توکل علیٰ اللہ کی اہمیت وافادیت

توکل علیٰ اللہ کی اہمیت وافادیت

محترم ضیاء الدین قاسمی

توکل کی حقیقت
قرآن حدیث میں توکل علیٰ اللہ کا بار بار حکم دیا گیا ہے تو ضروری ہے کہ توکل کی حقیقت جان لی جائے‘ صاحب مختار الصحاح نے توکل کے معنی میں لکھا ہے: ”إظھار العجز والاعتماد علی غیرہ․“پنی عاجزی کا اظہار اور دوسرے پر اعتمادو بھروسا۔

جب انسان کسی کام کو کرنے سے عاجز ہوتا ہے یا اپنے اوپر بھروسا نہیں ہوتا ہے تو اپنی ذمہ داری کسی کے حوالے کردیتا ہے‘ اسی کو وکیل بنانا کہتے ہیں‘ مقدمات میں قانونی موشگافیوں کے ساتھ اپنے قضیہ کو حل کرانے سے جب انسان عاجز ہوتا ہے تو وکیل کا سہارا لیتا ہے‘ یہی حال ایک بندہٴ کامل کا اپنے مالک حقیقی کے ساتھ ہونا چاہیے کہ اس کے سامنے ہر معاملے میں اپنی عاجزی ومسکنت کا اظہار کرے اور بندوں کی عاجزی اللہ کو بہت پسند ہے‘ اس لیے کہ عاجز ولاچار ہونا ہی بندہ کی اصل ہے‘ وہ اپنے ہر کام میں قادر مطلق کی مشیت وقدرت کا محتاج ہے‘ لہٰذا جب بندہٴ مومن اپنے خالق ومالک کی ذات پر مکمل اعتماد کر لیتا ہے اور یقین کامل کے ساتھ اس کی نصرت کا طالب ہوتا ہے تو پھر رب العالمین اپنے متوکل بندہ کا وکیل بن جاتا ہے‘ اس کو کسی بھی لمحہ بے یارو مددگار نہیں چھوڑتا:﴿ومن یتوکل علٰی الله فھو حسبہ﴾․(الطلاق:3) یعنی اور جس نے اللہ پر اعتماد کیا تو اللہ اس کے لیے کافی ہے‘ پھر کوئی خوف اور غم نہیں، کوئی فکر اور تردد نہیں۔

توکل کے لیے یقین ضروری ہے اور اس کے ساتھ اپنی استطاعت کے مطابق اسباب ووسائل کا استعمال بھی ضروری ہے۔رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے دشمنانِ اسلام سے جہاد وقتال کرنے کا حکم بھی دیا‘مگر یہ نہیں فرمایا کہ بس اللہ کے نام پر نکل جاوٴ، بلکہ یہ حکم دیا کہ در پیش امور میں صحابہ کرام سے مشورہ بھی کریں اور جب مشورہ کے بعد کسی کام کا پختہ عزم کرلیں‘ یعنی تمام ظاہری ذرائع استعمال کریں اور دل میں پکا ارادہ کرلیں، پھر اللہ کی ذات پر اعتماد کرتے ہوئے وہ کام کریں‘ خواہ جہاد ہو یا کوئی دوسرا کام‘ لہٰذا ارشاد فرمایا: ﴿فاذا عزمت فتوکل علیٰ الله﴾تو جب عزم کرلیں تب اللہ پر بھروسا کریں‘ اس لیے کہ دنیا دار الاسباب ہے‘ اسباب ظاہری کا استعمال کرنا وسیلہ وذریعہ کے طور پر ضروری ہے، لیکن ان کو کسی صورت میں موٴثر تصور کرنا اور ظاہری اسباب ہی پر بھروسا کر لینا‘ ایمان وتوکل کے خلاف ہے‘ اگر صرف توکل علیٰ اللہ کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ اللہ کی نصرت ومدد پر یقین کر کے بیٹھ جائیں تو پھر سب سے پہلے رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس پر عمل فرماتے اور کسی بھی ظاہری وسیلہ اور ذریعہ کو استعمال نہ کرتے ، لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا اور نہ قرآن کریم نے اس کا حکم دیا ہے‘ بلکہ دشمنوں کے مقابلے کے لیے پہلے پوری تیاری کرنے کی تاکید فرمائی ہے اور حکم دیا:
”اور ان کے لیے تیار کرو جو ہوسکے طاقت میں سے، پلے ہوئے گھوڑوں میں، جن کے ذریعہ اللہ کے دشمنوں کو اور اپنے دشمنوں کو ڈراوٴ اور ان کے علاوہ دوسروں کو جن کو تم نہیں جانتے کہ (وہ دشمن ہیں) اور اللہ ان کو جانتا ہے۔“

غزوٴہ حنین میں مسلمانوں کی تعداد مشرکین طائف کے مقابلے میں تین گنا زیادہ تھی‘ کفار چار ہزار تھے، جب کہ مسلمان بارہ ہزار‘ اس موقع پر مجاہدین اسلام کو اپنی ظاہری تعداد پر اعتماد ہوگیا کہ جب ہم کم ہو کر ہمیشہ فتح یاب ہوتے رہے ہیں تو آج زیادہ تعداد میں ہوکر فتح یقینا حاصل ہوجائے گی‘ یہ تصور وخیال توکل ویقین کے منافی تھا‘ اس کی سزا فوراً دی گئی اور جنگ ہوتے ہی مسلمانوں کے پاوٴں اکھڑ گئے‘ حالاں کہ نہ ان کے ایمان میں ضعف تھا نہ اللہ کی ذات پر یقین واعتماد میں شبہ تھا‘ بس اتنی بے احتیاطی ہوگئی تھی کہ تعداد کی کثرت کو فتح کا ذریعہ تصور کرلیا تھا، اسی کو اللہ تعالیٰ نے سورہٴ توبہ کی آیت نمبر25میں بیان فرمایا:

”تم کو اللہ نے بہت سے موقعوں میں غلبہ دیا اور حنین کے دن بھی، جب کہ تم کو اپنے مجمع پر غرّہ ہوگیا تھا، پھر وہ کثرت کچھ کار آمدنہ ہوئی، تم پر زمین اپنی کشادگی کے باوجود تنگ ہوگئی‘ پھر تم پشت پھیر کر بھاگے۔“

اسباب وآلات اور ذرائع ووسائل کا استعمال کرنا منشائے شریعت اور حکم الٰہی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسباب ووسائل کو اختیار بھی فرمایا اور اس کا حکم بھی دیا ہے‘ خواہ لڑائی ہو یا کاروبار اور تجارت‘ حصول رزق ہو یا کوئی اور عمل، ہر کام میں دنیاوی اور مادی اسباب کا اختیار کرنا ضروری ہے‘ لہٰذا جائز وحلال طریقہ پر ان سب کو اختیار کر کے استعمال کرنا‘ پھر اللہ کی ذات پر کامل یقین کرنا کہ اللہ خیرو برکت اور مددونصرت کا معاملہ فرمائے گا، توکل علیٰ اللہ کی روح ہے۔

ایسے ہی تو کل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بندہٴ مومن ان تمام اسباب اور وسائل کو موثر نہیں مانتا‘ بلکہ اس کا یقین اللہ کی ذات پر ہے، وہ اپنی عاجزی وفروتنی کا اقرار کرتا ہے اور اس کو اپنے خالق ومالک کی ذات کے سوا کسی کی ذات پر اور کسی بھی دوسرے ذریعے پر اعتماد وبھروسا نہیں۔

قرآن پاک میں توکل کا حکم
توکل اللہ کو کتنا پسند ہے اور متوکلین کا مقام کس درجہ بلند ہے‘ اس کو قرآن کریم کے تاکیدی حکم سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ایمان وتوحید کا معاملہ ہو یا فتح ونصرت کی طلب‘ رزق میں فراخی مقصود ہو، چاہے مصائب ومشکلات سے نجات… ہر جگہ توکل علیٰ اللہ کی روح ہونی چاہیے ۔ چند آیات کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے:

اور اللہ ہی پر مومنوں کو اعتماد کرنا چاہیے۔“ (التوبہ :51)

”اگر تم مومن ہو تو بس اللہ ہی پر توکل کرو“۔(المائدہ: 23)

”اگر تم اللہ پر ایمان لائے تو اس پر اعتماد کرو‘ اگر تم فرماں بردار ہو۔“ (سورہٴ یونس :84)

”تو انہوں نے کہا: ہم نے اللہ پر توکل کیا‘ اے ہمارے رب۔“(سورہ یونس :85)

”اور ہم کو کیا ہوگیا ہے کہ ہم اللہ پر بھروسا نہ کریں‘ درآں حالیکہ اس نے ہم کو سیدھے راستہ کی ہدایت دی ہے۔“(آل عمران: 132)

”اگر تم کو اللہ چھوڑے تو کون اس کے بعد تمہاری مدد کردے گا ؟اور اللہ ہی پر مومنوں کو توکل کرنا چاہیے۔“(آل عمران)

”اور ہم ضرور صبر کریں‘ اس تکلیف پر جو تم ہم کو دوگے اور اللہ ہی پر بھروسا کرنے والوں کو بھروسا کرنا چاہیے۔“ (سورہ ابراہیم: 12)

”اور اللہ پر توکل کیجیے اور اللہ کافی ہے وکیل ہونے کے لیے۔(سورہ احزاب:3)

احادیث میں توکل کی فضیلت
حضرت ابن عباس رضی الله عنہ کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے ستر ہزار افراد بے حساب وعذاب کے جنت میں جائیں گے، یہ وہ لوگ ہیں جو نہ جادو اور تعویذ کا سہارا لیتے ہیں، نہ بدشگونی لیتے ہیں، وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں ۔“ (مشکوة المصابیح)

لا یسترقون:جھاڑ پھونک ‘گنڈا تعویذ، جادو ٹوٹکا نہیں کراتے۔ یعنی ان اسباب پر قطعاً اعتماد نہیں کرتے، یہی اولیاء اللہ، متوکلین کاملین کی شان ہے‘ اگر چہ آیات قرآنیہ سے علاج ومعالجہ جائز ہے اور اس کا ثبوت ہے، مگر یہ عام لوگوں کے لیے ہے‘ خواص ان اسباب کا سہارا لینا بھی توکل کے منافی قرار دیتے ہیں۔

ولا یتطیرون:نہ بد شگونی لیتے ہیں کہ فلاں منحوس ہے‘ فلاں سعید ہے‘ فلاں کے سبب ایسا ہوگیا‘ فلاں کی صورت دیکھ کر دن بھر بے کاری وبے قراری رہی، وغیرہ وغیرہ۔

شانِ توکل
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو توکل علیٰ اللہ کی جو تعلیم دی ہے‘ وہی توکل کی روح اور شان ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چل رہا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے بچے! تم اللہ کے حقوق کی حفاظت کرو، اللہ تمہاری حفاظت فرمائے گا۔ (یعنی دنیا وآخرت کی تکالیف سے بچائے گا) تم اللہ کے حقوق کی حفاظت کرو گے تو تم اللہ کو سامنے پاوٴگے‘ (یعنی اللہ ہر جگہ تمہاری حفاظت ومدد فرمائے گا) جب سوال کرو تو صرف اللہ سے سوال کرو‘ جب مدد چاہو تو صرف اسی سے مدد مانگو۔ اور سنو ! اگر پوری قوم تم کو نفع پہنچانے پر آمادہ ہوجائے تب بھی اتنا ہی فائدہ پہنچاسکتی ہے‘ جتنا اللہ نے تمہارے لیے مقدر کر رکھا ہے اور اگر تمام لوگ تم کو کچھ نقصان پہنچانے پر لگ جائیں تب بھی اتنا ہی پہنچاسکتے ہیں‘ جتنا اللہ نے لکھ دیا ہے‘ قلم اٹھالیے گئے اور صحیفے خشک ہوگئے (یعنی قضا وقدر کا فیصلہ ہوچکا ہے اس میں تبدیلی نہیں ہوسکتی )۔ (مشکوٰة المصابیح)

اسرار الاولیاء میں بابا فرید الدین گنج شکر رحمة اللہ علیہ توکل کے بارے میں فرماتے ہیں کہ عاقل وہی شخص ہے جو دنیا کے تمام معاملات میں اللہ پر توکل کرتا ہے‘ تو کل کی تشریح اس طرح کی ہے کہ متوکل کے ایمان میں خوف ورجاء اور محبت ہو‘ خوف سے گناہ ترک کر دے اور رجاء سے اللہ کی اطاعت کرے اور محبت سے اللہ کی رضا کے لیے تمام مکروہات سے بازرہے۔(بزم صوفیہ،ص:181)

اللہ کی ذات پر توکل ویقین سے دل کو تقویت حاصل ہوتی ہے‘ صبر وقناعت اور دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوتی ہے‘ مال ودولت اور جاہ ومنصب کی حرص سے نجات حاصل ہوتی ہے‘ پھر نہ طلب جاہ رہتی ہے نہ خوف مخلوق‘ نہ کسی سے شکوہ ہوتا ہے اور نہ کسی سے خطرہ باقی رہتا ہے‘ نہ مل جانے کی طمع ہوتی ہے اور نہ چھن جانے کی فکر اور ڈرلاحق ہوتا ہے اور یہی سکون قلب ہے، جو متوکلین کو حاصل ہوتا ہے۔

توکل کی یہ شان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں بدرجہ اتم موجود تھی‘ جس نے ان کو غیر اللہ سے بیگانہ اور دربار حق کا دیوانہ بنادیا تھا‘ وہ مطمئن دل کے ساتھ‘ آنکھ بند کر کے اللہ کی نصرت پر یقین کرتے تھے اورحسب تعلیم دنیاوی اسباب برائے اسباب ہی کے درجہ میں ہوتا تھا۔ ادنیٰ سا بھی ایمان ویقین ان اسباب بھی اختیار کرتے تھے، لیکن یہ اختیار اسباب کے موٴثر ہونے پر نہیں ہوتا تھا اور یہی یقین وتوکل‘ قدم قدم پر انہیں محیر العقول اور عجیب وغریب کام یابیوں سے ہم کنار کرتا تھا‘ وہ جہاد میں تلوار بھی چلاتے تھے اور تیر بھی برساتے تھے‘ کھیتی باڑی اور زراعت میں ہل بھی چلاتے تھے اور باغ بھی لگاتے تھے‘ محنت ومزدوری بھی کرتے تھے اور تجارت وکاروبار بھی کرتے تھے‘ مگر کوئی چیز اس سے غافل نہیں کرتی تھی کہ اصل حکم اللہ کا ہے ،وہی ہوگا جو اللہ نے مقدر کر رکھا ہے‘ وہی ملے گا جو اللہ چاہے، اسی کو قرآن کریم نے بھی ان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے۔

متوکلین کے واقعات حکایات
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے گھر سے نکلتے وقت: ”بسم اللہ توکلت علیٰ الله ولا حول ولا قوة إلا بالله“ پڑھ لیا‘ تو اس سے اللہ کی طرف سے کہا جاتا ہے تم کو ہدایت دی گئی اور تمہاری کفایت کی گئی اور تم کو بچایا گیا اور شیطان اس سے دور ہوجاتا ہے۔ (ابوداوٴد، ترمذی، نسائی)

لہٰذا حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے نکلتے تھے تو فرماتے تھے:”بسم اللہ توکلت علیٰ الله“ اسی کے ساتھ دعا کرتے تھے کہ اے اللہ! میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں‘ اس بات ہے کہ بھٹکوں یا کوئی مجھے بھٹکائے‘ پھسلوں یا کوئی مجھ کو لغزش میں ڈال دے یا ظلم کروں یا کوئی مجھ پر ظلم کرے یا میں نادانی کروں یا کوئی میرے ساتھ جہالت کا معاملہ کرے۔(ترمذی وابوداوٴد)

سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی زندگی توکل علیٰ اللہ کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ آتش نمرود میں ڈالے جانے کا حکم ہوا تو ملائکہ ششدررہ گئے اور ان کی مدد کرنے کے لیے بے چین ہوگئے کہ اللہ کے خلیل (علیہ السلام) پر ظلم وستم ہو اور ہم مدد کو نہ پہنچیں‘ لہٰذا پانی کے فرشتے نے مدد کی اجازت چاہی‘ اللہ تعالیٰ نے اجازت دے دی کہ جاوٴ اگر ابراہیم (علیہ السلام) تمہاری مدد لینا قبول کریں تو مدد کرسکتے ہو، وہ فرشتہ آیا اور مدد کر کے پانی سے آگ سرد کرنے کی اجازت چاہی توحضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پوچھا: کیا اللہ نے آپ کو اپنی طرف سے بھیجا ہے ؟ فرشتے نے کہا: نہیں، بلکہ میں خود اجازت لے کر حاضر ہوا ہوں‘ یہ سن کر خلیل اللہ (علیہ السلام) نے فرمایا: جب میرے رب کو میرا حال معلوم ہے‘ پھر بھی اس نے خود نہیں بھیجا ہے تو مجھ کو آپ کی اعانت درکار نہیں‘ میرا رب میرے حال کو جانتا ہے اور مجھ کو اس کی ذات پر بھروسا واعتماد ہے‘ یہ تھی تو کل علیٰ اللہ کی شان۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آگ میں ڈالے جانے کے وقت جو آخری بات کہی تھی‘ وہ ”حسبی الله ونعم الوکیل“ تھی اور یہی جملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کہا تھا‘ جب لوگوں نے کہا: ”بے شک لوگ (دشمن) تمہارے لیے جمع ہوگئے ہیں‘ لہٰذا ان سے ڈرو تو اس بات نے ان کو ایمان میں بڑھادیا اور کہا: ہمارے لیے اللہ کافی اور وہی بہترین کارساز ہے۔“ (بخاری)

حضرت علی شب ہجرت میں بستر رسول اپر
جب مشرکین مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ قتل کرنے کا فیصلہ کرلیا تو اللہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کی اجازت دے دی، رات کا وقت ہے، دشمنان رسول دولت کدہٴ رسول کو گھیرے ہوئے ہیں اور آپ کے نکلنے کا انتظار کررہے ہیں کہ نکلیں تو حملہ کر کے کام تمام کردیں، ایسے خطرناک وقت میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیتے ہیں کہ میرے بستر پر میری چادر اوڑھ کر سوجاوٴ ،ان شاء اللہ تم کو کوئی ایسی چیز لاحق نہ ہوگی جو تمہارے لیے نا پسندیدہ ہو‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ دشمنوں کے نرغے میں آرام گاہ رسول پر سکون کی نیند سوتے ہیں‘دنیا والوں کی سازشوں اور پلانوں سے بے نیاز رسول خدا کے فرمان اور رب العالمین کی ذات پر توکل کر کے یہ ثابت کرتے ہیں:
”جس کا حامی ہو خدا اس کو مٹا سکتا ہے کون؟!“

غار ثور میں توکل علیٰ اللہ
اسی شب ہجرت کا واقعہ ہے، رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رفیق خاص ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہم راہ غار ثور میں پناہ گزیں ہیں (یہ سب ظاہری وسیلہ ہے، کیوں کہ اصل اعتماد تو اللہ کی نصرت وحفاظت پر ہے) کفار مکہ تلاش کرتے ہوئے غار کے دہانے تک جاپہنچے، اتنے قریب کہ اگر کوئی غار میں جھا نکے تو دیکھ لیے جائیں۔حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ فکر مندی سے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ! دشمن تو سر پر آ پہنچے‘ جواب ملتا ہے‘ ابو بکر!
”لا تحزن، ان الله معنا“
(گھبراوٴ مت۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔)

اس قسم کے بہت سے واقعات صوفیائے کرام رحمہم اللہ کی سیرتوں میں ملتے ہیں۔ توکل وقناعت ہی ان پاکیزہ صفات بزرگوں کا سرمایہ ناز ہوتا تھا،کتنے واقعات ایسے ہیں‘ جن پر بظاہر یقین نہیں آتا‘ مگر تاریخ میں مستند حوالوں سے زندہ ہیں۔ جب ایمان اس درجہ پر پہنچ جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی ذات پر ذرہ برابر بھروسا نہیں ہوتا تو محیر العقول واقعات رونما ہوتے ہیں۔