یادِ حق

idara letterhead universal2c

یادِ حق

(آخری قسط)

حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب قاسمی

زندگی فی الحقیقت ذکر اللہ اور اللہ کا نام ہے۔جب کائنات، نباتات اور جمادات کی زندگی اس سے ہے تو انسان کی زندگی اس سے کیوں نہیں ہوگی؟ اس لیے انسان کو سب سے زیادہ ذاکر ہونا چاہیے…تبھی وہ زندہ ہو گا بلکہ زندہ جاوید بن جائے گا ۔

ذاکر انسان کا مقام

تو فرمایا گیا ذکر کرنے والے کی مثال غافلوں کے اندر ایسی ہے جیسے مردوں کے اندر کوئی زندہ بیٹھا ہوا ہو تو انسان اگر ذاکر بنے گا۔ تو سارے ذاکروں پر بڑھ جائے گا اور اگر غافل بنے گا تو سب سے زیادہ بدتر ہو جائے گا حق تو یہ تھا کہ سب سے زیادہ ذکر کرتا اور یہ غافل بن گیا، پھر پتھر بھی اس سے اچھا ، جانور بھی اس سے اچھے ، درخت کی ٹہنیاں بھی اس سے اچھیں، کیوں کہ سب ذکر میں مشغول ہیں ۔ یہ سب سے زیادہ ذلیل اور بدتر ہے۔ اور اگر ذکر پہ آجائے تو ہر ذاکر اس سے نیچے ہے، اس لیے اس کا ذکر جامع ہو گا ،جو اور انواع کو میسر نہیں ہے ۔

تو ذکر فی الحقیقت روح کی غذا ہے اور ذکر ہی فی الحقیقت انسان کی زندگی ہیغذائے ، روحانی ذکر اللہ سے حاصل ہوتی ہے ۔

زندگی کی حقیقی غذا

انبیاء علیہم السلام اور اور اولیاء اللہ کی غذائیں قلیل ہوتی ہیں اور قوتیں سب سے زیادہ ہوتی ہیں۔ وہ قوت… ان میں یاد خدا وندی سے پیدا ہوتی ہے۔ حدیثمیں ہے کہ آپ نے امت کو ممانعت فرمائی کہ صوم وصال مت رکھو، یعنی بلا افطار کیے روزے پر روزہ مت رکھو۔ سحر بھی کھاؤ، افطار بھی کرو، کھا پی کر اگلا روزہ رکھو ، بلا کھائے پیے روزے پر روزے رکھتے چلے جانا اس کو صوم وصال کہتیہیں۔ اس سے آپ صلی الله علیہ وسلم نے ممانعتفرمائی ۔ اور حدیث میں ہے کہ آپ صوم وصال رکھتے تھے، پندرہ پندرہ دن آپ صلی الله علیہ وسلم کا مسلسل روزہ ہے ۔

صحابہ نے عرض کیا:یا رسول اللہ!ہمیں تو آپ نے ممانعت فرمائی اور خود حضورصوم وصال رکھتے ہیں؟ فرمایا:
أیُّکُم مِّثْلِی؟ یُطْعِمُنِی رَبِّی وَیُسْقِینِی․

تم میں مجھ جیسا کون ہے ؟ مجھے تو میرا پروردگا ر کھلاتا اور پلاتا ہے۔ یہ کھلانا اور کیا تھا؟ یہ پلاؤ اور زردے کے دستر خوان آسمان سے نہیں اترتے تھے۔ یہ ذکر اللہ اور یا د حق غذا تھی، جو روح میں پیوست تھی۔ اس سے روح زندہ تھی ۔ اوررو ح سے بدن زندہ تھا۔ تو اللہ کا ذکر جب رگ وپے میں سما جاتا ہے ۔ تو غذاؤں کی حاجت کم ہو جاتی ہے تو زندگی کا دار ومدار ذکر پر ہو جاتا ہے ۔

میں نے اپنے بزرگوں سے حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمة اللہ علیہ کا واقعہ سنا ۔جو دار العلوم دیو بند کے بانی ہیں کہ اخیر عمر میں انتقال سے چند ماہ پیشتر یہ فرمایا کہ:

”اب بحمد اللہ بقائے حیات کے لیے مجھے کھانے پینے کی حاجت نہیں رہی ہے۔ محض اتباع سنت کے لیے کھاتا اور پتیا ہوں ۔ زندگی باقی رکھنے کے لیے کھانے پینے کی حاجت نہیں رہی۔“

غرض جب ذکر اللہ رگ وپے میں رچ بس جاتا ہے تو پھر زندگی کا دارو مدار روٹی پر نہیں ہوتا ۔ ذکر پررہ جاتا ہے ۔ ذکر اللہ سے آدمی زندہ ہوتا ہے ۔ قوت روحانی سے اس کی حیات اور بقا ہوتی ہے تو اصل زندگی فی الحقیقت یا د حق کا نام ہے ۔

محبوب کے فراق و وصال کے آثار

بلکہ یوں کہنا چاہیے زندگی نام ہے نام محبوب اور وصالمحبوب کا، محبوب کا نام آتا ہے تو محب اور عاشق میں زندگی کے آثار پیدا ہو جاتے ہیں۔ اگر ایک شخص کسی کی محبت میں گرفتار ہے اور رات د ن اس کے دھیان میں غرق ہے اور محبوب اس سے جدا ہو جائے، یہ فراق میں پڑا ہوا گھل رہا ہے، گھلتے گھلتے چار پائی کو لگ گیا۔ ہلنے جلنے کی سکت نہیں رہی ،کھانا بھی چھوٹ گیا۔ پینا بھی چھوٹ گیا ۔ چار پائی پر پڑا ہوا ہے، فکر محبوب میں ہر وقت گرفتار ہے۔ ایسے وقت کوئی آکر کہہ دے کہ وہ آگیا تیرا محبوب ایک دم اٹھ بیٹھے گا کہاں ہے ؟ کس نے کہا ؟

یہ جان اس کے اندر کہاں سے آئی ؟ کیا اس نے کوئی روٹی کھائی یا کوئی یاقوتی کھائی ؟ محبوب کا نام ہی تو آیا مردہ اٹھ کر زندہ ہو گیا۔ معلوم ہوا زندگی نام ہے کسی محبوب چیز کے وصال کا۔

اب اگر کسی کو روپے پیسے سے محبت ہو گئی، جب تک اس کے سامنے روپے پیسے کا نام آتا رہے گا۔ اس میں زندگی ہے، اگر منقطع ہو جائے تو اس کی جان پر بن جائے گی، بعض آدمی جب دیوالیہ ہوتے ہیں تو ہارٹ فیل ہو جاتا ہے ۔ اس لیے کہ محبوب چھن گیا ۔زندگی ختم ہو گئی۔

یا اگر کسی کو کسی عورت سے محبت ہو جائے جب تک وہ پاس موجود ہے وہ زندہ ہے، جب چلی جائے تو فراق میں گھل کر جان دے دے گا۔ غرض وصال محبوب کا نام زندگی ،کسی کا محبوب ، دولت ، عورت یا عزت ہے۔ جن کا محبوب اللہ رب العزت ہے۔ وہ اس کے نام سے زندہ ہیں، جب تک ذکر حق ہے۔ ان میں زندگی ہے۔ جب ذکر ان سے منقطع ہو جائے ، ان کی موت ہو جاتی ہے۔ جن کا دل پروردگارحقیقی سے اٹک چکا ہے ان کی زندگی جبھی ہے کہ وہ ہر وقت ذکر اللہ کیے جائیں ، نام حق لیے جائیں ۔ جب اس میں کمی آجائے گی ، یوں محسوس ہو گا کہ ہم ختم ہو گئے ہیں #
            بر دلِ سالک ہزاراں غم بود
            گرز باغ دل خلال کم بود

سالک کے دل پر ہزاروں غم ہوتے ہیں، غم کا پہاڑ اس کے دل پر ٹوٹ پڑتا ہے، جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ باغ دل میں سے ذکر اللہ کا کوئی خلال کم ہو گیا ہے تو ایک ذاکر کے لیے موت کے برابر ہو جاتا ہے ۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اب میں زندہ نہیں ہوں ۔

ذاکرین کے اوپر بعض اوقات قبض طاری ہوتا ہے ۔ اس قبض کا اثر یہی ہوتا ہے کہ وہ یوں سمجھتے ہیں کہ اب ہمارے اندر ذکر اللہ باقی نہیں ہے اور حق تعالیٰ سے جو تعلق تھا اس میں کمی آگئی۔ تو بعض اوقات قبض زدہ لوگوں نے خودکشی کر لی ہے ۔ اگر سنبھا لنے والے موجود نہ ہوں اور مربی نہ سنبھالے تو قبض کی حالت میں خودکشی کی طرف مائل ہو جاتا ہے ،حدیث میں ہے کہ جب بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے سرفراز فرما دیے گئے اور پہلی وحی آئی کہ:﴿اقْرَأُ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ﴾

اس کے بعد میں منقطع ہو گئی۔ ایک عرصہ وحی کا انقطاع رہا ،آپ صلی الله علیہ وسلم کے قلب مبارک پر ایک غم اور گھٹن طاری ہوئی آپ صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بعض اوقات میرا جی چاہتا تھا کہ خودکشی کرلوں کہ اب زندگی کس کام کی جب وہ شے باقی نہیں جس سے محبت ہے حتی کہ یہ ارادہ کر کے پہاڑ کے اوپر آئے کہ اپنے کو نیچے گرا دوں تو پیچھے سے کسی نے ہاتھ پکڑ لیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے چاہا کہ گر پڑوں تو پیچھے سے کسی نے آواز دی:یا محمد

آپ صلی الله علیہ وسلم نے اِدھر ُادھر دیکھا ،کوئی موجود نہیں تھا۔ یہ قبض کی کیفیت جب طاری ہوتی ہے تو موت کی طرف طبیعت مائل ہوتی ہے۔ سالک یہ سمجھتا ہے کہ میری زندگی ختم ہو گئی، غرض زندگی ذکر اللہ ، یاد حق اور یاد خدا وندی کا نام ہے۔ ہم چوں کہ رات دن اس کھانے پینے اور پہننے میں مشغول ہیں۔ اس لیے ہم نے زندگی اسی کو سمجھ لیا ہے، ہم اس کوچے سے نابلد ہیں جو حقیقی زندگی کا سر چشمہ ہے، جو اس کے اندر آ گئے ان کی سمجھ میں آگیا کہ حقیقی زندگی یہی ہے ۔ تو اس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا کہ:

مَثَلُ الذَّاکِرِ فِی الْغَافِلِینَ کَمَثَلِ الْحَي فِی الْأَمْوَاتِ

ذکر کر نے والا غافلوں میں ایسا ہے جیسا کہ ایک زندہ مُردوں کے اندر بیٹھا ہوا ہو تو غفلت مردنی ہے اور ذکر زندگی ہے ۔

ذکر اللہ کا عجیب اور عظیم ثمرہ

پھر اس کا عجیب اور عظیم ثمرہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قانون مکافات ہے ، جیسا انسان خود کرتا ہے ، ویسا ہی ادھر سے معاملہ ہوتا ہے ۔ فرمایا گیا:

﴿إن تَنصُرُوا اللہَ یَنْصُرْ کُم ﴾.
اگر تم اللہ کی مدد کرو گے ، اللہ بھی تمہاری مدد کرے گا ۔

”مَنْ أَحَبَّ لِقَاء ِ اللَّہِ أَحَبَّ اللَّہُ لِقَاءَ ہُ“
جسے یہ پسند ہے کہ میں جلد اللہ سے جاملوں اللہ کو یہ پسند ہے اور انتظار ہے کہ کب میرا بندہ مجھ سے آکر ملے گا؟ جو اِدھر سے معاملہ وہ اُدھر سے معاملہ ۔

اور فرماتے ہیں:
﴿فَاذْکُرُونِی أَذکُرْکُمْ﴾ .

مجھے یاد کرو میں تمہاری یاد کروں گا ۔ اگر تم ذکر اللہ کرو گے تو میں تمہارے نفس کا ذکر کروں گا ۔ حدیث قدسی میں فرمایا گیا کہ اگر بندہ تنہائی میں مجھے یاد کرتا ہے میں اپنے نفس میں اسے یاد کرتا ہوں جو بھرے مجمع میں مجھے یاد کرتا ہے میں اسے ملائکہ کے مجمعیمیں یاد کرتا ہوں، جس نوع کا یہ ذکر کرے گا۔ اسی نوع کا وہاں ذکر ہوگا ۔ تو ذاکر جب ذکر کرتا ہے، انجام کار مذکور بن جاتا ہے ۔ ادھر سے اس نے ذکر کیا اُدھر اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا تو مذکور بن گیا۔ اس لیے اگر آدمی چاہتا ہے کہ اللہ کے ہاں میرا تذکرہ رہے تو یہ اللہ کا تذکرہ شروع کردے، جتنا یہ یاد کرے گا اتنا ہی وہ یاد کریں گے ۔

دیکھیے اگر کسی بڑے حاکم وزیراعظم یا پریزیڈنٹ کے یہاں آپ کا تذکرہ آجائے اور آپ سن پائیں کہ آج پریزیڈنٹ نے میرا ذکر کیا تھا تو عزت و افتخار سے سراو نچا ہو جاتا ہے، اخباروں میں چھاپتے ہیں کہ آج پریزیڈنٹ نے ہمارا تذکرہ کیا ہے۔ اس لیے کہ ایک بڑی ذات، جو عزت والی کہلاتی ہے مجھے یاد کرلے تو یہ بڑے فخر کی بات ہوگی۔ حق تعالیٰ جو بادشاہوں کا بادشاہ ہے، اس کے یہاں کسی کا تذکرہ ہو تو یہ تھوڑے فخر کی بات ہے ؟ یہ تھوڑی عزت کی چیز ہے کہ اللہ کسی کو یاد کرے؟

اور حق تعالیٰ کب یاد کریں گے ؟جب تم یاد کرو گے ؟

﴿فَاذْکُرُونِی أَذْکُرُکُم﴾ .

غرض اگر کوئی یوں چاہتا ہے کہ میری یاد وہاں قائم ہو جائے ، وہ اس کی یاد کو اپنے اندر قائم کر لے۔ اگر یہ ہر وقت ذکر کرے گا۔ وہاں بھی ہر وقت ذکر ہوگا ۔ یہ غافل بن جائے گا تو وہاں بھی غفلت برتی جائے گی ۔

﴿وَلَا تَکُونُوا کَالَّذِینَ نَسُوا اللَّہَ فَأَنسٰہُمْ أَنْفُسَہُمْ﴾

تم ایسے مت ہو کہ اللہ کو بھلا دو۔ تو تم اپنے نفس کو بھلا دو گے تو اللہ بھی تمہیں بھلا دے گا قرآن کریم میں فرمایا گیا کہ جو لوگ قرآن کریم یادکر کے اسے بھول جائیں تو حق تعالیٰ قیامت کے دن اس بندے کو نا بینا اٹھائیں گے۔

وہ کہے گا:

﴿رَبِّ لِمَ حَشَرْ تَنِیْ أَعْمَی وَقَدْ کُنتُ بَصِیرًا﴾

اے اللہ!مجھے اندھا کیوں اٹھایا ، میں تو دنیا میں بینا تھا ، میں تو دیکھنے والا تھا ؟

﴿قَالَ کَذَلِکَ أَتَتْکَ ایْتُنَا فَنَسِیتَہَا وَکَذَلِکَ الْیَوْمَ تُنْسیٰ﴾․

ہم نے اپنی آیتیں تیرے سینے میں ڈالی تھیں تو نے انہیں بھلا دیا۔ ہم نے تجھے بھلا دیا تو اگر یہ نسیان کا برتاؤ کرے گا ۔ ادھر سے بھی نسیان کا برتاؤ ہو جائے گا۔ یہ ذکر کا برتاؤ کرے گا ادھر سے بھی ذکر کا برتاؤ ہو جائے گا۔

حق تعالیٰ شانہ نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا کہ :
اے بندے! تو اپنی تن درستی کے زمانے میں مجھے یاد رکھ، تاکہ تیری بیماری کے زمانے میں میں تجھے یاد رکھوں ۔ تو اپنی تو نگری کے زمانے میں مجھے یاد رکھ، تاکہ تیری مفلسی کے زمانے میں، میں تجھے یاد رکھوں ، تو صحت کے زمانے میں مجھے یاد رکھ، تاکہ بیماری کے وقت میں تجھے یاد رکھوں، جب کوئی تیرا یاد کرنے والا نہیں ہوگا تو اپنی دنیا میں مجھے یاد رکھ، تا کہ قبر میں میں تجھے یاد رکھوں ،جو یہاں یاد کرے گا یہ یاد وہاں کام دے گی ۔جو یہاں بھول جائے گا، وہ وہاں بھی کس مپرسی کے عالم میں ہوگا۔

یادِ حق کا احساس

اس لیے ذکر اللہ نہ صرف کا ئنات کی روح ہے، بلکہ انسان کی بھی روح ہے، بلکہ انسان کی روح کی روح ہے۔ اگر ذکر منقطع ہو جائے تو روح پر مردنی چھا جاتی ہے اگر احساس ہو ۔ فرق یہ ہے کہ سیاہ کپڑے پر ہزاروں دھبے ڈال دو، احساس نہیں ہو گا کہ اس پر بھی کو ئی دھّبہہے۔ اس لیے کہ وہ تو ہے ہی سیاہ اور سفید کپڑے پر ذرا سا دھّبہ لگا دو ،وہ نمایاں تو ہو گا اور محسوس ہو گا تو جن کے قلوب میں غفلت رچ چکی ہے انہیں اگر دس غفلتیں بڑھ جائیں احساس نہیں ہوگا۔ کیوں کہ دل غفلتوں میں رنگا ہوا ہے، لیکن یاد کرنے والا منٹ بھر غافل ہو اسے احساس ہوگا کہ پتہ نہیں کیا چیز میرے اندر سے چھن گئی !!

اس لیے ذکر اللہ کا احساس پیدا کرنا چاہیے زندگی یہی ہے زندگی فی الحقیقت شیرازہ بندی کا نام ہے ۔ اور موت شیرازہ بکھر جانے کا نام ہے، اس بدن میں آج پانی، مٹی، ہوا، آگ جمع شدہ موجود ہے، کہا جائے گا کہ زندہ ہے ۔ قبر میں جاکے ریزہ ریزہ ہو کراجزاء بکھر جائیں گے۔ کہا جائے گا کہ مردہ ہے تو ذکر اللہ روح کو بدن سے ملائے رکھتا ہے اور بدن کے اجزا کو جمع رکھتا ہے۔ تو ذکر اللہ انسان کی روح اور زندگی ہے۔ یہ نہ ہو تو آدمی کی زندگی ختم ہے ۔

یا دِ حق کا اصل طریق

اس واسطے میں نے یہ حدیث پڑھی تھی اور مقصد یہ نہیں تھا کہ کوئی لمبی تقریر کی جائے، مقصد صرف اس حدیث کی تشریح اور ترجمہ تھاکہ ذکر الله کی عادت ڈالی جائے۔ اور اس کے تین طریقے ہیں ۔
سب سے پہلا طریقہ جو اصل اور بنیادی ہے، وہ فرائض کی ادائیگی ہے ۔ سب سے بڑا ذکر اللہ کے فرائض ہیں، نماز ہے ۔ اس کے بارے میں فرمایا گیا :

﴿اقم الصلواة لذکری ﴾

نماز قائم کر و میری یاد کے لیے ۔ معلوم ہوا نماز ذکر اللہ اور یاد حق ہے ،حج کے بارے میں جگہ جگہ فرمایا گیا:
﴿فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفَاتِ فَاذْکُرُوا اللَّہَ عِنْدَ المشعر الحرام وَأَذْکُرُوہُ کَمَا ہَدَاکُمْ وَإِن کُنتُمْ مِنْ قَبْلِہِ لَمِنَ الضَّالِّینَ - ثُمَّ أَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللہَ ﴾․

حج کے ایک ایک رکن پر کہیں ذکر اللہ، کہیں استغفار، کہیں توبہ، کہیں یادحق، ان سب کا مقصد ذکر ہے، نماز کا مقصد بھی ذکر ہے، زکوٰة اور صدقات کا مقصد بھی فی الحقیقہ ذکر ہے،فرمایا:

﴿لَن یَنَالَ اللَّہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَا ؤہَا وَلٰکُن یَنَالُہُ التَّقْوی مِنْکُمْ﴾․

جو تم قربانیاں کرتے ہو اس کا گوشت پوست اللہ تک نہیں پہنچتا بلکہ وہ تقویٰ ، ذکر اللہ یادِ حق پہنچتی ہے ،جو قربانی کے وقت تم نام لیتے ہو اور قلب میں نیت کرتے ہو ۔ وہ چیز اللہ تک جاتی ہے۔ یہ اس کی علامت ہے ۔ بہر حال قربانی ہو ، زکوٰة ہو ، حج ہو، نماز ہو ، ان سب کی روح ذکر اللہ بتلائی گئی ہے تو ذکر کرنے کا بنیادی طریق فرائض شرعیہ کی ادائیگی ہے ۔ یہ اصل ذکر ہے ۔

ذکر موقت

لیکن اصل ذکر کے ساتھ ساتھ امر کیا گیا کہ :﴿یَایُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اذْکُرُوا اللہَ ذِکْرًا کَثِیراً ﴾اے لوگو! اللہ کی یاد کرو ذکر کثیر کے ساتھ تو ایک ذکر اصل ہے۔ وہ فرائض ہیں اور ایک ذکر زائد اور ذکر کثیر ہے، وہ اس سے اوپر ہے اس کے دو طریقے ہیں ،ایک موقت ،ایک غیر موقت۔ موقت تو یہ ہے کہ صبح اور شام کا وقت مقررکر کے کچھ تسبیح اورتہلیل کر لیا کرے، صبح کی نماز کے بعد بیٹھ گئے۔ فرض کیجیے۔

آپ نے سو مرتبہ کلمہ تمجید پڑھ لیا ۔ سُبْحَانَ اللَّہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ ولا إلہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکْبَرُ .

سو مرتبہ استغفار پڑھ لیا، سو مرتبہ درود شریف پڑھ لیا، اسی طرح شام کو پڑھ لیا۔ فَسُبْحَانَ اللَّہِ حِینَ تُمْسُونَ وَحِینَ تُصْبِحُونَ وَلَہُ الْحَمْدُ فی السموات والارْضِ وَعَشیا وَحِینَ تُظہِرُونَ .

فرمایا:اللہ کی تسبیح کر وکچھ صبح کو ، کچھ شام کو، کچھ دوپہر کو:
فَسَبِّحُوہُ بُکْرَةً وَأَصِیلاً․

صبح اور شام اللہ کی تسبیح کرو تو یہ موقت طریق ہے کہ ایک وقت باندھ کر آدمی کچھتسبیح پڑھے، سو مرتبہ نہ ہو، تینتیس مرتبہ پڑھ لے، اتنا نہ ہو کچھ اور کم کر لو ،مگر ایک عدد اور وقت معین کر کے اس کو نبھائے۔

حدیث میں ہے کہ:”خیْرُ الأُمُورِ مَا دِیمَ عَلَیْہِ“بہترین عمل وہ ہے جس پر ہمیشگی اور دوام برتا جائے، جو قلب میں جڑ پکڑ لیتا ہے ،رسوخ پیدا کر لیتا ہے ۔ پہاڑ کی ایک چٹان ہے، اس پر گرد پڑ گئی ہے۔ آپ نے لاکھوں من پانی بہا دیا۔ گرددھل گئی، لیکن تھوڑی دیر کے بعد پھر چڑھ جائے گی ۔ تو منوں پانی بہانے سے ظاہری صفائی آجاتی ہے۔ مگر چٹان کے اندر ہی نہیں پہنچتی، لیکن اگر آپ ایک قطرہ برس دن تک گراتے رہیں تو پتھر میں بھی سوراخ پیدا ہو جاتا ہے، تو تھوڑا تھوڑا عمل ہو۔ اس سے قلب میں جڑ پیدا ہو جاتی ہے، لیکن اگر آپ نے ایک دن پچاس نمازیں پڑھ لیں، لیکن پھر ایسے غائب ہوئے کہ برس دن تک غائب رہے تو گرد دھل جائے گی۔

اجر مل جائے گا، لیکن قلب میں کوئی ملکہ، کوئی بنیاد، کوئی جڑ قائم نہیں ہوگی تو تھوڑا عمل ہو، مگر دوام کے ساتھ ہو،وہ کارآمد ہوتا ہے۔ دل میں ملکہ پیدا ہو جاتا ہے۔ جڑقائم ہو جاتی ہے۔ بہر حال سو مرتبہ نہ ہو، بالکل تھوڑا ہی عدد ہو، مگر ایک وقت مقررہ پر نام حق لیا جائے، کچھ تلاوت کر لی، کچھ تسبیح، کچھ تہلیلخواہ دس منٹ ہو ،مگر آدمی اس کا پابند ہو جائے ، چالیس دن کے بعد خود محسوس ہو گا کہ میرے قلب کے اندر کیا اثر قائم ہوا۔

حدیث میں ہے کہ آدمی کسی عمل کو چالیس دن خلوص کے ساتھ مسلسل کرے تو قلب میں سے حکمت کا چشمہ بہہ پڑتا ہے ۔ یا دِ حق کی ایک بنیاد قائم ہو جاتی ہے ،جس کی جیسی مناسبت ہے ویسی معرفت اس کو شروع ہو جاتی ہے تو ذکر کثیر کی ایک صورت یہ ہے کہ مقررہ وقت پر آدمی کچھ اللہ کا نام لے۔

ذکر غیر موقت

دوسری صورت یہ ہے کہ غیر مقررہ طریق پر آدمی یہ عادت ڈالے کہ اس کی زبان سے کوئی نہ کوئی اللہ کا نام نکلتا رہے ۔

لا إِلَہَ إِلہَ إِلَّا اللہُ، سُبْحَانَ اللہِ اللہُ أَکْبَرُ وغیرہ اٹھتے بیٹھتے ہوئے، چلتے ہوئے کھڑے ۔ وضو سے بے وضو، کوئی قید نہیں۔ مہینہ دو مہینہ تو تکلف کر کے عادت ڈالنی پڑے گی ،جب عادت پڑ جائے گی توبے اختیار اللہ کا نام زبان سے جاری ہوگا ۔ کوئی حادثہ پیش آئے گا (خدانخواستہ مثلاً آپ گر پڑے فوراً الا اللہ بسم اللہ کوئی نہ کوئی اللہ کا نام زبان سے نکلے گا۔ یہ نہیں نکلے گا کہ لوگو دوڑو ، مجھے بچاؤ ، اللہ کا نام نکلے گا۔ ابتداءً تکلف کرنا پڑے گا۔ جب عادت پڑ جائے گی تو پھر بلا ارادہ ذکر حق زبان سے شروع ہو جائے گا۔

ذکر غیر موقت کا ثمرہ

اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ مرتے وقت بھی بلا ارادہ اللہ کا ذکرزبان سے جاری ہوگا ۔ خاتمہ ایمان پر ہوگا۔ حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ :

تُحْشُرُ ونَ کَمَا تَمُوتُونَ وَتَمُوتُونَ کَمَا تَحْیَونَ․ تمہارا حشر اس حالت پر ہو گا جس حالت پر موت آئی ہو گی۔

اور موت اس حالت پر آئے گی جس حالت پر زندگی گزاری ہے۔ اگر اللہ کے نام کی مشق پر زندگی گزاری ہے تو موت کے وقت یقینا اللہ کا نام زبان پر جاری ہوگا۔ اور جب آدمی اللہ کا نام لیتا ہوا مرے گا تو قبر سے جب اٹھے گا وہی نام اس کی زبان پر جاری ہوگا ۔ وہ یہی سمجھے گا کہ میں در حقیقت موت میں ہوں اور اللہ کا نام لے رہا ہوں، بعد میں پتہ چلے گا کہ یہ تو میدان حشر ہے، آدمی کو جب عادت پڑتی ہے تو غیر ارادی طور پر وہ چیز جاری ہو جاتی ہے جس کی عادت ہوتی ہے ۔

امام غزالی نے لکھا ہے کہ ہر عبادت ابتداء میں ریا کاری ہوتی ہے، دکھلاوا ہوتا ہے، بعد میں عادت بنتی ہے، اخیر میں عبادت بنتی ہے اور حدیث سے استدلال کیا ہے کہ حدیث میں فرمایا گیا:

”مروا صبیانکم بالصلوة إِذَا بَلَغُوا سَبْعاً، واضْرِبُوہُمْ إِذَا بَلَغُوا عَشْراً․“

بچہ جب سات برس کا ہو، اس کو نماز کی تاکید کرو، اسے مسجد میں ساتھ لاؤ۔ اگر دس برس کا ہو جائے اور نہ مانے تو اس کو مار کر نماز پڑھاؤ ۔

ظاہر بات ہے کہ سات برس کے بچے کو جب آپ نماز پڑھائیں گے وہ نماز اللہ کی تھوڑا ہی ہوگی، وہ باپ کی ہوگی ۔ وہ مارپٹائی کے ڈر سے نماز ہوگی کہ مسجد میں جائے گا تو کن آنکھیوں سے دیکھے گا کہ باپ دیکھ رہا ہے کہ نہیں؟ اگر دیکھا کہ کھڑا ہوا ہے تو بڑے خشوع سے سجدہ کرے گا۔ اور اگر دیکھا کہ باپ چلا گیا تو وہ بھی تھوڑی دیر میں کھسک جائے گا۔ یہ باپ کی نماز ہے، حقیقی نماز نہیں ہے ،آٹھ نو برس کی عمر تک یہ ریا کاری رہی ۔ دس برس کی عمر میں آکر عادت پڑ گئی ،کچھ سمجھ بوجھ نہیں ،نماز کی حقیقت منکشف نہیں ہے، ایک عادت پڑی ہوتی ہے کہ گھر سے نکلے، مسجد تک آگئے۔ جماعت میں کھڑے ہو گئے۔ اس کا کچھ پتہ نہیں کہ میں کیا کر رہا ہوں، اس کے اندر حقیقت کیا ہے ؟ یا یہ کوئی عبادت یا طاعت ہے ۔ بس ایک عادت ہے تو ابتداءً ریا کاری تھی، کرتے کرتے عادت پڑ گئی، پندرہ بیس برس کے بعد جب آثار و کیفیات طاری ہوں گے تب سمجھے گا یہ کوئی عبادت ہے۔ اب آکر عبادت بنے گی۔ تو ہر عبادت ابتدا میں ریا کاری ہوتی ہے۔بعد میں عادت بنتی ہے۔ پھر عبادت بنتی ہے۔

مگر اس کے باوجود شریعت نے حکم دیا کہ ریا کاری ہی سہی، مگر نماز پڑھو اور عادت کے طور پر ہی سہی، مگر نماز پڑھواؤ، تا کہ عبادت بن جائے تو اگر کوئی ذکر اللہ کرنے آئے اور دل میں خیال ہو کہ یہ تو ریا کاری ہے۔ لوگ کہیں گے کہ بڑے صوفی بن گئے۔ بڑے نمازی آئے، بڑے ذکر کرنے والے آئے تو سمجھے کہ یہ شیطانی وسوسہ ہے۔ دکھلاوے کے لیے ہی تم ذکر اللہ کر و، کرتے رہو۔ یہ ذکر خود کھینچ لے گا اور آپ کے قلب کے اندر رچ جائے گا۔ تو ابتداءً
            بہر دین وبہر دنیا وبہر نام
            اللہ اللہ کردہ باید والسلام

دین کے لیے ہو ، دنیا کے لیے ہو یا دکھلاوے کے لیے ہو، اللہ کا نام لیتے رہو۔ یہ نام آپ کو اپنی طرف خود کھینچ لے گا

امام سفیان ثوری کہتے ہیں، جن کا محدثین میں عظیم رتبہ ہے ۔

طَلبْنَا الْعِلْمَ لِغَیْرِ اللہِ فَأَبٰی أَنْ یَکُونَ إِلَّا لِلَّہِ

ہم نے دنیا کے لیے علم حاصل کیا تھا کہ علم پڑھ کر شہرت کمائیں گے۔ کچھ نام نمودہوگا، ممکن ہے کچھ پیسے بھی مل جائیں، سیکھا تو دنیا کے لیے تھا۔ مگر جب علم آگیا تو علم نے انکار کیا کہ میں دنیا کے لیے نہیں ،میں تو اللہ ہی کے لیے ہونا چاہتا ہوں ۔ آخر اس نے ہمیں بھی اللہ سے جا ملایا ۔ تو علم آدمی چاہے دنیوی غرض سے سیکھے مگر سیکھ لے۔ علم آخر وہیں پہنچاتا ہے جو اس کا مقام ہے ۔ تو علم پست رہنا نہیں چاہتا ،علم بلندی کی چیز ہے ۔ آپ کتنا ہی پست رہیں گے مگر وہ آپ کو پکڑ کر اوپر لے جائے گا۔

یہی حقیقت ذکر اللہ کی بھی ہے کہ اللہ بلند ہے۔ اس کا نام بھی بلند ہے ۔ اس کا ذکر بھی بلند ہے، بلند چیز کو جب آپ زبان پر رکھیں گے، چاہے اس کی غرض دنی اورپست ہو ، مگر انجام کار وہ رفعت کی طرف جائے گا اور اپنے ساتھ آپ کو بھی لے جائے گا۔اس واسطے صبح اور شام کچھ نہ کچھ اللہ کانام لینا چاہیے۔

تسبیح مذکرہ ہے

اگر ویسے یاد نہ آئے تو آدمی تسبیح ہاتھ میں رکھ لے ،تسبیح مذکرات میں سے ہے ۔ یاد دلا دیتی ہے۔ تسبیح دیکھ کر خواہ مخواہ ہی سُبحَانَ اللہ سُبحان اللہ جاری ہو جاتا ہے یہ تسبیح مذکرات میں سے ہے، یاد دہانی کرادیتی ہے ۔

جواب شبہ

اس پر اگر یہ شبہ ہو کہ لوگ کہیں گے بڑے صوفی بنے ہیں تو حضرت جنید بغدادی رحمہ الله لکھتے ہیں کہ لوگوں کے خیال کی وجہ سے ذکر کا چھوڑ دینا یہ شرک میں داخل ہے۔ اس واسطے اس کی پر واہ مت کرو، لوگ کیا کہیں گے۔ اپنا معاملہ اللہ کے ساتھ کر لو، ضمیر سے معاملہ ہے حق تعالیٰ کا، لوگوں سے نہیں ہے ۔
آپ جب اپنے قلب میں خالص اللہ کے لیے ذکر اللہ کر رہے ہیں ۔ تو یہ وسوسہ اگر آئے کہ میں دکھلاوے کے لیے کر رہا ہوں تو یہ شیطان کی طرف سے ہے۔ اس پر لاحول پڑھ لے ۔

عشق کامل ہو تو ملامت کارگر نہیں ہوتی

اگر کوئی ملامت کرے، کرنے دیجیے ۔ اس لیے کہ ملامت جبھی کارگر ہوتی ہے جب عشق نا تمام ہوتا ہے۔ جب محبت کا مل ہوتی ہے۔ پھر ملامت گروں کی ملامت کوئی اثر نہیں کرتی ۔

حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی ہیں، جب ایران فتح ہوا تو حضرت حذیفہ ایران پہنچے ، اسلامی حکومت قائم ہو گئی ۔ تو ایران کا ملک بڑا متمدن ملک تھا۔ اس زمانے میں دو ہی بڑی حکومتیں تھیں۔ ایک قیصر کی حکومت ،یعنی رومیوں کی حکومت، جو عیسائیوں کے ہاتھ میں تھی۔ اور ایک کسری کی حکومت ،جو فارسیوں کے ہاتھ میں تھی۔ باقی ساری حکومتیں یا ان کے ماتحت تھیں یا ان کے زیر اثر تھیں، جو صورت آج روس اور امریکا کی ہے وہی اس زمانے میں ان کی تھی ۔

تو حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ کھانا کھانے بیٹھے۔ اور ایک فارسی غلام کھڑا ہوا کھانا کھلا رہا تھا۔ پانی اس کے ہاتھ میں تھا۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں سے زمین پر لقمہ گر پڑا ۔ انہوں نے جلدی ادب کے ساتھ لقمہ کو اٹھا کر مٹی جھاڑی اور تناول فرمالیا۔ فارسی غلام نے کہا یہ آپ نے کیا کیا ؟یہ ملک تو بڑا مہذب ملک ہے، یہ بات یہاں کی تہذیب کے خلاف ہے، لوگ کہیں گے یہ بڑے حریص ہیں، ایک ایک لقمہ پر جان دیتے ہیں، مٹی تک جھاڑ کر کھا گئے۔ یہ حرص کی دلیل ہے ، ایسا نہ کیجیے، یہ تمدن والوں کا ملک ہے۔

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کیا جواب دیا؟ فرمایا: أَأَتْرُکُ سُنْة حَبیبی لہو لاءِ الحُمَقَاءِ؟

کیا میں اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ان احمقوں کی وجہ سے چھوڑدوں ؟ گویا اس درجہ ایک سنت محبوب تھی، عزیز تھی کہ فارسیوں کا پورا ملک اور ان کا تہذیب و تمدن اتنا عزیز نہیں تھا۔ جب محبت کامل ہوتی ہے تو ملامت گر کی ملامت اثر نہیں کرتی ۔ ملامت سے منفعل ہونا جبھی ہوتا ہے جب اپنے اندر خامی ہوتی ہے، اس واسطے خامی کو رفع کیجیے ۔ اور خامی رفع ہونے کی یہی صورت ہے کہ ذکر اللہ اور یاد حق کی عادت پڑ جائے ۔ جب چوبیس گھنٹے اللہ کا نام دل اور زبان پہ ہوگا ، محبت اور معرفت بڑھ جائے گی۔ پھر ملامت کرنے والے ہزار ملامت کریں گے، کوئی اثر نہیں ہوگا ۔ ان پر ہنسی آئے گی کہ یہ احمق ہیں، اس چیز سے روک رہے ہیں ۔ آپ خود منفعل اور شرمندہ نہیں ہوں گے ۔

بہر حال یہ حدیث بتلاتی ہے کہ زندگی فی الحقیقت ذکر اللہ اور اللہ کا نام ہے۔ جب کائنات ، نباتات، جمادات کی زندگی اس سے ہے تو انسان کی زندگی اس سے کیوں نہیں ہوگی ؟ اس لیے انسان کو سب سے زیادہ ذاکر رہنا چاہیے تبھی وہ زندہ ہوگا، بلکہ زندہ وجاوید بن جائے گا۔

بس مولانا کی تعمیل حکم کے لیے یہ چند کلمے میں نے عرض کر دیے اور اس حدیث کی شرح کی، دعا فرمائیے اللہ تعالیٰ ہم کو یاد الہٰی اور ذکر حق کی توفیق عطا فرمائے ۔

اللہُمَّ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ ہَدَیْتَنَا وَہَبْ لَنَا مِن لَّدُنکَ رَحْمَةً إِنَّکَ أَنْتَ الْوَہَّابُ ․
وَصَلَّی اللہُ تَعَالَی عَلَی خَیْرِ خَلْقِہِ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ والِہِ وَأَصْحٰبہِ أَجْمَعِینَ بِرَحْمَتِکَ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ ․

مجالس خیر سے متعلق