بہترین خطاکار

بہترین خطاکار

مولانا خالد سیف الله رحمانی

انسان خیرو شر کا مجموعہ ہے، یہ نیکیوں پر قادر ہے ، لیکن برائیوں سے عاجز نہیں، نہ فرشتہ ہے کہ برائی کا خیال تک دل میں نہ آئے اور نہ شیطان ہے کہ ضلالت وگم راہی سے کبھی دل خالی ہی نہ ہو، اس لیے اسے اس ”امتحان گاہ“ میں رکھا گیا ہے کہ دیکھا جائے کہ اس کی نیکیاں برائیوں پر فتح پاتی ہیں یا برائیاں نیکیوں پر غالب آتی ہیں، انبیاء کے سوا کوئی انسان نہیں جو غلطی اور خطا سے یکسر محفوظ ہو، گویا غلطی انسان کی سرشت میں ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو انسان فرشتہ بن جائے۔ انبیاء کے بعد سب سے کامل انسان وہ لوگ ہوتے ہیں جن کو انبیاء کی رفاقت اور نصرت کے لیے منتخب کیا جاتا ہے، لیکن اس مقام ومرتبہ کے باوجود بعض اوقات پیغمبروں کے اصحاب سے بھی غلطیاں صادر ہوئی ہیں، البتہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان کو فوراً ہی اپنے گناہ پر ندامت اور پشیمانی ہوتی ہے اور اس طرح یہی نہیں کہ ا ن کی یہ ندامت اس گناہ کی تلافی کا سامان بن جاتی ہے، بلکہ ان کا اس طرح گناہ کرنا اور پھر گناہ کے بعد اللہ تعالیٰ کی جلالت شان کے مطابق پشیمان ہونا بجائے خود امت کے لیے اسوہ قرار پاتا ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسی حقیقت کو اس طرح ارشاد فرمایا کہ ہر ابن آدم ضرور ہی خطا کرتا ہے ، لیکن بہترین خطا کار وہ ہیں جو گناہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے دروازہٴ مغفرت پر اپنی ندامت کی پیشانی رکھ دیں اور توبہ کرلیں، خیر الخطائین التوابون۔مخلوق کا مزاج یہ ہے کہ وہ انتقام لے کر خوش ہوتی ہے، اس سے اس کے جذبہ انا کی تسکین ہوتی ہے اور کلیجہ ٹھنڈا ہوتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات والا صفات پر رحمت کا غلبہ ہے اور وہ رحمان ورحیم اور غفور وکریم ہے، اسی لیے اسے گنہ گاروں اور کوتاہ کاروں کو معاف کر کے خوشی ہوتی ہے، انسان انتقام کے لیے بہانے ڈھونڈتا ہے اور اللہ تعالیٰ بہانوں سے مغفرت کے فیصلے فرماتے ہیں، کسی نے حج کرلیا تو پھر پچھلی پوری زندگی کے گناہ معاف کردیے، عمرہ کر لیا تو ایک عمرہ سے دوسرا عمرہ کے درمیان کے گناہ معاف ہوگئے، بعض روزے ہیں کہ پورے صغیرہ گناہوں کے کفارہ ہیں، نمازیں بھی جسم سے گناہوں کے میل کو صاف کرتی ہیں، صدقات بھی گناہوں کا کفارہ بنتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی شان کریمی ہے کہ چھوٹے چھوٹے عمل کی بنیاد پر انسان کے گناہ معاف ہوتے جائیں۔

قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ کو ”عفو “ یعنی بہت معاف کرنے والا قرار دیا ہے، عربی زبان میں ”عفو“ کے اصل معنی مٹانے کے ہیں۔ (القاموس المحیط:1181) پس ”عفو“ کے معنی مٹا دینے والے کے ہوئے۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جن گناہوں کو معاف کرتے ہیں ان کو بالکل ہی مٹادیتے ہیں اور شاید نامہٴ اعمال سے بھی محو فرمادیتے ہیں۔ یہ کتنی بڑی شان کریمی ہے! انسان کسی کو معاف بھی کردے تو وہ غلطی کو لوح قلب سے مٹانے کو تیار نہیں ہوتا، وہ وقتی طور پر جذبہٴ انتقام کو دبالیتا ہے اور جب کبھی تعلقات میں نا ہمواری آئی تو پھر اس کو اس کا نامہٴ اعمال دکھانے اور چھپے ہوئے واقعات کو منظر عام پر لانے کے لیے کمر کس لیتا ہے، سیاست کی دنیا میں تو اکثر اسکینڈل اسی طرح ظہو رمیں آتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے یہاں درگذر کا دامن اتنا وسیع ہے کہ جب اللہ کسی بات کو معاف فرماتے ہیں تو اس کو ریکارڈ سے ہی حذف کردیتے ہیں۔

توبہ کا تصور جہاں آخرت میں انسان کے لیے نافع ہے،وہیں دنیا میں بھی کچھ کم نافع نہیں۔ اگر ایک شخص کے اندر نا امیدی اور مایوسی پیدا ہوگی، جرم کا حوصلہ بڑھے گا اور جرم پیشہ اذہان سوچنے لگیں گے کہ جب دوزخ مقرر ہی ہوچکی ہے تو دنیا ہی کی لذت اٹھالی جائے اور جہاں ایک دفعہ جرم کا اتکاب ہوا، دس اور سہی، اس سے جرم کو بڑھا وا ملے گا اور سماج میں زندگی اجیرن ہوجائے گی، اس لیے توبہ کا تصور دنیا میں بھی ایک بڑی رحمت ہے اور اس سے سماج کا امن وآ شتی متعلق ہے۔

توبہ کے لیے اصل محرک اپنے گناہوں اور کوتاہیوں کا احساس ہے، انسان اپنے گناہ پر ندامت اور پشیمانی محسوس کرے، اپنے گناہوں کو یاد کر کے اس کا دل لرزنے لگے، خدا کے سامنے اس کے ہونٹ کپکپانے لگیں، آنکھوں کے آنسو دل کی بے چینی اور اضطراب کی گواہی دیں اور اس کا ضمیر گناہوں کے بوجھ تلے اپنے آپ کو دبا ہوا محسوس کرے، اس پشیمانی اور سچی ندامت کے بغیر محض زبان سے توبہ کے الفاظ کہہ دینا کافی نہیں ۔ انسان پراپنی قلبی کیفیت کے لحاظ سے گناہ کا کیا اثر مرتب ہوتاہے… اس کو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک مثال سے واضح فرمایا کہ نیک اور سچا مسلمان جب کسی گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو اسے ایسا لگتا ہے کہ جیسے اس کے سر پر پہاڑ جیسا بوجھ ہے اور جو شخص گناہوں کا عادی ہوجاتا ہے اسے گناہ سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی مکھی ہے جو ناک پر بیٹھی ہوئی ہے، ذرا ہاتھ ہلایا اور اڑگئی ۔ایک ا ور روایت میں ہے کہ جب کوئی شخص گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کے قلب پر ایک سیاہ دھبہ پڑجاتا ہے، اگر توبہ کر لے تو دھل جاتا ہے اور توبہ نہ کرے تو جوں جوں گناہ کرتا جاتا ہے قلب پر دھبے بڑھتے جاتے ہیں، یہاں تک کہ پورا قلب سیاہ ہوجاتا ہے، اب انسان گناہ کرتا ہے اور اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کے لیے بے توفیقی سے بڑھ کر کوئی محرومی نہیں۔ جیسے دنیا میں بہت سے امراض ہیں ،جن سے آدمی دو چار ہوتا ہے، لیکن سچ پوچھیے تو شاید ”جنون“ سے بڑھ کو کوئی مرض نہیں، اس لیے نہیں کہ اس میں تکلیف زیادہ ہوتی ہے ، بلکہ اس لیے کہ اس میں مریض کو اپنے مریض ہونے کا احساس نہیں رہتا ، وہ بیمار ہوتا ہے، لیکن اپنے آپ کو صحت مند تصور کرتا ہے، اس کو علاج کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن وہ اپنے آپ کو علاج کی ضرورت سے بری سمجھتا ہے، اسی طرح توبہ سے بے توفیقی ایک ”روحانی جنون“ ہے کہ انسان گناہ میں مبتلا ہے، سر سے پاوٴں تک گناہ میں ڈوبا ہواہے، لیکن اپنے گناہگار ہونے کا کوئی احساس نہیں کرتا اور کبھی یہ خیال نہیں کرتا کہ خدا کی چوکھٹ پر ندامت اور شرمندگی کی پیشانی رکھے اور التجا کی زبان کھولے۔ اللہ نہ کرے کہ کوئی مسلمان ایسی محرومی اور بد بختی سے دو چار ہو۔

توبہ کے لیے پچھلے کیے پر ندامت کے ساتھ مستقبل کا عزم مصمم بھی ضروری ہے،آدمی اپنے دل میں یہ ارادہ رکھے کہ وہ آئندہ کبھی بھی اس غلطی کا اعادہ نہ کرے گا، اس بات کا نام توبہ نہیں کہ ابھی غلطی کیے دیتے ہیں، پھر کبھی گناہ ہو گیا تو پھر توبہ کر لی جائے کہ بقول شاعر”کم بخت قیامت ابھی آئی نہیں جاتی“ کیوں کہ اس طرح کی سوچ اس بات کی علامت ہے کہ وہ زبان اور دل کی رفاقت کے ساتھ پشیمانی کا اظہار نہیں کر رہا ہے اور اپنی توبہ میں صادق القول نہیں ہے۔

ہر گناہ سے توبہ کا ایک ہی طریقہ نہیں، بلکہ اس کے لیے بھی شریعت نے کچھ اصول مقرر کردیے ہیں۔ جب گناہوں کے لیے قرآن وحدیث میں کوئی کفارہ مقرر کردیا گیا ہو تو ان کی توبہ یہ ہے کہ کفارہ ادا کیا جائے، مثلاً کسی شخص نے جان بوجھ کر روزہ توڑ دیا تو ساٹھ روزے رکھنا اور اس پر قدرت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا اس کا کفارہے(رد مختار:2/109) قسم کھائی، لیکن اسے پورا نہ کر پایا تو اس کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا دس مسکینوں کو کپڑا پہنانا ہے۔ (مائدہ:89) ان گناہوں سے توبہ یہی ہے کہ ان کا کفارہ ادا کردیا جائے۔

بعض کوتاہیوں پر شریعت نے قضا واجب قرار دی ہے، جیسے کسی شخص سے عذر کی بنا پر روزہ فوت ہوگیا تو اس پر ان روزوں کی قضا واجب ہے، ہوش وحواس کی حالت میں نمازیں قضا ہوگئیں تو ان کی بھی قضا واجب ہے، یہ گویا بندوں پر اللہ تعالیٰ کا دین ہے، جس کی ادائیگی واجب ہے، ان کوتاہیوں کی توبہ یہی ہے کہ فوت شدہ نمازوں کی قضا کی جائے ، اسی طرح بعض عبادتوں کے فوت ہونے پر فدیہ واجب قرار دیا ہے، جیسے کوئی شخص بہت ضعیف یا مریض ہو، روزہ رکھنے پر قادر نہیں اور بظاہر مستقبل قریب میں صحت یاب ہونے کی بھی توقع نہیں، تو ایسے شخص کے لیے یہ سہولت ہے کہ ہر روزہ کے عوض ایک فدیہ ادا کر دے، یعنی ایک غریب ومحتاج شخص کو دوپہر اور رات کا کھاناکھلائے یا صدقہ فطر کے بقدر غلہ دے دے، اصل میں تو یہ حکم روزہ کے سلسلہ میں آیا ہے،(البقرہ :184) لیکن فقہاء نے روزوں پر قیاس کرتے ہوئے نماز میں بھی اس کی اجازت دی ہے کہ جب لوگوں کی نماز فوت ہوگئی اور وہ اب نماز ادا کرنے کے لائق نہ رہے یا ان کا انتقال ہوگیا تو ان کی فوت شدہ نمازوں کا فدیہ ادا کردیا جائے۔ (در مختار:2/119) ان کوتاہیون کی توبہ یہی ہے، خاص کر جب کسی شخص کا انتقال ہوجائے تو بجائے اس کے کہ لہو ولعب میں پیسے خرچ کیے جائیں ”کفارہ“اور ”فدیہ“ ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ان سے متوفی کو راحت حاصل ہوگی۔

کچھ گناہ اور کوتاہیاں بندوں کے حقوق سے متعلق ہیں، یہ حقوق دو طرح کے ہیں، مالی اور غیر مالی۔ انسان سے متعلق مالی حقوق میں کوتاہیوں کی توبہ یہ ہے کہ صاحب حق کو اس کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معاف کرالیا جائے، کسی کا دین باقی ہو، بلااجازت کسی کی چیز استعمال کرلی ہو، کسی کو اس کے حق سے محروم کردیا ہو، میراث میں اپنے حق سے زیادہ لے لیا ہو، یہ تمام صورتیں مالی حق تلفی کی ہیں، ان کا ادا کرنا ضروری ہے اور اگر ادا کرنے کے لائق نہ ہوتو ضروری ہے کہ اس سے معذرت کرے ، اس کو راضی کر کے اپنا گناہ معاف کرالے، بعض حقوق غیر مالی ہوتے ہیں، جیسے کسی کو گالی دی، کسی کا تمسخر کیا اور برا بھلا کہا، کسی کی غیبت کی، بہتان لگایا، یہ تمام باتیں حق تلفی اور گناہ کے دائرہ میں آتی ہیں، ان گناہوں کی توبہ یہ ہے کہ جس کے ساتھ زیادتی کی ہے، اس سے اپنی غلطی کی معافی مانگی جائے، یہ ضروری نہیں کہ اس بات کی بھی وضاحت کی جائے کہ اس نے اس کے بارے میں کیا کہا ہے اور کیا کچھ زیادتی کی ہے؟ بلکہ آکر مبہم طور پر معاف کرنے والا یوں کہہ دے کہ تم سے جو کچھ بھی غلطی ہوئی ہو میں اسے معاف کرتا ہوں ، تو یہ بھی کافی ہے، ایک ایک غلطی کا شمار کرانا ضروری نہیں ۔ اگر اللہ کے کسی بندہ کے حق میں زیادتی ہوگئی ہو تو وہ بڑا ہو یا چھوٹا، زیادہ باعزت ہو یا کم معزز، عذر خواہی اور عفو خواہی میں تکلف نہیں کرنا چاہیے، کیو کہ حقوق العبادمیں ہونے والی کوتاہیاں اللہ تعالیٰ بھی معاف نہیں کریں گے، جب تک کہ خود صاحب معاملہ معاف نہ کردے، یہاں تک کہ شہادت اور اللہ کے راستہ میں جان کی سپردگی جیسا عظیم عمل بھی انسان کو انسان کے حق میں ہونے والی کوتاہیوں سے بچا نہیں سکتا، اس لیے اس میں شرم وعار کورکاوٹ نہ بنانا چاہیے۔

ان گناہوں کے علاوہ جو گناہ ہیں، جیسے جھوٹ بولنا یا ایسا ملک جہاں شرعی حدودنا فذ نہ ہوتی ہوں، میں ایسے کسی جرم کا مرتکب ہونا جس پر خود اللہ کی طرف سے شرعی سزائیں مقررہیں، جیسے زنا، چوری، کسی مسلمان پاک دامن شخص پر تہمت اندازی ، شراب نوشی وغیرہ، ان کے لیے بھی خوب گڑگڑا کر توبہ کرنا چاہیے اور یوں بھی استغفار کی کثر ت رکھنی چاہیے، تاکہ یہ اس کے دانستہ اور نادانستہ گناہوں کا کفارہ بن جائے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم بعض اوقات ایک ہی مجلس میں ستر ستر بار استغفار فرمایا کرتے تھے۔ رمضان المبارک کا مہینہ جہاں نفل عبادت، قرآن مجید کی تلاوت، انفاق اوردعاوٴں کا مہینہ ہے، وہیں توبہ واستغفار کے لیے بھی اس سے بہتر کوئی موسم نہیں، جس میں اللہ تعالیٰ کا دروازء رحمت کھلا رہتا ہے اور دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں۔