اپنی جان کا بھی حق ہے

اپنی جان کا بھی حق ہے

مولانا رفیع الدین حنیف قاسمی

جسم اور جان اللہ کی عطا کردہ نعمتیں ہیں، جن کی حفاظت اور نگہداشت ہمارا فریضہ ہے، جان کی حفاظت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اس کی صحت کی حفاظت کی جائے، مضر صحت امور سے اجتناب کیا جائے، اس کے قُویٰ کی حفاظت کی جائے، جان کی حفاظت کے لیے ضروری امور کا انتظام کیا جائے، اپنے آپ کو ہموم وغموم اور مصائب ومتاعب سے محفوظ رکھا جائے، جس کے لیے بقدر ضرورت مال کے حصول کے لیے تگ ودو بھی کرے، چوں کہ صحت میں خلل، قوی واعضاء وجوارح میں کمزوری یا مالی اعتبار سے بے اطمینانی اس کی وجہ سے دینی کاموں میں خلل واقع ہوتا ہے، دوسروں کی خدمت بھی نہیں ہو پاتی ، کبھی ناشکری بے صبری جیسے مراحل آجاتے ہیں، جو بسا اوقات ایمان کے کھودینے کا باعث ہوتے ہیں۔

صحت کی حفاظت
صحت اللہ کی بڑی نعمت ہے، بلکہ سب سے بڑی نعمت ہے، بلکہ انسان کا وجود ہی صحت سے ہے، مضر صحت امور سے بالکلیہ اجتناب کرنا چاہیے، جس میں زیادہ کھانا یا زیادہ سونا، یا کم کھانا یا کم سونا ل، یا حد سے زیادہ فارغ رہنا، ہموم وغموم کا شکار ہوجانا یا اپنے آپ کو کسی بھی عمل میں اتنا منہمک کرنا جس میں آدمی کی حرکت نہ ہو، جس سے موٹاپا در آئے، راتوں کا جاگنا، دنوں کا سونا یہ سارے امور صحت کے لیے نقصان دہ باعث وبال جان ہوتے ہیں ، اس طرح کے امور سے اجتناب کر کے اپنے آپ کو منظم ومرتب کرے، سونے کے وقت سوئے، کھانے کے وقت کھائے، کام کے وقت کام کرے، ہلکی پھلکی ورزش، چہل قدمی ، راتوں کے شروع میں جاگنے سے اجتناب، دھوپ کا حاصل کرنا یہ سارے امور دراصل شرعی نقطہ نظر سے قابل التفات امور ہیں، ایک مومن توانا اور قوی تر ضعیف اور کمزور مومن کے مقابلہ زیادہ بہتر اور اچھا ہوتا ہے، آیت خداوندی میں اللہ عزوجل فرماتے ہیں،﴿وَإِذَ ا مَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِینِ﴾(الشعراء:80)(جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ شفایاب کرتا ہے) اس سے معلوم ہوا کہ صحت بھی مطلوب ومقصود ہے، اس کے علاوہ ایک روایت میں فرمایا:”تمہارے بدن کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھ کا بھی تم پر حق ہے ۔“(بخاری)گر چہ روایت کا پس منظر شب بیداری اور نفل روزہ میں زیادتی کی ممانعت ہے؛ لیکن کسی بھی عمل میں حد درجہ اشتغال اور انہماک، بالکل یکسوئی اور فراغت کا نہ ہونا بھی یہ مضر صحت ہوا کرتا ہے، اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ زیادہ جاگنے اور بالکل بھوکے رہنے سے صحت خراب ہوجاتی ہے، کھانے اور سونے میں غلو بھی موٹاپے کا شکار کردیتا ہے ، ایک روایت میں فرمایا گیا :”دو نعمتیں ایسی ہیں ان کے بارے میں بکثرت لوگ نقصان اور خسارے میں ہیں (یعنی ان سے کوئی ایسا کام نہیں لیتے جس سے دینی نفع ہو) ایک صحت اور دوسرے بے فکری“۔(بخاری ) اس سے پتہ چلا کہ زیادہ جاگنے اور بالکل بھوکے رہنے سے صحت خراب ہوجاتی ہے اور اس کا اثر انسان کے قوی پر پڑے گا اور وہ مضمحل ہو کر پھر دوسرے فرائض کی ادائیگی کے قابل نہ رہیں گے۔

اسی صحت ونوجوانی ، مالی وقتی فراغت کی اہمیت کو یوں بیان فرمایا: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں (کے آنے) سے پہلے غنیمت سمجھو( اور ان سے دین کے کاموں میں مدد لو) جوانی کو بڑھاپے سے پہلے غنیمت سمجھو اور صحت کو بیماری سے پہلے اور مال داری کو افلاس سے پہلے اور بے فکری کو پریشانی سے پہلے اور زندگی کو مرنے سے پہلے“ (المستدرک) اس سے معلوم ہوا کہ جوانی میں جو یہ صحت وقوت ہوتی ہے وہ اور فراغت اور مالی گنجائش بڑی نعمتیں ہیں۔

اس لیے تمام مضر صحت امور سے اجتناب کیا جائے اور صحت کے بگڑنے پر دوا علاج کا اہتمام کیا جائے اور صحت جسمانی کی نگہداشت کے جو بھی جائز ذرائع ووسائل ہوسکتے ہیں ان کو اختیار کیا جائے چوں کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اللہ تعالیٰ نے بیماری اور دوادونوں چیزیں اتاری ہیں اور ہر بیماری کے لیے دوا بھی بنائی ، سو تم دوا کیا کرو اور حرام چیز سے دوا مت کرو“ (ابو داؤد) اس سے پتہ چلا کہ صحت بھی مطلوب ومقصود ہے ، مضر صحت امور سے اجتناب اور گریز ، مضر صحت امور اور کھانے پینے کی چیزوں (جیسے فاسٹ فوڈ ، حد سے زیادہ کھانا ) وغیرہ ان چیزوں سے بھی احتراز کرنا چاہیے اور پھل فروٹ قدرتی اغذیہ ترکاری، معتدل مقدار میں گوشت ، انڈا مچھلی وغیرہ کا استعمال ہو، چکن مضر صحت ہوتا ہے، اس کے استعمال سے گریز کیا جائے، چوں کہ یہ انسانی دفاعی قوت ختم کرتا ہے، بہر حال باعث صحت چیزوں کا استعمال اور مضر صحت امور کا اجتناب کو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے فرمایا:”’یہ (کھجور) مت کھاؤ، تم کو نقاہت ہے، پھر میں نے چقندر اور جو تیار کیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اے علی (رضی اللہ عنہ)! اس میں سے لے لو، یہ تمہارے موافق ہے۔“(ترمذی) صحت کے متعلق بصیرت مند اور تجربہ کار لوگوں کے مشوروں پر عمل درآمد کرے۔

قوت وتوانائی کی برقراری کے لیے تگ ودو
انسانی قوی ہو، طاقت ور ہو، مضبوط وتوانا رہے، اس کے لیے کوشش کرنا اور اسباب اختیار کرنا بھی شرعا مطلوب ہے۔ کیوں کہ اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے:﴿وَاعِدُّوا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّن قُوَّةٍ﴾․ (الانفال:60)، اسی سلسلہ میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ : قوت والامومن اللہ تعالیٰ کے نزدیک کم قوت والے مومن سے بہتر اور زیادہ پیارا ہے:”المؤمن القوی خیر وأحب إلی الله من المؤمن الضعیف“ اور یوں سب میں خوبی ہے۔

جب قوت اللہ کے نزدیک پیاری چیز ہے تو اس کو باقی رکھنا اور بڑھانا اور جو چیزیں قوت کو کم کرنے والی ہیں ان سے احتیاط کرنا یہ سب مطلوب ہوگا، اس میں غذا بہت کم کردینا، نیند کا بہت کم کرنا، ہم بستری میں حد قوت سے آگے زیادتی کرنا، ایسی چیز کھانا جس سے بیماری ہوجائے یا بد پرہیزی کرنا، جس سے بیماری بڑھ جائے اور قوت کمزور پڑجائے، قوت کو باقی رکھنا کے لیے دوڑنا، پیادہ چلنے کی عادت ڈالنا، جن اسلحہ کی قانون سے اجازت ہے یا اجازت حاصل ہوسکتی ہے، تیر اندازی بھی کیا کرو اور گھوڑ سواری بھی (ترمذی) اور ایک روایت میں فرمایا کہ جس نے تیر اندازی سیکھی پھر اسے چھوڑ دیا وہ ہم میں سے نہیں (مسلم)

بقد کفاف مال ضروری
انسان کے پاس اپنی جان اور جسم کی حفاظت اور نگہدا شت کے لیے بقدر مال ہو اور فکروں سے آزاد ہو اور اسے فراغت قلب نصیب ہو… یہ بھی شرعا مطلوب ومقصود ہے، چوں کہ اللہ عزوجل نے مال کی تنگی سے جان میں پریشانی سے بچنے کا حکم دیا ﴿ولا تبذر تبذیرا﴾(بنی اسرأئیل:26)

اسی لیے ایک روایت میں جان میں امن اور بدن میں صحت اور اسی دن کے کھانے کی فراہمی کے ساتھ صبح کو باعث سعادت قرار دیا گیا، چناں چہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:جو شخص تم میں سے اس حالت میں صبح کرے کہ اپنی جان میں (پریشانی سے)امن میں ہو اور اپنے بدن میں ( بیماری سے) عافیت میں ہوااور اس کے پاس اس دن کے کھانے کو ہو (جس سے بھوکا رہنے کا اندیشہ نہ ہو) تو یوں سمجھو کہ اس کے لیے ساری دنیا سمیٹ کر دے دی گئی“(ترمذی) اس حدیث مبارکہ سے صحت اور امن وعافیت اور بقدر کفاف مال کے حصول کا مطلوب ہونا معلوم ہوا۔

یہ بھی ارشاد گرامی ہے:”جو شخص حلال دنیا کو اس لیے طلب کرے کہ مانگنے سے بچا رہے اور اپنے اہل وعیال کے (ادائے حقوق) کے لیے کمایا کرے اور اپنے پڑوسی پر توجہ رکھے تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ایسی حالت میں ملے گا کہ اس کا چہرہ چودہویں رات کے چاند جیسا ہوگا۔“ (شعب الایمان)

اس سے معلوم ہوا کہ کسب مال بقدر ضرورت دین بچانے کے لیے اور ادائے حقوق کے لیے بڑی فضیلت کی چیز ہے۔

اس لیے ہر شخص کو چاہیے کہ اپنے جسم کی، جان کی حفاظت کے لیے ان تین امور کا پاس ولحاظ رکھے، ہر کام کو اصول صحت کا پابند ہو کر شریعت کے احکام کی بجاوری کرتے ہوئے، صحت جسمانی ، توانائی وقوت جسمانی اور بقدر مال کفاف کے حصول کے ساتھ یکسوئی وفراغت کے ساتھ متوجہ الی اللہ ہو، یہ مطلوب وشرعا محمودا مر ہے، اس لیے اس کے لیے تگ ودو کرنا یہ دراصل شریعت کے احکام ہیں، البتہ صحت وقوت کی برقراری اور مال کے حصول کو ذریعہ آخرت اور زادروز محشر بنائے، ورنہ یہ توانیاں یہ فراوانیاں، یہ انگڑائیاں بسا اوقات انسان کے لیے سوہان روح اور جہنم کا ایندھن بن جاتی ہیں، اس لیے ہر امر میں وسط واعتدال کے ساتھ صحت، وقوت اور حلال مال کی جستجو اور فراوانی کے ساتھ متوجہ الی اللہ رہے، اپنی جان کی حفاظت کا حق ادا کرے تب ہی وہ حقوق اللہ وحقوق العباد کو تن د ہی کے ساتھ کرسکتا ہے ، اللہ عزوجل توفیق ارزانی عطا کرے۔ (آمین)