یہود کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان پر حلال چیزوں کا حرام ہونا

idara letterhead universal2c

یہود کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان پر حلال چیزوں کا حرام ہونا

 

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہل سنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)

﴿فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ ہَادُواْ…﴾ یہود کی سرکشی اور یاد الٰہی کی راہوں میں رکاوٹ ڈالنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو مختلف آزمائشوں میں مبتلا کیا، لیکن ان کا شر پسند مزاج عبرت حاصل کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوا، ان آزمائشوں میں ایک آزمائش یہ تھی کہ ان پر مختلف حلال چیزیں حرام کر دی گئیں، جس کا تذکرہ مختلف مقام پر آیا ہے، سورہ انعام میں ہے:

﴿وَعَلَی الَّذِیْنَ ہَادُواْ حَرَّمْنَا کُلَّ ذِیْ ظُفُرٍ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَیْْہِمْ شُحُومَہُمَا إِلاَّ مَا حَمَلَتْ ظُہُورُہُمَا أَوِ الْحَوَایَا أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ﴾․(الانعام:146)

ہر ناخن والا جانور ان پر حرام کر دیا گیا، ناخن والے جانور سے مراد وہ جانور ہیں جن کی انگلیاں الگ الگ پھٹی ہوئی نہیں ہوتی، بلکہ ایک ساتھ ملی ہوئی ہوتی ہیں یا کُھر جدا جدا دو حصوں میں بٹے ہوئے نہیں ہوتے، بلکہ ایک ہی کُھر ملا ہوا ہوتا ہے، جیسے اونٹ، شتر مرغ، بطخ۔

عہد نامہ قدیم میں حلال وحرام جانور کے تفصیلی احکام، کتاب احبار کی گیارہویں فصل میں موجود ہیں۔

بیل، بکری کی چربی بھی ان پر حرام کردی گئی ہے، چناں چہ احبار میں ہے :”بنی اسرائیل سے کہہ تم تو لوگ نہ بیل کی نہ بھیڑ کی نہ بکری کی کچھ چربی کھانا“۔(احبار:7/22)۔

یہود کی سود خوری

﴿أَخْذِہِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُہُواْ عَنْہُ﴾ تمام آسمانی مذاہب میں سودی معاملات حرام رہے، سود خوری معاشرتی ناسور ہے، جو غریبوں کے لہو سے سرمایہ داروں کی تجوری کو رونق بخشتی ہے، انسانوں کو انسانوں کا غلام بنانے کا معاشی ہتھیار ہے، شریعت موسوی میں بھی سودی معاملات حرام تھے، مگر یہودیوں نے اسی میں تحریف کرکے اپنا من پسند مفہوم نکال لیا کہ یہودیوں کے لیے اپنے یہودیوں سے سودی معاملات کرنا حرام ہے، غیر یہودی سے سودی لین دین ناصرف جائز ہے، بلکہ یہود کو اس کا استحقاق ہے، ان کی نفسیات سے آگاہی دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ قول نقل فرمایا ہے:

﴿لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْأُمِّیِّیْنَ سَبِیْلٌ﴾․(آل عمران:75)غیر یہودیوں سے کسی طرح معاملہ کرنے پر ہماری کوئی گرفت نہیں ہوگی، اس لیے ان کی محرّفہ تورات میں ہے:

”تو اپنے بھائی کو قرض پر سود نہ دینا، خواہ روپے کا سود ہو یا اناج کا سود یا کسی ایسی چیز کا سود ہو جو بیاج پر دی جایا کرتی ہے“۔(استثناء:323/ 19)

اسی طرح یہود کو ناحق لوگوں کا مال ہڑپ کرنے سے منع کیا گیا، مگر یہود اس حکم کو یہود کے ساتھ مخصوص کرتے ہیں کہ کوئی یہودی کسی دوسرے یہودی کا مال ناحق طریقے سے نہ کھائے، ہاں! غیر یہود کا مال کسی بھی طرح سے غصب کرنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔

لیکن سارے یہودی ایسے نہیں ہوتے ،ان سے وہ یہودی مستثنیٰ ہیں جو اپنے علم پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور جو احکامِ شریعت آپ صلی الله علیہ وسلم پر نازل ہوئے ان پر صدق دل سے ایمان لاتے ہیں، سابقہ نازل شدہ احکام پر بھی ایمان رکھتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰة ادا کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی توحید اور آخرت کے عقیدے پر بھی یقین رکھتے ہیں، ان کے لیے اجر عظیم کی بشارت ہے۔

﴿إِنَّا أَوْحَیْْنَا إِلَیْْکَ کَمَا أَوْحَیْْنَا إِلَی نُوحٍ وَالنَّبِیِّیْنَ مِن بَعْدِہِ وَأَوْحَیْْنَا إِلَی إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَالأَسْبَاطِ وَعِیْسَی وَأَیُّوبَ وَیُونُسَ وَہَارُونَ وَسُلَیْْمَانَ وَآتَیْْنَا دَاوُودَ زَبُورا، وَرُسُلاً قَدْ قَصَصْنَاہُمْ عَلَیْْکَ مِن قَبْلُ وَرُسُلاً لَّمْ نَقْصُصْہُمْ عَلَیْْکَ وَکَلَّمَ اللّہُ مُوسَی تَکْلِیْماً، رُّسُلاً مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنذِرِیْنَ لِئَلاَّ یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّہِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَکَانَ اللّہُ عَزِیْزاً حَکِیْماً، لَّکِنِ اللّہُ یَشْہَدُ بِمَا أَنزَلَ إِلَیْْکَ أَنزَلَہُ بِعِلْمِہِ وَالْمَلآئِکَةُ یَشْہَدُونَ وَکَفَی بِاللّہِ شَہِیْداً، إِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ وَصَدُّواْ عَن سَبِیْلِ اللّہِ قَدْ ضَلُّواْ ضَلاَلاً بَعِیْداً، إِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ وَظَلَمُواْ لَمْ یَکُنِ اللّہُ لِیَغْفِرَ لَہُمْ وَلاَ لِیَہْدِیَہُمْ طَرِیْقاً،إِلاَّ طَرِیْقَ جَہَنَّمَ خَالِدِیْنَ فِیْہَا أَبَداً وَکَانَ ذَلِکَ عَلَی اللّہِ یَسِیْراً،یَا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَاء کُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِن رَّبِّکُمْ فَآمِنُواْ خَیْْراً لَّکُمْ وَإِن تَکْفُرُواْ فَإِنَّ لِلَّہِ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَکَانَ اللّہُ عَلِیْماً حَکِیْماً﴾․

ہم نے وحی بھیجی تیری طرف جیسے وحی بھیجی نوح پر اور ان نبیوں پر جو اس کے بعد ہوئے اور وحی بھیجی ابراہیم پر اور اسماعیل پر اور اسحاق پر اور یعقوب پر اور اس کی اولاد پر اور عیسی پر اور ایوب پر اور یونس پر اور ہارون پر اور سلیمان پر اور ہم نے دی داؤد کو زبورOاور بھیجے ایسے رسول کہ جن کا احوال ہم نے سنایا تجھ کو اس سے پہلے اور ایسے رسول جن کا احوال نہیں سنایا تجھ کو اور باتیں کیں اللہ نے موسی سے بول کرOبھیجے پیغمبر خوش خبری اور ڈر سنانے والے، تاکہ باقی نہ رہے لوگوں کو اللہ پر الزام کا موقع رسولوں کے بعد اور اللہ زبردست ہے حکمت والاOلیکن اللہ شاہد ہے اس پر جو تجھ پر نازل کیا کہ یہ نازل کیا ہے اپنے علم کے ساتھ اور فرشتے بھی گواہ ہیں اور اللہ کافی ہے حق ظاہر کرنے والا Oجو لوگ کافر ہوئے اور روکا اللہ کی راہ سے وہ بہک کر دور جا پڑے Oجو لوگ کافر ہوئے اور حق دبا رکھا، ہرگز اللہ بخشنے والا نہیں ان کو اور نہ دکھلاوے گا ان کو سیدھی راہ Oمگر راہ دوزخ کی، رہا کریں اس میں ہمیشہ اور یہ اللہ پر آسان ہےOاے لوگو!تمہارے پاس رسول آچکا ،ٹھیک بات لے کر، تمہارے رب کی، سو مان لو، تاکہ بھلا ہو تمہارا اور اگر نہ مانوگے تو اللہ ہی کا ہے جو کچھ ہے آسمانوں میں اور زمین میں اور ہے اللہ سب کچھ جاننے والا حکمت والاO

بعثت انبیا سے حجت تمام ہوجاتی ہے

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات مبارکہ سابقہ آسمانی کتب میں موجود تھیں اور یہودی آپ کو پہچان چکے تھے مگر ضد اور تعصب کی وجہ سے ایمان لانے سے کترارہے تھے، ان آیات میں حضور علیہ السلام کو تسلی دی گئی، آپ سے پہلے جس قدر انبیاء علیہم السلام تشریف لائے وہ بھی ان آزمائشوں سے گزرے، ان کو جھٹلایا گیا، ان کی دعوت کا انکار کیا گیا، لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ انبیاء مبعوث فرماکر لوگوں پر حجت تمام کردیتا ہے تاکہ آخرت میں کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ توحید، رسالت اور عقیدہ آخرت کے متعلق ہماری رہنمائی کرنے والا کوئی نہ تھا، اور ﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَاء کُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ﴾ کے ذریعے تمام انسانوں کو ایک بار پھر خیر خواہانہ اپیل کی گئی ہے کہ اس نبی برحق پر ایمان لے آؤ اس میں تمہاری بہتری ہوگی وگرنہ ذات باری تعالیٰ کو کسی کے ایمان کی حاجت نہیں ہے، ہر چیز اس کی مملوک ہے، اور اس کا اختیار ہر چیز پر چل رہا ہے۔

قرآن وحدیث میں کتنے انبیا کا تذکرہ ہے

﴿وَرُسُلاً قَدْ قَصَصْنَاہُمْ عَلَیْْکَ مِن قَبْلُ وَرُسُلاً لَّمْ نَقْصُصْہُمْ عَلَیْْکَ﴾․

قرآن کریم میں بعض انبیا کا تذکرہ ناموں کے ساتھ ہے اور بعض کا تذکرہ اشارے کے ساتھ آیا ہے:

1.. گیارہ انبیا ∗…حضرت نوح ∗…حضرات ابراہیم ∗…حضرت اسماعیل ∗…حضرت اسحاق ∗…حضرت یعقوب ∗… حضرت عیسیٰ ∗…حضرت ایوب ∗…حضرت یونس ∗…حضرت ہارون ∗…حضرت سلیمان ∗… حضرت داود علیہم السلام کا تذکرہ اس آیت میں موجود ہے:﴿ إِنَّا أَوْحَیْْنَا إِلَیْْکَ کَمَا أَوْحَیْْنَا إِلَی نُوحٍ وَالنَّبِیِّیْنَ مِن بَعْدِہِ وَأَوْحَیْْنَا إِلَی إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَالأَسْبَاطِ وَعِیْسَی وَأَیُّوبَ وَیُونُسَ وَہَارُونَ وَسُلَیْْمَانَ وَآتَیْْنَا دَاوُودَ زَبُوراً﴾․ (النساء:163)

2.. مزید آٹھ انبیا کے نام ∗… حضرت یوسف ∗… حضرت موسی ∗… حضرت زکریا ∗… حضرت یحییٰ ∗… حضرت الیاس ∗… حضرت الیسع ∗… حضرت یونس ∗… حضرت لوط علیہم السلام کا تذکرہ سورہ انعام کی ان آیات میں ہے:﴿وَوَہَبْنَا لَہُ إِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ کُلاًّ ہَدَیْْنَا وَنُوحاً ہَدَیْْنَا مِن قَبْلُ وَمِن ذُرِّیَّتِہِ دَاوُودَ وَسُلَیْْمَانَ وَأَیُّوبَ وَیُوسُفَ وَمُوسَی وَہَارُونَ وَکَذَلِکَ نَجْزِیْ الْمُحْسِنِیْنَ، وَزَکَرِیَّا وَیَحْیَی وَعِیْسَی وَإِلْیَاسَ کُلٌّ مِّنَ الصَّالِحِیْنَ، وَإِسْمَاعِیْلَ وَالْیَسَعَ وَیُونُسَ وَلُوطاً وَکُلاًّ فضَّلْنَا عَلَی الْعَالَمِیْنَ﴾․ (الانعام:86-84)

∗… حضرت آدم علیہ السلام کا تذکرہ سورہ بقرہ میں ہے: ﴿وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَآء َ کُلَّہَا﴾ البقرة:83) ∗…حضرت ادریس ∗…حضرت ذو الکفل کا تذکرہ سورة انبیاء کی آیت: ﴿وَإِسْمٰعِیْلَ وَإِدْرِیْسَ وَذَا الْکِفْلِ کُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَ﴾․ (الانبیا:85) میں ہے۔

∗…حضرت شعیب علیہ السلام کا تذکرہ سورہ شعراء میں ہے: ﴿إِذْ قَالَ لَہُمْ شُعَیْبٌ أَلَا تَتَّقُوْنِ، إِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ أَمِیْنٌ﴾․ (الشعراء: 177،178)

∗…حضرت ہود علیہ السلام کا تذکرہ سورہ شعراء میں ہے: ﴿إِذْ قَالَ لَہُمْ أَخُوْہُمْ ہُوْدٌ أَلَا تَتَّقُوْنِ﴾․ (الشعراء:124)

∗…حضرت صالح علیہ السلام کا تذکرہ سورہ ہود میں ہے: ﴿فَلَمَّا جَآء َ أَمْرُنَا نَجَّیْنَا صَالِحًا وَّالَّذِیْنَ آمَنُوْا مَعَہ، بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَمِنْ خِزْیِ یَوْمِئِذٍ﴾․(ہود:66)

∗…حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ سورہ آل عمران میں محمد کے نام سے ہے:﴿وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُوْلٌ﴾(144) اور سورہ صف میں احمد کے نام سے آیا ہے:﴿یٰبَنِیْ إِسْرَائِیْلَ إِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ إِلَیْکُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَّأْتِیْ مِنْ بَعْدِی اسْمُہ، أَحْمَدُ﴾ (الصف:6)

بعض انبیائے کے نام کی صراحت نہیں، مگر الفاظ وضمائر سے ان کی طرف اشارہ موجود ہے، مثلاً سورہ کہف میں حضرت یوشع علیہ السلام کی طرف اشارہ موجود ہے: ﴿فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتٰہُ آتِنَا غَدَاء َ نَا﴾

سورہ بقرہ میں اس آیت میں مذکور واقعے میں مفسرین کے نزدیک حضرت حزقیل علیہ السلام کی طرف اشارہ ہے :﴿أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَہُمْ أُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَہُمُ اللّٰہُ مُوْتُوْا ثُمَّ أَحْیَاہُمْ﴾․ (البقرة:243)

قرآن کریم میں بعض نام یا شناخت صراحت کے ساتھ مذکور ہیں، مگر ان کی نبوت پر کوئی صراحت نہیں ہے، اس لیے ان کی نبوت میں اختلاف ہے، مثلا: حضرت عزیر حضرت خضر حضرت طالوت حضرت لقمان حضرت ذو القرنین ام موسی حضرت مریم علیہم السلام۔

انبیائے علیہم السلام کی بعثت کا مقصد

تمام انبیا علیہم السلام، جن کانام قرآن وحدیث میں ہے یا نہیں ہے، سب کی بعثت کا مقصد یہی رہا ہے کہ وہ انسانوں کی را ہ نمائی کا فریضہ انجام دیں، ماننے والوں کو ابدی زندگی میں جنت کی خوش خبری دیں اور انکار کرنے والوں کو جہنم کے عذاب سے ڈرائیں، ان انبیا علیہم السلام کی تعلیمات کی صداقت کی گواہی خود اللہ تعالیٰ دیتا ہے اور فرشتے دیتے ہیں، یہ تعلیمات واقعتا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں، انبیا علیہم السلام کی خود ساختہ نہیں ہیں، ان کی تعلیمات سے روگردانی کرنے والا سیدھے راستے سے بہت دور جاپڑے گا اور ان کی تعلیمات کو پس پشت ڈالنے والا کبھی بھی اپنی عقل وفکر، مشاہدے اور تجربے سے راہ حق کو نہیں پاسکے گا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے انتہائی شفقت کے ساتھ فرمایا:﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَاء کُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِن رَّبِّکُمْ فَآمِنُواْ خَیْْراً لَّکُمْ﴾․

اے لوگو!رسول تمہارے پاس سچی دعوت لے کر آئے ہیں تمہارے پروردگار کی طرف سے، پس ان کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے ایمان لے آؤ، یہی تمہارے حق میں بہتر ہوگا، انسانوں کے ایمان وکفر سے اللہ کی عظمت میں کوئی کمی زیادتی نہیں ہوتی، بلکہ انسانوں کا اپنا نفع ونقصان ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کی ذات بے نیاز ہے، اس کو کسی کے ایمان وکفر کی احتیاج نہیں ہے، یہ صرف انسانوں کی آزمائش اور امتحان ہے۔(جاری)

کتاب ہدایت سے متعلق