آج کے بچے کل کے معمار ہیں!

آج کے بچے کل کے معمار ہیں!
معمارانِ قوم کی تربیت سے متعلق کچھ اہم پہلو

ڈاکٹر عبدالغنی نظامی

 

اولاد الله تبارک وتعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک قیمتی نعمت ہے۔ سورہٴ شوریٰ کی ایک آیت کا مفہوم ہے:” آسمانوں اور زمین کی سلطنت الله تعالیٰ ہی کے لیے ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے او رجسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے یا انہیں ملا جلا کر دیتا ہے، بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے۔“

بچوں کی پیدائش کے ذریعے الله تبارک وتعالیٰ نے انسان کی بقاء کا سامان فراہم کیا ہے، تاکہ نسل انسانی تا قیامت قائم رہے۔ پرانے انسان اس دنیائے فانی سے کوچ کر جاتے ہیں اور نئے انسان ان کی جگہ ذمے داریوں کو سنبھالتے جاتے ہیں، یعنی آج کے بچے کل کے معمار ہیں۔ بچے دین فطرت پر پیدا ہوتے ہیں، یعنی ہر بچہ پیدائشی طور پر مسلمان ہوتا ہے اور حق کو قبول کرنے کی صلاحیت بڑوں کے مقابلے میں زیادہ رکھتا ہے۔ بچے نرم مٹی کی طرح ہوتے ہیں، والدین کی اولین ذمے داری ہے کہ وہ انہیں بچپن ہی سے اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ کیوں کہ جیسی تربیت وہ انہیں بچپن میں دیں گے اس کا پھل بڑھاپے میں کھائیں گے۔

تربیت دو قسم کی ہوتی ہے، ظاہری تربیت اور باطنی تربیت۔ ظاہری اعتبار سے تربیت میں اولاد کی ظاہری وضع قطع، لباس، کھانے، پینے، نشست وبرخاست، میل جول ، اس کے دوست واحباب او رتعلقات ومشاغل کو نظر میں رکھنا، اس کے تعلیمی کوائف کی جاں کاری اور بلوغت کے بعد ان کے ذرئع معاش کی نگرانی وغیرہ امور شامل ہیں۔ یہ تمام امور اولاد کی ظاہری تربیت میں داخل ہیں، جب کہ باطنی تربیت سے مراد اُن کے عقیدہ اور اخلاق کی اصلاح ودرستی ہے۔ اولاد کی ظاہری اور باطنی دونوں قسم کی تربیت والدین کے ذمہ فرض ہے، ماں باپ کے دل میں اپنی اولاد کے لیے بے حد رحمت وشفقت کا فطری جذبہ اور احساس پایا جاتا ہے۔

یہی پدری ومادری فطری جذبات واحساسات ہی ہیں جو بچوں کی دیکھ بھال، تربیت او ران کی ضروریات کی کفالت پر انہیں ابھارتے ہیں۔ ماں باپ کے دل میں یہ جذبات راسخ ہوں اور ساتھ ساتھ اپنی دینی ذمہ داریوں کا بھی احساس ہو تو وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریاں احسن طریقے سے اخلاص کے ساتھ پوری کرسکتے ہیں۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں اولاد کی تربیت کے بارے میں واضح ارشادات موجود ہیں۔ الله تعالیٰ کا ارشاد ہے، ترجمہ:”اے ایمان والو! اپنے آپ کو او راپنی اولاد کو آگ سے بچاؤ ، جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔“ حضرت علی رضی الله عنہ نے اس آیت کی تفسیر وتشریح میں فرمایا:”علموھم وأدّبوھم․“

”ان ( اپنی اولاد) کو تعلیم دو اور ان کو ادب سکھاؤ۔“ فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ ہر شخص پر فرض ہے کہ اپنے بیوی بچوں کو فرائض شرعیہ اور حلال وحرام کے احکام کی تعلیم دے او راس پر عمل کرانے کے لیے کوشش کرے۔ اولاد کی تربیت کی اہمیت کا اندازہ ان احادیث سے بھی ہوتا ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ کوئی باپ اپنی اولاد کو اس سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا کہ اس کو اچھے آداب سکھا دے۔ (بخاری:1/224)

یعنی اچھی تربیت کرنا او راچھے آداب سکھانا اولاد کے لیے سب سے بہترین عطیہ ہے۔ ترجمہ:”حضرت ابن عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے، صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا اولاد کے کیا حقوق ہیں؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” وہ یہ ہے کہ اس کا نام اچھا رکھے او راس کی اچھی تربیت کرے۔ یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ انسان جن کا ذمہ دار اور رکھوالا ہے، انہیں ضائع کر دے، ان کی تربیت نہ کرے۔“

یہ بھی ضائع کرنا ہے کہ بچوں کو یونہی چھوڑ دینا کہ وہ بھٹکتے پھریں، صحیح راستہ سے ہٹ جائیں، ان کے عقائد واخلاق برباد ہو جائیں۔

نیز اسلام کی نظر میں ناواقفیت کوئی عذر نہیں ہے، بچوں کی تربیت کے سلسلہ میں جن امور کا جاننا ضروری ہے، اس میں کوتاہی کرنا قیامت کی باز پرس سے نہیں بچا سکتا۔ حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ کا ارشاد ہے:”اپنی اولاد کو ادب سکھلاؤ، قیامت والے دن تم سے تمہاری اولاد کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ تم نے اسے کیا ادب سکھلایا؟ او رکس علم کی تعلیم دی؟ (شعب الایمان للبیہقی)

بچوں کی حوصلہ افزائی
بچہ نرم گیلی مٹی کی طرح ہوتا ہے، ہم اس سے جس طرح پیش آئیں گے، اس کی شکل ویسی ہی بن جائے گی۔ بچہ اگر کوئی اچھا کام کرے تو اس کی حوصلہ افزائی کے لیے اس کی تعریف سے دریغ نہیں کرنا چاہیے اور اس پر اسے شاباش اور کوئی ایسا تحفہ وغیرہ دینا چاہیے جس سے بچہ خوش ہو جائے اور آئندہ بھی اچھے کام کا جذبہ اور شوق اس کے دل میں پیدا ہو جائے۔

بچوں کی غلطی پر تنبیہ کا مثبت انداز
بچوں کو کسی غلط کام پر بار بار او رمسلسل ٹوکنا اُن کی طبیعت میں غلط چیز راسخ ہونے سے حفاظت کا سبب بنتا ہے، جس سے اگر غفلت نہ برتی گئی تو اس میں شک نہیں کہ بچوں اور بچیوں میں غلط افکار جڑ پکڑنے سے پہلے کامل طریقہ سے ان کی بخ کنی ہو گی۔ بچے سے خطا ہوجانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے، غلطی تو بڑوں سے بھی ہو جاتی ہے۔ ماحول کا بچوں پر اثر ہوتا ہے، ممکن ہے کہ غلط ماحول کی وجہ سے بچہ کوئی غلطی کر بیٹھے تو اس صورت حال کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ بچے سے غلطی کس سبب سے ہوئی؟ اسی اعتبار سے اسے سمجھایا جائے۔ تربیت میں میانہ روی او راعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ مربی کو اس بات سے باخبر ہونا چاہیے کہ اس وقت بچہ کے لیے نصیحت کار گر ہے یا سزا؟ تو جہاں جس قدر سختی اور نرمی کی ضرورت ہو اسی قدر کی جائے۔ بہت زیادہ سختی اور بہت زیادہ نرمی بھی بعض اوقات بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔

تربیت میں تدریجی انداز اختیار کرنا چاہیے، چناں چہ غلطی پر تنبیہ کی ترتیب یوں ہونی چاہیے، سمجھانا، ڈانٹ ڈپٹ مار کے علاوہ کوئی سزا دینا، مارنا، قطع تعلق کرنا۔ یعنی غلطی ہو جانے پر بچوں کی تربیت حکمت کے ساتھ کی جائے۔ اگر پہلی مرتبہ غلطی ہو تو اولاً اسے اشاروں اور کنایوں سے سمجھایا جائے، صراحة برائی کا ذکرنا ضرور ی نہیں۔ اگر بچہ بار بار ایک ہی غلطی کرتا ہے تو اس کے دل میں یہ بات بٹھائیں کہ اگر دوبارہ ایسا کیا تو اس کے ساتھ سختی برتی جائے گی، اس وقت بھی ڈانٹ ڈپٹ کی ضرورت نہیں ہے، نصیحت اور پیار سے اسے غلطی کا احساس دلایا جائے۔ پیار ومحبت سے بچوں کی تربیت واصلاح کا ایک واقعہ حضرت عمر بن ابی سلمہ سے منقول ہے، فرماتے ہیں،میں بچپن میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے زیرتربیت اور زیر کفالت تھا، میرا ہاتھ کھانے کے برتن میں ادھر ادھر گھوم رہا تھا، یہ دیکھ کر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:”اے لڑکے! ا لله کا نام لے کر کھانا شروع کرو اور دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنی طرف سے کھاؤ۔“

اگر نصیحت اور آرام سے سمجھانے کے بعد بھی بچہ غلطی کرے تو اسے تنہائی میں ڈانٹا جائے اور اس کام کی برائی بتائی جائے اور آئندہ ایسا نہ کرنے کو کہا جائے۔ پھر بھی اگر باز نہ آئے تو تھوڑی پٹائی بھی کی جاسکتی ہے۔ تربیت کے یہ طریقے نو عمر بچوں کے لیے ہیں، لیکن بلوغت کے بعد تربیت کے طریقے مختلف ہیں، اگر اس وقت نصیحت سے نہ سمجھے تو جب تک وہ اپنی برائی سے باز نہ آئے اس سے قطع تعلق بھی کیا جاسکتا ہے، جو شرعاً درست ہے او رکئی صحابہ کرام رضی الله عنہ کے عمل سے ثابت ہے۔ حضرت عبدالله بن مغفل کے ایک رشتہ دار تھے، جو ابھی بالغ نہ ہوئے تھے، انہوں نے کنکر پھینکا تو حضرت عبدالله نے منع کیا اور فرمایا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کنکر مارنے سے منع فرمایا ہے اور فرمایا:”اس سے کوئی جانور شکار نہیں ہو سکتا۔“ اس نے پھر کنکر پھینکا تو انہوں نے غصہ سے فرمایا کہ میں ”تمہیں بتلا رہا ہوں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے اور تم پھر دوبارہ ایسا ہی کر رہے ہو؟ میں تم سے ہر گز بات نہیں کروں گا۔“

بچوں کو ڈانٹنے اور مارنے کی حدود
بچوں کی تربیت کے لیے ماں باپ یا استاد کا انہیں تھوڑا بہت ہلکا پھلکا مارنا نہ صرف یہ کہ جائز ہے، بلکہ بعض اوقات ضروری ہو جاتا ہے۔ اس معاملہ میں افراط وتفریط کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ غصہ میں بے قابوہوجانا اور حد سے زیادہ مارنا یا بچوں کے مارنے ہی کو غلط سمجھنا دونوں باتیں غلط ہیں۔ پہلی صورت میں افراط ہے اور دوسری میں تفریط ہے۔ اعتدال کا راستہ وہ ہے جو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ایک حدیث میں بیان فرمایا کہ:” اپنے بچوں کو نماز کا حکم دو، جب کہ وہ سات سال کے ہو جائیں او ران کو نماز نہ پڑھنے پر مارو، جب کہ وہ دس سال کے ہوجائیں۔“ (مشکوٰة)

اس حدیث سے مناسب موقع پر حسب ضرورت مارنے کی اجازت معلوم ہوتی ہے۔ مارنے میں اس بات کابھی خیال رکھا جائے کہ اس حد تک نہ مارا جائے کہ جسم پر مار کا نشان پڑ جائے۔ نیز جس وقت غصہ آرہا ہو، اس وقت بھی نہ مارا جائے، بلکہ بعد میں جب غصہ ٹھنڈا ہو جائے تو اس وقت مصنوعی غصہ ظاہر کرکے مارا جائے، کیوں کہ طبعی غصہ کے وقت مارنے میں حد سے تجاوز کر جانے کا خطرہ ہوتا ہے اور مصنوعی غصہ میں یہ خطرہ نہیں ہوتا، مقصد بھی حاصل ہو جاتا ہے اور تجاوز بھی نہیں ہوتا۔

لڑکوں کولڑکیوں پر ترجیح دینا گناہ ہے
اولا دالله تعالیٰ کی بیش بہا نعمت اور تحفہ ہے ، خواہ لڑکا ہو یا لڑکی۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے بچوں پر رحم وشفقت کے معاملہ میں مذکرومؤنث میں کوئی تفریق نہیں ہے۔ جو والدین لڑکے کی بہ نسبت لڑکی سے امتیازی سلوک کرتے ہیں، وہ جاہلیت کی پرانی برائی میں مبتلا ہیں، اس طرح کی سوچ اورعمل کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے؛ بلکہ دینی اعتبار سے تو اس پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ لڑکی کو کم تر سمجھنے والا درحقیقت الله تعالیٰ کے اس فیصلے سے ناخوشی کا اظہار کرتا ہے جو الله تعالیٰ نے اُسے لڑکی دے کر کیا ہے، ایسے آدمی کو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ تو کیا، پوری دنیا بھی مل کر الله تعالیٰ کے اس اٹل فیصلہ کو تبدیل نہیں کرسکتی۔ یہ درحقیقت زمانہٴ جاہلیت کی فرسودہ اور قبیح سوچ ہے، جس کو ختم کرنے کے لیے رحمة للعالمین صلی الله علیہ وسلم نے والدین اور تربیت کرنے والوں کو لڑکیوں کے ساتھ اچھے برتاؤ اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنے کی بار بار نصیحت کی۔

اولاد کے درمیان برابری او رعدل
ابوداؤد شریف میں حضرت نعمان بن بشیر کی حدیث ہے، جس میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی اولاد کے درمیان برابری کرو، اپنی اولاد کے درمیان برابری کرو، اپنی اولاد کے درمیان برابری کرو۔“ (ابوداؤد:2/441) مطلب یہ ہے کہ ظاہری تقسیم کے اعتبار سے سب بچوں میں برابری کرنی چاہیے، کیوں کہ اگر برابری نہ ہو تو بچوں کی دل شکنی ہوتی ہے۔ ہاں! فطری طورپر کسی بچے سے دلی طور پر زیادہ محبت ہو تو اس پر کوئی پکڑ نہیں، بشرطیکہ ظاہری طور پر برابر رکھے۔ حدیث میں تین بار مکرر برابری کی تاکید آئی ہے، جو اس کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے، یعنی اولاد کے درمیان برابری کرنا واجب ہے اور برابری نہ کرنا ظلم شمار ہو گا، جب کہ اس کا خیال نہ رکھنا اولاد میں احساس کم تری اور باغیانہ سوچ کو جنم دیتا ہے، جس کے بعد بھیانک نتائج سامنے آتے ہیں۔ الله تعالیٰ تمام مسلمان والدین کو اپنی اولاد سے متعلق ذمہ داریاں احسن طریقہ سے نبھانے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین!