اپنی اصلاح کیوں اور کیسے؟

اپنی اصلاح کیوں اور کیسے؟

مولانا اسرار الحق قاسمیؒ

ہم اور آپ انسان ہیں اور ہمیں انسان ہونے پر فخر بھی ہے اور کیوں نہ ہو جب رب کائنات نے ہمیں فی احسن تقویم کا خطاب عطا کیا ہے اور دنیا کی تمام مخلوقات پر فوقیت اور افضیلت دی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا انسان اس گوشت پوست، ہاتھ پاؤں اور ناک کان کانام ہے اور یہ ظاہری ڈھانچہ ہی انسان کہلاتا ہے؟ اگر ہم اپنی عقل ودانش کو کام میں لائیں اور ذرا غور کریں تو ہم کو اس کا جواب نفی میں ملے گا، اس لیے کہ واقعات اس کی تردید کرتے ہیں، اس بات کو سمجھنے کے لیے میں ایک مثال پیش کرتا ہوں۔

زید ایک انسان ہے، جب تک وہ باحیات ہے اپنے مال ومتاع کا مالک رہتا ہے، زمین وجائیداد پر اس کا قبضہ ہوتا ہے۔ کسی کا باپ، کسی کا بھائی اور کسی کا شوہر کہلاتا ہے، اپنے دفتر کا افسر ہوتا ہے تو ماتحتوں پر اس کا حکم نافذ ہوتا ہے، اس کے حقوق کی حفاظت کی جاتی ہے، کسی کی مجال نہیں کہ اس کی جائیداد پر قبضہ کر لے، اس کا مال چوری کرے، اس کی بیوی کو اپنی بیوی بنائے، اگر کوئی شخص ایسا کرتا ہے تو قانوناً وہ شخص سزا کا مستحق ہو گا، لیکن جیسے ہی آخری سانس اس کے سینہ سے نکلی، اس کا مال ترکہ ہو جاتا ہے، دوسرے لوگ اس کے مالک ہو جاتے ہیں، اب نہ تو زمین اس کی رہی اور نہ بیوی اس کی رہی، اس کی لا ش گھر میں موجود ہوتی ہے، مگر اس کی ساری دولت دوسرے کی ہو چکی ہوتی ہے، جو مکان اس نے اپنے لیے تیار کیا تھا اب وہ غیروں کی ملکیت ہے، جن نوکروں اور ماتحتوں پر وہ حکم چلاتا تھا وہ کسی او رکی چشم وابرو کو دیکھتے ہیں، اس مثال سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انسان صرف گوشت پوست کا نام نہیں ہے، بلکہ اس کے اندر کوئی اور چیز موجود ہے، جس کے ہوتے ہوئے اس کو زندہ اور انسان کہا جاتا ہے اور جب وہ چیز اس سے جدا ہو جاتی ہے تو اس کو مردہ اور بے جان لاش تصور کیا جاتا ہے اور وہ چیز روح ہے، جب تک روح زید کے جسم میں موجود تھی وہ چلتا پھرتا تھا، دنیا کی نعمتوں سے مستفید ہوتا ہے، جب روح پرواز کر گئی تو اس کا دنیا سے تعلق ختم ہو گیا۔ انسان صرف جسم کا نام نہیں، بلکہ جسم اور روح کے مجموعہ کا نام ہے،جب تک روح جسد خاکی میں موجود ہوتی ہے، انسان انسان کہلاتا ہے او رجب اس کا تعلق اس سے ختم ہو جاتا ہے تو ایک بے جان لاش بن جاتا ہے، انسان نہیں رہتا۔

گویا انسان کا وجود دو چیزوں سے مر کب اور بنا ہوا ہے، ایک ظاہری خدوخال، جس کو ہم دیکھتے ہیں اور اس کے حسن وقبح کا فیصلہ کرتے ہیں، دوسرا باطنی جہاں، جسے نہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں اور نہ اسے چھو کر محسوس کرسکتے ہیں ، اسی باطنی دنیا میں ”روح“ آباد ہوتی ہے، اسی پوشیدہ دنیا میں دل دھڑکتا ہے، اسی میں خواہشیں جنم لیتی ہیں، اسی میں اُمنگیں اور آرزوئیں پروان چڑھتی ہیں،اسی میں سرور اور غم،نفرت اورمحبت، ایثار اوربغض جیسے جذبات پر ورش پاتے ہیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ یہی دنیا اور باطنی جہاں جسے ہم اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے، انسان کی اصل دنیا ہے، جب تک اس دنیا کا نظام چلتارہتا ہے انسان زندہ رہتا ہے اور اسے معاشرے میں تمام انسانی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔

تو جس طرح انسان کا ظاہری جسم کبھی تن درست ہوتا ہے اور جسم کے کسی حصہ میں تکلیف ہو تو پورا جسم اس سے تکلیف اور پریشانی محسوس کرتا ہے، اس طرح روح بھی کبھی بیمار ہوتی ہے اور اس کا اثر جسم کے سارے اعضاء پر ہوتا ہے، جس طرح نزلہ، زکام، بخار، درد سر…یہ سب جسم ظاہری کی بیماریاں ہیں، اسی طرح غم وغصہ ،خود غرضی، تکبر، ریا اور خود پسندی روح اور دل کی بیماریاں ہیں۔ انسان کی ظاہری بیماریوں کے لیے جس طرح علا ج کی ضرورت ہوتی ہے اور بغیر علاج اور پرہیز کے شفا نہیں ملتی، باطنی بیماریوں کے لیے بھی الله رب العزت اور جناب محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے علاج تجویز فرما دیا ہے او رکچھ پرہیز بھی بتائے ہیں، اگر انسان اس پر عمل کرے تو ان بیماریوں سے بچ سکتا ہے او رایک صحت مند اور بافیض معاشرہ وجود میں آسکتا ہے۔

سرکاردو عالم صلی الله علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال قبل اس علاج کی طرف راہ نمائی فرمائی تھی اور فرمایا تھا کہ خبردار رہنا! جسم میں ایک لوتھڑا ہے، اگر وہ درست رہا تو پورا جسم درست رہے گا اور اگر وہ بگڑ گیا تو پورا جسم بگڑ جائے گا۔ الله تعالیٰ نے دل کی بیماریوں کی طر ف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ان کے دلوں میں ( کفر ونافرمانی کی) بیماری ہے، سو الله نے بیماری کو اور بڑھا دیا، یہ بیماری کیا ہے؟ وہی جس کا اوپر ذکر ہوا، نفاق، حسد ، کینہ، تکبر، نخوت، حرص، بخل، جب جاہ،حب مال وغیرہ، جس کی وجہ سے کبھی اس کو خیر کی توفیق نہیں ہوتی، نصیحت کرنے والوں کی نصیحت کار گر نہیں ہوتی، ایسے لوگوں کو ڈرانا اور نہ ڈرانا دونوں برابر ہیں، جب دل کی بیماری اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ انسان حق کا انکار کرنے لگے، نصیحت کرنے والوں کو اپنا دشمن تصور کرے تو الله تعالیٰ ایسے لوگوں کے دلوں پر او رکانوں پر مہر لگا دیتے ہیں اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ جاتا ہے، جس کی وجہ سے نہ تو حق کی بات کو سنتے ہیں اور نہ اس میں غور وفکر کرتے ہیں اور نہ ہی اس کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، ایسے لوگوں کے لیے درد ناک عذاب ہو گا، الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:” جن لوگوں نے کفر کیا (اور ایمان لانے سے انکار کیا) ان کے لیے یکساں ہے، خواہ تم انہیں خبر کرو یا نہ کرو، بہرحال وہ ماننے والے نہیں ہیں، الله نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے، وہ لوگ سزا کے مستحق ہیں۔“ (البقرہ:6-7)

آج ہم جب انسانی معاشرہ پر نظر اٹھا کر دیکھتے ہیں، چاہے وہ کہیں کا معاشرہ ہو، اسلامی ممالک کا ہو غیر اسلامی ممالک کا ہو، ہر جگہ کی صورت حال اس معاملے میں تقریباً ایک ہی ہے، سوائے چند معاملات سے لے کر عبادات تک اور اخلاقیات سے لے کر تعلیمات تک، سارا نظام زندگی غیر اسلامی طریقہ پر چل رہا ہے، جس کا صاف اور واضح مطلب یہ ہے کہ یہ راستہ انسان کو کبھی بھی کام یابی اور کام رانی کی منزل تک نہیں پہنچاسکتا،اس لیے کہ انسان کی بھلائی کس میں ہے؟ کس طریقہ میں اس کا فائدہ ہے؟ کون سا طریقہ اسے نجات دے گا؟ دنیا اور آخرت میں ذلت ورسوائی سے بچا کر عزت وسرخ روئی اور کام یابی سے ہم کنار کرے گا؟ اس کو صرف اور صرف الله تعالیٰ جانتے ہیں، اس لیے کہ انہوں نے انسان کو پیدا کیا، اس کی ضروریات کو اس سے زیاہ الله رب العرت جانتے ہیں، اس کے فائدہ نقصان کو اس سے زیادہ جانتے ہیں۔

اسی لیے تو الله تعالیٰ نے یہ صاف لفظوں میں فرما دیا: ”یقینا فلاح اور کام یابی وہ شخص پا گیا، جس نے نفس کا تزکیہ کر لیا اور ناکام ونامراد ہو ا وہ شخص جس نے اس کو دبا دیا“۔ (الشمس:9-10) الله تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت وراہ نمائی کے لیے ایک ایسی کتاب نازل فرما دی جو ان کو صحیح راستہ، کام یابی کا راستہ بتانے والی ہے، اس کی اندرونی بیماریوں سے شفا دینے والی ہے اور ماننے والوں کے لیے رحمت ہے، وہ ایسی نعمت ہے کہ دنیا کی تمام ان نعمتوں کے مقابلے میں جسے انسان اکٹھا کرتا ہے، اس پر خوش ہونا چاہیے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”لوگو! تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آگئی ہے، یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اور جو اسے قبول کر لیں ان کے لیے راہ نمائی اور رحمت ہے۔ اے نبی! کہو کہ یہ الله کا فضل او راس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانا چاہیے، یہ سب ان چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں۔“ (یونس :58)

معلوم ہوا کہ باطنی امراض سے چھٹکارا پانے کا مکمل علاج قرآن کریم ہی ہے۔ چناں چہ الله تعالیٰ نے قرآن کریم کو نسخہ کیمیا بنا کر نازل فرمایا، ارشاد ہے : ”ہم نازل کرتے ہیں قرآن سے وہ چیز جو شفا اور رحمت ہے مومنوں کے لیے۔“ (الاسرار:82)

” اے محمد! کہہ دیجیے کہ یہ قرآن ایمان والوں کے لیے ہدایت اور شفا ہے۔“ (فصلت:24) مذکورہ بالا قرآنی آیات کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ انسان کی ہدایت وگم راہی کا تعلق اس کے باطنی جہاں سے ہے، یعنی اس کی روح اور دل سے اس کی وضاحت سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے اس پاک ارشاد کے ذریعے کر دی:” خبردار! جسم میں ایک لوتھڑا ہے، اگر وہ درست رہے تو پورا جسم درست رہتا ہے او راگر وہ بگڑ جائے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے، سن لو کہ وہ دل ہے۔“

دل کا بگڑنا یہ ہے کہ حق بات کو نہ سنے، الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت نہ کرے اور دل کا درست ہونا یہ ہے کہ اس کو خیر کی طرف رغبت ہو اور شر سے نفرت، جب تک یہ کیفیت ہمارے دلوں کے اندر پیدا نہ ہو ہم کو خود سے مطمئن نہیں ہونا چاہیے اور ہمیشہ الله رب العزت سے یہ دعا مانگتے رہنا چاہیے کہ اے الله! ہمارے قلوب کو ثابت قدمی عطا فرما۔ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم بھی یہی دعا مانگا کرتے تھے، اگر دل کو ثابت قدمی نصیب ہوگی تو یقین مانئے شریعت پر چلنا آسان ہو جائے گا، ورنہ ہماری زندگی تباہ و برباد ہو کر رہ جائے گی۔ دنیا میں بھی ذلت ورسوائی کا سامنا ہو گا اور آخرت کا عذاب اپنی جگہ، کیوں کہ ہم جب تک شریعت مطہرہ کے ایک ایک حصہ پر عمل نہیں کرتے، کامل مومن کہلانے کے مستحق نہیں اور جو لوگ کامل طریقے پر اسلام پر گام زن اور عمل پیرانہیں ہیں، ان کے بارے میں خود الله تعالیٰ کی جانب سے شدید وعید آئی ہے:” تو کیا تم لوگ کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں، ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل وخوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں؟!“ (البقرہ:85)