ایفائے عہد کی اہمیت وفضیلت

ایفائے عہد کی اہمیت وفضیلت

راحیل گوہر

اسلام کے فلسفہ اخلاق میں ایفائے عہد یا قول وقرار کی پابندی کی بہت اہمیت وفضیلت بیان ہوئی ہے ۔ خود الله سبحانہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ : ”بے شک الله اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔“ (آل عمران:9، الرعد:31)

چناں چہ جس طرح الله تعالیٰ اپنے قول وفعل میں سچا ہے اسی طرح وہ اپنے بندوں سے بھی یہی چاہتا ہے کہ وہ اپنے وعدوں اورقرار کو پورا کرنے کی حتی الامکان پابندی کریں اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی کے مرتکب نہ ہوں۔ انسانوں کے مابین عہد کی پابندی، خواہ وہ وقت کی ہو، لین دین کی ہو، سیاسی امور میں ہو، معاشرتی معاملات کے ضمن میں ہو یا معاشی امور سے متعلق ہو، ہرپہلو اور ہر جہت سے عہد وپیماں کی پابندی لازمی اور ناگزیر ہے۔

ایفائے عہد معاشرے میں اخوت، یگانگی، یقین ،ا عتماد اور حسن خلق کا ماحول پیدا کرتا ہے، اس کے برخلاف عہد کو توڑ دینا او راپنے وعدے سے پھر جانا رنجش، بے اعتمادی اور بسا اوقات منافرت کے فروغ کا باعث بن جاتا ہے اور اس طرح معاشرے میں راحت وسکون کی فضا ختم ہو جاتی ہے۔ ایک دوسرے کے لیے شکوک وشبہات کارجحان پیدا ہو جاتا ہے۔ ایفائے عہد کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے رسول مکرم صلی الله علیہ وسلم نے تو بڑی سخت بات فرمائی ہے کہ : ”جس میں عہد نہیں اس کا کوئی دین نہیں۔“ (احمد، طبرانی، ابن حبان) دراصل عہد کی پابندی انسان کے قول وفعل وعمل کی یکسانی او راس کے صدق وصفا کو ظاہر کرتی ہے اور یہ انسانی، بنیادی او راخلاقی وصف ہے، جس میں یہ وصف نہیں وہ شرف انسانیت کے دائرے سے باہر ہے، کیوں کہ معاملات کی نوعیت خواہ کیسی بھی ہو، اعتماد، بھروسا اور یقین کامل اس میں حسن پیدا کرتا ہے۔ لوگ اپنی بیٹیاں اسی یقین واعتماد اور زبانی قول وقرار پر ایک ایسے شخص کے حوالے کر دیتے ہیں، جسے وہ پہلے سے جانتے تک نہیں۔ بندھن تو زبانوں کے ہی ہوتے ہیں اور زبان کے بندھن کچے نہیں ہوتے، انہیں کا ٹو تو زبانیں کٹ جاتی ہیں۔ یہ زندگی باہمی تعاون، ایمان وایقان اور قول کی سچائی کے بغیر اس طور گز رہی نہیں سکتی جو قرآن وسنت کو مطلوب ہے۔ نکاح ایک مرد او رایک عورت کے درمیان ایک عہد ہی تو ہے، جسے ایجاب وقبول کا نام دیا گیا ہے۔ اور اسی زبانی عہد پرزوجین اپنی پوری زندگی گزار دیتے ہیں۔

اگر زوجین میں سے کسی ایک کی طرف سے بھی اس قول وقرار کی طرف سے بے یقینی کی کیفیت ظاہر ہونے لگے تو رشتہ ازدواج کی ڈور کمزور ہونے لگتی ہے۔ جو کبھی اتنی کم زور ہو جاتی ہے کہ ٹوٹ ہی جاتی ہے۔

اس وصف وعدہ کی اہمیت کا اندازہ الله تعالیٰ کے اس فرمان سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ : ”اور قرآن میں اسماعیل ( علیہ السلام) کا ذکر ہے، بلاشبہ وہ وعدے کے سچے اور الله کے رسول تھے۔“ یعنی الله نے اپنے رسول کی عظمت کو اس کے وعدے کی سچائی سے منسوب کر دیا۔ انسانی اخلاق کا سب سے مقدم اور ضروری پہلو یہ ہے کہ انسان جس کا م کو اختیار کرے اس پر استقلال کے ساتھ اس طرح قائم رہے کہ وہ اس کی فطرت ثانیہ بن جائے اور لوگوں کے دلوں میں یہ یقین راسخ ہو جائے کہ یہ شخص جو کہتا ہے وہ کرتا بھی ہے۔ اور عہد وپیمان کے ضمن میں تو اس کو ترجیح اور اولیت حاصل ہونا لازمی عنصر ہے۔

حجة الاسلام امام غزالی نے احیاء العلوم میں لکھا ہے:” زبان وعدوں کی لیے پیش قدمی کیا کرتی ہے، مگر نفس پر اس کو پورا کرنا ناگوار ہوتا ہے تو وعدہ جھوٹ ہو جاتا ہے اور یہ امر نفاق کی علامت ہے۔“ رسول مکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”وعدہ کرنا عطا میں شامل ہے ، یعنی وعدہ بھی ایک قسم کا قرض ہے۔“ رسول مکرم کی حیات طیبہ کا ایک ایفائے عہد کا واقعہ تمام سیرت نگاروں نے بیان کیا ہے، جو صلح حدیبیہ سے متعلق ہے۔ اس صلح کے معاہدے میں دیگر کئی شرائط کے ساتھ ایک یہ بھی شرط مشرکین مکہ کی طرف سے لکھوائی گئی تھی کہ ”اگر مکہ سے کوئی شخص بھاگ کر مدینہ جائے گا تو اسے واپس کرنا ہو گا اور اگر مدینہ کا کوئی آدمی مکہ آیا تو اس کو واپس نہیں کیا جائے گا۔“ اگرچہ یہ شرط عدل وانصاف کے قطعی منافی تھی اور اسی بنا پر صحابہ کرام  غیض وغضب سے تلملا رہے تھے، مگر الله کے رسول صلی ا لله علیہ وسلم نے کسی مصلحت کے تحت اس شرط کو بھی مان لیا، معاہدہ طے ہو گیا۔ اسی اثنا میں سہیل بن عمر و (جو معاہدہ لکھوا رہے تھے) کے صاحب زادے ابوجندل زنجیروں میں جکڑے مشرکین کی قید سے کسی طرح فرار ہو کر یہاں پہنچے اور الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم سے التجاکی کہ انہیں ان ظالموں کی قید سے چھڑ اکر اپنے ساتھ لے جائیں، لیکن چوں کہ معاہدہ طے ہو چکا تھا ،اگرچہ ابھی قلم بند نہیں ہوا تھا، بہرحال شرائط طے ہوچکی تھیں۔ چناں چہ رسول مکرم صلی الله علیہ وسلم نے ابوجندل سے فرمایا:”ابوجندل! صبر وضبط سے کام لو، الله تمہارے لیے او رمظلوموں کے لیے کوئی راہ نکالے گا۔ صلح اب طے ہوچکی ہے اور ہم ان لوگوں سے بدعہدی نہیں کرسکتے۔“ اور چشم فلک نے دیکھا کہ ابوجندل اسی طرح پابہ زنجیر واپس لوٹ گئے۔ یہ ہے اسلامی تعلیمات کی اعلیٰ وارفع شان! اب ان دشمنان اسلام کو اپنے گریبانوں میں منھ ڈال کر دیکھنا چاہیے جن کے قلم اور زبانیں یہ کہتے اور لکھتے نہیں تھکتیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے۔ اس صلح حدیبیہ کے واقعہ سے بھی یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ وہاں چودہ سو صحابہ کرام موجود تھے، جو الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے ایک اشارے پر اس معاہدے کی دھجیاں بکھیر دیتے، مگر اپنے رسول صلی الله علیہ وسلم کی مرضی کے سامنے انہوں نے سر تسلیم خم کر دیا۔ یہی اسلام کی اصل تعلیم ہے کہ وہ وعظ ونصیحت، رواداری، معاملہ فہمی اور افہام وتفہیم کی راہ اختیار کرنے پر اصرار کرتا ہے۔ اور انسانی معاملات میں کسی قسم کی دورخی اورمنافقت کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔ بقول علامہ اقبال #
        باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے
        شرکت میانِ حق وباطل نہ کر قبول

جب ہم ساری دنیا کو ایک طرف رکھ کراپنا جائزہ لیتے ہیں تو بحیثیت مجموعی ہمارا یہ منظر نامہ سامنے آتا ہے کہ بحیثیت ایک مسلمان ہمارا طرز زندگی انفرادی سطح پر بھی او راجتماعی اعتبار سے بھی معکوس شکل اختیار کیے ہوئے ہے۔ ذاتی حیثیت میں ہم اپنے مفاد او راپنے اغراض ومقاصد کے حصول کے لیے اپنے وعدوں سے منکر ہو جاتے ہیں اور اس پر ذرا بھی شرمندہ نہیں ہوتے، بلکہ ڈھٹائی پر اتر آتے ہیں ، خواہ دوسرے کا ہمارے اس فعل سے کتنا بڑا نقصان ہوجائے، ہمارے ماتھے پر شکن بھی نہیں آتی۔اگر ہم بحیثیت سچے مسلمان قرآن وسنت کے مطابق اپنی زندگیوں کو استوار کریں۔ ایفائے عہد، صاف گوئی، حق پرستی، قرآن کو اپنا امام اور سنت کو اپنا راستہ بنالیں تو زندگی بھی آسان ہو جائے گی اور اپنے ہی جیسے انسانوں کی غلامی کا طوق بھی ہماری گردن سے ہمیشہ کے لیے اتر جائے گا اور الله ہمارے تمام کاموں میں آسانیاں فرمادے گا، کیوں کہ الله کبھی اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔