یادِ حق

idara letterhead universal2c

یادِ حق

حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب قاسمی

زندگی فی الحقیقت ذکر اللہ اور اللہ کا نام ہے۔جب کائنات، نباتات اور جمادات کی زندگی اس سے ہے تو انسان کی زندگی اس سے کیوں نہیں ہوگی؟ اس لیے انسان کو سب سے زیادہ ذاکر ہونا چاہیے…تبھی وہ زندہ ہو گا بلکہ زندہ جاوید بن جائے گا ۔

اَلْحَمْدُلِلہِ نَحْمدُہ وَنَسْتَعِیْنُہ وَنَسْتَغْفِرُہ وَنُؤْمِنْ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْہِ وَنَعُوذُ باللہِ مِنْ شُرُورِ انْفُسِنَا وَمِنْ سَیَّاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ یَّھْدِہِ اللهُ فَلا مُضِلَّ لَہُ وَمَنْ یُّضْلِلْہُ فَلاَ ھَادِیَ لَہُ وَنَشْہَدُ أَنَّ لا الہ الا اللہ اللہُ وَحْدَہُ لا شَرِیکَ لَہ․ وَنَشْھَدُ اَنَّ سَیِّدَنَا وَ سند نا ومولانا مُحَمَّداً عَبْدُہُ وَرَسُولُہُأَرْسَلَہُ اللہ إلی کَافَّةٍ لِلنَّاسِ بَشِیرًا وَنَذِیرًا وَدَاعِیًا إِلَیْہُِ بِإِذْنِہِ وَسِراجاً منیراً أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ قَالَ النَّبِیّ صَلَّی اللَّہُ تَعَالَی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَثَلُ الذَّاکِرِ فِی الْغَافِلِینَ کَمَثَلِ الْحَی فِی الْأَمْوَاتِ أَوْ کَمَا قَالَ عَلَیْہِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ․

احوال واقعی

بزرگانِ محترم!
پہلے سے کوئی علم بھی نہیں تھا اور ارادہ بھی نہیں تھا کہ بیان بھی کرنا ہوگا … لیکن حضرت مولانا نے ارشاد فرمایا کہ نماز سے پہلے کچھ نہ کچھ بیان ہوگا۔ ان کی تعمیل حکم کے طور پر میں آپ حضرات کے سامنے بیٹھ گیا ہوں ۔ کوئی لمبی تقریر یا وعظ اس وقت نہیں ہو سکے گا ۔ بلکہ محض تعمیل ارشاد کے طور پر چند کلمات ، اس حدیث کی روشنی میں گزارش کروں گا جو اس وقت میں نے تلاوت کی ۔

تمہید

یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ :”مَثَلُ الذَّاکِرِ فِی الْغَافِلِینَ کَمَثَلِ الْحَیَّ فِی الْأَمْوَاتِ“اس کی تفصیل سے پہلے اتنی بات ذہن نشین کرلیجیے کہ اس دنیا میں ہر چیز کا ایک پیکر ، بدن اورجثہ ہے اور ایک اس کی روح ، زندگی اور حیات ہے۔ یہ ظاہری بدن جو آپ کو دیا گیا ہے ۔ یہ خود مستقلاً انسان نہیں ہے۔ یہ انسان کی محض صورت اور علامت ہے ۔ انسانیت اس جثہ کے اندر چھپی ہوئی ہے ،جو روح اور حقیقت کی صورت میں ہے۔ یہ اس حقیقت کی جو ہمارے اندر چھپی ہوئی ہے محض نمائش اور نمود ہے۔ فی الحقیقت ہماری انسانیت وہی ہے اور اسی کا نام زندگی ہے۔

اگر وہ انسان کے بدن میں سے نکال دی جائے تو بدن کا کوئی وجود نہیں، چند دن روح کے پچھلے اثرات کے تحت رہے گا۔ جہاں دو تین دن گزریں گے اور زندگی کے جو تھوڑے بہت اثرات سرایت کئے ہوئے تھے، وہ زائل ہو جائیں گے۔ یہی بدن گلنا سڑنا اور پھٹنا شروع ہوگا ۔ اس کا ریزہ ریزہ بکھر جائے گا ،مٹی ، مٹی میں مل جائے گی۔ پانی پانی میں، آگ آگ میں اور ہوا ہوا میں مل جائے گی۔ شیرازہ منتشر ہو جائے گا۔ اس بدن کی شیرازہ بندی اگر کر رکھی ہے تو روح نے کر رکھی ہے۔ روح نکلتے ہی بدن کی کوئی اصلیت نہیں ، باطل محض ہے، یہ ختم ہو جاتا ہے۔ اس سے واضح ہوا زندگی صورت کا نہیں حقیقت کا نام ہے ۔ صورت اس زندگی کی محض نمائش ومظاہرہ اور دکھلاوا ہے ۔

روح کائنات

یہی صورت سمجھ لیجیے اس پوری کائنات کی ہے۔ یہ جوہماری مختصر بدن ”کائنات“ ہے وہ روح سے زندہ ہے۔ اسی طرح سمجھ لیجیے یہ پوری کائنات بھی کسی روح سے زندہ ہے، جب تک یہ روح اس کائنات میں موجود ہے۔ یہ کائنات زندہ کہلائے گی، جب روح نکال لی جائے گی ساری کائنات کا خیمہ آ پڑے گا۔ درہم برہم ہو جائے گا۔ ریزہ ریزہ بکھر جائے گا۔ یہ روح کیا چیز ہے؟ جو روح انسان کے بدن میں ہے۔ وہی روح کائنات میں ہے۔ انسانی روح کے بارے میں قرآن کریم میں فرمایا گیا:﴿وَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الرُّوحِ﴾اے پیغمبر!آپ سے لوگ روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ یہ کیا ہے ؟

﴿قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّی﴾کہہ دیجیے روح اللہ کا ایک امر ہے۔ ایک حکم اور لطیفہ خدا وندی ہے۔ اس سے یہ کثیفہٴ جسمانی سنبھلا ہوا ہے۔ وہ نکل جائے تو کثیفہ ختم ہو جائے گا۔ اسی طرح سے پوری کائنات کی روح بھی در حقیقت لطیفہ ربانی ہے اور اس کا نام ذکر اللہ ہے۔ یا دِ حق سے یہ کائنات کھڑی ہوتی ہے۔ جب اس سے ذکر خداوندی منقطع ہو جائے گا جبھی یہ خیمہ آ پڑے گا۔ حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”لا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّی یُقَالَ فی الْأَرْضِ: اللہ اللہ․“

قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک اس کائنات میں ایک بھی اللہ اللہ کہنے والا موجود ہے۔ جب ایک بھی باقی نہیں رہے گا اور سارے شرار الناس رہ جائیں گے جن کے دل میں نہ یا دِ حق ہو گی، نہ ذکر خداوندی ہوگا، نہ ان کی زبان ذکر الہٰی سے تر ہوگی۔ قلوب یکسر بھلا بیٹھیں گے۔ نہ صرف بھلا بیٹھیں گے، بلکہ خالی ہو جائیں گے۔ ذکر مٹ جائے گا، یعنی شرار لناس اور بدترین خلائق رہ جائیں گے ،جن کے بارے میں فرمایا گیا:”لا یَعْرِفُونَ مَعْرُوفًا وَلَا یُنکِرُونَ مُنکَرا“ نہ اچھائی کو اچھائی جانیں گے ،نہ برائی کو برائی ۔

سٹرکوں پر اس طرح سے بدکاری ہو گی جیسے جانور اور بہائم پھرتے ہیں ، نہ حیا ہوگی نہ غیرت ہوگی، جب ساری کائنات اور سارے انسان ایسے بن جائیں گے۔ اسی وقت قیامت قائم کر دی جائے گی تو قیامت اس عالم کو ذرّہ ذرّہ کر کے بکھیر دینے کا نام ہے ۔ آسمان ٹوٹ پڑے گا۔ زمین پھٹ جائے گی، پانی میں مٹی اور مٹی میں پانی، ہوا میں آگ اور آگ میں ہو ا،سب گڈمڈ ہو کر قصہ درہم برہم ہو جائے گا اورسارا خیمہ دنیا کا آپڑے گا جس طرح روح کے نکلنے سے بدن کا شیرازہ بکھر جاتا ہے ۔ اسی طرح پوری کائنات کا شیرازہ اس روح کے نکل جانے سے بکھر جائے گا، جس کا نام ذکر اللہ اور یاد خدا وندی ہے ۔

اس سے معلوم ہوا اس کائنات کی روح ذکر خدا وندی ہے، یا دحق جب تک موجود رہے گی۔ کائنات کا خیمہ کھڑا ہوا ہے۔ جب یہ نکل جائے گی کائنات درہم برہم ہو جائے گی ۔ تو ظاہر میں کائنات ہم سے اور آپ سے سنبھلی ہوئی ہے۔

حقیقت میں اللہ کے ذکر کر نے والوں سے سنبھلی ہوئی ہے، جب تک یہ موجود ہیں کائنات موجود ہے۔ جب یہ ختم ہو جائیں گے کائنات ختم ہو جائے گی ۔ غرض اس ساری کائنات کا خیمہ یادِ حق اور ذکر کے اوپر کھڑا ہوا ہے ۔

کائنات کا ذرہ ذرہ یا دِحق میں مصروف ہے

یہی وجہ ہے کہ شریعت اسلام بتلاتی ہے کہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ ذکر خدا وندی میں مصروف ہے، ہر وقت یا د حق کرتا ہے۔ اور جب یا د منقطع ہوتی ہے وہی اس ذرے کے مٹنے اور ختم ہو جانے کا وقت ہوتا ہے ،حدیث میں ہے کہ ہری ٹہنی اللہ کا ذکر کرتی ہے ۔ جب ذکر ختم ہو جاتا ہے ٹہنیاں خشک ہو کر پتے جھڑ جاتے ہیں، تو روح نباتی فی الحقیقت یاد خدا وندی ہے، جب تک موجود ہے درخت موجود ہے ، نہیں ہوگی تو ختم ہو کرمٹ جائے گا۔ اس کے پتے جھڑجائیں گے، یہ اس کی موت کا وقت ہوگا ۔

قرآن حکیم میں فرمایا گیا ہے کہ ذرہ ذرہ اللہ کی تسبیح میں مصروف ہے :﴿یُسَبِّحُ بِحَمْدِہِ وَلَٰکِن لَّا تَفْقَہُونَ تَسْبِیحَہُمْ﴾(سورہ الاسراء، آیت:44)

کائنات کا کوئی ذرّہ نہیں ہے جو اللہ کے ذکر میں مشغول نہ ہو، مگر تم اس کی تسبیح کو سمجھتے نہیں، تمہاری زبان اور ہے، کائنات کے ذرّے کی زبان اور ہے ۔پرندے کی زبان اور ہے، وہ اپنی اپنی زبان میں اللہ کویاد کرتے ہیں، تم ان کی زبان کو نہیں سمجھتے اور تم ان کی زبان کو کیا سمجھو گے،تم اپنے ہی بہت سے بھائی بندوں کی زبان کو نہیں سمجھتے۔ ایک پنجا ب کا رہنے والا بنگلہ زبان نہیں جانتا، بنگال کا رہنے والا پشتو زبان نہیں جانتا ۔ ایک پختونستان کا رہنے والا ترکی زبان نہیں جانتا۔ ترکی کا رہنے والا عربی زبان نہیں جانتا، تو جو اپنے بھائیوں کی زبان نہ سمجھے وہ کنکریوں اور پرندوں کی زبان کیا سمجھے گا ؟ لیکن زبان سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اگر آپ سمجھیں تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بنگلہ میں اللہ کو کوئی یاد نہیں کر رہا اور اگر آپ پشتو نہ سمجھیں تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ پشتو میں کوئی اللہ کا نام لینے والا نہیں ہے ،وہ نام لے گا، ذکر کرے گا ،آپ بیٹھے ہوئے منھ دیکھیں گے، اس لیے کہ آپ اس کی زبان نہیں سمجھتے۔

اس کی بالکل ایسی ہی مثال ہے جیسے آپ ٹیلیگراف کے دفتر میں گئے ہوں گے ۔ وہاں جاکے آپ نے تار دیا ۔ دو تین روپے فیس کے ادا کیے، تار با بو نے پتیل کی کھونٹی پر ہاتھ رکھ کر کھٹ ،کھٹ کھٹ کھٹ کر نا شروع کر دیا۔ آپ نے کہا کہ میں نے تو یہ مضمون دیا تھا کہ میں فلاں تاریخ کو آرہا ہوں، یہ بیٹھا ہوا کھٹ کھٹ کر رہا ہے۔ اس کھٹ کھٹ کو اس مضمون سے کیا تعلق ہے، لیکن آپ کے سامنے تو وہ کھٹ کھٹ آرہی ہے، حقیقت میں اسی کھٹا کھٹ میں ایک ملک سے دوسرے ملک، ایک شہر سے دوسرے شہر میں علوم پہنچ رہے ہیں ، مگر آپ اس فن سے واقف نہیں، اس لیے آپ نہیں سمجھتے۔ یہ اصطلاحات ہیں،جن سے ایک شہر سے د وسرے شہر کو مضمون چل رہا ہے ۔ اگر آپ اس فن کو سیکھتے ہوئے ہوتے اس کھٹ کھٹ کی اصطلاحات سے واقف ہوتے آپ کو فوراً پتہ چل جاتا کہ یہ کراچی سے لاہور کی طرف اور لاہور سے ڈھاکہ کی طرف کیا مضمون جا رہا ہے ۔ مگر آپ کو اصطلاحات کا علم نہیں، اس لیے آپ حیرانی سے دیکھتے ہیں کہ یہ کھٹ کھٹ کر رہا ہے، میرا بتلایا ہوا مضمون کسی طرح پہنچ جائے گا، مگر مضمون آپ کاہے ، اصطلاح اس کی ہے اور وہ دوسری جگہ جا رہا ہے ۔

اسی طرح سے ایک پرندہ جب سیٹی بجاتا ہے آپ سمجھتے ہیں وہ سیٹیاں بجا رہا ہے۔حقیقت میں وہ ذکر اللہ کر رہا ہے۔ آپ اس کی زبان سے واقف نہیں ہیں، طوطا بولتا ہے وہ اللہ کی یاد کرتا ہے۔ آپ اس کی زبان سے واقف نہیں جیسا کہ آپ اپنے یورپ والے بھائی کی زبان سے واقف نہیں ہیں ،جو اپنی زبان میں خدا کو یاد کرے گا۔ آپ بیٹھے ہوئے منھ کو دیکھیں گے ۔ تو کوئی پرندہ ، درندہ ، چرندہ ایسا نہیں ہے جو اللہ کے ذکر میں مشغول نہ ہو، مگر زبان اس کی ہے، فہم آپ کا نہیں ہے:﴿ وَلکِنْ لَّا تَفْقَہُونَ تَسْبیحہم﴾ تم ان کی تسبیح کو سمجھے نہیں ہو، ورنہ وہ تسبیح میں مشغول ہیں ۔
حدیث میں ہے کہ سفید کپڑا اللہ کی تسبیح کرتا ہے۔ جب میل آنا شروع ہوتا ہے ذکر اللہ بند ہو جاتا ہے۔ وہی وقت اس کی فنا کا ہوتا ہے، آپ نفرت سے بدن سے اتار کر پھینک دیتے ہیں، جب تک دھوبی اس کو پاک صاف کرکے نہ لادے ، جب سفید ہو جائے گا، پھر ذکر میں مشغول ہو جائے گا ۔

یہی وجہ ہے کہ فقہاء لکھتے ہیں کہ جس شخص کو مسجد کا امام بنایا جائے۔ وہ میلے کپڑوں سے نماز نہ پڑھائے، یعنی ایسے میلے کپڑے جن میں سے بدبو اٹھنے لگے۔ یوں تو کپڑا اگلے ہی دن میلا ہو جاتا ہے، علمائے عربیت لکھتے ہیں کہ :”لذَّةُ الثَّوبِ یَوْم“․

کپڑے کی لذّت ایک دن کی ہوتی ہے ۔ اگلے دن سے میل آنا شروع ہو جاتا ہے تو تھوڑابہت میل تو فوراً شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن ایسا میلا پن کہ پسینہ جذب ہوتے ہوتے زرد رنگ بن جائے۔ اس میں سے بدبو آنے لگے ۔ اس کا رنگ بھی متغیر ہو جائے ، شکل بھی بدل جائے ۔ اس وقت امام کو ان کپڑوں کے ساتھ نماز پڑھانا مکر وہ ہے ۔

اس کی ظاہری وجہ تو یہی ہے کہ امام فی الحقیقت الله کی بارگاہ میں تمام مقتدیوں کا وکیل ہے، وہ قابل تعظیم ہے۔ اس میں نفرت کی وجوہ نہ ہونی چاہییں کہ مقتدی متنفر ہونے لگیں ۔

اگر کپڑے غیر معمولی طور پر میلے ہوئے تو مقتدیوں کو خلجان پیدا ہو گا کہ کس بے ڈھنگے آدمی کو آگے لاکے کھڑا کر دیا گیا ۔ تو جو مقتدی اس کے بے ڈھنگے پن کے خیال میں مشغول ہوں گے اللہ سے ان کا کیا رابطہ قائم ہوگا؟ وہ تو امام کی مذمت میں لگے ہوئے ہیں کہ امام عجب بے ڈھنگا ہے ۔ امامت کے لیے کھڑا ہو گیا ۔

مخلوقات کی تسبیح کے بارے میں اہل باطن کا ادراک

اہل باطن کو کبھی کبھی علم دے دیا جاتا ہے ۔ وہ ان تمام چیزوں کی تسبیح کو سنتے ہیں اور سمجھتے ہیں، انبیاء علیہم السلام کو بطور معجزے کے یہ علم دیا جاتا ہے، سلیمان علیہ السلام کا معجزہ یہی تھا کہ وہ پرندوں کی بولیاں سمجھتے تھے۔ سلیمان علیہ السلام کا مقولہ قرآن حکیم میں نقل کیا گیا ہے ۔

﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّیْرِ وَأُوتِینَا مِن کُلِّ شَیْْءٍ﴾․ (سورة النمل،آیت:16)

ترجمہ:”اے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولیاں سکھلائی گئی ہیں…“۔ سلیمان علیہ السلام بتلا دیتے تھے کہ یہ دو کوے آپس میں کیا باتیں کر رہے ہیں ۔ اور یہ دو چڑیاں کیا کہہ رہی ہیں ۔

احادیث میں تقریباً مختلف جانوروں کی اٹھارہ انیس مثالیں دی گئی ہیں اور ان کی تسبیح ذکر کی گئی ہے۔ تیتر یہ کہتا ہے اور مور یہ کہتا ہے ، فلاں کی یہ تسبیح ہے، فلاں کا یہ ذکر ہے۔ تیتر کے بارے میں حدیث میں ہے کہ اس کی تسبیح یہ ہے کہ:”کَمَا تُدین تدان“

جیسا کروگے ویسا بھرو گے ۔

یہ ایک نصیحت ہے جو اس کی زبان سے ہر وقت نکلتی رہتی ہے بعض کی یہ تسبیح ہے کہ :
”سُبْحَانَ مَنْ زَیَّنَ الرِّجَالَ بِاللُحَی، وَزَیَّنَ النسآءَ بالذَّوائِبِ“․

پاک ہے وہ ذات جس نے مردوں کو داڑھیوں سے زینت دی اور عورتوں کو مینڈھیوں اور چوٹیوں سے زینت دی۔ مختلف عبر تیں اور نصیحتیں پرندوں کی زبان سے ادا ہوتی ہیں، مگر﴿وَلَٰکِن لَّا تَفْقَہُونَ تَسْبِیحَہُمْ﴾․

بدبواس میں سے آرہی ہے۔ رنگ اس کا صحیح نہیں۔ یہہمیں خدا تک کیا پہنچائے گا ؟ تو امام کے لیے ضروری ہے کہ صاف ستھرا ہو، کپڑے بھی صاف ہوں تو ظاہری وجہ تو یہی ہے، لیکن اگر غور کیا جائے تو باطنی وجہ یہ ہے کہ سفید کپڑا ذکر اللہ میں مشغول ہوتا ہے، امام کے کپڑوں کا ذکر خود امام کی طبیعت کو ذکر اللہ کی طرف متوجہ کرتا ہے ۔

جب اس کے ارد گرد ذکر اللہ کی آوازیں آ رہی ہیں، اگر چہ وہ کانوں سے نہ سُنی جائیں ۔ ان آوازوں سے خود امام کے قلب میں ذکر اللہ کی رغبت پیدا ہوگی ۔ اور یا دِحق تازہ ہو کر وہ اللہ کی طرف زیادہ متوجہ ہوگا تو مقتدی بھی اتنے ہی متوجہ ہو جائیں گے ۔

آپ نے تجربہ کر کے دیکھا ہوگا کہ جب آدمی غسل کر کے صاف کپڑے پہنتا ہے تو بے اختیار دل سے الحمد اللہ نکلتا ہے۔ طبیعت میں شگفتگی ہوتی ہے اور جب کپڑے میلے ہوتے ہیں تو انقباض اور تشتت دل میں پیدا ہوتا ہے۔ اللہ کا نام لینا بھی چاہتا ہے تو زبان سے نہیں نکلتا، طبیعت میں انقباض ہے۔ یہ حقیقت میں کپڑے کے ذکرکا اثر ہوتا ہے ،جو انسانی قلب پر پڑتا ہے ۔

اگر سبزی میں بیٹھیں گے ذکر اللہ کی زیادہ توفیق ہوگی، جھاڑ پھنکار میں بیٹھیں گے، کم ہو جائے گی ۔ اس لیے کہ سبزہ خود تسبیح میں مشغول ہے ۔ اکثر اہل اللہ کو دیکھا گیا ہے کہ دریا کے کنارے سبزے پر جاکر ذکر اللہ کرتے ہیں ۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ماحول کا ذکر ان کے قلوب کے اوپر موثر ہوتا ہے ، حدیث میں ہے کہ چلتا ہوا پانی اللہ کی تسبیح کرتا ہے۔ جب رک جاتا ہے تسبیح بند ہو جاتی ہے۔ چلتا ہوا پانی ذکر کی حیات کی وجہ سے در حقیقت زندہ ہے اور جب ٹھہر گیا جسے ماء راکد کہتے ہیں، اس میں تغیر آجاتا ہے۔ وہ سڑ جاتا ہے، خراب ہو جاتا ہے، تسبیح بند ہو جاتی ہے، تسبیح کا بند ہونا ہے کہ لطافت کی روح اس میں سیکھنچ جاتی ہے۔ اس کے اند ر کثافت پیدا ہو جاتی ہے۔ بہر حال چلتا ہوا پانی اللہ کی تسبیح کرتا ہے۔ سبز ٹہنیاں اللہ کی تسبیح کرتی ہیں۔ سفید کپڑا اللہ کی تسبیح کرتا ہے۔ کنکریاں تسبیح کرتی ہیں ۔ بہر حال تمام چیزیں ذکر میں مشغول ہیں، ہم آپ سمجھتے نہیں ہیں ۔)

           کس زبان مرا نمی داند
           با عزیزان چہ التماس کنم

لوگ میری زبان نہیں پہچانتے تو میں دوستوں سے کیا کہوں پرندہ بھی کہہ سکتا ہے کہ میں تو نصیحت پیش کر رہا ہوں، مگر انسان میری زبان نہیں پہچانتے ،جن کو حق تعالیٰ علم دیتے ہیں وہ زبان پہچانتے ہیں۔ سلیمان علیہ السلام نے پرندوں کی بولیوں کا علم جان لیا تھا۔ مگر کسی کالج یا مدرسہ میں پڑھ کر نہیں ، اللہ کے الہام سے، یعنی بطور معجزے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم سے جانوروں کی گفت گو

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرندوں کی بولیاں سمجھتے تھے، جانوروں کی زبان سمجھتے تھے۔ حتی کہ بعض اوقات ان کے معاملات اور جھگڑوں کا فیصلہ فرماتے تھے۔ حدیث میں ہے کہ ایک اونٹ بلبلاتا ہوا اور اپنی زبان میں بڑبڑاتا ہوا حاضر ہوا۔اور اس شان سے آیا کہ بول رہا ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں ۔ آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں اپنا منھ ڈال دیا ۔ اونٹ والا بلایا گیا ۔ وہ آیا۔ فرمایا اس کے مالک کو بلاؤ۔ فرمایا یہ شکایت کر رہا ہے تو اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بوجھ لا دتا ہے اس نے اقرار کیا یا رسول اللہ!بے شک میں اس جرم کا مجرم ہوں۔ فرمایا آئندہ ایسا مت کرنا، اونٹ خوش ہوتا ہوا واپس ہو گیا ۔ تو اونٹ کی زبان کو سمجھ کر اس کی فریاد سنی اور اس کے حق میں فیصلہ دیا ۔

اسی طرح حدیث میں ہے کہ آ پ صلی الله علیہ وسلم تشریف لے جارہے تھے کہ کسی دیہاتی کے مکان کے قریب سے گزر ہوا ، وہ کہیں پہاڑ میں سے کوئی ہرنی پکڑلایا تھا۔ اس کے گلے میں رسّی باندھ رکھی تھی ، وہ کھونٹی سے بندھ رہی تھی ۔ اس نے دیکھ کرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فریاد شروع کی۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا دیہاتی تجھے پکڑ لایا ہے تو اس کی مِلک ہو گئی ہے۔ اس لیے کہ پہاڑ میں جو چیز ہوتی ہے جو اس پر قبضہ کرے وہ اس کی مِلک ہو جاتی ہے تو اس کی مِلک ہو گئی، میں تجھے کیسے چھوڑ دوں؟

اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! پہاڑی میں میرے دو بچے بلبلا رہے ہیں اور بھوکے ہیں۔ میں ہی انہیں دودھ پلاتی تھی، میرے بچے مرجائیں گے۔ آپ مجھے چھوڑ دیں ۔

فرمایا :”وعدہ کر کہ تو دُودھ پلا کے پھر یہاں آجائے گی“ ۔

اس نے وعدہ کیا اور حلف کیا ۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے گلے میں سے رسی کھول دی، اس نے جو نہی جا کر دُودھ پلایا۔ واپس آکر پھر وہیں کھڑی ہوئی ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے پھر رسیّ اس کے گلے میں ڈال دی ۔

جب دیہاتی آیا ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :”یہ کیا تو نے زیادتی کی ہے ؟ اس کے بچے بلبلا رہے ہیں تو نے جاکے قبضہ کیا ۔ اس کو چھوڑ دے“۔ اس نے نصیحت قبول کی اور ہرنی کو آزاد کر دیا ۔ وہ دعائیں دیتی ہوئی چلی گئی۔ غرض نبی کریم صلی الله علیہ وسلم جانوروں کی بولیوں پر مطلع ہوتے تھے تو انبیاء علیہم السلام کو بطور معجزے کے زبانوں کا علم دیا گیا ، حتی کہ پرندوں کی زبانوں کا بھی ۔

نوع انسان کے سوا دنیا کی ہر نوع کی ایک ہی زبان ہے

جیسے حضرت آدم علیہ سلام کو تمام انسانوں کی زبان کا علم دیاگیا تھا۔ یہ جو قرآن کریم میں فرمایا گیا:﴿وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاء َ کُلَّہَا﴾․(سورة البقرہ، آیت:31)

آدم علیہ السلام کو تمام چیزوں کے نام سکھلا دیے گئے اس کی ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ:” عَلَمَ آدَمَ الأَسْمَاء کَلَہَا یعنی عَلَّمَ اللُّغَاتِ کُلَّہَا“․آدم علیہ السلام کو ساری لغتیں سکھلا دی گئی تھیں، جو قیامت تک انسانوں کے اندر بولی جائیں گی، وہ ہر زبان سکھلا دی تھی۔ ان کی پہلی نسل ان تمام زبانوں کو جانتی تھی ،لیکن جب نسل مختلف ہوئی اور دنیا میں منتشر ہوئی کوئی قبیلہ کہیں آباد ہوا،کوئیکہیں آباد ہوا تو وہاں کی زمینوں کی خصوصیات تھیں۔ ایک ایک قبیلے کے اوپر ایک ایک لغت کا غلبہ ہو گیا اس طرح زبانیں الگ ہو گئیں تو ایک نے دوسر ے کی زبان کو سمجھنا چھوڑ دیا اور اور سمجھنے سے محروم ہو گیا۔ اس کو حق تعالیٰ نے اپنی قدرت کی نشانی ظاہر فرمایا ہے ۔

﴿وَمِنْ آیَاتِہِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِکُمْ وَأَلْوَانِکُمْ﴾․(سورہ روم، آیت:22)

اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہے آسمانوں اور زمین کی پیدائشتمہاری زبانوں کا اور تمہارے رنگوں کا اختلاف ۔

یعنی بنی آدم اس میں مختلف ہیں، حالاں کہ ایک ماں باپ کی اولاد ہیں ۔ ایک جنس، ایک نوع ، لیکن ایک سے دوسرے کی صورت نہیں ملتی، رنگ نہیں ملتا۔ زبان نہیں ملتی ۔ ایک پنجابی بولتا ہے۔ ایک بنگلہ بولتا ہے۔ ایک ہندی اور ایک انگریزی بولتا ہے ۔ دنیا کے جتنے جان دار ہیں، ہر نوع کی ایک زبان ہے، خواہ وہ کسی ملک کا ہو ۔ مثلاً طوطا ٹیں ٹیں کرے گا وہ ہند دستان کا ہو یا پاکستان کا، عربستان کا ہو یا ترکستان کا ،مور ایک بولی بولے گا، چاہے یورپ کا ہو یا ایشیا یا افریقہ کا ہو ۔ کبوتر ایک ہی طرح بولے گا، کہیں کا ہو ۔ لیکن انسان بھانت بھانت کی بولیاں بولتا ہے ، ترکی اور طرح سے، یورپین اور ایشین اور انداز سے یہ اللہ کی قدرت کی نشانی نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک جنس کے سارے افراد ہیں اور زبانیں الگ الگ ہیں۔ ان میں سے ایک دوسرے کی زبان نہیں سمجھتا۔ یہ قدرةِ خداوندی کی نشانی ہے۔

انسان کی غفلت

بہر حال ہر ہر چیز اپنی اپنی زبان میں تسبیح کرتی ہے۔ مگر ہم ان کی زبانوں کو نہیں سمجھتے، جیسا کہ ہم ایک دوسرے کی زبانوں کو نہیں سمجھتے، غرض کنکریاں تسبیح کرتی ہیں۔ سفید کپڑا تسبیح کرتا ہے۔ چلتا ہوا پانی تسبیح کرتا ہے۔ ہری ٹہنیاں تسبیح و ذکر کرتی ہیں۔لیکن نہیں ذکر کرتا تو انسان نہیں کرتا۔ غافل ہے تو انسان اللہ کی یاد سے غافل ہے ۔ حالاں کہ سب سے زیادہ اس کو ذاکر ہونا چاہیے تھا۔ اللہ نے جو نعمتیں اس پر مبذول کی ہیں۔ کائنات میں اللہ نے کسی کو نہیں عطا کیں جتنا چہیتا اور پیاری مخلوق انسان ہے کوئی مخلوق کائنات میں اللہ کواتنی پیاری نہیں ہے۔ تو ساری ذاکرِ حق ہیں، مگر یہ حق تعالیٰ سے ہے ، حالاں کہ سب سے زیادہ ذاکر اس کو ہونا چاہیے تھا۔ اس کے اوپر انعامات کی بارش ہے۔

ساری کائنات انسان کی غذا ہے

ہر چیز کا لباس اس کی کھال ہے ۔ اس کو الگ لباس دیا گیا۔ رنگ برنگ کا لباس، رنگ برنگ کے کپڑے، ہر نوع کی غذا ایک ہے۔ کوئی نوع گھاس کھاتی ہے، کوئی نوع دانہ کھاتی ہے۔ کوئی پتے چابتی ہے۔ کوئی مٹی کھاتی ہے۔ کوئی ہوا چوستی ہے۔ لیکن انسان کو ہر چیز پر قادر کیاگیا ۔ ہر چیز اس کی غذا ہے ۔ گھاس یہ کھائے، پھانس یہ کھائے، پتے یہ کھا جائے ،چونا یہ کھائے ،مٹی یہ کھائے، چاندی یہ کھا جائے، سونا یہنگل لے، جواہرات اس کے پیٹ میں جاتے ہیں۔

عرض جمادات، نباتات اور حیوانات ساری چیزیں اس کی غذا ہیں، تابنے اور سونے کے ورق نگل جائے گا۔ چاندی سونا کا کشتہ کھا جائے گا۔ یا قوتیاں اس کی طاقت کے واسطے بنتی ہیں، مٹی یہ کھاتا ہے ۔ یہ چونا آخر مٹی پتھر نہیں تو اور کیا ہے ؟ کتھ یہ کھائے ، پتے یہ کھائے، سبزیاں یہ کھائے۔ دنیا بھر کی چیزیں اس کے پیٹ میں چلی جاتی ہیں۔

توکائنات کی ہر نوع کی ایک غذا اور پوری کائنات اس کی غذا۔

ساری کائنات انسان کی سواری ہے

ہر چیز اپنے پیروں سے چلتی ہے ۔ اس کو سواریوں پر اٹھا کے چلا یا گیا، حیوانات اس کی سواری میں ہیں ، نباتات اور جمادات اس کی سواری ہیں، ریلیں جو چلتی ہیں وہ حیوانات کی قسم میں سے نہیں ہیں، وہ جمادات میں سے ہیں ۔

اس کی سواری بنتی ہیں، گھوڑا، اونٹ ، بیل ،یہ سب اس کی سواری بنتی ہیں، تو حیوانات کے سروں پر یہ سوار، جمادات کے سروں پر یہ سوار اور نباتات اس کی سواری میں ہیں ۔

سمندروں میں یہ سواری کر جائے ، ہوا میں یہ سواری کر جائے۔ زمین کی پشت پر یہ سواری کر جائے ۔

کوئی جان دار ایسا نہیں ہے جس کو سواری دی گئی ہو، ہر ایک اپنے پیر سے چلنے پر مجبور ہے اس کو مقرب اور معظم بنایا گیا۔ ساری کائنات اس کی سواری بن گئی ۔

ساری کائنات اس کا لباس ہے

اور ساری کائنات اس کا لباس کہ درختوں کی کھال سے یہ لباس بنائے ۔ روٹی سے یہ لباس بنائے، جانوروں کی کھال کھسوٹ کر یہ لباس بنا لے، اب سنا ہے کہ شیشے کے کپڑے چلنے والے ہیں، لکڑی اور کھال کے کپڑے بننے لگے ہیں۔ غرض ساری کائنات اس کا لباس ،ساری کائنات اس کی غذا ،ساری کائنات اس کی سواری ،اللہ کے یہاں اتنا چہیتا اور پیارا انسان کہ ساری کائنات کو اس کی خدمت پر لگا رکھا ہے کہ کھانے کو آئے تو سر تسلیم خم کر دے کہ کھا لینے دو۔ لباس بنائے تو چپ ہو کر بیٹھ جاؤ۔ اس کو لباس بنانے دو ،سواریاں بنائے تو سر جھکا دو کہ سوار ہو کر جائے تو ساری چیزوں سے زیادہ اس کو ذاکربننا چاہیے تھا ،مگر سب چیزوں سے زیادہ اگر غافل ہے تو انسان غافل ہے، پتھر بھی ذکر میں لگ جاتا ہے ۔

انعامات کا تقاضا کیا ہے ؟

پتھروں کی شان یہ ہے کہ﴿:یَتَفَجَّرُ مِنْہُ الْأَنْہرُ﴾

اور کچھ نہیں تو پھر رو پڑتے ہیں۔ ان سے پانی بہہ پڑتا ہے اور کچھ نہیں تو پھر او پر سے نیچے آ پڑتا ہے، یہ اس کی تواضع اور انکساری کی بات ہے ،لیکن اگر فرعونیت اور کبر بھرا ہوا ہے تو انسان میں بھرا ہوا ہے کہ نہ اس کی آنکھوں سے آنسو تک ٹپکتا ہے ۔ نہ یہ تواضع سے نیچے جھکتا اور گرتا ہے۔ حالاں کہ پتھر گر بھی پڑتا ہے اور پانی بھی بہا دیتا ہے تو سب سے زیادہ اگر غافل ہے تو انسان غافل ہے۔ حالاں کہ اس کو سب سے زیادہ ذاکر ہونا چاہیے تھا۔ اس لیے کہ اس پر انعامات کی بارش ہے ۔

حقیقت زندگی

اس واسطے حدیث میں فرمایا گیا کہ ذکر الله چوں کہ حیات ہے تو ذکر کر نے والا غافلوں میں ایسا ہے جیسے مردوں میں زندہ بیٹھا ہو ۔ اگر ایک بھرا مجمع غافلوں کا ہو۔ ایک اللہ کی یاد کرنے والا موجود ہے وہ ایسا ہے جیسے کہ مُردوں کے مجمع میں ایک زندہ بیٹھا ہوا ہو ۔ اس لیے کہ زندگی نام بدن کا نہیں ہے، بلکہ قلب کی زندگی زندگی ہے ۔
            مجھے یہ ڈر ہے کہ دلِ زندہ تو نہ مر جائے
            کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے

زندگی نام دل کی زندگی کا ہے۔ اور دل کی زندگی اللہ کی یاد سے ہوتی ہے۔ روٹی اور ٹکڑے سے نہیں ہوتی۔ یہ بدن کی زندگی ہے، جو روٹی سے ہوتی ہے۔ یہ اتنی عارضی ہے کہ روٹی ملنے میں دیر ہو جب بدن مرجھانے لگتا ہے اور منقطع ہو جائے تو بدن چھن جاتا ہے۔ لیکن قلب کی زندگی دوامی ہے۔ اس لیے کہ ذکر اللہ جو زندگی پیدا کرتا ہے وہ دوامی زندگی ہوتی ہے وہ نفس کے اندر قائم ہو جاتی ہے ۔(جاری)

مجالس خیر سے متعلق