اہل علم اور طلبا کی عملی کوتاہیاں

اہل علم اور طلبا کی عملی کوتاہیاں

حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ

افسوس ہے کہ ہم میں ایسے افراد بھی ہیں کہ وہ صرف علم ہی کو مقصود سمجھتے ہیں او رعمل کو کوئی چیز ہی نہیں سمجھتے۔ بعض کی حالت تو یہاں تک ناگفتہ بہ ہے کہ وہ نماز بھی نہیں پڑھتے، بعض ایسے ہیں کہ وہ اس قدر کھلم کھلا تو بے عمل نہیں، لیکن اپنی زبان وغیرہ کی حفاظت وہ بھی نہیں کرتے،جس جگہ بیٹھیں گے لوگوں کی غیبت شکایت کے انبار لگائیں گے، بعض ایسے ہیں کہ وہ زبان کی بھی حفاظت کرتے ہیں، لیکن وہ نظر کی حفاظت نہیں کرتے، اکثر نامحرموں کو دیکھنا، راستہ چلتے ہوئے اِدھر اُدھر تاکنا جھاکنا عادت ہو جاتی ہے۔

جو بہت متقی ہیں وہ زبان کی بھی حفاظت کر لیتے ہیں، قلب کی بھی حفاظت وہ بھی بہت کم کرتے ہیں اور قلوب کے معاصی سے ان کو بہت کم نجات ملتی ہے، مرض قلب وہ مرض ہے کہ قریب قریب سب کے سب ہی مبتلا ہیں۔ صاحبو! علم مقصود بالذات نہیں۔ عمل مقصود بالذات ہے۔

ہم لوگوں میں چند کوتاہیاں ہیں، ایک تو یہ کہ عمل کی طرف التفات ہی نہیں کرتے او راگر کچھ عمل کرتے ہیں تو غضب یہ ہے کہ اس میں انتخاب کر لیا ہے اور اس کو کافی سمجھ کر اپنے کو عامل باشریعت اور دین دار سمجھتے ہیں۔ آج کل ہم لوگوں میں اکثر تو عمل ہی نہیں کرتے کہ نماز ہو رہی ہے اور وہ پڑے سو رہے ہیں، بعض لوگ باوجود بے دار ہونے کے محض سستی کی وجہ سے پڑے رہتے ہیں۔ اگر نماز کے پابند ہو گئے تو دوسرے اعمال باتقویٰ کے شعبے اکثر ندارد۔

اہل علم کی شکایت
جو لکھے پڑھے ہیں ان کی بھی یہ حالت ہے کہ جو منھ میں آیا بک دیا، جو قلم میں آیا لکھ دیا، اس سے کوئی بحث ہی نہیں کہ دوسرے کو اس سے تکلیف ہوگی، اس کی فکر ہی نہیں کہ اپنے سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے، جو جی میں آیا کر لیا۔ غور وفکر کا نام نہیں، جیسے سانڈ آزاد ہوتے ہیں، بس یہ حالت ہے آزادی اور بے فکری کی۔

اے طالب علمو! اپنے اصلاح کی فکر کیجیے، بے فکری بہت بری شے ہے، اس سے گناہ بڑھتے چلے جاتے ہیں او رگناہ کے بڑھنے سے دل بے حس ہو جاتا ہے، پھر اچھے برے کی تمیز بھی نہیں رہتی۔

اسی لیے ہر وقت اپنے نفس کی دیکھ بھال او رنگرانی میں لگا رہنا چاہیے، کم بخت ہر رنگ میں مارتا ہے،حتی کہ دین دار کو دنیا میں دین کا رنگ دکھا کر مبتلا کرتا ہے۔ بہرحال نگرانی کی سخت ضرورت ہے۔ کسی کو بھی بے فکر نہ ہونا چاہیے۔

خواص سے شکایت
افسوس یہ ہے کہ خواص کو بھی دین کی ترقی کی فکر نہیں، بس جو تعلیم میں مشغول ہے وہ اسی پر قانع ہے او رسمجھتا ہے کہ میں بڑا دین دار ہوں کہ ہر وقت قال الله وقال الرسول میں رہتا ہوں ، کوئی ان سے پوچھے کہ آخر شریعت میں معاملات او رمعاشرت کی تعلیم کس لیے دی گئی ہے؟ اصلاح اخلاق کا اہتمام کیوں نہیں کرتے؟ کیا اس پر عمل کرنے کے لیے مسلمانوں کے علاوہ کوئی دوسری قوم پیدا ہوگی؟

آج کل حالت یہ ہے کہ کتابیں بھی ختم او رمدرس بھی بن گئے ، مگر آج تک یہ خبر نہیں کہ ( الله تک پہنچنے کا) راستہ کیا ہے، لوگ زوائد میں مبتلا ہیں، مقاصد کو چھوڑے ہوئے ہیں۔ سنیے! حق تعالیٰ تک پہنچنے کا یہی راستہ ہے کہ اخلاق رذیلہ جاتے رہیں۔ اخلاق حمیدہ پیدا ہو جائیں۔ طاعت کی توفیق ہو جائے۔ الله سے غفلت جاتی رہے اور الله کی طرف توجہ پیدا ہو جائے۔

(خلاصہ یہ کہ) راستہ صرف ایک ہی ہے کہ محبت واطاعت کے ساتھ احکام شریعت کے سامنے اپنے کو پیش کردو،اس کے سوا کوئی راستہ نہیں۔

اخلاقی تنزلی
علماء اکثر درس وتدریس میں مشغول رہتے ہیں، مگر اس طرف توجہ نہیں کہ باطن کی اصلاح کریں، گو درس وتدریس بھی بڑی عبادت ہے، مگر اس کی بھی تو ضرورت ہے، بلکہ خودرس وتدریس وغیرہ بھی سب کچھ نہیں، اعمال مامور بہ کے لیے کرایا جاتا ہے۔

ہم لوگوں کی حالت یہ ہے کہ خود اس طرف توجہ نہیں کرتے، میں دیکھتا ہوں کہ لوگوں کو علم کی فکر ہے، لیکن عمل کی فکر نہیں، اس کا بڑا اہتمام ہوتا ہے کہ ہم ساری کتابیں پوری کریں، لیکن عمل کی ذرا بھی پروا نہیں۔ قوت عملیہ اس درجہ ضعیف ہو رہی اور اس میں خلل آگیا جس کا حساب نہیں۔ بہت سے معاصی ایسے ہیں کہ ان میں دن رات مبتلا ہیں او رخیال بھی نہیں آتا کہ ہم نے کوئی گناہ کیا۔ کس کی چیز بلا اجازت اٹھالی او رجہاں چاہا ڈال دی۔ کسی کی کتاب بلا اجازت لے لی اور ایسی جگہ رکھ دی کہ اس کو نہیں ملتی،وہ پریشان ہو رہا ہے۔ کسی سے کسی اچھے کام کا وعدہ کیا، اس کے پورا کرنے کی بالکل فکر نہیں۔ اسی طرح سینکڑوں قصے ہیں، کہاں تک بیان کیے جائیں۔

لیکن ان سب باتوں کے باوجود ان کے علم وفضل میں کوئی شک نہیں ہوتا، حالاں کہ فقط کسی چیز کا جان لینا کوئی ایسا کمال نہیں، یوں تو شیطان بھی بہت بڑا عالم ہے۔ بڑوں بڑوں کو وہ بہکاتا ہے۔ تفسیر میں وہ ماہر،حدیث سے وہ واقف، فقہ میں وہ کامل۔ کیا ہے جس کو وہ نہیں جانتا؟ اگر زیادہ نہ جانتا ہوتا تو علماء کو کیسے بہکا سکتا؟ جب کوئی شخص کسی فن میں ماہر ہوتا ہے جب ہی تو وہ اپنے سے کم جاننے والوں کو دھوکہ دے سکتا ہے۔ شیطان میں اگر کمی ہے تو وہ صرف اس بات کی کہ وہ اپنے علم پر عمل نہیں کرتا۔ چناں چہ حدیث میں آیا ہے کہ ایسا علم جو عمل کے لیے نہ ہو جہنم کا ذریعہ ہے۔ ہم لوگ ایسے غافل ہو رہے ہیں کہ اپنی اصلاح کی ذرا بھی فکر نہیں کرتے، بعض لوگ قصداً گناہ نہیں کرتے، لیکن بے پرواہی کی وجہ سے ان سے گناہ ہو جاتے ہیں وہ بھی شکایت کے قابل ہیں۔ اگر کوئی ملازم سرکاری بے پرواہی کرے اور کام خراب کر دے تو کیا اس سے باز پرس نہ ہوگی؟

احسان کا فقدان
لوگوں نے عبادت کی روح نکال لی ہے، مثلاً بظاہر اٹھ بیٹھ لیے اورنماز ادا ہوگئی۔ خصوصاً اہل علم بھی اس کا خیال نہیں کرتے کہ سوائے ظاہری قیام وقعود کے اور بھی کچھ ہے اور ضروری بھی ہے۔ جس قرآن میں: ﴿قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ، الَّذِینَ ہُمْ فِی صَلَاتِہِمَْ﴾․ (المؤمنون:23/1،2) ہے، اس میں ”خَاشِعُونَ‘ بھی آیا ہے، جب ” صَلَاتِہِمْ “ کے لفظ سے نماز کو مطلوب شرعی سمجھتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ” خَاشِعُونَ“ سے خشوع کو مطلوب نہیں سمجھتے!

اسی طرح او رمقامات سے پتہ چلتا ہے کہ خشوع بھی ایسا ہی ہے جیسا قیام رکوع وغیرہ۔ اس غلطی کو دفع کرنا نہایت ضروری ہے کہ ایک کو تو ضروری سمجھیں اور دوسرے کو نہ سمجھیں۔ حالاں کہ دونوں حکم یکساں ضروری ہیں۔ یہ خشوع ہی ہے جس سے عبادت اچھی ہوتی ہے۔ احسان سے حاصل ہوتا ہے۔

جس طرح کنز، ہدایہ ضروری ہیں، اسی طرح ابو طالب مکی کی قوة القلوب اور غزالی  کی اربعین اور شیخ شہاب الدین سہروردی کا پڑھنا بھی ضروری ہے۔

کیسی ناانصافی کی بات ہے کہ جب کئی برس علم ظاہری کی تحصیل میں صر ف کیے تو دس ماہ تو باطن کی اصلاح میں صرف کرو۔

او راس کایہی طریقہ ہے کہ کسی کامل کی صحبت میں رہو، اس کے اخلاق وعادات اور عبادات کو دیکھو کہ غصہ کے وقت اس کی کیا حالت ہوتی ہے؟ خوشامد کا اس پر کہاں تک اثر پڑتا ہے؟

باطنی بداخلاقی او رحب مال او رحب جاہ کا عمل
علماء نے محض کتابی علم کو کافی سمجھ رکھا ہے۔ یہ علم حاصل کرکے عمل کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ حالاں کہ علم سے مقصود عمل ہی ہے۔ ان کی حالت یہ ہے کہ نہ ان کے اخلاق باطنہ درست ہیں۔ نہ اس کی فکر ہے۔ جن میں دو خلق مجھے سخت ناگوار ہیں اور میں کیا ہوں الله تعالیٰ کو ان سے سخت نفرت ہے۔ ایک طمع، یعنی حب مال، دوسرا حب جاہ، علماء کو ان ہی دو باتوں نے زیادہ تباہ کیا ہے۔ مدرسین کی یہ حالت ہے کہ تنخواہ پر جھک جھک کرتے ہیں۔ اسی لیے کسی مدرسہ کے مہتمم کو اپنے کسی مدرس پر اعتماد نہیں ہوتا کہ یہ رہے گا یا نہیں؟ کیوں کہ کسی دوسری جگہ سے پانچ روپیہ زائد پر بھی دعوت آگئی تو مدرس صاحب فوراً اس مدرسہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ چل دیں گے، اگرچہ وہاں دین کی خدمت زیادہ نہ ہو اور پہلی جگہ دین کی خدمت زیادہ ہو رہی ہو۔ اورگزر بھی ہو رہا ہو۔ یہ صریح دین فروشی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو محض تنخواہ مقصود ہے۔ دین کی خدمت مقصود نہیں۔

البتہ اگر پہلی جگہ میں گزر ہوتاہو، مگر ضروریات میں تنگی پیش آتی ہو تو دوسری جگہ جانے کا مضائقہ نہیں، بشرطیکہ وہ تنگی واقعی ضروریات میں ہو، کیوں کہ فضول ضرورتوں میں تنگی ہونا معتبر نہیں۔ وہ دراصل ضرورت ہی نہیں۔

دوسرا مرض ان میں حب جاہ کا ہے، جس کی وجہ سے علماء کے اندر پارٹی بندی ہو گئی ہے، ہر شخص اپنی ایک جداجماعت بنانے کی فکر میں ہے۔

اپنی اولاد کو علم دین نہ پڑھانا
فرمایا افسوس ہے کہ آج کل بعض حضرات دین دار او راہل علم کہلاتے ہیں، مگر اپنی اولاد کو دنیا کی تعلیم کی طرف بھیجتے ہیں۔ مجھ کو تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کے لوگ غالباً اس پر پچھتاتے ہوں گے کہ ہم عالم کیوں ہو گئے؟ ہم نے انگریزی کیوں نہ پڑھ لی؟ سو یہ حالت کس قدر خطرناک ہے؟ اس سے ان کے قلب میں علم دین کی کھلی بے وقعتی معلوم ہوتی ہے۔ حق تعالیٰ ان لوگوں کی حالت پر رحم فرمائے۔ اور ان کو ہدایت فرمائے۔

دین کی راہ میں اپنا مال خرچ نہ کرنا
فرمایا جس کو خدا نے مال دیا ہو وہ اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرکے خدا تعالیٰ کو راضی کرے۔ اس میں واعظین اورعلماء بھی داخل ہیں۔ان کو بھی خرچ کرنا چاہیے، اگر زیادہ نہیں کرسکتے تو کچھ تو کریں۔ علماء کا اکثر طبقہ اس میں بہت کوتاہی کرتاہے۔ سارا امربالمعروف ان کو اپنی بچت کے واسطے ہی سوجھتا ہے۔ خود خرچ کرنا کم جانتے ہیں۔

آپ کو چاہیے کہ اپنے بھائی کی روٹی بچوائیں او راپنے پاس سے خرچ کریں اور جب کسی کام کے لیے چندہ کی تحریک کریں تو سب سے پہلے خود بھی چندہ دیا کریں، یہ صورت اچھی نہیں کہ دوسروں کو ترغیب دی جائے اوراپنے گھر سے کچھ نہ نکالا جائے، اس صورت میں اثر بھی نہیں ہوتا اور لوگ متوحش ہوتے ہیں۔ اگر تم بھی خرچ کیا کرو تو لوگوں کو وحشت نہ ہوگی۔

اب تو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ چندہ کے سارے وعظ کا حاصل یہ ہے کہ مولوی اپنی بچت کرنا چاہتے ہیں اور دوسروں سے وصول کرنا چاہتے ہیں۔

اگر علماء یہ کہیں کہ ہمارے پاس کہاں ہے؟ تو میں کہتا ہوں کہ آپ کے مدرسہ میں جو مزدور دو آنہ مہینہ دیتا ہے، تم اس سے کم نہیں ہو۔ پھر کیا وجہ ہے تم دوآنہ بھی نہ دو؟!