آخری نبی حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے اُمت پر دس حق

آخری نبی حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے اُمت پر دس حق

مولانا ندیم احمد انصاری

محسن ِانسانیت، رحمة للعالمین، سیدنا و مولانا حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم جنھوں نے حیوانِ ناطق کو انسان بنایا، بچیوں کو زندہ درگور کرنے والوں کو ان سے محبت کرنا سکھایا، عورت کو معاشرے میں ایک چیز سے بڑھا کر گھر کی ملکہ کا شرف بخشا،بڑوں کے ادب و احترام کی تاکید کی،چھوٹوں پر شفقت کرنا سکھایا، بیواؤں، ضعیفوں اور کمزوروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی تعلیم دی اور مخلوق سے خالق کا تعارف کروایا۔آج ہم اُنھیں کے حقوق سے ناواقف ہو گئے!اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمارے اس جرمِ عظیم کو معاف فرمائے اور اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم کے حقوق ادا کرنے والا بنائے ، آمین۔

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے جو حقوق امت پر لازم ہیں، انھیں چند عناوین کے تحت بیان کرنی کی کوشش کی جاتی ہے:

نبی صلی الله علیہ وسلم پر ایمان لانا
ایمان کے جو بنیادی ارکان ہیں، اُن میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم پر ایمان لانا بھی داخل ہے، اگر کوئی شخص اللہ پر ایمان لانے کا دعوے دار ہو اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی رسالت کا انکار کرے، اُسے مؤمن قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ارشاد ربانی ہے:اے ایمان والو!ایمان لاؤ تم اللہ پراور اُس کے رسول پر۔(سورة النساء)نیز ارشاد فرمایا:اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں، وہی اپنے پروردگار کے نزدیک سچے ہیں۔ (سورة الحدید) احادیث کے مطابق بھی درجِ ذیل امور پر ایمان لانا ضروری ہے : اللہ تعالیٰ پر فرشتوں پر (اللہ کی طرف سے نازل کردہ) کتابوں پر رسولوں پر آخرت کے دن پر تقدیر اچھی ہو یا بری، اُس کے اللہ ہی کے طرف سے ہونے پر۔(بخاری، مسلم)

نبی صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت کرنا
رسول کی حیثیت اسلام میں محض پیام بر کی نہیں، بلکہ اُس کی اطاعت مستقلاًواجب ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی۔(سورة النساء ) اس آیت میں اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کو مستقل طور پر واجب قرار دیا گیا، اس لیے کہ ان دونوں اطاعت کے لیے قرآن مجید میں مستقل طور پر لفظ (اطیعوا) استعمال فرمایا گیا۔ اطاعت ِرسول کے مستقل واجب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا ہر حکم مانا جائے، خواہ اُس کی اصل ہمیں قرآن میں معلوم ہو سکے یا نہ، اس کا یہ مطلب نہیں سمجھنا چاہیے کہ بعض سنتوں کی اصل قرآنِ کریم میں موجود نہیں،بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ رسول کی اطاعت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کا ہمیں مکلَّف ہی نہیں بنایا کہ اس کی سنت قرآن مجید میں تلاش کی جائے۔ اگر کوئی یہ سمجھے کہ رسول کی اطاعت بھی صرف اُن احکام تک محدود ہے جن کا ذکر قرآن مجید میں صاف صاف موجود ہے، تو پھر اصلاً اِس آیت کا کوئی مفہوم ہی باقی نہیں رہتا، اس کے علاوہ بھی بیسیوں آیتیں ہیں، جن میں اطاعت ِرسول کا علاحدہ حکم دیا گیا ہے، جن کا مطلب یہی ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی براہِ راست اطاعت کی جائے۔ یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ یہ حکم خود اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ہے، اس لیے اگر کوئی رسول کی اطاعت نہیں کرتا، وہ اصلاً اللہ کی اطاعت نہیں کرتا اور گویا رسول کی اطاعت میں بھی اللہ کی اطاعت کرتا ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے مزید وضاحت کے ساتھ یوں ارشاد فرمایا ہے: جس نے رسول کی اطاعت کی، اُس نے اللہ ہی کی اطاعت کی۔(سورة النساء )نیز رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے میری اطاعت کی، اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی، جس نے میری نافرمانی کی، اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی۔(بخاری) معلوم ہوا کہ صرف اللہ پر یا رسول پر ایمان لانا کافی نہیں،بلکہ اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت بھی واجب ہے۔

نبی صلی الله علیہ وسلم کا ادب و احترام کرنا
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا نہایت ادب و احترام بھی ایمان والوں پر لازم و ضروری، بلکہ ایمان کا جزہے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ایمان والوں کے سامنے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ذریعے ہی، رسولوں کو بھیجنے کا مقصد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:بے شک ہم نے آپ کو گواہی دینے والا، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے، تاکہ تم لوگ اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لاؤ، اُس کا ساتھ دو اور اُس کا ادب کرو۔(سورة الفتح) بلکہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے غایت درجے احترام کی نسبت ایمان والوں کو سخت تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:اے وہ لوگو، جو ایمان لائے ہو! اپنی آواز نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ نبی کے ساتھ اونچی آواز میں بات کرو، جیسے کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے بات کرتے ہو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے (اس بے ادبی کے باعث) تمام( نیک) اعمال برباد ہو جائیں اور تمہیں شعور بھی نہ ہو۔ (سورة الحجرات)

نبی صلی الله علیہ وسلم سے محبت کرنا
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے محبت کرنا بھی ایمان کا جز ہے، محبت بھی ایسی جوانسان کے اپنے اہل و عیال بلکہ اپنے نفس پر بھی غالب ہو۔ ایمان والوں کی صفات بتاتے ہوئے قرآن مجید میں فرمایا گیا:نبی کی ذات مؤمنوں کے لیے اپنی جانوں سے بھی مقدَّم ہے۔(سورة الاحزاب) اس کا حاصل یہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا حکم ہر مسلمان کے لیے اپنے ماں باپ سے زیادہ واجب التعمیل ہے، اگر ماں باپ آپ صلی الله علیہ وسلم کے کسی حکم کے خلاف کہیں اُن کا کہنا ماننا جائز نہیں، اِسی طرح خود اپنے نفس کی تمام خواہشات پر بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل مقدم ہے۔ (معارف القرآن) رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم میں سے کوئی اُس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا، جب تک اُس کے نزدیک اُس کی اولاد سے زیادہ، اُس کے ماں باپ سے زیادہ اور تمام انسانوں سے زیادہ، میں محبوب نہ ہو جاؤں۔ (بخاری)البتہ محبت ِرسول میں حد سے بڑھ جانا بھی نامناسب عمل ہے، یعنی شریعتِ اسلام میں رسول کی عظمت و محبت فرض ہے، اس کے بغیر ایمان ہی نہیں ہوتا، مگر رسول کو کسی صفت یا علم یا قدرت وغیرہ میں اللہ تعالیٰ کے برابر کر دینا گم راہی اور شرک ہے۔ قرآن مجید نے شرک کی حقیقت یہی بیان فرمائی ہے کہ غیر اللہ کو کسی صفت میں اللہ کے برابر کریں۔(سورة الشعراء )

نبی صلی الله علیہ وسلم کا دفاع کرنا
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی عزت و ناموس کا دفاع کرنا تمام اہل ایمان پر ہر دم واجب ہے، جیسا کہ سیکڑوں مرتبہ عفو و درگزر کے باوجود حضرت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت حسان کو حکم دیا تھا:(اُن ) مشرکوں کی ہجو کرو (جس نے تمھارے نبی کی شان میں نازیبا کلمات کہے یا ہجو کی) یا فرمایا اس ہجو کا جواب دو (جو انھوں نے میرے بارے میں کی ہے)، جبریل علیہ السلام تمہارے ساتھ ہیں۔ (بخاری) امت کو جو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے دفاع کا حکم دیا گیا یہ خود امت کے حق میں درجات کی بلندی کا سبب ہے، ورنہ باری تعالیٰ کو کسی کی حاجت نہیں اور اُس نے اپنے حبیب کی حفاظت کی ذمّے داری خود لے رکھی ہے۔ ارشاد ربانی ہے: پس اب اللہ کافی ہے، آپ کی طرف سے اور وہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔ (سورة البقرہ) اس آیت میں واضح کر دیا گیا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اپنے مخالفوں کی زیادہ فکر نہ کریں، ہم خود اُن سے نمٹ لیں گے اور یہ ایسا ہی ہے، جیسے دوسرے مقام پر (سورة المائدہ میں)اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا گیا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم مخالفین کی فکر نہ کریں، اللہ تعالیٰ اُن سے آپ کی حفاظت خود کریں گے۔ (معارف القرآن بتغیر)

نبی صلی الله علیہ وسلم کی مدد ونصرت کرنا
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی بھر پور مدد و نصرت کرنا بھی ہر ایمان والے پر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا حق ہے،ارشادِ ربانی ہے:اللہ تعالیٰ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کون غیب کی باتوں کو بغیر دیکھے اُس کی اور اُس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے، بے شک اللہ تعالیٰ (اس کے ذریعے تمہیں آزمانا اور نوازنا چاہتا ہے، ورنہ)بے شک اللہ تعالیٰ تو بہت قوت والا اور غلبے والا ہے۔ (سورة الحدید)سابقہ انبیائے کرام علیہم السلام سے بھی رسول اللہ حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی نصرت و حمایت کا عہد لیا گیا تھا، باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:اور جب اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جب میں تم کو کتاب و حکمت عطا کروں،پھر تمہارے پاس ایک رسول آئے جوتمہاری کتاب کی تصدیق کرے تو تمھیں ضرور اُس پر ایمان لانا ہوگا اور ضرور اُس کی مدد کرنی ہوگی۔(سورة آل عمران) نیز اللہ کے فرشتے بھی رسول اللہ کے رفیق ومددگار ہیں، جیسا کہ ارشاد ہے کہ بے شک!اللہ اور جبریل اور نیک مومنین اُس (رسول) کے حامی و دوست ہیں اور ان کے علاوہ (دیگر)فرشتے بھی۔ (سورة التحریم) اس لیے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی حیات میں اور وفات کے بعد قیامت تک مومنین پر لازم ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی مدد و نصرت کریں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیات میں توآپ صلی الله علیہ وسلم کے اصحابنے اس نصرت کا گویا حق ادا کردیا، اب آپ کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد مومنین پر لازم ہے کہ وہ مندرجہ ذیل صورتوں میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی مدد و نصرت کریں:آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنت کی باطل پرستوں کے ناجائز حیلوں، جاہلوں کی تحریف و تخریب سے حفاظت طعن پرستوں کے طعن اور گستاخوں کی گستاخی سے دفاع۔

نبی صلی الله علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبی نہ ماننا
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:محمد صلی الله علیہ وسلم تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، ہاں! اللہ کے رسول اور سب نبیوں کے خاتم ہیں اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ (سورة الاحزاب)یعنی رسول اللہ حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم خاتم النبیین اور رحمة للعالمین ہیں، اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت کو آپ پر ختم کر دیا ہے۔ آپ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں، آپ کی نبوت کے بعد نبوت کا دروازہ بند کر دیا گیا، اب آپ کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں ہو سکتا اور آپ کا لایا ہوا دین تمام گذشتہ دینوں کا ناسخ ہے، آپ کی لائی ہوئی کتاب تمام گذشتہ کتابوں کے احکام کی ناسخ ہے۔ قیامت تک کے لیے صرف آپ صلی الله علیہ وسلم کا دین اور آپ کی شریعت کا اتباع فرض ہے اور اس کے سوا تمام دینوں کا ترک کرنا لازم ہے۔ سوائے آپ صلی الله علیہ وسلم کی پیروی کے اللہ سبحانہ وتعالیٰ تک پہنچنے کی سب راہیں بند کر دی گئی ہیں اور آپ کی شریعت، تمام شریعتوں کی ناسخ ہے، اب قیامت تک آپ ہی کی شریعت رہے گی اور کبھی منسوخ نہ ہوگی۔ جو شخص آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہ سمجھے، وہ بلا شبہ کافر ہے اور جو شخص آپ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے، وہ بلا شبہ کافر ہے۔ (عقائد الاسلام)

نبی صلی الله علیہ وسلم کے اہلِ بیت و صحابہسے محبت کرنا
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات اہلِ بیت میں داخل ہیں، جیسا کہ ارشاد ہے:(اے نبی کی گھر والیو!)اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے کہ وہ تم سے نجاست کو دور کر دے اور تمھیں خوب پاک کر دے۔(سورة الاحزاب)اس آیت ِمبارکہ میں ازواجِ مطہرات کو قطعی طور پر اہلِ بیت میں شمار کیا گیا۔نیز اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: مومنین کے لیے نبی کی ذات، اُن کے اپنے نفس پر مقدَّم ہے اور نبی کی بیویاں اُن کی مائیں ہیں۔ (سورة الاحزاب)نیز مسلم شریف میں روایت ہے: حضرت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم ایک دن تشریف فرما ہوئے، آپ پر سیاہ بالوں کی بنی ہوئی منقش چادر تھی، اتنے میں حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما آگئے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اُن کو چادر میں لے لیا، پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے تو وہ بھی اس چادر میں داخل ہو گئے، پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا تشریف لے آئیں تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اُنھیں بھی چادرِ مبارک میں داخل فرما لیا، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ پہنچ گئے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اُنھیں بھی چادر میں لے لیا، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اے اہلِ بیت! اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ تم سے ہر بُری چیز کو دور فرما کر تمہیں خوب پاک صاف کر دیں۔(مسلم) اہل ِبیت و آلِ رسول صلی الله علیہ وسلم کا مسئلہ امت میں کبھی زیرِ اختلاف نہیں رہا، بہ اجماع و اتفاق اُن کی محبت و عظمت لازم ہے۔(معارف القرآن)

صحابی اسے کہتے ہیں جس نے ایمان کی حالت میں حضرت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی صحبت کا شرف حاصل کیا ہو اور اسی حالت میں وہ دنیا سے رخصت بھی ہوا ہو۔ صحابہ، صحابی کی جمع ہے۔ (تدریب الراوی) حضرت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میرے صحابہ کو برا مت کہو، اگر تم میں سے کوئی شخص اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کردے تو میرے صحابہ کے خرچ کیے ہوئے ایک مد، بلکہ اس کے نصف کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتا۔(بخاری)ایک حدیث میں فرمایا: میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو!میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو!میرے بعد انھیں نشانہ مت بنالینا، کیوں کہ جو شخص ان سے محبت کرے گا، وہ میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کرے گا، جو ان سے بغض رکھے گا، وہ در حقیقت مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھے گا، جس نے انھیں تکلیف پہنچائی، اس نے مجھے تکلیف پہنچائی، جس نے مجھے تکلیف پہنچائی، اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی اور جس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی تو اللہ تعالیٰ اسے جلد ہی اپنی گرفت میں لے لے گا۔ (ترمذی)

نبی صلی الله علیہ وسلم کے لیے دوستی یادشمنی رکھنا
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا ایک حق اہلِ ایمان پر یہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے دوستوں سے دوستی اور آپ کے دشمنوں سے دشمنی رکھی جائے۔ ظاہر ہے کہ جس سے محبت ہوتی ہے، اُس کے گلی کوچے اور در ودیوار سے بھی محبت ہوتی ہے، اس لیے ضروی ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے محبت کرنے والوں سے محبت کا اور آپ سے دشمنی رکھنے والوں سے دشمنی کا معاملہ کیا جائے۔ ارشادِ ربانی ہے:اللہ تعالیٰ تمھیں کافروں کے ساتھ دوستی کرنے سے منع کرتا ہے، جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ کی اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا اور تمھارے نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی، جو لوگ ایسے کافروں سے دوستی کریں گے وہ ظالم ہیں۔ (سورة الممتحنہ)اس آیت میں اُن کفار کا بیان ہے، جو مسلمانوں کے مقابلے میں جنگ و قتال کر رہے ہوں اور مسلمانوں کو اُن کے گھروں سے نکالنے میں کوئی حصہ لے رہے ہوں، اُن کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اُن کے ساتھ موالات اور دوستی سے منع فرماتا ہے، اِس میں برو احسان کا معاملہ کرنے کی ممانعت نہیں۔ محسنانہ سلوک بر سرِ پیکار دشمنوں کے ساتھ بھی جائز ہے، البتہ دوسری نصوص کی بنا پر یہ شرط ہے کہ اُن کے ساتھ احسان کا معاملہ کرنے سے مسلمانوں کو کسی ضرر کا خطرہ نہ ہو، جہاں یہ خطرہ ہو، وہاں برّ و احسان اُن پر جائز نہیں، ہاں! عدل و انصاف ہر حال میں ہر شخص کے لیے ہر وقت ضروری اور واجب ہے۔ (معارف القرآن)اس آیت اور اُس کی تفسیر میں یہ اشارہ بھی موجود ہے کہ مومنوں کو اُسی سے محبت و دوستی رکھنی چاہیے، جو اللہ اور اُس کے رسول اور مومنوں کا دوست اور چاہنے والا ہو۔

نبی صلی الله علیہ وسلم پرصلوٰة و سلام بھیجنا
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں درود و سلام کا نذرانہ پیش کرنا بھی مومنین کے لیے سعادت مندی کی بات اور آپ صلی الله علیہ وسلم کا حق ہے، قرآن مجید میں ہے: بے شک اللہ تعالیٰ اور اُس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو!تم بھی اُن پر درود و سلام بھیجا کرو۔ (سورة الاحزاب)اس آیت میں صلوٰة و سلام کو امر کے صیغے کے ساتھ ذکر کیا گیااور چوں کہ اصول یہ ہے کہ امر وجوب کی دلالت کرتا ہے اور جب آیتِ مبارکہ سے تکرار کا وجوب ثابت نہیں تو زندگی بھر میں کم از کم ایک مرتبہ صلوٰة و سلام بھیجنا فرض ہوگا اور بار بار پڑھنا مستحب ہے۔ (فتاوی اسلامیہ)