آہ حضرت ڈاکٹر صاحب!

آہ حضرت ڈاکٹر صاحب!

مولانا محمد شفیع چترالی

وہی ہوا جس کا گزشتہ کئی روز سے دھڑکا لگا ہوا تھا۔ استاذ محترم، شیخ مکرم، مجسمہ شفقت، پیکر محبت حضرت علامہ ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب اپنے کروڑوں عقیدت مندوں اور لاکھوں بلا واسطہ اور بالواسطہ شاگردوں کو سوگوار، بلکہ یتیم چھوڑ کر خلد آشیانی ہو گئے۔ انا الله وانا الیہ راجعون۔ اب یہ کہنا تو ایک رسمی سا جملہ ہو گا کہ مرحوم بڑے اچھے انسان تھے اور ان کے جانے سے ایک بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم آج ایک بہت بڑی خیر سے محروم ہو گئے ہیں اور اس دکھ، درد او رغم کا شاید الله کے سوا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا جو حضرت ڈاکٹر صاحب جیسی فرشتہ صفت شخصیت کی رحلت سے ان کے روئے انور کو قریب سے دیکھنے والے شاگردوں اور متعلقین ومتوسلین کو آج درپیش ہے۔ سو الله سے صبر وسکون کی توفیق کی دعا والتجا ہے۔ ایسی ہی ہستیاں ہوتی ہیں جن کی زندگی بھی انسانیت کے لیے کوئی معنی رکھتی ہے او رموت بھی اور جن کے جانے پر ایک دنیا پکار اٹھتی ہے کہ ذھب الذین یعاش في أکنافھم“ (وہ لوگ چلے گئے جن کے سائے میں جیا جاسکتا تھا)۔ ملک بھر کے دینی حلقوں میں حضرت ڈاکٹر صاحب کے احترام او ران کی عظمت کردار کے اعتراف کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ ابھی چند روز قبل جب حضرت ڈاکٹر صاحب بستر علالت پر تھے، پاکستان کے دینی مدارس کے سب سے بڑے بورڈ نے محض ان کے وجود مسعود سے وابستہ خیر کو پیش نظر رکھتے ہوئے انہیں ایک بار پھر اپنا سربراہ منتخب کیا تھا۔

ڈاکٹر صاحب 1935ء میں ضلع ایبٹ آباد کے گاؤں کوکل کے ایک دینی گھرانے میں پیدا ہوئے، آپ کے والد محترم سکندر خان بن زمان خان صوم وصلوٰة کے پابند اور علماء کے صحبت یافتہ تھے، بڑے وجیہ اور ذی فہم انسان تھے، ڈاکٹر صاحب نے گاؤں میں ہی قرآن کریم کی تعلیم حاصل کی، اس کے بعد میٹرک تک اسکول پڑھا، بعد ازاں دینی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے، ہری پور میں دو مدرسے تھے۔ ایک دارالعلوم چوہڑ شریف، یہاں آپ نے دو سال تعلیم حاصل کی اور دو سال احمد المدارس سکندرپور میں پڑھا۔ اس کے بعد مزید تعلیم کے لیے 1952ء میں کراچی تشریف لائے اور دارالعلوم کراچی(نانک واڑہ) میں داخلہ لیا۔ درجہ رابعہ سے سادسہ تک کی کتابیں آپ نے دارالعلوم نانک واڑہ میں پڑھیں۔

جس وقت ڈاکٹر صاحب دارالعلوم میں زیر تعلیم تھے، اس دوران لیبیا اور مصر کی حکومت کے تعاون سے کراچی میں عربی سکھانے کے لیے مختلف جگہوں پر کورس شروع کرائے گئے تھے۔ ڈاکٹر امین مصری مرحوم اس کے نگران تھے، تربیتی کورس میں ڈاکٹر صاحب کے علاوہ سارے شرکاء علماء اور اساتذہ تھے۔ ان علماء کو عربی پڑھانے کے لیے مختلفجگہوں پر تعینات کر دیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب کو شیخ امین مصری نے نیوٹاؤن مسجد میں کلاس شروع کرنے کے لیے بھیجا۔ یہ کلاس عصر کے بعد ہوتی تھی، کلاس سے فارغ ہو کر آپ محدث العصر علامہ سید محمدیوسف بنوری کی مجلس میں حاضر ہوتے، اس طرح آپ کا مولانا بنوری سے وہ والہانہ تعلق قائم ہوا، جس کو ”نسبت اتحادی“ کی بہترین مثال سمجھا جاسکتا ہے۔ حضرت بنوری کو بھی عربی زبان وادب سے بچپن سے غیر معمولی شغف رہا تھا او ران کی عربی دانی پر ان کے اساتذہ بھی ناز کیا کرتے تھے او رانہیں بھی اپنے دور میں عالم اسلام میں ہندوستانی علماء کی ترجمانی کا اعزار حاصل تھا، جوان سے ڈاکٹر صاحب کو ورثے میں ملا۔

حضرت بنوری نے عام مدارس سے ہٹ کر اپنے مدرسہ کا آغاز تکمیل کی کلاس یعنی تخصص سے کیا تھا، نچلے درجات کی کلاسیں نہیں تھیں۔ ڈاکٹر صاحب کی ہی درخواست پر حضرت بنوری رحمة الله علیہ نے موقوف علیہ اور دورہ کے درجات شروع کیے اور آپ ان دس ابتدائی طلبہ میں شامل تھے جن سے جامعہ میں در س نظامی کا آغاز ہوا۔ اس وقت سے آخری سانس تک ڈاکٹر صاحب جامعہ سے وابستہ رہے اور اپنے شیخ کے ادارے کو نہایت خوب صورتی سے چلایا۔

ڈاکٹر صاحب کو یہ منفرد اعزار بھی حاصل تھا کہ آپ بیک وقت عالم اسلام کے تین ممتاز ترین دینی اداروں جامعة العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ اور جامعہ ازہر مصر کے فاضل تھے۔ 1962ء میں آپ جامعہ سے چھٹی لے کر مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور چار سال وہاں تعلیم حاصل کی۔ وہاں سے فارغ ہو کر دوبارہ جامعہ میں تدریس شروع کر دی۔ جامعہ ازہر میں آپ کے داخلے کا پس منظر یہ تھا کہ ایک مرتبہ مصر کی” المجلس الاعلیٰ بشئون الإسلامیہ“ کے رئیس پاکستان آئے، بنوری ٹاؤن بھی تشریف لائے، مدرسہ کا معاینہ کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے متکلم کے فرائض انجام دیے اور طلبہ واساتذہ کے اجتماع میں کلمات ِ ترحیب او رخطبہ استقبالیہ بھی پیش کیا۔ شیخ موصوف،جامعہ کی کارکردگی کے ساتھ ڈاکٹر صاحب سے بھی بہت متاثر ہوئے اور اپنے خطاب میں انہوں نے اعلان کیا کہ میں مصری حکومت او راپنے ادارہ کی طرف سے اس جامعہ کے لیے چار طلبہ کو جامعہ ازہر میں پی ایچ ڈی میں داخلے کی منظوری دیتا ہوں،جن میں پہلا نام عبدالرزاق کا ہو گا۔ ان کی دعوت پر 1972ء میں حضرت بنوری خود حضرت ڈاکٹر صاحب کو مصر لے گئے اور شفیق باپ کی طرح آپ کا وہاں داخلہ کرواکر آئے۔ ڈاکٹر صاحب نے چار سال وہاں تعلیم حاصل کی اور ”عبدالله بن مسعود امام الفقہ العراقی“ کے عنوان سے مقالہ تحریر فرمایا اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرکے فروروی1977ء میں پاکستان واپس آئے او رجامعہ کے ناظم تعلیمات مقرر کیے گئے۔1997 میں مولانا ڈاکٹر حبیب الله مختار کی شہادت کے سانحہ فاجعہ کے بعد اساتذہ جامعہ کے پرزور اصرار پر آپ نے جامعہ کے اہتمام کی ذمہ داری قبول فرمائی اور آپ کے دور میں جامعہ بنوری ٹاؤن نے بے مثال ترقی کی۔ اس وقت15000 ہزار کے قریب طلبہ وطالبات جامعہ میں حصول علم میں مصروف ہیں۔ آپ کو اپنے شیخ حضرت بنوری سے والہانہ محبت تھی۔ آپ ”فناء فی الشیخ“ کا بہترین مصداق تھے۔ دوران زندگی سفر وحضر میں حضرت بنوری کی خدمت کرنا او رہر وقت آپ کی مجلس میں حاضر رہنا، آپ کا معمول تھا او رحضرت بنوری کی وفات کے بعد سے تادم واپسیں جب بھی کوئی مجلس ہوتی ہے، حضرت کا تذکرہ ضرو رکرتے او رجب بھی حضرت کا تذکرہ کرتے، بے اختیارآبدیدہ ہو جاتے #
        میرے دل وارفتہ حیرت کو ہے اب تک
        اس نازش صد ناز کی ایک ایک ادا یاد

محدث العصر مولانا سید محمدیوسف بنوری کی اس بے پناہ محبت اور”نسبت اتحادی“ کاکرشمہ ہی ہے کہ جن جن اعلی ترین دینی مناصب پر حضرت بنوری اپنی زندگی میں فائز رہے ان میں سے ہر منصب نے رفتہ رفتہ ڈاکٹر صاحب کو اپنی طر ف کھینچا۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کے اہتمام اور مسند بخاری سے لے کر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی امارت اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی سربراہی تک ہر منصب پر حضرت بنوری کی جانشینی کا اعزاز آپ کے حصہ میں آیا۔ علاوہ ازیں آپ20 ہزار کے قریب دینی مدارس کے ساتھ ساتھ اقراء روضة الاطفال ٹرسٹ کے ملک گیر اسکول سسٹم کے دسیوں ہزار طلبہ کے بھی باقاعدہ سرپرست تھے۔ پوری اسلامی دنیا میں آپ کے شاگردوں اور متوسلین کے زیراہتمام چلنے والے ہزاروں ادارے اس پر مستزاد ہیں۔ ڈاکٹر صاحب متعدد بین الاقوامی اسلامی فورموں کے بھی رکن رہے او رتقریباً نصف صدی سے عالم اسلام میں پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز حاصل کیا۔

ڈاکٹر صاحب نے مسلسل تدریسی وانتظامی مصروفیات کے باوجود تصنیف وتالیف کے میدان میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں، 15 سے زائد کتابیں اور رسالے آپ کے قلم سے نکلے۔ آج کے دور میں جو بھی طالب علم عربیت انشاء کی تعلیم کا آغاز کرتا ہے ڈاکٹر صاحب کی کتاب ”الطریقہ العصریہ“ سے ہی آغازکرتا ہے۔ قادیانی مسئلے سے متعلق ڈاکٹر صاحب کی کتاب ” موقف الامة الاسلامیہ“ نے عرب دنیا کو قادیانی فتنے سے آگاہ کرنے میں اہم کردار اداکیا۔

ڈاکٹر صاحب کی زندگی اور سوانح پر یقینا اہل قلم مختلف زاویوں سے روشنی ڈالیں گے۔ آج سے کوئی اکیس سال پہلے کی بات ہے، ہمارے دورہٴ حدیث کے سال ہمار ے کچھ ساتھیوں نے تعلیمی سال کے اختتام پر اساتذہ اور کلاس کے ساتھیوں کے تعارف پر مشتمل ایک ڈائریکٹری مرتب کرنے کا فیصلہ کیا او ر حضرت ڈاکٹر صاحب کی زندگی سے متعلق کچھ لکھنے کی راقم کی ذمہ داری لگائی۔ لیکن یہ میرے لیے بڑا مشکل ٹاسک ثابت ہوا، کیوں کہ میں جب بھی حضرت سے اپنے کچھ سوانح عنایت کرنے کی درخواست کرتا، حضرت فرماتے ”ارے بھائی! کیا ہم او رکیا ہمارے حالات، کیا پدی کیا پدی کا شوربہ…! بہت اصرار پر حضرت نے اپنے ریکارڈ سے ایک پرانی تحریر نکال کر عنایت فرمائی، جو کسی عربی جریدے کے سوالنامے کے جواب میں لکھی گئی تھی۔ یہی وہ فنائیت ، عاجزی اور بے نفسی تھی جس نے حضرت استاذ گرامی کو اندرون وبیرون ملک بے مثال محبوبیت عطاکی۔ ڈاکٹر صاحب کی شفقت، مہربانی، کرم نوازی او رتواضع وانکساری کے بیان کے لیے شاید یہ بات ہی کافی ہو گی کہ ایک دور میں جامعہ بنوری ٹاؤن میں عبدالرزاق نامی کئی اساتذہ ہوتے تھے تو ان میں ڈاکٹر صاحب کی عرفیت ”میٹھے عبدالرزاق“ کی ہوتی تھی، ڈاکٹر صاحب میں بہت خوبیاں تھیں، تاہم ان کی سب سے نمایاں خوبی ان کی مثبت سوچ، شفیقانہ مزاج او رفکری اعتدال تھا۔ ہم نے ڈاکٹر صاحب کو کبھی کسی فرد، مسلک، فرقے کے خلاف سخت زبان استعمال کرتے نہیں دیکھا۔ ان کا زیادہ سے زیادہ غصہ”الله کے بندے!“ کے نیم فقرے پر مبنی ہوتا۔ الله تعالیٰ حضرت ڈاکٹر صاحب کی کامل مغفرت فرمائے اور ہم سب پسماندگان کو صبر جمیل نصیب فرمائے۔