ایک نابغہٴ روز گار شخصیت کی رحلت

ایک نابغہٴ روز گار شخصیت کی رحلت

مفتی حماد خالد آفریدی
استاد جامعہ فاروقیہ کراچی

30/جون بروز بدھ صبح 10 بجے میرے ایک قریبی ساتھی جو کہ انڈس ہسپتال میں حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالزاق اسکندر نوراللہ مرقدہ کی عیادت کی غرض سے موجود تھے، انہوں نے فون پر اطلاع دی کہ حضرت کی طبیعت اب کچھ قدرے بہتر ہوئی ہے اور رات کو حضرت کا ڈائلے سسز بھی ہوا ہے،یہ سن کر بہت اطمینان ہوا اور امید بندھی بہت جلد حضرت ڈاکٹر صاحب شفا یاب ہوکر رونق مجلس بنیں گے ، مگر تقدیر کا فیصلہ اس کے برعکس ہوچکا تھاکہ اب الله تعالیٰ کا یہ نیک بندہ دنیا کی کثافتوں سے نکل کر آخرت کے پاکیزہ سفر کا راہی بننے والا ہے ، اللہ کے ایسے نیک بندوں کا اس طرح دنیا سے اٹھ جانا یہ ان کے حق میں تو بہتر ہوتا ہے،لیکن پیچھے رہ جانے متعلقین کے لیے خسارے اورنقصان کا باعث ہوتا ہے ۔

حضرت ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کے جنازے میں اپنے والد محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ خالد صاحب دامت برکاتھم کے ساتھ حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوا،جنازے کے مناظر دیکھ کر اپنے دادا شیخ المشائخ حضرت مولانا سلیم خان صاحب نوراللہ مرقدہ کے جنازے کا منظر سامنے آگیا ،آج بھی باطل قوتیں یہ باور کرانے میں مصروف ہیں کہ علمائے دین کے ساتھ عوام کا تعلق پہلے جیسا نہیں رہا ،لیکن ان کے جنازے کو دیکھ کر اس پروپیگنڈے کی قلعی کھل جاتی ہے۔

اتنا بڑا جنازہ اوراتنا مجمع دیکھ کر بار بار یہ خیال آتا تھا کہ دنیا میں اللہ تعالی نے اتنی عزت دی ہے ان کا استقبال جنت میں بھی یقینا اسی شان سے ہوتا ہوگااور ہم جیسے لوگوں کو تو باربار اس کا استحضار بھی رکھنا چاہیے کہ اس طرح کے مجمعوں میں اللہ تعالی کے کتنے نیک وصالح بندے شریک ہوں گے،جن کی برکت سے کتنوں کی مغفرت ہوگئی ہوگی،کتنوں نے دعائیں مانگی ہوں گی جو اللہ تعالی نے قبول کرلی ہوں گی۔

حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب نوراللہ مرقدہ ابھی کچھ دن قبل ہی وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے تھے،اسی طرح ڈاکٹر صاحب عالمی تحفظ ختم نبوت کے امیر بھی تھے،ڈاکٹر صاحب کا شمار ہزاروں طلبہ کے محبوب اساتذہ میں ہوتا تھا،میرے دادا شیخ الحدیث حضرت سلیم اللہ خان صاحب نوراللہ مرقدہ کے وصال کے بعد وفاق المدارس کی صدارت کے لیے اکابر علماء کی جن پر نظر ٹھہری وہ حضرت ڈاکٹر صاحب ہی تھے،جب کہ حضرت ڈاکٹر صاحب اپنی بے پناہ مصروفیت اور پیرانہ سالی کی وجہ سے اس ذمہ داری کو لینے کے لیے ہرگز تیار نہ تھے، مگر ان کی شخصیت پر سب کااتفاق تھا۔

ہمارے علماء کے طبقے میں اب اس طرح کی نابغہٴ روزگار شخصیات بہت تیزی سے رخصتہوتی چلی جارہی ہیں اور ان شخصیات کے ساتھ ان کی برکات بھی اٹھتی جارہی ہیں،میری یہ بات عموما ایک عام آدمی کو سمجھ نہ آئے گی،لیکن علماء کے طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ یہ جانتے ہیں کہ اہل علم کے ہاں اگر کوئی آدمی بہت زیادہ علم والا ہواور ساتھ ساتھ عمر میں بھی زیادہ ہو،تو اس کے علمی رسوخ پر اعتماد بڑھ جاتا ہے۔

کرونا کی وبا کے زمانے میں بہت بڑے بڑے علماء دنیا سے رخصت ہوگئے،جس سے مدارس، علماء، طلباء اور عوام کو بہت بڑا نقصان ہوا، حالاں کہ ایک آدمی جس کی عمر 70سال ہوجائے اور وہ انتقال کرجائے،تو لوگ یہی کہتے ہیں کہ آخر کتنا جینا تھا اور؟لیکن آپ اس علم کی برکت دیکھیں،بڑے بڑے علماء اور شیوخ بڑی عمروں میں انتقال کرتے ہیں، اورجیسے ہی خبر ملتی ہے تو ایک زوردار دھچکہ لگتا ہے،جیسے کہ کسی نوجوان کا انتقال ہوگیا ہو،اللہ تعالی ان علماء اور طلباء کی حفاظت فرمائے اور اپنے دین کی خدمت آنے والے علماء سے بھی ایسے ہی لے جیسے پچھلوں سے بہتر انداز میں لی۔