اخوت و محبت اور جذبہٴ ایثار

اخوت و محبت اور جذبہٴ ایثار

 ؒ شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم الله خان

سرورِ کائنات محمد صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے تو اتحاد اور اخوت کی، محبت اور خلوص کی اور آپس میں یک جہتی کی تعلیم دی ہے۔”لا الہ الا الله محمد رسول الله “ کا کلمہ اگر ایک حبشی پڑھ لیتا ہے تو وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی الله تعالیٰ عنہ کا رفیق بن جاتا ہے، فاروق اعظم رضی الله تعالیٰ عنہ کی برابری کرنے لگتا ہے اور بعض مواقع پر فاروق اعظم رضی الله تعالیٰ عنہ اس کو اپنا آقا اور سردار کہہ کر پکارتے ہیں۔ حالاں کہ جس معاشرے میں رسول الله صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی کاوش، محنت ، دعوت ، کوشش ، محبت اور شفقت کی بنا پر یہ انقلاب آیا تھا۔ کچھ عرصہ قبل اسی معاشرے میں بلال جیسے حبشی کو کوئی گھاس بھی ڈالنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ نہ انسانوں جیسا سلوک کرنے کے لیے تیار تھا۔ نہ کوئی قابل التفات گرداننے کے لیے تیار تھا، لیکن سرورِ کائنات صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی تعلیم اور تربیت کا اثر یہ ہوا کہ حضرت بلال حبشی رضی الله تعالیٰ عنہ کلمہ پڑھنے کے بعد قریش کے عمائدین واکابرین اور رسول الله صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے ممتاز صحابہ رضی الله عنہم کے درجے میں آگئے تھے۔حضور صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے جو اخوت اور محبت حضرات صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم کے درمیان پیدا کرنے کی سعی فرمائی، اس کی ایک جھلک اس طرح سے دیکھیں کہ صحابہ کرام (رضی الله عنہم) مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آرہے تھے، لٹے، پٹے ہوئے ہیں، ظلم اور تکالیف برداشت کیے ہوئے ہیں۔ ان کی حالت پتلی اور کم زور ہے، لیکن انصار نے سرورِ کائنات جناب رسول الله صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی تربیت کے نتیجے میں آگے بڑھ کر ان کو گلے لگایا اور کہا کہ ہمار ا مال جتنا کچھ ہے اس کو تقسیم کر لو۔ آدھا آپ لے لو، آدھا ہمارے پاس چھوڑ دو۔ ہمارے باغات اور ہماری کھیتیاں بھی تقسیم کردو۔ بعض اللہ کے بندوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ میری دو بیویاں ہیں۔ ایک کو تم پسند کر لو، میں طلاق دے دوں گا، بعد میں تم اس سے نکاح کرلینا۔ مدینہ کے رہنے والوں کے درمیان حضور نبی کریم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے تشریف لے جانے سے پہلے جو اختلافات صدیوں سے چلے آرہے تھے اور مٹھی بھر یہودی اوس اور خزرج کے زبردست قبیلوں پر چھائے ہوئے تھے۔ مدینے کے انصار تعداد کے اعتبار سے زیادہ تھے اور یہودی تھوڑے سے تھے ،لیکن انصار آپس میں لڑنے کی وجہ سے اتنے کم زور ہوچکے تھے کہ یہودی ان پر غالب تھے، حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم تشریف لے گئے تو ان کے درمیان وہ عداوتیں محبتوں میں تبدیل ہوگئیں، قرآن پاک میں ہے کہ اس وقت کو یاد کرو جب تم آپس میں دشمن تھے اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمہارے اندر الفت اور محبت پیدا کی اور الله کے فضل سے تم بھائی بھائی ہوگئے۔ اس الفت اور محبت کو پیدا کرنے کا ذریعہ رسول الله صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات اقدس بنی آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی تربیت فرمائی، آپ نے ان کو اتحاد و اتفاق ، محبت و اخوت اور مہربانی و شفقت کی تعلیم و ترغیب دی، جس کے نتیجے میں وہ متحد ہوگئے اور طاقت ور ہوگئے۔