امانت – ایک شرعی وانسانی فریضہ!

امانت – ایک شرعی وانسانی فریضہ!

مولانا زبیر احمد صدیقی

امانت ودیانت خوب صورت وپاکیزہ انسانی صفات ہیں۔ جنہیں حق تعالیٰ نے صرف انسان میں ہی ودیعت رکھا ہے۔ اس امانت کی وجہ سے انسان صاحب عزّ وشرف اور حامل ِ قرآن ودین ٹھہرا ہے۔ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:﴿إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَیْنَ أَن یَحْمِلْنَہَا وَأَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْإِنسَانُ إِنَّہُ کَانَ ظَلُومًا جَہُولًا﴾․(الاحزاب:72)
ترجمہ:” ہم نے یہ امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کی، تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے او رانسان نے اس کا بوجھ اٹھالیا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ظالم ، بڑا نادان ہے۔“

مذکورہ بالا آیت بتا رہی ہے کہ جملہ مخلوقات میں سے حضرت انسان ہی کو امانت ودیانت کا فریضہ ودیعت ہوا۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ حقیقی انسان وہی ہے جو امانت کی پاس داری کرتے ہوئے امین ہو، نیز امانت کی پاس داری نہ کرنے والا او رخائن ، انسان کہلانے کے قابل نہیں ہے۔ امانت ، معاشرہ کا حسن او رانسانیت کے ماتھے کا جھومر ہے۔ امانت کے بغیر انسان معاشرہ کے لیے بد نماداغ ہے۔ اس سے قبل کہ امانت سے متعلق قرآن وسنت کی نصوص اور دین کی ہدایات ہم جانیں، ضرور ی ہے کہ امانت کی تعریف اور توضیح بھی نذرِ قارئین کر دی جائے۔

اہل ِ علم کے نزدیک”امانت انسان کی اپنی ہمہ قسم ذمہ داری، خواہ قول سے ہو یا فعل سے، پوری کر دینے کا نام ہے“۔ امانت میں جہاں الله تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی شامل ہے وہاں بندوں کے حقوق کی ادائیگی شامل ہے ۔ امانت کے مفہوم میں ہر صاحب ِ حق کے حق کی ادائیگی کا اہتمام داخل ہے، نیز اپنے آپ کو ہر منکر وحرام سے محفوظ رکھنا بھی امانت ہے۔

امانت کے اس مفہوم کے تحت مزدور، کارخانہ دار، مزارع اور کاشت کار، مالک اراضی، آجر، مستاجر، غریب ،امیر، حاکم، رعایا، والدین، اولاد، پڑوسی، رشتہ دار، قرابت دار، استاذ، شاگرد، چھوٹا بڑا اور مردوزَن …سبھی کے لیے دوسروں سے متعلق حقوق کی ادائیگی کا نام امانت ہے، اگر کوئی بھی مردوزَن اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی برتے، خواہ اپنے بول وزبان کو نہ نبھائے یا اپنے عمل سے اپنے فریضہ میں کوتاہی کرے، دوسروں کا حق تلف کرے، اپنی ذمہ داریوں سے صحیح معنوں میں عہدہ برآنہ ہو یا بدعنوانی کا مرتکب ہو تو یہ خیانت اور جدید اصطلاح میں کرپشن ہے، ایسا شخص خائن یا کرپٹ کہلاتا ہے۔

دیانت وامانت کی اہمیت تو ابتدائے آفرنیش سے چلی آرہی ہے، حضرات انبیاء علیہم السلام نے اپنی اپنی امتوں کو ادائے امانت کی تاکید فرمائی اور خیانت وبدعنوانی کو جرم قرار دے کراس فعل بد کے ارتکاب پر عذاب خداوندی سے ڈرایا۔ چناں چہ قرآنی تصریحات کے مطابق حضرت سیدنا شعیب علیہ السلام کی قوم کی ہلاکت اسی بنا پر ہوئی کہ وہ خیانت او رمالی بدعنوانیوں میں مبتلا تھے۔

جنابِ رسول الله صلی الله علیہ وسلم پیدائشی صادق وامین ٹھہرے، آپ صلی الله علیہ وسلم کو منصب نبوت عطا کیے جانے سے قبل ہی صادق وامین کے لقب سے ملقب کیا جاتا تھا، گویا آپ صلی الله علیہ وسلم کو ظاہری طور پر نبوت بعد میں اور دیانت وامانت وصداقت پہلے عطاکی گئی۔ دیگر انبیاء علیہم السلام کو بھی خاص طور پر امین کا لقب عطا کیا گیا۔ ہر رسول نے اپنی قوم سے فرمایا:”انی لکم رسولٌ امینٌ“ میں تمہارے لیے رسول امین ہوں۔

جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی امانت وصداقت کے توآپ صلی الله علیہ وسلم کے مخالفین بھی معترف تھے، چناں چہ صلح ِ حدیبیہ کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے شاہان ِ عالم کو تبلیغی خطوط ارسال فرمائے، ان میں ایک خط اس وقت کی عالمی مضبوط ترین طاقت روم کے بادشاہ کو بھی تحریر فرمایا۔ ہرقل روم نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے احوال جاننے کے لیے مکہ سے شام آئے ہوئے قریشی تاجروں کو اپنے پاس بُلا کر چند سوالات کیے اورحضرت ابوسفیان کی سربراہی میں آئے ہوئے ایک قافلے کو سامنے بٹھا کر ان سے جوابات چاہے۔ اس نے دیگر سوالات کے ساتھ ایک سوال یہ بھی کیا:ھل یغدر… کیا وہ شخص عہد شکنی بھی کرتا ہے؟

توجواب میں جناب ابوسفیان… جو اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے اور مشرکین مکہ کے سردار تھے… گویا ہوئے: لا، نہیں! وہ عہد شکن نہیں ہیں۔ اس پرشاہ ِ روم ہرقل نے کہا، وکذلک الرسل لا تغدر… انبیاء ورسل( علیہم السلام) عہد شکنی نہیں کیا کرتے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے امت کو ہمیشہ قولی وعملی طور پر دیانت وامانت کی تاکید فرمائی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ہر خطبہ میں دیانت کا یہ پیغام اُمت کو مرحمت فرمایا:”لا إیمان لمن لا أمانة لہ…“(مسند احمد)

”جس میں امانت نہیں، اس کا ایمان ہی نہیں“۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے تاریخی او راہم ترین خطبہ”خطبہ حجة الوداع“ میں بھی اس فریضہ کی جانب امت کو متوجہ فرمایا۔ آپعلیہ السلام نے ارشاد فرمایا:”ومن کانت عندہ امانة فلیؤدھا إلی من ائتمنہ علیہا“․(احمد،دارمی)

”جس کے ذمہ کوئی امانت ہو، وہ صاحب ِ امانت کو امانت ادا کر دے“۔

قرآن کریم نے الله تعالیٰ کے نیک بندوں کی علامات بیان فرمائی ہیں، ان میں ایک علامت یہ بھی ہے :﴿وَالَّذِینَ ہُمْ لِأَمَانَاتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رَاعُونَ﴾․(مومنون:8)

”اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس رکھنے والے ہیں“۔

امین وامانت کے پاس داران کو ہی جنت کا مستحق ٹھہرایا گیا، جب کہ اس کے برعکس خائن کو خیانت کے جرم کی وجہ سے دوزخی قرار دیا گیا ہے۔

حق تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:﴿وَمَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَن یَغُلَّ وَمَن یَغْلُلْ یَأْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ثُمَّ تُوَفَّیٰ کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لَا یُظْلَمُونَ﴾․(آلِ عمران:161)

ترجمہ:”اور کسی نبی سے یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ مال ِ غنیمت میں خیانت کرے اور جو کوئی خیانت کرے گا وہ قیامت کے دن وہ چیز لے کرآئے گا جو اس نے خیانت کرکے لی ہوگی، پھر ہر شخص کو اس کے کیے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر کوئی ظلم نہیں ہو گا۔“

غزوہٴ اُحد میں کچھ صحابہ کرام  نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے مقرر کردہ مقام کو جنگ فتح ہونے پر چھوڑ دیا تھا، جس کی وجہ سے مسلمانوں کو وقتی ہزیمت اٹھانی پڑی، اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ شاید تم نے اس خطرہ کے پیش نظر مرکز کو چھوڑا کہ شاید مال غنیمت کچھ لوگوں کو مرحمت کیا جائے گا ! اس پر مذکوربالا آیت کا نزول ہوا، جس میں صراحت کی گئی کہ الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم اس خیانت کے مرتکب نہیں ہوسکتے کہ ناانصافی کرتے ہوئے کچھ لوگوں کو عطا فرمائیں او رکچھ کو محروم کر دیں۔ جو کوئی خیانت کا مرتکب ہوتا ہے وہ مال خیانت کے ساتھ، روز ِ محشر الله تعالیٰ کے دربار میں پیش ہو گا۔

بددیانتی اور خیانت پر سزا کی تفصیل احادیث مبارکہ میں کثرت کے ساتھ ذکر کی گئی ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اونٹ ، گائے، بکری، سونا، چاندی الغرض ہر چیز کا چور ان چیزوں کو کندھے پر اٹھا کر بارگاہ الہٰی میں پیش ہو گا اور یہ اشیاء اپنے چور اور خائن کو اپنے تلے روندیں گی۔

ایک حدیث میں مِدعم نامی غلام کا قصہ بیان کیا گیا ہے، یہ غلام جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو بنی خباب نے ہدیہ کیا تھا۔ غزوہٴ خیبر سے واپسی پر آپ صلی الله علیہ وسلم وادیٴ قری کی جانب متوجہ ہوئے، ایک جگہ قافلہ کے ساتھ ٹھہرنے کا ارادہ فرمایا، یہ غلام آپ صلی الله علیہ وسلم کی اونٹنی سے کجا وہ اتار رہا تھا کہ اچانک ایک گم نام تیرآن پہنچا،تیراس غلام کو پیوست ہوا اور یہ شخص راہی اجل ہو گیا۔ لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اس شخص کو شہادت مبارک ہو۔ آپ صلی الله علیہ وسلم گویا ہوئے:”ہر گز نہیں اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میر ی جان ہے! وہ چادر جو اس نے خیبر کے روز مال غنیمت سے قبل از تقسیم لے لی تھی، اس پر دوزخ کے شعلے بھڑکارہی ہے۔”لوگوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان سنا تو ایک شخص ایک تسمہ یا دو تسمے لے کر حاضرہوا کہ میں نے یہ تسمے لے لیے تھے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک تسمہ بھی دوزخ سے ہے اور دو تسمے بھی دوزخ سے ہیں۔… (صحیح بخاری:2/84)

قارئین! یہ غلام جس نے مال ِ غنیمت سے صرف ایک چادر رکھ لی تھی اس پر اسے قدر سزا دی گئی، وجہ اس کی یہ تھی کہ مال ِ غنیمت میں اگرچہ اس شخص کا بھی حصہ تھا لیکن یہ غنیمت کا مال اب تک تقسیم نہ ہوا تھا، قبل از تقسیم غنیمت یا اجتماعی مال میں ہر شخص کا حصہ ہوتا ہے۔ گویا اس چادر میں جملہ مجاہدین کا حصہ تھا، جو اس شخص نے لے لیا، اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کے لیے وعید بیان فرمائی۔ یہی حکم وقف، حکومت اور اداروں کے مال کا ہے۔ یہ اجتماعی مال ہوتے ہیں او ران میں بہت سے لوگوں کا حصہ وحق ہوتا ہے۔ اگر کوئی ایک ملازم، افسر یا چوکیدار اس مال کو ہڑپ کر لے تو اسے بھی حدیث مذکور کی رو سے اس عمل کا وبال جان لینا چاہیے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم دیانت وامانت کے بارے میں نہایت ہی حساس تھے، چناں چہ تفسیر قرطبی میں ہے کہ:
” ایک شخص غزوہٴ خیبر میں وفات پا گیا، لوگوں نے جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو اس کا ذکر کیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، اپنے ساتھی کا تم ہی جنازہ پڑھ لو۔(آپ صلی الله علیہ وسلم نے جنازہ پڑھنے سے انکار فرما دیا) اس پر لوگوں کے چہرے متغیر ہو گئے، راویٴ حدیث حضرت زید رضی الله عنہ کا خیال ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، تمہارے ساتھی نے راہ خدا میں خیانت کا ارتکاب کیا ہے۔ صحابہ کرام نے اس متوفی کا سامان کھولا تو اس میں سے یہودیوں سے حاصل شدہ دو درہم قیمت کا ایک ہار ملا“۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تو بدیانتی اور خیانت پر اس قدر سختی فرمائی کہ ایک مرتبہ خیانت کرنے والے شخص کا مال تک جلوا دیا اور یہ عمل حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی الله عنہما نے فرمایا۔ (تفسیر قرطبی)
الله تعالیٰ نے جملہ مسلمانوں کو ادائے امانت کی تاکید فرمائی اورعدل وانصاف کے نفاذ پر زور دیا:﴿إِنَّ اللَّہَ یَأْمُرُکُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَیٰ أَہْلِہَا وَإِذَا حَکَمْتُم بَیْنَ النَّاسِ أَن تَحْکُمُوا بِالْعَدْلِ إِنَّ اللَّہَ نِعِمَّا یَعِظُکُم بِہِ إِنَّ اللَّہَ کَانَ سَمِیعًا بَصِیرًا﴾․(النساء:58)

”(مسلمانو!) یقینا الله تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں تک پہنچاؤ او رجب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔ یقین جانو الله تم کو جس بات کی نصیحت کرتا ہے وہ بہت اچھی ہوتی ہے۔ بے شک الله ہر بات کو سنتا اور ہر چیز کو دیکھتا ہے۔“

اس آیت کا نزول فتح مکہ کے روز ہوا، جب آپ صلی الله علیہ وسلم نے بیت الله کی چابی خانہ کعبہ کے کلید بردار”عثمان بن طلحہ“ سے لے لی تھی اور حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ نے ہاتھ بڑھا کر چابی کا تقاضا کر لیا تھا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے کلید بردار عثمان بن طلحہ کو بلا کر چابی ان کے حوالہ کی اور ارشاد فرمایا یہ چابی اب ہمیشہ تمہارے خاندان میں ہی رہے گی۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے میرٹ اور امانت کی پاس داری کی عملی طور پر اعلیٰ مثال قائم کرتے ہوئے اقربا پروری سے اجتناب فرمایا۔

آج معاشرہ بد دیانتی، خیانت او رکرپشن کی راہوں پر گام زن ہے ،جس کی وجہ سے پوری قوم دنیا بھرمیں نہ صرف بد نام، ناقابل ِ اعتبار اوردنیا کی نظر میں بے وقعت ہو گئی ہے، بلکہ بدامنی، فساد اور خوں ریزی جیسی لعنتیں ہمارے مقدر کا حصہ بن چکی ہیں۔ آج حاکم ومحکوم، غریب وامیر سبھی اس انسانی اور شرعی فرض سے غافل ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حق تعالیٰ کے دیے ہوئے اس خوب صورت حکم کو اپنا کر دنیا بھر میں اپنا نام روشن کریں اور الله تعالیٰ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کو راضی کریں۔