امانت داری کی اہمیت،مفہوم اوراس کے تقاضے

امانت داری کی اہمیت،مفہوم اوراس کے تقاضے

مولانا ابوبکر حنفی شیخوپوری

باہمی معاملات اور لین دین میں امانت داری کا مظاہرہ کرنا اوردیانت داری کادامن تھامے رکھنا شریعت اسلام کی اہم ترین تعلیمات میں سے ہے۔امانت داری صرف اخلاقیات ہی نہیں،بلکہ ایمانیات کا بھی حصہ ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”اس شخص کے ایمان کا کوئی اعتبار نہیں جس میں امانت داری نہیں“۔یعنی اگر کوئی شخص کسی معاملے میں کسی پر بھروسہ کرے اور جس پر بھروسہ کیا گیا ہے وہ اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے ایمان میں ابھی نقص ہے اور وہ درجہ کمال تک نہیں پہنچا۔

دیانت داری اسوہٴ رسول صلی الله علیہ وسلم اور بددیانتی شیوہٴ ابو جہل ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرة طیبہ اور حیاة مبارکہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات میں امانت داری کا وصف بہت نمایاں تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم پورے مکہ میں صادق اور امین کے عالی القابات سے پکارے جاتے تھے،مشرکین آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید ترین اختلافات کے باوجود اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھواتے تھے،حالاں کہ مکہ کا سردار ابو جہل تھا، لیکن اہل مکہ کا اعتمادابوجہل کے بجائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تھا ،کیوں کہ ابو جہل کی بددیانتی کے قصے سارے شہر میں زبان زد عام تھے، جس کی ادنی سی جھلک باری تعالی نے قرآن کریم میں یہ دکھلائی﴿ فَذَٰلِکَ الَّذِی یَدُعُّ الْیَتِیمَ﴾ (الماعون:2) ”وہ شخص یتیم کو دھکے دیتا ہے“۔مفسرین کے مطابق یہ آیت ابو جہل کے بارے میں نازل ہوئی ،اس کی عادت تھی کہ جب مکہ کا کوئی رئیس مرض الوفات میں ہوتا اور اس کی اولاد نابالغ اور بے سمجھ ہوتی تو اس کو جا کر یقین دلاتا کہ اپنی جمع پونجی میرے حوالے کر دو،میں وقت آنے پر آپ کے بچوں کو لوٹا دوں گا،وہ شخص سردار ہونے کی وجہ سے اس پر اعتماد کرتے ہوئے اپنا تمام وراثتی مال اس کے سپرد کر دیتا ،پھر جوان ہونے کے بعد وہ یتیم اولاد اس سے امانت کی ادائیگی کا مطالبہ کرتی تو اسے دھکے دے کر واپس بھیج دیتا۔معلوم ہوا کہ دیانت داری اسوہٴ پیغمبر صلی الله علیہ وسلم اور بددیانتی شیوہٴ ابوجہل ہے۔

دیانت داری کے فوائد و ثمرات
دیانت داری پر قیامت کے دن سرخ روئی اورجنت کی نعمتیں تویقینا حاصل ہوں گی، لیکن اس عظیم وصف کا حامل ہونے اور اس عمدہ خصلت کا خوگر ہونے کی بدولت دنیا میں بھی اللہ تعالی ایمان دار شخص کوبہت سے فوائداور ثمرات سے نوازتا ہے،ایسے شخص کو اللہ تعالی دنیا والوں کی نگاہ میں بلند مرتبہ کرتے ہیں اور ہر کوئی اس کی عزت و تکریم کرتا ہے،ہر طرف اس کی نیک نامی کے چرچے ہوتے ہیں، ایمان دار شخص کے رزق میں برکت ہوتی ہے اوراس کا کاروبار پھلتا اور پھولتا ہے ۔ سب سے بڑا فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ اس کا اور اس کی اولاد کا پیٹ حرام غذا کی پرورش پانے سے بچ جاتا ہے ۔امانت داری کا مظاہرہ کرنے میں خدمت ِ خلق کا پہلو بھی مضمر ہے، جو بذات خود ایک بڑی عبادت ہے، جس سے خدا ملتا ہے ،اس لیے کہ ہر شخص کی ضرورت ہے کہ بامر مجبوری اپنی چیز دوسرے کے پاس رکھے اور پھر اس کی امانت اس تک بحفاظت اور اسی معیار اور اتنی مقدار میں پہنچے جیسے اس نے رکھوائی تھی ،لہٰذا جو شخص لوگوں کی یہ ضرورت پوری کر رہا ہے وہ ایمان داری پر ملنے والے ثواب کے ساتھ ساتھ خدمت ِ انسانیت کا اجر بھی حاصل کر رہا ہے۔

بددیانتی کے نقصانات
جو شخص اس اہم دینی تعلیم اور اسلامی ہدایت کو نظر انداز کر دے اور بددیانتی اور کرپشن کو اپنا شعار بنا لے اسے دنیا اور آخرت میں بہت سے نقصانات اٹھانے پڑتے ہیں ۔دنیوی نقصان یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کا اعتماد اٹھ جانے کے باعث اس کا کاروبار اور روزگار بری طرح متاثر ہوتاہے،خود کو اور اہل و عیال کو حرام کھلانے کی وجہ سے رزق سے برکت اٹھ جاتی ہے۔لوگ اپنی ذاتی مجبوریوں کی وجہ سے اور اس کے شر سے بچنے کے لیے منھ پر چاہے عزت کریں لیکن پیٹھ پیچھے ہر زبان پر اس کی برائی ہوتی ہے۔ ایسی بدنامی گلے پڑتی ہے کہ مرنے کے بعد بھی کوئی اچھے الفاظ میں اس کا ذکر نہیں کرتا۔

اخروی نقصانات کی فہرست بھی بہت طویل ہے۔ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ بددیانت شخص اللہ کی محبت سے محروم ہوجاتا ہے ،جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ”بے شک اللہ اس شخص سے محبت نہیں کرتا جو خائن (اور) گناہ گار ہو“۔(النساء:107)۔ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ اعتقاداََ تو مسلمان رہتا ہے، لیکن عملاََ منافقین کی فہرست میں شامل ہو جاتا ہے، جو کہ کفر کی قبیح ترین قِسم ہے،حدیث میں ہے ”منافق کی چار نشانیاں ہیں جب بات کرے تو جھوٹ بولے اور جب وعدہ کرے تو اس کو پورا نہ کرے اورجب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے اور جب وہ جھگڑا کرے تو گالی گلوچ کرے“۔خیانت کاسب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ جو مال دنیا میں بددیانتی سے لیا تھا قیامت کے دن اس کا خمیازہ اس کو بھگتنا پڑے گااور جب صاحبِ حق بارگاہ الہٰی میں پیش ہو کر اپنے حق کا مطالبہ کرے گا تو خائن شخص کو بدلے میں اپنی نیکیاں دینی پڑیں گی،ایک کے بعد دوسرا ،دوسرے کے بعد تیسرا ،یوں صاحب ِ حق آتے جائیں گے اور اس کی نیکیاں لیتے جائیں گے،نوبت یہاں تک پہنچے گی کہ اس کی سب نیکیاں ختم ہو جائیں اور پھر جو صاحب حق آئے گا اس کے گناہ اس بددیانت شخص کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اصل میں مفلس شخص یہی ہوگا۔

امانت کا مفہوم
ہمارے معاشرے کا اکثریتی طبقہ امانت و دیانت کو مالی معاملات اور حسی چیزوں تک محدود سمجھتا ہے،عام لوگوں کا خیال یہ ہے کہ امانت داری صرف یہ ہے کہ چیز پوری مقدار میں کوئی عیب پیدا کیے بغیر مالک کے حوالے کر دی جائے ،اس میں شک نہیں کہ یہ بھی امانت کے مفہوم میں داخل ہے، لیکن ایمان داری اسی ایک جزئی میں منحصر نہیں ہے،احادیث طیبات کے مطالعہ سے بہت سی ایسی چیزیں سامنے آتی ہیں جنہیں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بجا طور پر امانت داری میں شمار کیا ہے،وہ چیزیں یہ ہیں:

مجلس کی بات امانت ہے
اگر کسی مجلس میں کوئی معاملہ طے پائے اور شرکائے مجلس میں اس کو خفیہ رکھنے پر اتفاق ہوا ہو تو ایسی بات کا افشاء کرنا بھی بددیانتی کے زمرے میں آتا ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”مجلس کی باتیں امانت ہوتی ہیں“۔البتہ اگر خلاف شرع کام کرنے یا کسی کو نقصان پہنچانے کے متعلق بات چیت ہوئی ہو تو ایسی بات کو ظاہر کرنا صرف جائز ہی نہیں، بلکہ واجب ہے ،چناں چہ مذکورہ بالا حدیث میں ہی ارشاد نبوی ہے:”مگر تین قسم کی مجلسیں ایسی ہیں جن کی بات ظاہر کی جائے گی ،وہ ناحق خون کابہانا یا بدکاری کرنا یا کسی کا ناحق مال لینا ہے“(مشکوة)۔

مشورہ امانت ہے
اگر کوئی شخص کسی معاملے میں کسی سے رائے طلب کرے تودیانت داری کا تقاضا یہ ہے کہ اس کودرست مشورہ دے ۔اگر مشورہ دینے والا سمجھتا ہے کہ اس کام میں اس کا نقصان ہے ،پھر بھی اس کواس کے کرنے کی تجویز دیتا ہے تو یہ سراسر خیانت کامرتکب ہو رہا ہے ،چناں چہ ارشاد نبوی ہے”جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امین ہوتا ہے“۔(بخاری ومسلم)

عہدہ امانت ہے
شرعی اصولوں کی روشنی میں عہدہ کی سپردداری کے لیے دو بنیادی شرطیں ہیں،ایک یہ کہ جس شعبہ کا اس کو ذمہ دار بنایا جا رہا ہے اس کے متعلق اسے تمام تر معلومات ہوں اور وہ اس کے خدوخال سے واقف ہو۔دوسرا یہ کہ وہ ایمان دار ہو، جو حکومتی وسائل کابے موقع ،بے دریغ اور ذاتی مفاد کی خاطر استعمال نہ کرتا ہو۔قران کریم میں حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ کے ضمن میں ہے کہ جب انہوں نے عزیر مصر سے وزارت خزانہ کا مطالبہ کیا تو اپنی انہیں دو خوبیوں کو پیش کیا،چناں چہ ارشاد فرمایا” (اے عزیز مصر!)میرا زمین کے خزانوں پر تقرر کیجیے ،بلا شبہ میں (مال کی) حفاظت کرنے والا (اوروزارت خزانہ سے متعلق امور کو)جاننے والا ہوں۔“ (یوسف:55) اگر ایسے شخص کو عہدہ دیا جائے جو اس کا اہل نہ ہو تو یہ بھی بدترین قسم کی خیانت اور بلی کو دودھ کی رکھوالی پر بٹھانے کے مترادف ہے۔حدیث میں ہے کہ ایک اعرابی نے بارگاہ رسالت میں آکر سوال کیا:یارسول اللہ!قیامت کب آئے گی؟ فرمایا: جب امانت کو ضائع کیا جانے لگے تو پھر تو قیامت کا انتظار کر۔اس نے عرض کیا:امانت کیسے ضائع کی جائے گی؟ فرمایا: جب معاملات نااہل کے سپرد کیے جائیں تو پھر تو قیامت کا انتظار کر۔(مشکوة)

خلاصہ یہ کہ کوئی شخص کسی بھی بدعنوانی کا مرتکب ہو اور شرعی اصولوں کو نظر انداز کر کے اپنے ذاتی مفاد کوپیش ِ نظر رکھ کرمعاملات کو چلائے وہ خائن و بددیانت ہے ۔پوری تنخواہ لے کرکام مکمل نہ کرنے والا ملازم ،علمی استعداد سے کورا طالب علموں کا وقت ضائع کرنے والا استاذ اور اس طرح کے بہت سے شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افرا د جو اپنی ذمہ داریوں کے احساس سے عاری ہیں ان کی عبرت کے لیے یہ قرآنی ونبوی ارشادات اورشدید وعیدات کافی وافی ہیں۔ فاعتبروا یا اولی الابصار