انبیاء کی بعثت انسانیت کی سب سے اہم ضرورت

انبیاء کی بعثت انسانیت کی سب سے اہم ضرورت

مولانا خالد سیف الله رحمانی

خدا نے انسانوں کی جو بستی بسائی ہے ، وہ کتنی وسیع، کتنی خوب صورت اور کتنی متنوع ہے! ہزاروں مخلوقات ہیں اور ہر ایک دوسرے سے مختلف، بلکہ اپنی صلاحیتوں اور عادتوں کے اعتبار سے بالکل متضاد کیفیتوں کی حامل، لیکن ایسا لگتا ہے ان کو ان کے کاموں کے بارے میں قدرت نے کوئی کتاب پڑھا دی ہے، وہ ایک مقررہ دستور کے مطابق اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہیں، سورج کو معلوم ہے کہ اسے مشرق سے نکلنا ہے او رمغرب کی سمت میں ڈوبنا ہے، سمندر ہزاروں سال سے اپنے دائرہ میں مسلسل بہہ رہا ہے او راپنی تلاطم خیز موجوں کے ساتھ کروٹیں لیتا رہتا ہے، وہ فضا کو بادل کی سوغات دیتا ہے اور دن رات زمین کی آلائشوں کو تحلیل کرنے میں لگا ہوا ہے، درخت مسلسل لگتا ہے کہ یہ سب پڑھی پڑھائی اور سیکھی سیکھائی مخلوقات ہیں، جن کو اپنی ایک ایک ڈیوٹی کا علم ہے۔

جمادات ونباتات ہی نہیں، حیوانات کا بھی یہی حال ہے، جو چلتے پھرتے دوڑتے بھاگتے ہیں، ان کا کھانا پینا، لڑنا جھگڑنا، اپنی غذاؤں کا تلاش کرنا،حملہ کرنا اور مدافعت کرنا ہم اپنے سرکی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ قدرت نے ان کو بھی ان کی زندگی کا دستور پڑھا اور سمجھا دیا ہے، گائے، بکری گھاس اور درخت کے پتے کھاتی ہے، شیر اور باز زندہ جانوروں کا شکار کرتا ہے، چیل مردار کی تلاش میں چپہ چپہ ڈھونڈتا پھرتا ہے، بعض جانور ہیں جو چارہ بھی کھاتے ہیں او راپنے سے چھوٹے جانوروں کو بھی ہضم کر جاتے ہیں، پرندوں کو اپنا گونسلا بنانا اور چوہوں کو اپنا سرنگ نما مکان بنانا معلوم ہے، مکڑے جالے بنتے ہیں اور شہد کی مکھیاں اپنا چھتہ تیار کرتی ہیں، جس میں اتنے کمرے ہوتے ہیں کہ شاید بادشاہوں کے محلات میں بھی نہ ہوتے ہوں۔

کیا یہ سب کچھ ان مخلوقات نے آپ سے آپ جان لیا؟ قرآن نے اس کا جو جواب دیا ہے وہ یہ کہ یہ سب الله کی راہ نمائی اور ہدایت کا نتیجہ ہے ، اسی کو الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:﴿رَبُّنَا الَّذِیْ أَعْطَی کُلَّ شَیْْء ٍ خَلْقَہُ ثُمَّ ہَدَی﴾ (طہ:50) یعنی یہ رب کائنات کا کمال ہے کہ اس نے ہر چیز کو صورت بھی بخشی اور اسے اپنے وجود اور زندگی کے بارے میں راہ بھی سمجھائی اور سلیقہ بھی سکھایا۔ قرآن نے ایک اور موقعہ پر بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے ، (اعلیٰ:3) جیسے دین اور آخرت کے بارے میں راہ نمائی ہدایت ہے، ویسے ہی دنیا میں کسی بھی مخلوق کو زندہ رہنے اور زندگی گزارنے کا جو طریقہ ودیعت کیا گیا ہے، اسے بھی قرآن ”ہدایت“ سے تعبیر کرتا ہے۔

اور یہ کچھ جانوروں ہی کے ساتھ مخصوص نہیں، حضرت انسان کے وجود میں بھی اس ہدایت ربانی کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے ، بچہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے اور ماں کی چھاتی کی طرف لپکتا او راس سے دودھ پیتا ہے، آخر اس شیرخوار بچے کو کس نے بتایا کہ تمہاری غذا ماں کے سینہ میں ہے؟ اورپھر اس غذا کو ماں کے سینہ سے کشید کرنے کا سلیقہ کس نے سکھایا؟ ذراسی بے توجہی ہو تو بچہ کا رونا او رپیار پربچہ کا مسکرانا، یہ بھی اسی ہدایت ربانی کا مظہر ہے، اس گونگے، بے زبان اور بے شعور بچہ کو کس نے سکھایا کہ دکھ اور درد کا اظہارر وکر اور خوشی کا اظہار ہنس کر اور مسکرا کر کیا جاتا ہے؟

تو جب خدا نے ہر چیز کو ایک مقصد کے لیے پیدا کیا ہے اور اسے قدرتی طور پر دنیا میں رہنے سہنے کا طریقہ بتا دیا ہے، تو کیا انسان کو اپنی زندگی بسر کرنے کے لیے کسی طریقہ اور نظام کی ضرورت نہ ہوگی؟ یقینا ہو گی، بلکہ زیادہ ہوگی، کیوں کہ انسان ایک گونہ بااختیار مخلوق ہے او رعقل وخرد کی نعمت نے اس کی نیکی اور بدی کے دائرہ کو بہت وسیع کر دیا ہے، شیر ایک وقت میں ایک ہی انسان یا حیوان کو شکار بناتا ہے، سانپ ایک بارڈس کر ایک وجود کو فنا کرسکتا ہے، لیکن انسان کا حال یہ ہے کہ وہ ایک ایٹم بم کے ذریعہ بیک وقت ایک پورے خطہ کو تباہ وبرباد کرسکتا ہے او ربیک جنبش پلک لاکھوں انسانوں کی جان لے سکتا ہے، اس لیے ظاہر ہے کہ وہ سب سے زیادہ اس بات کا محتاج ہے کہ جینے اور مرنے کا سلیقہ سیکھے او رزندگی گزارنے کا طور وطریق جانے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ انسان کو زندگی گزارنے کا طریقہ کون بتائے؟ ہم اپنی عملی زندگی میں غور کریں توایک سیدھی سادھی اور دیکھی جانی حقیقت یہ ہے کہ جو شخص کسی مشین کو بناتا ہے او رکسی شے کو ایجاد کرتا ہے، وہی اس کی ضروریات سے آگاہ بھی ہوتا ہے اوراس کے لیے مناسب اور غیرمناسب اور درست ونادرست طریقہٴ استعمال کے فیصلے بھی کرسکتا ہے، صانع ہی بتا سکتا ہے کہ اس کی صنعت کو کس طرح استعمال کیا جائے؟ اور موجد ہی راہ نمائی کرسکتا ہے کہ اس کی ایجاد کس طور کام میں لائی جائے؟ اس لیے جب الله تعالیٰ انسان کے خالق اور رب ہیں، اسی نے ہمیں پیدا کیا ہے اوراسی کے اشارہ وحکم سے ہم اس کائنات میں زندہ ہیں، تو ضروری ہے کہ وہی ہمیں زندگی کے طوروطریق بھی سمجھائے اور اسی کا دیا ہوا نظام حیات ہمارے لیے مفید ہوسکتا ہے، اسی لیے الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:﴿ أَلاَ لَہُ الْخَلْقُ وَالأَمْر﴾ (اعراف:54) کہ الله ہی انسان کا خالق ہے او راسی کے اوامرواحکام انسان کے لیے واجب الطاعت ہیں، ایک او رموقعہ پر ارشاد ہوا کہ حکم اور فیصلہ کا حق صرف الله ہی کو ہے ﴿ِ إِنِ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلّہ﴾․ (انعام:57)

دنیا میں بھی آپ جب کسی کمپنی سے کوئی بڑی مشین حاصل کرتے ہیں تو وہ ایک طرف اس مشین کی تفصیلات پر مشتمل کتاب ورسالہ آپ کے حوالہ کرتی ہے اور ساتھ ساتھ اپنے ایک انجینئر کو بھی آپ کی مدد کے لیے بھیجتی ہے کہ کتاب میں جو نظریہ اور تھیوری بیان کی گئی ہے یہ انجینئر اورماہر کاریگر اس کو عملی طور پر برت کر دکھائے اور محسوس طریقہ پر سمجھائے، کسی تمثیل کے بغیر یہی صورت آسمانی کتاب او رانبیاء کی ہے، الله کی کتابیں نظام حیات کی راہ نمائی کرتی ہیں کہ انسان کو اس دنیا میں اپنی صلاحیتیں کس طرح استعمال کرنی چاہییں۔ یہ کتابیں دستور ہیں اور پیغمبر کی زندگی اس کی عملی تصویر ہے، گویا پیغمبر کتاب الہٰی کی شرح اور اس کا بیان ہوتا ہے، ایک ایک حرف جو اس کی زبان سے نکلے، ایک ایک عمل جو اس کے اعضاء وجوارح سے صادر ہو او رایک ایک اختیاری کیفیت جو اس پر طاری ہو، منشاءِ ربانی کا عملی اظہار او رانسانیت کے لیے اسوہٴ ونمونہ ہے، اسی لیے فرمایا گیا کہ جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے الله کی اطاعت کی﴿ مَنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّہَ﴾․(النساء:80)

گویا نبوت محض قلب وذہن کی تسلی کا سامان اور آخرت کی فلاح ونجات ہی کا ذریعہ نہیں، بلکہ یہ سب سے بڑی انسانی ضرورت ہے،جیسے وہ اپنے پیٹ کے لیے غذا کا ، تن ڈھکنے کے لیے لباس وپوشاک کا ، علاج کے لیے دوا کا او راپنی مدافعت اور حفاظت کے لیے اسلحہ او رہتھیار کا محتاج ہے، اس سے بڑھ کر وہ انبیاء او رانبیاء کی تعلیمات کا محتاج ہے، کیوں کہ انبیاء کی تعلیمات اس کے پورے وجود کے لیے غذا ہیں، وہ ذہن ودما غ کو بتاتی ہیں کہ انہیں کیا سوچنا چاہیے؟ وہ آنکھوں کی راہ نمائی کرتی ہیں کہ انہیں کیا دیکھنا اور کیا نہ دیکھنا چاہیے؟ وہ زبان کو ہدایت دیتی ہیں کہ الله کی اس عظیم نعمت کا استعمال کن مقاصد کے لیے کیا جائے او رکن مفاسد سے بچا جائے؟ وہ ہاتھوں سے کہتی ہیں کہ یہ ظلم اور ظالموں کے خلاف اُٹھے، نہ کہ مظلوموں اور کم زوروں کے خلاف، وہ پاؤں کو بتاتی ہیں کہ اسے نیکی او رحق کی راہ میں چلنا چاہیے، نہ کہ باطل اور برائی کے راستہ میں اور اس کی چال تواضع وانکسار اور عجز وفروتنی کی ہونی چاہیے ،نہ کہ کبر وافتخار او رغرور واستکبار کی۔

انسان خلوت میں ہو یا جلوت میں، بزرگوں کے ساتھ ہو یا عزیزوں کے ساتھ، محفل طرب میں ہو یا کارزار حرب میں، دشمنوں کا سامنا ہو یا دوستوں کا، عدالت کی کرسی پر ہو یا ملزم کے کٹہرے میں، تخت اقتدار پر ہو یا کسی کے اقتدار کے تحت، استاذ ہو یا طالب علم، آقا ہو یا غلام، تجارت وکاروبار میں ہویا الله تعالیٰ سے راز ونیاز میں، رنج والم کی شام ہو یا مسرت وشادمانی کی صبح، فتح سے ہم کنار ہو یا شکست سے دو چار، وہ اولاد ہو یا ماں باپ، شوہر وبیوی ہو یا بھائی بہن ہو، مریض ہو یا معالج ہو، تیمار دار ہو یا خود تیمار داری کا محتاج، سرمایہ دار اور آجر ہو یا مزدور واجیر، قرض دہندہ ہو یا مقروض اور دولت مند ہو یا غریب، جوان ہو یا بوڑھا، سفر میں ہو یا حضر میں، عالم ہو یا جاہل، خدا کی توفیق سے نیک عمل اس نے کیے ہوں یا اس کا دامن عمل گناہ سے آلودہ ہو، غرض ہر موقعہ پر او رہر حالت اور کیفیت میں اسے انبیاء کی پاکیزہ تعلیمات اور روشن ہدایات مطلوب ہیں؛ اس لیے یقینا انسانیت پر اس کے خالق کا سب سے بڑا احسان انبیاء کی بعثت اور آسمانی کتابوں کے نزول کا نظام ہے، جو انسان اس سے محروم ہو وہ ایک کھاتا پیتا ، سوتا جاگتا اور ہنستا بولتا ترقی یافتہ حیوان تو ہوسکتا ہے، لیکن حقیقی او راپنی حقیقت سے آشنا انسان نہیں ہوسکتا!