپنی سے کوئی بڑی مشین حاصل کرتے ہیں تو وہ ایک طرف اس مشین کی تفصیلات پر مشتمل کتاب ورسالہ آپ کے حوالہ کرتی ہے او رساتھ ساتھ اپنے انجینئر کو بھی آپ کی مدد کے لیے بھیجتی ہے کہ کتاب میں جو نظریہ اور تھیوری بیان کی گئی ہے، یہ انجینئر اورماہر کاری گر اس کو عملی طور پر برت کر دکھائے او رمحسوس طریقہ پر سمجھائے، کسی تمثیل کے بغیر یہی صورت آسمانی کتابوں او رانبیاء کی ہے، الله کی کتابیں نظام ہائے حیات ہیں کہ انسان کو اس دنیا میں اپنی صلاحیتیں کس طرح استعمال کرنی چاہییں؟ یہ کتابیں دستور ہیں اور پیغمبر کی زندگی اس کی عملی تصویر ہے، گویا پیغمبر کتاب الہٰی کی شرح او راس کا بیان ہوتا ہے، ایک ایک حرف جو اس کی زبان سے نکلے، ایک ایک عمل جو اس کے اعضاء وجوارح سے صادر ہو اور ایک ایک اختیاری کیفیت جو اس پر طاری ہومنشائے ربانی کا عملی اظہار او رانسانیت کے لیے اسوہٴ ونمونہ ہے، اسی لیے فرمایا گیا کہ جس نے رسول صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت کی، اس نے الله کی اطاعت کی :﴿مَّن یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّہَ﴾․(النساء:80)

گویا نبوت محض قلب وذہن کی تسلی کا سامان اور آخرت کی فلاح ونجات ہی کا ذریعہ نہیں، بلکہ یہ سب سے بڑی انسانی ضرورت ہے، جیسے وہ اپنے پیٹ کے لیے غذا کا، تن ڈھکنے کے لیے لباس وپوشاک کا، علاج کے لیے دوا کا او راپنی مدافعت اور حفاظت کے لیے اسلحہ اور ہتھیار کا محتاج ہے، اس سے بڑھ کر وہ انبیاء اور انبیاء کی تعلیمات کا محتاج ہے، کیوں کہ انبیاء کی تعلیمات اس کے پورے وجود کے لیے غذا ہیں، وہ ذہن ودماغ کو بتاتی ہیں کہ انہیں کیا سوچنا چاہیے؟ وہ آنکھوں کی راہ نمائی کرتی ہیں کہ انہیں کیا دیکھنااور کیا نہ دیکھنا چاہیے؟ وہ زبان کو ہدایت دیتی ہیں کہ الله کی اس عظیم نعمت کا استعمال کن مقاصد کے لیے کیا جائے اور کن مفاسد سے بچا جائے؟ وہ ہاتھوں سے کہتی ہیں کہ یہ ظلم اور ظالموں کے خلاف اٹھے، نہ کہ مظلوموں اورکم زوروں کے خلاف، وہ پاؤں کو بتاتی ہیں کہ اسے نیکی او رحق کی راہ میں چلنا چاہیے، نہ کہ باطل اور برائی کے راستہ میں او راس کی چال تواضع وانکسار اور عجز وفروتنی کی ہونی چاہیے، نہ کہ کبر وافتخار اور غرورو استکبار کی۔

انسان خلوت میں ہو یا جلوت میں ، بزرگوں کے ساتھ ہو یا عزیزوں کے ساتھ، محفل یاراں میں ہو یا کارزار حرب میں، دشمنوں کا سامنا ہو یا دوستوں کا، عدالت کی کرسی پر ہو یا ملزم کے کٹہرے میں، تخت اقتدار پر ہو یا کسی کے اقتدار کے تحت، استاذ ہو یا طالب علم، آقا ہو یا غلام، تجارت وکاروبار میں ہو یا الله تعالیٰ سے راز ونیاز میں، رنج والم کی شام ہو یا مسرت وشادمانی کی صبح، فتح سے ہم کنار ہو یا شکست سے دو چار ، اولاد ہوں یا ماں باپ، شوہر بیوی ہوں یا بھائی بہن، مریض ہوں یا معالج، تیماردار ہوں یا خود تیمارداری کے محتاج، سرمایہ دار اور آجر ہو یا مزدور واجیر، قرض دہندہ ہوں یا مقروض ،اور دولت مند ہوں یا غریب ، جوان ہو یا بوڑھا، سفر میں ہو یا حضر میں، عالم ہو یا جاہل، خدا کی توفیق سے نیک عمل اس نے کیے ہوں یا اس کا دامن ِ عمل گناہ سے آلودہ ہو، غرض ہر موقع اور ہر حالت او رکیفیت میں اسے انبیاء کی پاکیزہ تعلیمات اور روشن ہدایات مطلوب ہیں، اس لیے یقینا انسانیت پر اس کے خالق کا سب سے بڑا احسان انبیاء کی بعثت اور آسمانی کتابوں کے نزول کا نظام ہے، جو انسان اس سے محروم ہو وہ ایک کھاتا پیتا، سوتا جاگتا اور ہنستا بولتا ترقی یافتہ حیوان تو ہو سکتا ہے، لیکن حقیقی او راپنی حقیقت سے آشنا انسان نہیں ہو سکتا!