بُرے اخلاق

بُرے اخلاق

ڈاکٹر محمد عبدالحئی عارفیؒ

معصیت سے اجتناب
حضرت نعمان بن بشیررضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ حلال بھی واضح ہے او رحرام بھی۔ لیکن ان دونوں کے درمیان کچھ چیزیں ایسی ہیں جو مشتبہ ہیں۔ تو جو شخص مشتبہ گناہ سے بچے گا وہ بدرجہ اولیٰ کھلے ہوئے گناہوں سے بچے گا اور جو شخص مشتبہ گناہوں کے کر ڈالنے میں جرأت دکھائے گا تو کھلے گناہوں میں اس کا پڑ جانا بہت زیادہ متوقع ہے او رمعصیتیں الله تعالیٰ کا ممنوعہ علاقہ ہیں (جس کے اندر کسی کو جانے کی اجازت نہیں اور اس کے اندر بلا اجازت گھس جانا حرام ہے)، جو جانور ممنوعہ علاقہ کے آس پاس چرتا ہے اس کا ممنوعہ علاقہ میں گھس جانا بہت زیادہ متوقع ہے۔ (مشکوٰة، حیوٰة المسلمین)

گناہ کا علاج
حضرت معاذ رضی الله تعالیٰ عنہ سے ( ایک لمبی حدیث میں ) روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اپنے کو گناہ کرنے سے بچاؤ، کیوں کہ گناہ کرنے سے الله تعالیٰ کا غضب نازل ہو جاتا ہے۔ (مسند احمد)

حضرت انس بن مالک رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تم کو تمہاری بیماری اور دو ابتلادوں؟ سن لو بیماری گناہ ہیں اور تمہاری دو ااستغفار ہے۔ (ترغیب، بیہقی)

حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس کا کوئی گناہ ہی نہ تھا ۔( بیہقی مرفوعاً ،وشرح السنہ موقوفا)

البتہ حقوق العباد میں توبہ کی یہ بھی شرط ہے کہ اہل حقوق سے بھی معاف کرائے۔ (حیوٰة المسلمین)

گناہوں کی پاداش
حضرت عبدالله بن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، ہم دس آدمی حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے۔ آپ ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے، پانچ چیزیں ایسی ہیں جن سے میں خدا کی پناہ چاہتا ہوں کہ تم لوگ ان کو پاؤ ۔جب کسی قوم میں بے حیائی کے افعال علی الاعلان ہونے لگیں گے وہ طاعون میں مبتلا ہو گی اور ایسی ایسی بیماریوں میں مبتلا وگرفتار ہوگی جوان کے بڑوں کے وقت میں کبھی نہیں ہوئیں۔ او رجب کوئی قوم ناپنے تولنے میں کمی کرے گی قحط اور تنگی اورظالم حکام میں مبتلا ہو گی۔ اور نہیں بند کیا کسی قوم نے زکوٰة کو، مگر بند کیا جاوے گا اس سے باران رحمت، اگر بہائم نہ ہوتے تو کبھی اس پر بارش نہ ہوتی اور نہیں عہد شکنی کی کسی قوم نے مگر مسلط فرما دے گا الله تعالیٰ اس پر اس کے دشمن کو غیر قوم سے، پس بہ جبر لے لیں گے وہ ان کے اموال کو۔ (ابن ماجہ)

حضرت ابو درداء رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله تعالیٰ فرماتا ہے کہ بادشاہوں کا مالک میں ہوں۔ بادشاہوں کے دل میرے ہاتھ میں ہیں او رجب بندے میری اطاعت کرتے ہیں میں ان کے بادشاہوں کے دلوں کو ان پر رحمت اور شفقت کے ساتھ پھیر دیتا ہوں اور جب بندے میری نافرمانی کرتے ہیں میں ان بادشاہوں کے دلوں کو غضب اور عقوبت کے ساتھ پھیر دیتا ہوں، پھر وہ ان کو سخت عذاب کی تکلیف دیتے ہیں۔ (ابو نعیم)

گناہوں کا وبال
حضرت ثوبان رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا قریب زمانہ آرہا ہے کہ کفار کی تمام جماعتیں تمہارے مقابلے میں ایک دوسرے کو بلائیں گی، جیسے کھانے والے اپنے خوان کی طرف ایک دوسرے کو بلاتے ہیں۔ ایک کہنے والے نے عرض کیا او ر کیاہم اس وقت (کیا) شمار میں کم ہوں گے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، بلکہ تم اس روز بہت ہو گے، لیکن تم کوڑا (ناکارہ) ہوگے، جیسے ہوا کی رو میں کوڑا اڑ جاتا ہے۔ اور الله تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہاری ہیبت نکال دے گا اورتمہارے دلوں میں کم زوری ڈال دے گا۔ ایک کہنے والے نے عرض کیا کہ یہ کم زوری کیا چیز ہے ( یعنی اس کا سبب کیا ہے)؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا دنیا کی محبت او رموت سے نفرت۔ (ابوداؤد، بیہقی، حیوٰة المسلمین)

گناہ کبیرہ
حضرت عبدالله ابن ِ عمر سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ بڑے بڑے گناہ یہ ہیں: الله کے ساتھ شرک کرنا اور ماں باپ (کی نافرمانی کرکے ان) کو تکلیف دینا اور بے خطا جان کو قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا۔ (بخاری)

حضرت صفوان رضی الله تعالیٰ عنہ ( ابن عسال) سے( ایک لمبی حدیث میں) روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کئی حکم صادر فرمائے، ان میں سے یہ بھی ہے کہ کسی بے خطا کو کسی حاکم کے پاس مت لے جاؤ کہ وہ اس کو قتل کرے ( یا اس پر ظلم کرے) اور جادومت کرو الخ ۔(ترمذ وابوداؤد)

او ران گناہوں پر عذاب کی وعید آئی ہیں:
حقارت سے کسی پر ہنسنا، کسی پر طعن کرنا، برے لقب سے پکارنا، بد گمانی کرنا، کسی کا عیب تلاش کرنا، بلا وجہ بُرا بھلا کہنا، چغلی کھانا، دورُو یہ ہونا، یعنی اس کے منھ پر ویسا اس کے منھ پر ایسا، تہمت لگانا، دھوکا دینا، عار دلانا، کسی کے نقصان پر خوش ہونا، تکبر وفخر کرنا، ظلم کرنا، ضرورت کے وقت، باوجود قدرت کے، مدد نہ کرنا، کسی کے مال کا نقصان کرنا، کسی کی آبرو کو صدمہ پہنچانا، چھوٹوں پر رحم نہ کرنا، بڑوں کی عزت نہ کرنا، بھوکوں اور ننگوں کی حیثیت کے موافق خدمت نہ کرنا، کسی دنیوی رنج سے بولنا چھوڑ دینا، جان دار کی تصویر بنانا، زمین پر موروثی کا دعویٰ کرنا، ہٹے کٹے کا بھیک مانگنا، داڑھی منڈوانا یا کٹانا، کافروں یا فاسقوں کا لباس پہننا، عورتوں کا مردانہ وضع بنانا، جیسے مردانہ جوتا پہننااور بہت سے گناہ ہیں۔ یہ نمونے کے طور پر لکھ دیے ہیں، سب سے بچنا چاہیے اور جو گناہ ہو چکے ہیں ان سے توبہ کرتا رہے کہ توبہ سے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ (حیوة المسلمین)

بعض کبائر
ماں باپ کو ایذا دینا، شراب پینا، کسی کو (پیٹھ) پیچھے بدی سے یاد کرنا، کسی کے حق میں گمانِ بد کرنا اور کسی سے وعدہ کرکے وفانہ کرنا، امانت میں خیانت کرنا، جمعہ کی نماز ترک کرنا، کسی غیر عورت کے پاس تنہا بیٹھنا، کافروں کی رسمیں پسند کرنا، لوگوں کے دکھاوے کو عبادت کرنا، قدرت ہونے پر نصیحت ترک کرنا، کسی کا عیب ڈھونڈنا۔

جس شیخ سے اعتقاد ہو اس کی پیروی کرکے دوسروں کو بُرا سمجھنا درست نہیں اور پیروی مجتہد اور شخ کی اسی وقت تک ہے جب تک ان کی بات خدا اور رسول کے خلاف نہ ہو۔ اگر ان سے کوئی غلطی ہو گئی ہو اس میں پیروی نہیں۔

ایمان جب درست ہوتا ہے کہ الله اور رسول (صلی الله علیہ وسلم ) کو سب باتوں میں سچا سمجھے اور ان کو مان لے۔ الله اور رسول ( صلی الله علیہ وسلم) کی کسی بات میں بھی شک کرنا، اس کو جھٹلانا یا اس میں عیب نکالنا یا اس کے ساتھ مذاق اڑانا، ان سب باتوں سے ایمان جاتا رہتا ہے۔

علامات ِ قہر الہٰی
حضرت ابوہریرہ رضی الله تعالیٰ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مال غنیمت اور بیت المال کے مال کو اپنی دولت قرار دیا جائے۔ یعنی بیت المال اور قومی خزانہ جو ملک کی رعیّت اور مستحق لوگوں کے لیے ہوتا ہے اس کو امراء وصاحبان منصب اپنی جاگیر سمجھ کر، اپنی ذات اور عیش وعشرت کے لیے استعمال کرنے لگیں او رجب امانت کو مال غنیمت سمجھ کر ہضم کیا جانے لگے۔

٭…جب زکوٰة کو تاوان شمار کیا جائے۔ ؤ…جب علم کی تحصیل دین کے لیے نہیں، بلکہ محض دنیا طلبی کے لیے ہونے لگے۔ ؤ…جب مرد عورت کی اطاعت شروع کر دے ( یعنی بجائے اس کے خود قوام (سردار) رہے اپنے آپ کو عورت کی قوامیت (ماتحتی) میں دے دے۔ ؤ…جب بیٹا ماں کی نافرمانی او راس سے سرکشی کرنے لگے۔ ؤ…جب آدمی اپنے دوست سے زیادہ سے زیادہ قریب ہو جائے، مگر اپنے باپ سے اتنا ہی دور ہو جائے۔ؤ…جب مسجدوں میں آوازیں زور سے بلند ہونے لگیں۔ ؤ…جب قوم کی سرداری اور سربراہی قوم کا فاسق انسان کرنے لگے۔ ؤ…جب قوم کا راہ نما قوم کا بدترین شخص ہونے لگے۔ جب کسی انسان کی عزت محض اس کے شر سے بچنے کے لیے کی جائے۔ ؤ…جب گانے والیاں اور باجے عام ہو جائیں۔ جب علانیہ شرابوں کا دور چلنے لگے۔ ؤ…جب اس امت کے پچھلے لوگ اگلے لوگوں پر طعن وتشنیع اور لعنت کرنے لگیں تو پھر تم انتظار کرو تندوتیز سرخ آندھی کا اور زلزلوں کی تباہ کاریوں کا ،زمین میں دھنسنے کا، صورتوں کے مسخ ہونے کا او رپتھروں کے برسنے کا اور الله کی طرف سے پے درپے نزول عذاب کا، جیسے موتیوں وغیرہ کی ایک لڑی ہے، جو ٹوٹ گئی ہو اور پیہم ومسلسل دانے گر رہے ہوں۔ (جامع ترمذی)