تربیت کے اسلامی ونبوی اصول

تربیت کے اسلامی ونبوی اصول

مولانامحمدابوبکرشیخوپوری

یہ ایک المیہ ہے کہ اس وقت ہمارامعاشرہ تنزلی کی ا ٓخری حدود کوچھورہاہے۔اسلامی،اصلاحی اوراخلاقی اقدارناپیدہوتی جارہی ہیں۔ جرائم کی شرح میں خوف ناک حدتک اضافہ ہوچکاہے۔زندگی کے قیمتی لمحات اورشباب کی تمام ترتوانائیاں لایعنی اوربے مقصداشغا ل میں صرف ہورہی ہیں۔اس کے اسباب وعوامل پر غورکیاجائے توبنیادی وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ معاشرے کی ساکھ کوقائم رکھنے والے مصلحین کی طرف سے تربیت جیسے اہم فریضے کے حوالے سے پہلوتہی کی جارہی ہے۔اگرکہیں خال خال تربیت کاعنصرموجودبھی ہے تو وہ تشددوتصلب کی بھینٹ چڑھ کراپنی افادیت کھوچکاہے۔لہٰذااس سلسلہ میں سب سے ضروری امریہ ہے کہ ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لیں کہ تربیت کے وہ سنہری اوردرخشاں اصول کیاہیں جن کی بدولت مربی کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے بدوؤں کوقیصروکسریٰ کی سلطنت کاوارث بنادیاتھااوررضائے خداوندی کے تمغہ امتیازاورجنت الفردوس کے گولڈ میڈل کا مستحق ٹھہرایاتھا…آئیے مکارم اخلاق کی تکمیل کا سہراسر پر سجا کر تمام عالم کی طرف مبعوث ہونے والے معلم انسانیت سے اس سلسلے میں راہ نمائی حاصل کرتے ہیں۔

مربی خودعامل ہو
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کو اعلی اقدارسے آشناکرنے کے لیے سب سے پہلے اپنی ذات گرامی کوپیش کیا،چناں چہ کوہ صفاء پراسلام کی پہلی تقریرمیں دعوت توحیدپیش کرنے سے قبل اپنے کردار کے حوالے سے زعمائے قریش سے سوال کیاتوسب نے بلاترددآپ کے صادق اورامین ہونے کی گواہی دی۔پردے کاحکم نازل ہواتوسب سے پہلے باری تعالی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواپنی ازواج مطہرات اور بنات اطہاررضوان اللہ علیہم اجمعین سے پردہ کروانے کی تلقین فرمائی، پھرمومنین کی بقیہ عورتوں کواس حکم میں شامل کیا۔قرآن کریم کایہ اسلوب اور نبوت کاطرزاس امرکی عکاسی کرتاہے کہ کسی کوعملی زندگی کادرس دینے سے پہلے اپنی ذات کومجسمہ عمل بنانے کی ضرورت ہے، ورنہ نصیحت غیرمؤثرہونے کے ساتھ ساتھ، قول وعمل میں تضاد کی وجہ سے، مخاطب کو ناصح سے بھی متنفراورمتوحش کردے گی ۔

تربیت کاماحول بنایاجائے
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس نہج سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تربیت فرمائی اس سے ایک خوب صورت ماحول نے تشکیل پائی تھی،اس ماحول میں چھوٹی چھوٹی غلطیوں پرگرفت کی جاتی تھی، جو بعدمیں بڑی غلطیوں سے بچاؤکاسبب تھی۔ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کا صاحب زادہ کنکریوں سے کھیل رہاتھا،آپ نے اسے منع کرتے ہوئے فرمایاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کواچھانہیں سمجھتے تھے، اس سے کسی کی آنکھ پھوٹ سکتی ہے، ایسانہ کرو،وہ باز نہ آیاتواسے سخت ڈانٹ پلاتے ہوئے ارشادفرمایاکہ میں تمہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنارہاہوں اورتمہیں کوئی پرواہی نہیں،اس کے بعدان سے کلام کرنا چھوڑ دیا۔ جس ماحول میں”سب ٹھیک ہے“ اور”چلو جانے دو“کا فلسفہ چل پڑتاہے وہاں جرائم اورکرائم کی جڑیں اس قدرمضبوط ہوجاتی ہیں کہ بڑے سے بڑے مصلح اورمربی کے لیے ان کا اکھاڑنامشکل ہوجاتاہے۔ہماری معاشرتی زندگی میں بات بات پربطورتکیہ کلام کے غلیظ گالیاں دینے کارواج بہت زیادہ چل پڑاہے، جسے دیکھ کربچے بھی آپس کے کھیل کوداورلڑائی جھگڑوں میں ایک دوسرے کوگالیاں دیتے ہیں۔ گھروں میں موسیقی اورفلموں، ڈراموں کے ہروقت چلنے کی وجہ سے بچے بھی اپنی زبانوں پرعشقیہ اورفحش اشعار کی گنگناہٹ جاری رکھتے ہیں اور اداکاروں کے لباس،ہیئر اسٹائل اورطورطریقے اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔اس کے علاوہ تربیت کے حوالہ سے بہت سے ایسے ضروری امورہیں جن سے صرف نظرکرکے ہم مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہورہے ہیں۔ایک سچا مسلمان اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کافرماں بردارامتی ہونے کے ناطے ان سب غیرشرعی طریقوں کوترک کرکے ہمیں سنت کی خوش بوسے معمورماحول اپنے نونہالوں کوفراہم کرناچاہیے، تاکہ ان کی مستقبل کی زندگی کی عمارت صحیح بنیادوں پراستوارہوسکے۔

مربی کی نیت درست ہو
کسی بدعمل کوحسن عمل کاخوگربنانے اورکسی بے راہ کوراہ راست پرلانے کی توفیق اگرنصیب ہوجائے تویہ کسی نعمت عظمی سے کم نہیں ۔کیوں کہ سلسلہ نبوت ختم ہونے کی وجہ سے یہ ہمارامذہبی فریضہ بھی ہے اورجن کوراہ راست پر لائیں گے ان کے ثواب میں حصہ داربننے کاذریعہ بھی،لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ مصلح کی نیت درست ہو۔شہرت،ناموری،مریدین کی تعدادمیں اضافہ کرنا، ہدایاوتحائف کاوصول کرنااورخدمت گاربنانا مقصود نہ ہو۔ ورنہ اس ساری محنت کا آخرت میں کوئی ثمرہ حاصل نہیں ہوگا۔

حکمت اوربصیرت سے سمجھانا
گفت گوکاسب سے اہم ،جامع اور قرآنی اصول حکمت اور بصیرت ہے۔مخاطب کی حالت کے مطابق گفت گوکرنا،اچھے الفاظ کاچناؤ،لہجے کی ملاحت،مناسب وقت کا انتخاب ،موقع کی مناسبت سے محاورات اورضرب الامثال کا استعمال ،اپنے مدعا کے اثبات کے ساتھ ساتھ اشکالات کادفعیہ کرنااس کے مفہوم میں شامل ہے۔ان چیزوں کی رعایت کیے بغیر پندو موعظت سرے سے بیکارہے۔اگرمخاطب کواپنی گفت گوکے سحر میں گرفتارکرناہوتوحکمت سے بھرپوراوربصیرت سے معمور وعظ کہیں۔ان شاء اللہ اس کا اثرجلدیابدیرضرورظاہرہوگا۔

مخاطب کومانوس کرنا
کسی کواپنے نقطہ نظرکاقائل کرنے کے لیے اس کے ساتھ انسیت اورمحبت کے تعلق کو بہت زیادہ دخل ہے۔یہ طبعی امرہے کہ جس کے ساتھ جس درجہ عقیدت ہوتی ہے اتنی ہی اس کی بات کو اہمیت دی جاتی ہے۔لہٰذانصیحت کرنے سے قبل مخاطب کے حال احوال جان کراوربے تکلفانہ ماحول پیداکرکے اسے اپنے ساتھ مانوس کریں۔اس سلسلہ میں سب سے موثرعمل یہ ہے کہ مشفقانہ اورہمدردانہ تعبیرات اختیارکی جائیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے استنجے کے آداب سکھاتے ہوئے ارشادفرمایا:میں تمہاراایسے ہی خیرخواہ ہوں جیسے والد اپنی اولاد کے لیے ہوتاہے،میں تمہیں یہ تعلیم دیتاہوں کہ جب تم میں سے کوئی قضا حاجت کے لیے جائے توبیت اللہ کی طرف نہ منہ کرے اور نہ پیٹھ اوردائیں ہاتھ سے استنجا نہ کرے اور تین ڈھیلوں سے استنجا کرے اور گوبر سے استنجا نہ کرے۔دیکھیے نبوت کے دہن اقدس سے نکلے ہوئے جملوں سی کس قدرشفقت جھلک رہی ہے کہ خود کو باپ کی جگہ اورصحابہ کرام  کوبیٹوں کی جگہ پررکھ کرانہیں روزمرہ کی ایک طبعی اوربشری ضرورت کوپوراکرنے کا طریقہ سکھارہے ہیں۔

صبر وتحمل کامظاہرہ کرنا
دوران وعظ اگرمخاطب بے موقع سوال کردے تو اس پرسیخ پا ہونے کی بجائے صبروتحمل کامظاہرہ کرناچاہیے اور یہ سوچناچاہیے کہ میں اس کی نادانی میں کیے گئے سوال کی وجہ سے نصیحت سے محروم کیوں کروں… حضرت ابوامامہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک نوجوان حاضرہوااور کہنے لگایارسول اللہ مجھے زنا کی اجازت دیجیے،لوگ اس کی طرف متوجہ ہوکر اس کوڈانٹنے لگے اور اسے پیچھے ہٹانے لگے، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میرے قریب آجاؤ،وہ قریب جاکر بیٹھ گیا،آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کیاتم اپنی والدہ کے حق میں بدکاری کوپسندکروگے؟ اس نے کہااللہ کی قسم! نہیں،میری جان آپ پرقربان، پھردوسرے محرم رشتہ داروں کے بارے میں بھی یہی سوال کیا اور اس نے یہی جواب دیا۔نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اپنا دست شفقت اس کے ہاتھ پررکھ کرفرمایااللہم اغفرذنبہ وطہرقلبہ وحصن فرجہ․ اے اللہ! اس کے گناہ معاف فرما، اس کے دل کوپاک فرمااور اس کی شرم گاہ کی حفاظت فرما۔