اسلام ہی انسانیت کا محافظ ہے

اسلام ہی انسانیت کا محافظ ہے

مولانا عبدالواحد قاسمی

تاریخ بتاتی ہے کہ نوع انسانی کی قدر وقیمت، زندگی کی حرمت وعظمت اور ا س کی عزت و شرف کا احساس جب دل سے نکل جاتا ہے، مذہب واخلاق اور تہذیب وتمدن سے قلبی تعلق اور کشش ختم ہوجاتی ہے ، انسانی جان کے استخفاف وتحقیر کی جسارت پیدا ہو جاتی ہے اور انسان اپنی ذات، اپنی آدمیت اور اپنے جوہر کو بھلا دیتا ہے تو اس کے نتیجے میں اس کی تمام رفعت وعظمت ختم ہو جاتی ہے، قول وعمل بے وزن ہو جاتے ہیں، بھلائی وخیر خواہی کا تصور اور ایک اچھے سماج وسوسائٹی کی تشکیل قصہ پارینہ بن جاتا ہے، انسانی ضمیر کی کوئی قیمت، ہم دردی کا کوئی جذبہ باقی نہیں رہتا، یہی وہ وقت ہے جو انسانیت کے تاب ناک مستقبل کے لیے پیام موت ہوتا ہے۔

پس منظر
آج آپ تہذیب کا سرسری جائزہ لیں یا تاریخ انسانی پر عمومی نظر ڈالیں، زندگی کے ہر خطے میں بگاڑ وخرابی کی یہی کیفیت ملے گی، تباہی وبربادی کے اسی نقطہ کو محسوس کریں گے، آئے دن مذہب وملت کا جھگڑا ،ذات پات کا فرق، بھید بھاؤں کا رواج، رنگ ونسل کی بات، نفاق وشقاق کی کیفیت، چوری، ڈاکا زنی، قتل وغارت، ظلم وتعدی ، غاصبانہ تصرف اور اذیت رسانی… یہ سب اسی کا نتیجہ ہے ، چھوٹی چھوٹی باتوں کو بنیاد بنا کر ایک لہر پیدا کی جاتی ہے، حالات خراب ہوتے ہیں اور پھر کائنات ارضی کا حسن، زندگی کی چہل پہل، دنیا کی رعنائی وشادابی ایک ہی جھونکے میں خزاں رسیدہ ہو جاتی ہے، بہت کم افراد ایسے ہیں جو ٹھنڈے دل سے ان کے ازالہ ومدادا کے سلسلے میں غور وفکر اور مسائل کی نشان دہی کرتے ہیں۔

غلط نظریہ
جو حضرات اپنے مختصر وسائل اور قلیل افراد کے باوجود فضا اور ماحول بناتے ہیں اور ایسے افراد تیار کرتے ہیں جن کو مخلوق سے محبت ہو، جو خدا کی وسیع زمین پر سکون واطمینان ، بھلائی وخیر خواہی کی باتوں کو رواج دیں، سچائی کا سبق سکھائیں ، کم زوروں او رمظلوموں کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا کریں اور انسانوں میں انسانیت کی جو ت جگانے، اچھے اخلاق سکھانے او راچھا معاشرہ بنانے کی کوشش کریں او رجن کے ذہنوں میں محمد عربی صلی الله علیہ وسلم کا یہ ارشاد تازہ ہو:

”رحم کرنے والوں پر رحمن رحمت بھیجتا ہے، تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔“ (ترمذی)

افسوس! صد افسوس کہ آج انسانیت کے سبق پڑھانے والے انہی افراد کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کی جاتی ہیں، انہیں دہشت گرد، شدت پسند اور بنیاد پرست کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے دانش مندی اور شعور کے راگ الاپنے والے ذرا بھی نہیں سوچتے کہ فلاح وبہبود کے چشمے کہاں سے پھوٹتے ہیں؟ امن وسکون کا درس کہاں سے ملتا ہے؟ اخلاق وکردار کی کرن کہاں سے نمو دار ہوتی ہے؟ سچ یہ ہے کہ جب ضمیر مردہ ہو جائے اور دل کو گھن لگ جائے تو انسانیت ختم ہوجاتی ہے اور کسی بات کے کہنے اور سوچنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔

معیار فلاح
دنیا کے سامنے ملک وقوم کی مذہبی، سیاسی او رسماجی تاریخ شاہد ہے کہ جب تک سوچ وفکر کے تانے بانے ہم دردی وغم خواری کے انوکھے انداز سے مرتب ہوتے رہے، زندگی کے خانوں میں انسانیت کا رنگ باقی رہا، محبت والفت کی توسیع اور اخلاق عالیہ کی ترسیل حیات ِ انسانی کا طرّہٴ امتیاز رہا۔

انسانیت کے دو واقعے
رمضان8/ ہجری میں مکہ فتح ہوا، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اپنے اس محبوب شہر میں، جہاں سے لوگوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو ہجرت کرنے پر مجبور کیا تھا، جہاں آپ کو طرح طرح کی ایذائیں دی گئی تھیں، آپ صلی الله علیہ وسلم کی دعوت توحید کو ٹھکرایا گیا تھا اور آپ کے جان نثار ساتھیوں کو طرح طرح سے ستا کر گھر بار اور آل اولاد کو چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تھا اسی شہر میں آپ صلی الله علیہ وسلم اس شان سے داخل ہو رہے ہیں کہ دس ہزار جاں نثاروں کا لشکر آپ کے ساتھ ہے، کفار ومشرکین کا ایک بڑا مجمع مجبور وبے بس آپ کے سامنے ہے، ان میں وہ بھیہیں جنہوں نے حضور صلی الله علیہ وسلم کی مخالفت میں دن رات ایک کر دیے تھے، اسلام کو مٹانے میں کوئی کسرنہ چھوڑی تھی، مسلمانوں کو ایذائیں پہنچائی تھیں، طرح طرح کے ظلم کیے تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم کی راہ میں کانٹے بچھائے تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں ناگوار باتیں کہیں تھیں ان میں وہ بھی تھے جنہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے اصحاب کو قتل کیا تھا اور خود آپ صلی الله علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ کے خون سے ہاتھ رنگے تھے، آج آپ صلی الله علیہ وسلم کے لیے موقع تھا کہ گزشتہ مصائب کا حساب چکا لیتے او ران کے کرتوتوں کا انتقام لے لیتے، لیکن نہیں! حضور صلی الله علیہ وسلم تو انسانیت کا پیغام اور سارے جہاں کے لیے رحمت بن کر آئے تھے ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے معافی کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا: ”جاؤ! آج تم سب آزاد ہو“ اگر بات یہیں ختم ہوجاتی تب بھی انسانیت کی بلندی کے لیے کافی تھا اور تاریخ کا ایک یاد گار واقعہ ہوتا، لیکن واقعہ یہیں ختم نہیں ہوتا … رسول رحمت صلی الله علیہ وسلم نے اعلان کر دیا کہ: ”جو شخص کعبہ میں پناہ لے گا، اسے کچھ نہیں کہا جائے گا، جو اپنے گھر کا دروازہ بند کرکے بیٹھ جائے گا، وہ بھی محفوظ ہو گا اور جو ابوسفیان کے گھر میں پناہ لے گا، وہ بھی مامون رہے گا۔“ یہ ابو سفیان وہی ہیں جنہوں نے مدینہ پر بار بار حملہ کیا، عربوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا اور خود رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو قتل کرنے کی سازش کی تھی … کافروں میں سے ایک شخص آپ صلی الله علیہ وسلم کی طرف بڑھا تو آپ صلی الله علیہ وسلم کے رعب سے اس کا بدن کانپنے لگا اور قدم لڑکھڑانے لگے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا تو درد بھرے لہجہ میں فرمایا ”ڈرو نہیں، میں بھی قریش کی ایک عورت کا بیٹا ہوں، کوئی بادشاہ نہیں ہوں۔“

ایک مرتبہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کچھ سوار نجد کی طرف بھیجے، انہوں نے واپسی پر نجد کے سردار ثمامہ بن اثال (جس نے صحابہ کو قتل کیا تھا) کو گرفتار کر لیااور اسے مدینہ لائے اور مسجد نبوی کے ستون سے باندھ دیا۔ حضور صلی الله علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے اور ثمامہ کے پاس آکر پوچھا : ثمامہ! کیا حال ہے؟ اس نے جواب دیا: اے محمد! میرا حال اچھا ہے، اگر آپ میرے قتل کا حکم دیں گے تو یہ جائز ہو گا، کیوں کہ میں قاتل ہوں او راگر آپ صلی الله علیہ وسلم انعام فرمائیں گے تو ایک شکر گزار پر رحمت کریں گے، اگر آپ کو مال کی ضرورت ہے تو بتا دیجیے کہ کس قدر چاہیے؟ سرورکائنات صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ثمامہ کو چھوڑ دیا جائے، ثمامہ رہائی پا کر مسجد نبوی کے قریب کھجور کے ایک باغ میں گئے، وہاں جا کر نہائے، مسجد نبوی میں آکر کلمہ پڑھا اور مسلمان ہو گئے، پھر حضور صلی الله علیہ وسلم سے عرض کرنے لگے:

”یارسول الله( صلی الله علیہ وسلم) : الله کی قسم! ساری دنیا میں آپ(صلی الله علیہ وسلم) سے بڑھ کر مجھے کسی اور سے نفرت نہ تھی،لیکن اب آپ (صلی الله علیہ وسلم) زیادہ مجھے کوئی پیارا نہیں۔ الله کی قسم! آپ (صلی الله علیہ وسلم) کے شہر سے بڑھ کر کوئی اور شہر مجھے برانہ لگتا تھا، لیکن آج اس سے اچھا او رکوئی شہر نہیں، والله! آپ (صلی الله علیہ وسلم) کے دین سے بڑھ کر مجھے کسی اور دین سے بغض نہ تھا، لیکن آج آپ (صلی الله علیہ وسلم) کا دین ہی مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔“

اسلامی تعلیم
یمن کے علاقے میں، جو بحرین تک پھیلا ہوا تھا، اسلام کی تعلیم کے لیے حضور صلی الله علیہ وسلم نے اپنے دو صحابہ حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابو موسی اشعری کو مقرر فرمایا، یہ دونوں یمن کے ایک ایک ضلع میں بھیجے گئے ، جب مدینہ سے روانہ ہونے لگے تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان کو بلایا اور فرمایا:

”دیکھو! تم دونوں مل کر کام کرنا، لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آنا، سختی مت کرنا، خوش خبری سنانا، نفرت مت دلانا، تم کو وہ لوگ ملیں گے جو پہلے سے کوئی مذہب رکھتے ہیں، پہلے ان کو بتانا کہ الله ایک ہے، اس کا کوئی ساتھی نہیں، پھر بتانا کہ محمد صلی الله علیہ وسلم کو الله نے اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے، جب وہ ان دونوں باتوں کو مان لیں تو پھر ان سے کہنا کہ الله نے پانچ وقت کی نماز فرض کی ہے، جب وہ اس کو بھی مان لیں تو ان کو بتانا کہ تم پر زکوٰة فرض ہے، جو امیروں سے لی جائے گی اور غریب کو دی جائے گی، دیکھو ! جب وہ زکوٰة دینا قبول کر لیں تو چن کر صرف اچھا مال نہ لینا، مظلوموں کی بد دعا سے ڈرتے رہنا کہ اس کے اور ا لله کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں۔“

ہماری دعوت
مولانا علی میاں قدس سرہ کی زبان میں:
”ہم سیدھی سادی بات یہ کہتے ہیں کہ ہم خدا کے راستے کی دعوت دینے آئے ہیں، ہم اس بنیاد پر انسانوں کو انسانیت کی دعوت دینے آئے ہیں، ہم اس ( دعوت) کو سب سے بڑی وطن دوستی او رملک کی وفاداری سمجھتے ہیں، جس سے ملک ترقی کرے، ہم اس کی تحقیر نہیں کرتے کہ ملک کے لیے تعلیمی اداروں، شفا خانوں، صفائی کے محکموں کی ضرورت ہے، ملک کو رسل ورسائل اور دوسرے محکموں کی ضرورت ہے، ان سب کے باوجود ملک میں اندھیرا اور دوسرے کے پیٹ کاٹنے کا جو طاعون پھیلتا جارہا ہے، اسے نہ روکا گیا تو اس کی عزت، اس کا وقار، اس کی آزادی خاک میں مل جائے گی، ہم علی الاعلان ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں کہ ہم ( مسلمان) اس ملک (برصغیر) میں حصہ رسد بٹانے نہیں آئے تھے، ہم ان ملکوں کو چھوڑ کر جو خود دولت سے بھرے ہوئے تھے یہاں کی دولت میں حصہ لگانے نہیں آئے تھے، ہم ایک مشن، ایک خدمت پر آئے تھے، یہاں جو مسلمان آئے تھے وہ اخلاق، محبت، خدا پرستی کا پیغام لے کر آئے تھے، انہوں نے اس ملک کوکچھ دیا، لیا نہیں، وہ یہاں سے کچھ لینے نہیں آئے تھے، اس کو کچھ دینے آئے تھے ، وہ رہنے آئے تھے، یہاں سے جانے کے لیے نہیں آئے تھے، اگر ایسا سوچتے تو اٹالہ کی ایسی شان دار وپائیدار مسجد نہ بناتے، وہ تو خدا پرستی او رانسان دوستی کی دعوت دینے آئے تھے، کہاں کے عرب؟ کہاں کے عجم؟

یہ سب ہماری بنائی ہوئی خود ساختہ حدیں ہیں، ساری دنیا کے پیدا کرنے والے ایک الله کی طرف سے وہ یہ تعلیم لائے تھے، انہوں نے دنیا سے لیے بغیر ساری دنیا کی خدمت کی، انہوں نے سچے موتیوں سے انسانیت کی جھولی بھر دی او راپنے ہاتھ خالی رکھے، اپنے بچوں کی مطلق فکر نہ کی اور اپنے کنبے کی طرف سے آنکھیں بند کرکے، پیٹ پر پتھر باندھ کر، لوگوں کی سیو ا کی، ان کی تکلیفوں کو راحتوں سے بدلا۔“

تبدیلی کی ضرورت
اب جب کہ قومی دہارے کا رُخ بدل چکا ہے، ذہنیت مسخ ہو چکی ہے، انسانی برادری حقیقت سے آنکھیں بند کر چکی ہے، ملک وقوم او رانسانی معاشرہ بربادیوں اور تباہ کاریوں سے گزر رہے ہیں اور اولاد آدم حقیقی آرام سے محروم ہے ، دوسری طرف قدرت کی تنبیہات رعد وبرق کی طرح انہیں چوکنا کر رہی ہیں، ضروری ہے کہ انہیں بھولا ہوا سبق یاد دلایا جائے، محبت والفت کا درس دے کر ان کے ذہنوں کو بدلا جائے ،علمی عملی اور فکری اقدار کے ذریعہ ایسی تبدیلی لائی جائے کہ وہ اپنے کو بھلا کر دوسروں کی رنج وخوشی کے لیے جیے، اپنا نقصان کرکے دوسروں کی کام یابی کے لیے سوچے، اپنے کو مٹا کر دوسروں کو بنائے ،دوسروں کی زندگی اسے اپنی زندگی سے زیادہ عزیز ہو، تاکہ انسانیت کے خزاں دیدہ چمن میں از سر نور بہار آجائے، صدیوں سے انسانیت کی کھیتی، جو خشک پڑی ہے، ایثار وہم دردی کی پھوار سے سرسبز وشاداب ہو اور انسانوں کا ایک ایسا بلند کردار معاشرہ وجود میں آئے جس کی اساس اعلیٰ انسانی اخلاقیات پر ہو اور دنیا نوع انسانی کے لیے امن وسلامتی کا گہوارہ ثابت ہو سکے۔