اللہ تعالیٰ سے حیاکا حق

اللہ تعالیٰ سے حیاکا حق

مولانا محمد راشد شفیع

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ:اللہ سے حیا کرو، جیساکہ حیا کا حق ہے۔صحابہ نے عرض کیا:اے اللہ کے نبی! الحمدللہ!ہم اللہ سے حیا کرتے ہیں۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ:حیاسے یہ مراد نہیں جو تم کہتے ہو، بلکہ جو شخص اللہ سے حیا کا حق ادا کرے تو اسے چاہیے کہ سر اور جو کچھ سر کے ساتھ ہے اس کی حفاظت کرے، پیٹ اور جو کچھ پیٹ کے ساتھ ہے اس کی حفاظت کرے اور اسے چاہیے کہ موت کو اور ہڈیوں کے بوسیدہ ہونے کو یاد رکھے اور جو شخص آخرت کی بھلائی کا ارادہ کرتاہے وہ دنیا کی زینت وآرائش کو چھوڑ دیتاہے، پس جس شخص نے ایسا کیا تو اس نے اللہ سے حیاکی، جس طرح حیا کا حق ہے۔(مشکوة المصابیح)

اس حدیث میں انتہائی جامعیت کے ساتھ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سب کو بتلا دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے حیا کا مطلب تمام جسمانی اعضاء کو ظاہری وباطنی تمام گناہوں اور برائیوں سے بچانا ہے۔ بنیادی طور پر تین باتوں کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نشان دہی فرمائی ہے،سب سے پہلے یہ بات ارشاد فرمائی کہ مسلمان کو چاہیے کہ سر اور جو کچھ سر کے ساتھ ہے اس کی حفاظت کرے۔سر کی حفاظت کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اپناسر اللہ تبارک وتعالیٰ کے علاوہ کسی کے سامنے نہ جھکائے، نہ عبادت کے طورپر اور نہ تعظیم کے طورپراور سر سے متعلق جتنے بھی گناہ ہیں ان سے پرہیز کرے، اسی طرح سر کے ساتھ جو اعضاء منسلک ہیں، مثلا آنکھ،کان،زبان، ان کی حفاظت کرے،آنکھ کا حیا یہ ہے کہ اس سے بد نظری نہ کی جائے اور نگاہ ایسی جگہ نہ پڑے جہاں پر نگاہ ڈالنے سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے منع فرمایا ہے،اسی طرح زبان کا حیا یہ ہے کہ زبان کے جتنے بھی گناہ ہیں ان سے بچا جائے، مثلا زبان کو غیبت سے محفوظ رکھے،چغل خوری سے محفوظ رکھے، جھوٹ سے محفوظ رکھے، بدگوئی سے محفوظ رکھے، فحش گوئی سے محفوظ رکھے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ حقیقی مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے محفوظ رہیں۔(متفق علیہ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ:”بے شک کبھی آدمی بغیر غور و فکر کیے کوئی بات زبان سے نکالتا ہے، جس کے سبب جہنم کی آگ میں اتنی گہرائی میں جاگرتا ہے، جتنا کہ مشرق و مغرب کے درمیان فاصلہ ہے۔“(متفق علیہ)

اس طرح کان کا حیا یہ ہے کہ اپنے کانوں کو برائی کی باتیں اورگانے سننے سے محفوظ رکھے، حدیث میں ہے گانا دل میں اس طرح نفاق کو اگاتا ہے جس طرح پانی سے کھیتی پروان چڑھتی ہے۔(شعب الایمان للبیھقی) دوسری بات سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمائی کہ پیٹ اورجو کچھ پیٹ کے ساتھ ہے اس کی حفاظت کرے۔ مطلب یہ ہے کہ پیٹ کو حرام اور مشتبہ چیزوں سے بچائے اور حلال رزق استعمال کرے حرام سے اپنے آپ کو محفوظ رکھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ پاک ہے اوروہ پاک چیز کے سوا کسی اور چیز کو قبول نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو وہی حکم دیا ہے جو رسولوں کو حکم دیا تھا اور فرمایا (ترجمہ)اے (میرے) رسولو! پاک چیزیں کھاؤ اور نیک کام کرو، میں تمہارے کاموں سے باخبر ہوں۔ (سورة مومن:23 آیت:51 ) اور فرمایا (ترجمہ) اے مومنو! ہماری دی ہوئی چیزوں سے پاک چیزیں کھاؤ۔ (سورة البقرہ:2 آیت:172 ) پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایسے شخص کا تذکرہ کیا جو لمبا سفر کرتا ہے اور اس کے بال گرد آلود ہیں اور پھر ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتا ہے اور کہتا ہے یارب! یارب! حالاں کہ اس کا کھانا حرام کا ہے اور پینا حرام کا ہے اور اس کا لباس حرام کا اور اس کی مکمل غذا حرام کی، پھر اس کی دعا کیسے قبول ہو؟!(مسلم، کتاب الزکوة)اور (پیٹ کے ساتھ) سے مراد وہ چیزیں ہیں جو پیٹ کے قریب ہیں جیسے شرم گاہ،ہاتھ پاؤں اور دل کہ ان سب چیزوں کی حفاظت کرے۔ تیسری بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی کہ موت کو اور ہڈیوں کے بوسیدہ ہونے کو یاد رکھے،مطلب یہ ہے کہ مسلمان کو ہر وقت یہ فکر دامن گیر ہوکہ ایک دن اس دنیا سے جانا ہے اور اس جسم کو فنا ہونا ہے تو یہ موت کی فکر مسلمان کو گناہوں سے بچانے کا ذریعہ بنے گی،قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور تمہارے اجر پورے کے پورے تو قیامت کے دن ہی دیے جائیں گے، پس جو کوئی دوزخ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہ واقعتا کام یاب ہو گیا اور دنیا کی زندگی دھوکے کے مال کے سوا کچھ بھی نہیں۔(آل عمران)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: لذتوں کو ختم کرنے والی چیز ،یعنی موت کو زیادہ یاد کیا کرو۔ (ترمذی،کتاب الزھد)حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:میں تمہیں زیارتِ قبور سے منع کیا کرتا تھا، اب زیارت کیا کرو، کیوں کہ یہ دنیا میں زاہد بناتی ہے (دنیا کی دولت سے بے رغبتی پیدا کرتی ہے)اور آخرت کی یاد دلاتی ہے۔(ابن ماجہ،کتاب الجنائز )اور آخر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص آخرت کی بھلائی کا ارادہ کرتا ہے وہ دنیا کی زینت و آرائش کو چھوڑ دیتا ہے،یعنی اس آدمی میں فکر آخرت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ آدمی دنیا میں اس طرح رہتا ہے جیسا ایک مسافر رہتا ہے کہ مسافر سفر کے دوران اگر راستہ کی چیزوں میں متوجہ ہوگا تو کبھی بھی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکے گا، یہی وجہ ہے کہ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی کے نزدیک دنیا کی وقعت اگر ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر کو اس میں سے ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا (ترمذی)دوسری روایت میں ہے کہ تم دنیا میں ایسے رہو گویاکہ مسافرہو یا راہ گیرہو۔ (ترمذی)

اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو اس حدیث پر عمل کی توفیق بخشے۔