انسانی سعی وکوشش کے آثار ومظاہر

انسانی سعی وکوشش کے آثار ومظاہر

مولانا ابوالحسن علی ندویؒ

” اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے اور یہ کہ اس کی کوشش دیکھی جائے گی، پھر اس کو اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔“ (نجم:39 تا41)

حیات آفریں پیغام
یہ آیات صرف مسلمانوں ہی کو ہمت کا پیغام نہیں دیتیں، بلکہ پوری نوع انسانی کو اور ان سب لوگوں کو جو کوئی صحیح مقصد رکھتے ہیں، کسی مفید دعوت کے علم بردار ہیں، کسی اچھی بات کے لیے جدوجہد کرنا چاہتے ہیں، کسی عظیم مقصد کے لیے وہ کھڑے ہوئے ہیں، ان سب کے لیے ان آیات میں حیات نو کا پیغام ہے اور خاص طور پر ہماری تعلیم گاہوں کے لیے، اصلاحی مراکز کے لیے او رخاص ان مرکزوں کے لیے جہاں پر نوجوان ہوں ،امت کے اور ملت کے بچے وفرزند ہوں، جن کی اٹھتی ہوئی عمر ہے اور چلتی ہوئی کشتی ہے، تو ان کے لیے اس آیت میں پورا دستور العمل ہے اور ایک چراغ راہ ہے۔

الله تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کے لیے اتنا ہی ہے جس کی وہ کوشش کرے اور پھر الله تعالیٰ فرماتا ہے اور خاص طریقہ ادائے قرآنی کے ساتھ فرمایا گیا:﴿وأن سعیہ سوف یری﴾(اور اس کی کوشش ایک مرتبہ نظر آکر رہے گی) یہ بھی قرآن کا اعجاز ہے کہ یہاں ”سوف“ کا لفظ استعمال ہوا، جو عام طور پر مستقبل بعید کے لیے استعمال ہوتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر جلدی تمہیں نتائج نظر نہ آئیں تو مایوس نہ ہونا ”سوف یری“ وہ نتیجہ نظر آئے گا، جو کچھ دنیا میں دیکھ رہے ہیں، سلطنتوں کا قیام، تہذیبوں کا عروج، علوم وفنون کی اشاعت، باکمال لوگوں کا پیدا ہونا، سب انسانی سعی وجہد کے ظہور کے نتائج ہیں اور قرآن مجید کی اس آیت کی تفسیر ہے:
        عزم راسخ ہے نشانِ قیس وشانِ کوہ کن
        عشق نے آباد کر ڈالے ہیں، دشت وکوہ سار
یہ شاعری کی بات نہیں، یہ اصل میں قرآن کی ترجمانی ہے۔

کوشش کا نتیجہ ضرور نکلے گا
اس لیے امت کے تشخص کی حفاظت کی ذمہ داری خود ملت کا فرض ہے۔ قرآن مجید نے صرف فرد کو مخاطب کرکے نہیں فرمایا، ہر فرد او رہر ملت کے لیے قانون ِ خدا وندی یہی ہے:
﴿وان لیس للانسان الاماسعی﴾․ (اور انسان کو صرف اپنی ہی کمائی ملے گی)۔

انسان کو اپنی زندگی اور زندگی کے بعد کی زندگی میں اتنا ہی حصہ ملتا ہے، جس کی اس نے کوشش کی، اس کے حصے میں اس کی سعی آئے گی اور سعی کے نتائج آئیں گے، وہ چند فیصلے جو الله تعالیٰ کے ہاں طے شدہ ہیں اور وہ قرآنی حقیقتیں اور صداقتیں جوابدی ہیں، ان میں سے ایک حقیقت یہ ہے:
﴿وان لیس للانسان الا ما سعی﴾․
(اور انسان کو وہی ملے گا جس کی اس نے کوشش کی ہے)

یہ الله تعالیٰ فرمارہا ہے ۔ وہ جب کہہ رہا ہے کہ کوشش شرط ہے اور انسان کی کوشش ہی کا نتیجہ نکلے گا تو پھر دوسرا انسان کیا کہہ سکتا ہے، نہیں ہے انسان کے لیے مگر جس چیز کی اس نے کوشش کی ہے : ﴿وان سعیہ سوف یری﴾ او راس کی کوشش کا نتیجہ ظاہر ہو گا، اس کی کوشش کا نتیجہ دکھائی دے گا، آنکھوں کو دکھائی دے گا کہ جو کوشش کی تھی اس کا نتیجہ یہ نکلا، پھر اس کے بعد بڑی بشارت سناتا ہے:﴿ثم یجزاہ الجزاء الاوفی﴾ الاوفی اسم تفصیل کا صیغہ ہے، اتنا آپ جانتے ہوں گے۔ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ پھر اس کو بدلہ دیا جائے گا، بھر پور بدلہ ، زیادہ سے زیادہ بدلہ۔ ایک تو انسان کی کوشش ضائع نہیں ہو گی۔ کوشش کا نتیجہ نکلے گا، پھر انسان کی کوشش کانتیجہ اس کی توقع سے، اس کے استحقاق سے، اس کی محنت کی مقدار سے بھی بڑھ کر نکل سکتا ہے اور الله تعالیٰ بشارت سناتا ہے کہ ہو گا ایسا ہی اور ساری تاریخ بتاتی ہے، علم کی تاریخ بتاتی ہے، دعوت واصلاح کی تاریخ بتاتی ہے، کاموں سے اشتراک کی تاریخ بتاتی ہے، تحقیقات وتصنیفات کی تاریخ بتاتی ہے، اصلاحی کاموں کی تاریخ بتاتی ہے کہ کوشش کا نتیجہ بعض اوقات ہی نہیں، بلکہ اکثر اوقات کوشش سے زیادہ نکلا، کوشش کا جو پیمانہ تھا، اس کا جو سائز تھا، اس سے بہت بڑھ کر نتیجہ نکلا ، وہ نتیجہ کوشش کے سائز سے بہت بڑھا ہوا تھا، اس سے بڑھ کر بشارت کیا ہوسکتی ہے؟

آپ اگر پکڑ لیں اس بات کو اور دل پر لکھ لیں کہ ہم کوشش کریں گے تو کوشش کا نتیجہ ضرور نکلے گا، امید ہے کہ کوشش کی حیثیت سے بڑھ کر نکلے گا، توقع سے بڑھ کر ، قیاس سے بڑھ کر نکلے گا اور اس کے لیے نہ کسی بہت بڑی جگہ کی ضرورت ہے، نہ کسی بڑی دانش گاہ کی ضرورت ہے، نہ کسی بڑے اونچے خاندان کی ضرورت ہے، نہ بہت اعلیٰ درجہ کے اساتذہ کی ضرورت ہے، نہ بہت وسیع کتب خانہ کی ضرورت ہے، اس کے لیے کوشش کی ضرورت ہے، نیت کی ضرورت ہے، سنجیدگی اور دیانت داری کی ضرورت ہے۔

محنت او رحسن نیت واخلاق یہ دو چیزیں جمع ہو جائیں تو پھر وہ ضائع نہیں ہوگا ، الله تعالیٰ فرمارہا ہے، جو کہ عالم الغیب اور قادر مطلق بھی ہے ، مخبر صادق بھی ہے اور رب العالمین بھی ہے ، وہ جب فرماتا ہے، اعلان کرتا اور اس کی ذمہ داری لیتا ہے :﴿وان سعیہ سوف یری﴾اور اس کی کوشش کا نتیجہ ظاہر ہو کر رہے گا تو پھر دنیا میں اس کے بعد کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں رہی، کچھ اس میں اضافہ ہو ہی نہیں سکتا۔

یہ ایک حیات آفریں پیغام ہے، تمام انسانی نسلوں اور تاریخ کے تمام ادوار کے لیے کہ انسان کی کوشش کا نتیجہ ضرور برآمد ہو گا او راس کے اثرات ونتائج مشاہدہ میں آئیں گے، پھر اس کو اس کوشش کا بھرپور بدلہ ملے گا۔

چراغ زندگی اور دستور العمل
قرآن مجید کی اس آیت میں پورا پیغام ہے، زندگی کا پورا پیغام اس کے اندر ہے، زندگی کس طرح گزارنی چاہیے، زندگی کے لیے کیا سامان پیدا کرنا ہے، زندگی دینی زندگی ہو، علمی زندگی ہو، دعوتی زندگی ہو، اصلاحی زندگی ہو، ان سب کے لیے کس طرح تیاری کرنی چاہیے او ران تیاریوں کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ اس لیے کہ انسان کی فطرت میں ہے کہ اس کو فائدہ بھی معلوم ہونا چاہیے، کون سی کوشش کا کیا فائدہ ہے؟ فلاں دوا کا کیا خاصہ ہے؟ فلاں بیج کا کیا مادہ ہے؟ اور فلاں میدان کا کیا تقاضا ہے ؟ یہ انسان کی فطرت ہے۔ الله تعالیٰ نے یہ آیت ذہن میں القا فرمائی اور دل میں ڈالی، جس میں پوری زندگی کا نظام آگیا ہے اور پورا قانون آگیا ہے اور آپ اس آیت کو سمجھ لیں، اس کو اپنا دستور العمل اور اپنا راہ نما بنالیں اور اس آیت کی صداقت پر آپ ایمان لے آئیں اور یقین کر لیں اور دل میں اس کو اتار لیں، اس لیے کہ یہ الله تعالیٰ کا ارشاد، الله تعالیٰ کا فرمایا ہوا ہے، دنیا کے تمام حکماء اور بڑے بڑے ذہین لوگ بھی کوئی بات کہتے ہیں کہ یہ ہو گا اور ایسا ہوگا، اس کا یہ نتیجہ نکلے گا تو اس کا پورا سو فیصدی اعتبار نہیں کیا جاسکتا، یہ زندگی کا تجربہ ہے او رتاریخ کا مطالعہ ہے کہ کتنے آدمیوں کی پیشن گوئی غلط نکلی او رکیسے کیسے فائدے فلاں فلاں چیز کے بتائے گئے تھے، ان میں سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔

پوری تاریخ اس سے بھری ہوئی ہے، لیکن جب الله تعالیٰ فرما دے کہ اس کا یہ خاصہ ہے، یہ کرو گے تو اس کا یہ نتیجہ نکلے گا تو پھر اس کے خلاف ہو ہی نہیں سکتا، پھر ایسی کیا بات ہے کہ کہی جائے کہ اس کو آپ اپنا دستور العمل بنالیں ، اس کو اپنا چراغ زندگی بنالیں اور اس کی روشنی میں آپ چلیں۔

انسانی سعی کی جس نتیجہ خیزی او ربار آوری کا اس آیت میں اظہار کیا گیا ہے، وہ ایک حوصلہ افزا اور حیات بخش پیغام ہے، اقبال نے انسان کے لیے کہا تھا #
        عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
        یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے