بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

مولانا سحبان محمود

الحمدلله وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ… امابعد…

﴿وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِینَ﴾ یعنی ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ ویسے تو قرآن کریم تمام کا تمام سرور کائنات رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کیبالواسطہ تعریف وتوصیف ہے، لیکن بہت سی آیتوں میں بالواسطہ آپ کے بعض مخصوص اوصاف عالیہ کی الله تعالیٰ نے تعریف فرمائی ہے۔ اس آیت میں آپ کے وجود مبارک کو پیکر ِ رحمت فرمایا گیا ہے اور وہ بھی تمام جہانوں کے لیے، اگر ا لله تعالیٰ:” رب العلمین“ یعنی تمام جہانوں کے پالنے اور پرور ش کرنے والے ہیں تو آپ کی مقدس ہستی ”رَحْمَةً لِّلْعَالَمِینَ“یعنی تمام جہانوں کے لیے رحمت ہے۔ اورالله تعالیٰ کی ربوبیت سے کائنات کا ایک ذرہ بھی خارج نہیں تو کائنات کا کوئی ذرہ آپ کے سایہ رحمت سے باہر نہیں۔ یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا اتنا بلند مقام ہے جو کسی بھی مخلوق کو حاصل نہیں، سچ کہا ہے شیخ سعدی نے #
        بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
اسی لیے آپ کا ایک لقب نبی الرحمت بھی ہے، یعنی وہ نبی جو سراپا رحمت بن کر تشریف لائے۔

اس آیت میں آپ کو”رَحْمَةً لِّلْعَالَمِینَ“الله تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ یہ عالم کی جمع ہے، یعنی تمام عالم اور جہان۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صرف اس کرہٴ زمین او ریہاں کی مخلوق کے لیے ہی نبی رحمت نہیں، بلکہ تمام کائنات، خواہ زمین ہو، خلا وفضا ہو یا آسمان۔ سب کے لیے رحمت ہیں۔ اسی کو آپ نے ایک حدیث میں اس طرح فرمایا کہ ”أنا رحمة مھداة…“ یعنی میری ذات الله تعالیٰ کی جانب سے بھیجی ہوئی رحمت ہے … سرورکائنات کے رحمت ہونے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ آپ کے طفیل ہی یہ تمام کائنات پیدا کی گئی، اگر آپ کی پیدائش نہ ہوتی تو الله تعالیٰ یہ عظیم کارخانہٴ عالم پیدا نہ فرماتا۔ پھر جس کو جو کچھ ملا آپ ہی کے صدقہ سے ملا ،آپ کے طفیل علم ملا۔ آپ ہی کے صدقہ ایمان نصیب ہوا۔ آپ ہی کی وجہ سے رب کو پہچانا گیا اور آپ ہی کے باعث الله تعالیٰ کی محبت وعظمت بندوں کو حاصل ہوئی۔ گویا آپ نہ ہوتے تو کائنات نہ ہوتی، آپ نہ ہوتے تو دنیا میں ترقیاں اور آخرت میں نجات اور بلند مراتب حاصل نہ ہوتے۔

چوں کہ آپ پیکر رحمت ہیں، اس لیے آپ کی ہرادا، ہر شان، ہر حرکت وسکون اور آپ کی تعلیمات، آپ کے احکام اور آپ کالایا ہوا دین یعنی اسلام بھی رحمت ہی رحمت ہیں، آپ کی جملہ تعلیمات کی بنیاد رحمت ہے ،ان میں سختی نام کو نہیں، یہ غلط فہمی یا ناواقفیت ہوگی کہ آپ کی تعلیمات میں سے کسی ایک حکم کو سخت یا ناقابل برداشت سمجھ لیا جائے ،کیوں کہ رحمت کے معنی آزادی، راحت طلبی او رمطلقاً نرمی کے نہیں، بلکہ اس کا مطلب ہے کہ ایسی چیزوں کی طرف راہ نمائی کی جائے جن سے زندگی ہر خطرہ سے محفوظ، دنیا ہر لحاظ سے شان دار اور آخرت مسرتوں سے لبریز ہو جائے۔ اگر کوئی ناسمجھ بچہ آگ سے کھیلنا چاہے تو اُسے اِس کی آزادی دے دینا رحمت نہیں، بلکہ اس سے روکنا اورآئندہ کے لیے ایسا انتظام کر دینا کہ اس کا خطرہ نہ رہے، رحمت ہے۔

چوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم رحمة للعالمین ہیں، اس لیے آپ کی طبع مبارک رحم وکرم سے اس قدر لبریز تھی کہ سختی اور سنگ دلی کا نام ونشان بھی نہ تھا، آپ کی رحمتوں سے اپنے تو اپنے، جانی دشمن بھی فیض یاب ہوتے رہے، حدیث شریف میں آیا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے تمام عمر نہ تو کسی خادم کو مارا، نہ کسی عورت اور بچے کو اور نہ کسی دشمن کو ہاتھ لگایا، الایہ کہ میدان جہاد ہو تو آپ محض الله تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے کافر دشمن پر کبھی وار فرما دیتے، یہ آپ کی صفت رحمت ہی کا فیضان تھا کہ آپ نے اپنے اُن تمام جانی دشمنوں کو، جو آپ صلی الله علیہ وسلم کو اور دیگر ایمان والوں کو دنیا میں زندہ دیکھنا گوارا نہیں کرتے تھے۔ ان پر قابو پانے کے بعد نہ صرف یہ کہ انتقام نہیں لیا، بلکہ ان کو اپنے رحم وکرم سے خوب خوب نوازا۔

فتح مکہ کے دن وہ اہل مکہ یعنی کفار قریش جو چند لمحے پیشتر تک آپ کے دشمن ِ جان اور برسر پیکار تھے او راب بالکل مغلوب وشکست خوردہ ہو کر مسجد حرام میں اپنی قسمت کے فیصلے کے منتظر بیٹھے تھے اور ان کو یقین تھا کہ آج ماضی کی تمام ایذا رسانیوں کا ہم سے انتقام لیا جائے گا کہ اچانک آپ صلی الله علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ اے اہل مکہ ! آج تم سب کو معاف کیا جاتا ہے، انتقام تو کجا، تمہیں ملامت کا ایک لفظ بھی نہیں کہا جائے گا ۔جاؤ! تم سب کے سب آزاد ہو، تم سے کوئی باز پُرس نہ ہو گی۔ اسی معافی پر ہی کفایت نہ فرمائی، بلکہ تاریخ نے دیکھا کہ چند یوم کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان مکہ والوں کو اس قدر مال وزر سے نوازا جوان کے وہم وگمان سے باہر تھا، حالاں کہ ان میں سے کچھ لوگ ابھی تک اسلام نہیں لائے تھے۔

ہر نبی کی امت کے اخلاقِ حسنہ، اُس کے نبی کے اخلاق کا پر تو ہوتے ہیں، اس لیے آپ کی امت پر بھی طبعی اعتبار سے رحم وکرم کا غلبہ ہے، دنیا میں کوئی دوسری قوم من حیث القوم مسلمانوں کا اس وصف میں مقابلہ نہیں کرسکتی۔ یہ امت اپنے دشمنوں سے بھی رحم وکرم کا معاملہ کرتی ہے او رانتقاماً بھی وہ سنگ دلی اختیار نہیں کرتی جو دشمن اس کے ساتھ کرچکے ہوں، بالخصوص اپنے مسلمان بھائیوں پر تو بڑی مہربان اور نرم دل ہوتی ہے، کیوں کہ حضوراکرم صلی الله علیہ وسلم نے اُمت کو یہی تعلیم دی ہے کہ ہر حال میں رحم وکرم اورمہربانی کا معاملہ کرتے رہو ،حتی کہ دشمنوں کے ساتھ اور جانوروں کے ساتھ بھی ۔ ارشاد فرمایا:”ارحموا من في الارض یرحمکم من في السماء… یعنی تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا اورمسلمانوں کے ساتھ نرمی ومہربانی کے سلسلہ میں فرمایا کہ :”المسلم من سلم المسملون من لسانہ ویدہ…“ یعنی سچا مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ او رزبان سے کسی دوسرے مسلمان بھائی کو تکلیف نہ پہنچے۔ زبان سے تکلیف نہ پہنچانے کا مطلب یہ ہے کہ ایسی بات زبان سے نہ نکالے جس سے کسی دوسرے کی دل آزاری ہو او رہاتھ سے ایذا نہ پہنچانے کا مطلب ناحق کسی مسلمان کو نہ تو مارے او رنہ اس کا مال ناحق اپنے قبضہ میں لے، آپ صلی الله علیہوسلم نے نہایت واضح الفاظ میں اسی رحمت کی تعلیم دیتے ہوئے حجة الوداع کے خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ تمہاری عزت وآبرو کی حرمت ایک دوسرے پر ایسی ہی ہے جیسی مکہ معظمہ جیسے شہر، ما ہ ذی الحجہ جیسے مقدس مہینہ اور عید الاضحی جیسے مبارک اور باعظمت دنوں کی حرمت، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے تمام لوگوں کو خاموش کراکے توجہ کامل سے سناتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ دیکھو ! میرے بعد ایک دوسرے کی گردن نہ مارنا کہ یہ کافروں کا شیوہ او ران کا کام ہے ۔ اور ارشاد فرمایا کہ : ”سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر…“ یعنی کسی مسلمان کو گالی دینا بہت بڑا گناہ ہے او راس سے قتل وقتال کرنا تو کفر جیسا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ نبی رحمت ایسی سنگ دلی، سفاکی او رخون ریزی کو پسند فرمائیں جس کی بنیاد سراسر ظلم وتشدد پر ہو، آپ صلی الله علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا ” القاتل والمقتول کلاھما في النار…“ یعنی ناحق قتل کرنے والا او رمقتول دونوں جہنم میں ہوں گے، صحابہ نے عرض کیا کہ قاتل کا تو جہنم میں جانا سمجھ میں آتا ہے، لیکن مقتول کیوں جہنم میں جائے گا ؟تو آپ نے جواب دیا کہ وہ بھی اپنے اس قاتل کو قتل کرنا چاہتا تھا۔ یہ دوسری بات ہے کہ وہ اس میں کام یاب نہ ہوا۔ اُمت مسلمہ میں آپس میں یہ سنگ دلی، یہ سفاکی اور یہ ظلم وتشدد جس کو سن کر ہی ندامت سے سرجھک جاتا ہے، نبی رحمت کی تعلیمات سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ سب شیطانی اور کافرانہ طور طریق ہے ،جو ہماری بد اعمالیوں کی وجہ سے ہم میں آگیا ہے۔

حدیث شریف میں ہے کہ حضو رکرم صلی الله علیہ وسلم کے سامنے ہر پیر او رجمعرات کو آپ کی امت کا اعمال نامہ پیش کیا جاتا ہے۔ اگر اُمت کے اعمال اچھے ہوں تو آپ خوش ہوتے ہیں او راگر ناپسندیدہ ہوں تو آپ کو بڑا دکھ اور غم ہوتا ہے۔ آپس میں خون ریزی کرنے والی امت غور کرے کہ وہ اپنے اس فعل سے رب رحیم کو خوش کر رہی ہے یا رحمة للعالمین او رنبی رحمت کو ؟ یقینی بات ہے کہ سفاکی سے الله تعالیٰ بھی سخت ناراض اورنبی الرحمت بھی بڑے دکھی او رمغموم ہیں۔خدا را! آنکھیں کھولیے، عقل سے کام لیجیے، دشمنوں کے آلہٴ کار نہ بنیے، ان دونوں ہستیوں کو ناراض کرکے نہ ہماری دنیا درست ہو سکتی ہے نہ آخرت۔ رحمة للعالمین کے صدقہ میں ہمیں جو رحم وکرم کا وافر حصہ الله تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے اتنا بڑا حصہ جو دنیا کی کسی قوم کے پاس نہیں۔ اس سے کام لیجیے اور اُسے اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے وقف کر دیجیے۔ الله تعالیٰ ہم سب کو اسی حصہ داروں میں رکھے۔ آمین۔

﴿مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّہِ وَالَّذِینَ مَعَہُ أَشِدَّاء ُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاء ُ بَیْنَہُمْ﴾ یہ سورہٴ فتح کی آخری آیت کا ابتدائی حصہ ہے، جس کا ترجمہ ہے کہ ”محمد(صلی الله علیہ وسلم) الله تعالیٰ کے سچے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کی صحبت پائے ہوئے ہیں ( یعنی صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین) وہ کافروں کے مقابلہ میں بڑے سخت ہیں اورآپس میں بڑے مہربان اس آیت میں حضوراکرم صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے کمالات واوصاف کی الله تعالیٰ نے ایسی عظیم تعریف وتوصیف فرمائی ہے کہ اُس کا عُشر عشیر سمجھ لینا بھی ناممکن ہے… محمد رسول الله، اس کلمہٴ طیبہ کا دوسرا جز ہے جس پر ایمان موقوف ہے، الله تعالیٰ نے جب عرش کو پیدا فرمایا تو اس پر نورانی حروف سے ” لا إلہ إلا الله محمد رسول الله“ لکھ دیا، روایت میں آیا ہے کہ جب حضرت آدم علیہ الصلوة والسلام نے حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کے مبارک نام کا وسیلہ لے کر الله تعالیٰ سے اپنی لغزش کی معافی طلب کی تو الله تعالیٰ نے معاف فرما کر دریافت کیا( حالاں کہ وہ خوب جانتا تھا) کہ اے آدم! تمہیں یہ نام پاک کہاں سے معلوم ہوا؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے عرش بریں پر جب آپ کے نام کے ساتھ یہ نام دیکھا تو میں سمجھ گیا کہ یہ مقدس ہستی یقینا آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اس لیے اس نام کے وسیلہ سے میں نے مغفرت طلب کی۔

آپ کا اسم گرامی ” محمد“ اپنے معنی کے اعتبار سے ان تمام کمالات واوصاف پر دلالت کرتا ہے جو مسلسل مدح سرائی، ثنا خوانی اورتعریف وتوصیف کا سبب ہیں، رب ذوالجلال کی جانب سے بھی ، فرشتوں اورانسانوں کی جانب سے بھی، بلکہ تمام کائنات کی جانب سے بھی، ایسی تعریف جو مسلسل ہو، خوب خوب ہو اور کبھی ختم ہونے والی نہ ہو۔

یوں تو حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کے بہت سے مبارک نام قرآن وحدیث میں آئے ہیں، لیکن آپ کے دو پاک نام مشہور ہیں ، ایک ”محمد“ اور یہ سب سے زیادہ مشہور ہے ، دوسرا”احمد“ الله تعالیٰ نے آپ کے یہ دونوں نام تجویز کراکے اپنی ذات او راپنی مخلوق کی جانب سے آپ کی مدح سرائی فرمائی ہے۔

آپ کا نام نامی ” محمد“ کے یہی معنی ہیں جو آپ کے دادا صاحب نے بتائے، کیوں کہ یہ لفظ ”حمد“ سے بنا ہے، جس کے معنی تعریف کرنے کے آتے ہیں او رعرابی گرام کے مطابق ”محمد“ میں کثرت او رمبالغہ کے معنی ہوں گے، یعنی وہ ہستی جس کی سبھی تعریف کریں، خوب خوب کریں او رکرتے رہیں … چناں چہ آپ کی تعریف کرنے سے کوئی مستثنیٰ نہیں رہا، حتی کہ آپ کے منکر او رسخت ترین دشمن بھی آپ کا یہ مبارک نام زبان سے لیں گے تو معانی کی وجہ سے وہ بھی مجبوراً آپ کی تعریف کرنے والے بن جائیں گے… ورنہ جس پاک ذات کی ثنا خوانی خالق کائنات فرمائے تو مخلوق کی ثنا خوانی کی اس کو ضرورت نہیں رہتی۔

الله رب العزت کی جانب سے آپ کی مدح سرائی بالکل ظاہر ہے، قرآن کریم میں جابجا آپ کے خصوصی کمالات اور اوصاف کو رب العزت نے ذکر فرمایا ہے، چناں چہ اس تعریف میں سب سے زیادہ واضح آیت یہ ہے کہ ﴿إِنَّ اللَّہَ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِّ﴾ امام بخاری نے حضرت ابوالعالیہ  سے نقل کیا ہے کہ الله تعالیٰ کی صلوة کا مطلب ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعریف کرتے رہنا، اس کو مشہور شارح بخاری امام ابن حجر نے پسند فرمایا ہے، اب اس آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ بے شک الله تعالیٰ آپ کی تعریف فرماتے رہتے ہیں اور فرشتے بھی۔ خالق کائنات کی تعریف اس کے شایان شان ہوگی“ کسی مخلوق کو اس کی حقیقت معلوم نہیں ہو سکتی، البتہ ظاہر ہے تمام مخلوقات کی تعریف سے بلند وبالا ہو گی اور دائمی وابدی ہو گی، پھر فرشتے بھی آپ کی تعریف میں مشغول ہیں، بے شمار فرشتے جن کی تعداد صرف الله تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ یہ فرشتے ہر اُس انداز سے جو الله تعالیٰ نے ان کے لیے تجویز فرما دیا ہو ہر وقت آپ کی تعریف میں اس طرح مشغول ہیں کہ ایک لمحہ کے لیے بھی غافل نہیں ہوتے ، چناں چہ بہت سے فرشتے وہ ہیں جو درود شریف کے ذریعہ آپ کی مدح سرائی میں مشغول ہیں، لا تعداد فرشتے وہ ہیں جو آپ کی امت کی جانب سے درود شریف کا تحفہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی بارگاہ میں پہنچانے کے لیے ہر وقت مشغول خدمت ہیں او ران گنت فرشتے وہ ہیں جو کسی مومن کے ایک مرتبہ درود شریف پڑھنے پر الله تعالیٰ کی جانب سے دس رحمتیں اس مومن تک پہنچانے کی خدمت میں شب وروز مشغول ہیں، ایک لمحہ کے لیے نہ غافل ہوتے ہیں، نہ تھکتے ہیں اورچوں کہ الله تعالیٰ کے نام پاک کے ساتھ آپ کا مبارک نام بھی لازم ہے، اس لیے تمام فرشتے جو تسبیح وذکر وغیرہ میں مشغول ہیں لامحالہ آپ کی تعریف کرنے والے ہیں، رہے انسان وغیرہ تو ان میں سے نیک اور مومن بندے تو آپ کی تعریف دل وجان سے کرتے ہیں، لیکن پھر بھی حق ادا نہیں کرسکتے اور نافرمان وکافر لوگ اگرچہ تعریف کرنا نہیں چاہتے،لیکن ان میں سے جو انصاف پسند ہیں وہ آپ کی تعریف برملا کرتے ہیں اور دوسرے بھی مجبوراً آپ کے اسم گرامی کو لیتے ہی آپ کی تعریف کرنے والے بن جاتے ہیں۔

آپ کا اسم پاک ”محمد“ ایسا پیارا نام ہے کہ خود رب العلمین نے ہر اس موقعہ پر جہاں آپ کی خوش نودی مقصود ہوتی ہے بڑے پیار او رمحبت سے اسی نام کا ذکر فرمایا ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ بروز ِ محشر جب تمام مخلوق پریشان ہو کر حضرات انبیائے کرام کے پاس درخواست شفاعت لے کر جائے گی اور وہ حضرات ان کو آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں بھیج دیں گے تو آپ اس درخواست کو قبول فرماکر، رب العالمین کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں گے۔ اس پر رحمت خداوندی جوش میں آجائے گی اور ارشاد ہو گا :” یا محمد، ارفع رأسک، سل تعط واشفع تشفع“ یعنی: اے محمد (صلی الله علیہ وسلم) اپنا سرسجدہ سے اٹھائیے او رمانگیے جو مانگنا ہے، آپ کو سب کچھ دیا جائے گا۔ اور شفاعت کیجیے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔

آپ کا دوسرا نام مبارک”احمد“ ہے، یہ بھی قرآن کریم میں آیا ہے۔ روایت سے معلوم ہوتا ہے ک آپ کا یہ نام پاک پہلی آسمانی کتابوں میں آیا ہے، چناں چہ سورہٴ صف میں فرمایا گیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے فرمایا تھا کہ میں اپنے بعد ایک رسول (عظیم) کی خوش خبری دینے والا ہوں، جن کا نام نامی”احمد“ ہو گا … یہ بھی ”حمد“ سے بنا ہے، جس کے معنی تعریف کرنے کے آتے ہیں، لہٰذا”احمد“ کے معنی ہوں گے وہ ذات جو خوب قابل تعریف ہے، اس کا حاصل بھی وہی ہے جو آپ کے پہلے نام کا ہے۔

سورہٴ فتح کی آیت میں پھر آپ کی تعریف دوسرے پہلو سے الله تعالیٰ نے فرمائی ہے کہ ﴿وَالَّذِینَ مَعَہُ أَشِدَّاء ُ عَلَی الْکُفَّار﴾ یعنی جو لوگ آپ کے صحبت یافتہ ہیں وہ کافروں کے مقابلہ میں سخت اور آپس میں بڑے مہربان ہیں، رکوع وسجود میں وقت گزارتے ہیں اور الله تعالیٰ کے فضل وکرم اور خوش نودی کے طلب گار رہتے ہیں۔ یہ حضرات صحابہٴ کرام ہیں، جو انبیائے کرام کے بعد تمام مخلوق میں سب سے اعلیٰ اور افضل ہیں۔ یہ حضرات آپ کے فیض ِ صحبت سے اس بلند مقام تک پہنچے، جب کہ اس سے پہلے دنیا میں جاہل، وحشی اور غیر مہذب سمجھے جاتے تھے، یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا کتنا بڑا قابل صد تعریف کمال ہے کہ ایسے لوگوں کو تمام عالم کے لیے آفتاب وماہتاب اور رشد وہدایت او رعلوم وحکمت کا سرچشمہ بنا دیا اور آپ ہی کے فیض صحبت سے اس قدر بلند اخلاقی اقدار کے وہ مالک ہو گئے کہ نہ ماضی میں کوئی اُس مقام تک پہنچا، نہ مستقبل میں پہنچ سکے گا۔

وآخر دعوانا أن الحمدلله رب العلمین!