ایک صاحب ایک مرتبہ مجھ سے اپنے ایک پڑوسی کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ بتا رہے تھے کہ ان کے آپس میں کتنے خوش گوار تعلقات ہیں اور وہ کس طرح ایک دوسرے سے اپنائیت اور ”حسن ِ سلوک“ کا معاملہ کرتے رہتے ہیں، اس ”حسن ِ سلوک“ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہنے لگے کہ میرے پڑوسی جس محکمے میں کام کرتے ہیں وہ اپنے ملازمین کو ان کی ذاتی گاڑی کے لیے بہت سی سہولیات فراہم کرتا ہے، ( مثلاً پیٹرول کا خرچ ، سروس او رمرمت وغیرہ کا خرچ) میرے پڑوسی کے پاس چوں کہ اپنی کوئی گاڑی نہیں تھی ،اس لیے وہ یہ سہولیات حاصل نہیں کرسکتے تھے، میں نے اپنی گاڑی ان کے نام رجسٹرکرادی اور انہوں نے اپنے محکمے میں اسے اپنی گاڑی ظاہر کرکے وہ سہولیات حاصل کر لیں، مدتوں میری گاڑی ان کے نام پر درج رہی اور وہ اس کے نام پر سالہا سال یہ سہولیات حاصل کرتے رہے“ میں نے ان سے پوچھا کہ ”آپ نے ایسا کیوں کیا؟“ وہ فرمانے لگے کہ ”ہمارے درمیان تعلقات ہی ایسے تھے“ مجھے یقین تھا کہ گاڑی ان کے نام رجسٹر ہونے کے باوجود وہ میری ہی استعمال میں رہے گی او رکبھی ہمارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ہو گا، لہٰذا اگر صرف نام رجسٹر کرانے سے کسی کا بھلا ہوتا ہو تو میں کیوں اس میں رکاوٹ بنوں؟“
ایک اور صاحب نے ایک مرتبہ اپنے ایک دوست کے ساتھ ”حسن ِ سلوک“ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ” ہمارے درمیان اتنے اچھے تعلقات ہیں کہ جب وہ خود یا ان کے گھر کا کوئی فرد بیمار ہوتا ہے تو میں ڈاکٹر سے اپنے نام کا نسخہ بنوا کر، اپنے محکمے کے خرچ پر، دوائیں لے آتا ہوں او راپنے دوست کو فراہم کر دیتا ہوں اور اس طرح علاج معالجے پر میرے دوست کا کبھی کچھ خرچ نہیں ہوتا“۔
دونوں صاحبان نے اپنا یہ عمل بڑے فخر کے ساتھ اس طرح بیان فرمایا جیسے یہ ان کی کشادہ دلی اور بلند حوصلگی کی علامت ہے او را س کے ذریعے انہوں نے بہت بڑی نیکی انجام دی ہے، جس پر وہ دنیا میں تعریف اورآخرت میں ثواب کے مستحق ہیں، یہ دونوں میں سے کسی نے نہیں سوچا کہ اس طرح اپنے پڑوسی یا دوست کے ساتھ” ہم دردی“ کرکے وہ محکمے کے ساتھ کتنی بے وفائی اور بد یانتی کا معاملہ کر رہے ہیں، اس ” ہم دردی“ کا آغاز تو جھوٹ بولنے سے ہوا، یعنی پہلے صاحب نے اپنی کار خلاف ِ واقعہ اپنے پڑوسی کے نام درج کراکے غلط بیانی سے کام لیا، بلکہ غلط بیانیوں کا ایک طویل سلسلہ شروع کرادیا، کیوں کہ ہر مہینے وہ صاحب اپنی اس فرضی گاڑی کے لیے پیٹرول انا کے فرضی بل داخل کرتے تھے، جن میں سے ہر فرضی بل ایک مستقل جھوٹ تھا، اسی طرح اس فرضی گاڑی کی سروس او رمرمت کے بھی اسی طرح فرضی بل بنائے جاتے ہوں گے، کیوں کہ گاڑی تو بدستور پہلے صاحب ہی کے استعمال میں تھی، اس طرح اس ہم دردی کی بدولت وہ سالہا سال تک جھوٹ کا یہ پلندہ اپنے نامہٴ اعمال میں درج کراتے رہے، اسی طرح دوسرے صاحب اپنے دوست کی بیماری کے موقع پر خود اپنے آپ کو بیمار ظاہر کرنے کے لیے اپنے لیے فرضی نسخے بنواتے رہے اور ڈاکٹر صاحب کو بھی اس غلط بیانی میں ملوث کرتے رہے۔
دوسری طرف محکمہ نے اگر کوئی سہولت اپنے کسی کارندے کو دے رکھی ہے تو وہ اپنے ملازم کو دی ہے، جو کچھ قواعد وضوابط کی پابند ہے، نہ کسی شخص کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اپنی یہ سہولت کسی اور کو منتقل کردے اور نہ یہ جائز ہے کہ قواعد وضوابط کے خلاف جس طرح چاہے وہ سہولت حاصل کر لے، لہٰذا دونوں صاحبان نے جو سہولتیں اپنے پڑوسی یا دوست کو دلوائیں ، وہ ان کے لیے سرا سر حرام او رناجائز تھیں، لیکن دونوں کے حاشیہٴ خیال میں بھی یہ بات نہیں آئی کہ اس طرح وہ کسی جرم یا گناہ کا ارتکاب کر رہے ہیں، اس کے برعکس وہ اسے اپنی نیکیوں میں شمار کر رہے تھے۔
یہ دو واقعات تو میں نے مثال کے طور پر ذکر کر دیے، ورنہ اپنے گردوپیش میں نظر دوڑا کر دیکھیے تو معلوم ہو گا کہ ہمارا معاشرہ اس قسم کے واقعات سے بھرا ہوا ہے، کوئی سرکاری یا غیر سرکاری محکمہ اپنے ملازمین کو جو سہولیات دیتا ہے، بعض لوگ انہیں ہر قیمت پر اپنے حق میں نچوڑنے کی کوشش کرتے ہیں، خواہ اس کے لیے جھوٹ سچ ایک کرنا پڑے یا قواعدو ضوابط توڑنے پڑیں یا کسی اور بدعنوانی کا ارتکاب کرنا پڑے، مثلاً بعض محکموں میں یہ قاعدہ ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو گاڑی میں استعمال کرنے کے لیے ایک خاص حد تک پیٹرول کی قیمت مہیا کرتے ہیں، اب بعض لوگ ہر مہینے اتنے پیٹرول کے بل داخل کرکے یہ رقم ہر حالت میں وصول کرنا ضروری سمجھتے ہیں، خواہ واقعةً اس مہینے میں اتنا پیٹرول استعمال ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، اسی طرح بعض ملازمین کو محکمے کی طرف سے اجازت ہوتی ہے کہ وہ ایک خاص ماہانہ کرایہ کی حد تک کوئی مکان اپنی رہائش کے لیے لے سکتے ہیں، اب خواہ مکان کم کرائے پر ہو، لیکن وہ زائد کرائے کا بل بنوا کر پوری رقم وصول کرنا ضروری سمجھتے ہیں، اسی طرح بعض مرتبہ مکان کی مرمت یا دیکھ بھال (Maintenance) کا خرچ محکمہ برداشت کرتا ہے، چناں چہ بعض لوگ مرمت کے فرضی بل بنوا کر یہ رقمیں حاصل کرتے رہتے ہیں، یہی معاملہ علاج معالجے کے اخراجات کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ خواہ واقعةً کسی علاج کی ضرورت نہ پڑی ہو، لیکن جعلی بل بنوا کر علاج کا خرچ وصول کر لیا جاتا ہے۔
یہ تمام صورتیں بڑی گھٹیا قسم کی بددیانتی میں شامل ہیں، اس سلسلے میں ایک اہم شرعی اصول کی وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے، جو بہت کم حضرات کو معلوم ہوتا ہے، اس لیے بعض اوقات اچھے خاصے دین دار حضرات بھی غیر شعوری طور پر اس قسم کی بددیانتی میں مبتلا ہو جاتے ہیں، وہ اصول یہ ہے کہ کسی چیز کی ملکیت اور چیز ہے اور استعمال کی اجازت اور چیز، جو چیز اپنی ملکیت میں آجائے، اسے تو انسان جس طرح چاہے استعمال کرسکتا ہے، خواہ خود اس سے فائدہ اٹھائے یا کسی اور کو عارضی یا مستقل استعمال کے لیے دے دے، اس پر کوئی پابندی نہیں، لیکن جو چیز اپنی ملکیت میں نہ ہو، بلکہ مالک نے اسے استعمال کرنے کا حق یا اس کی اجازت دی ہو، ( جسے اسلامی فقہ میں ” اباحت“ سے تعبیر کیا گیا ہے ) اس پر ہر طرح کے مالکانہ حقوق حاصل نہیں ہوتے۔ اس اجازت کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنی ضرورت کی حدتک اسے جس قدر استعمال کرنا چاہے کر لے، لیکن اسے یہ اجازت نہیں ہوتی کہ وہ مالک کی اجازت کے بغیر اپنا یہ حق کسی اور کو منتقل کر دے یا دوسروں کو دعوت دے کر اس سے فائدہ اٹھانے میں وہ بھی اس کے ساتھ شریک ہو جائیں، نیز اسے یہ بھی حق نہیں ہوتا کہ اگر کسی وجہ سے وہ خود اس اجازت سے فائدہ نہیں اٹھاسکا تو اس کی قیمت وصول کرے۔
اس کی ایک سادہ سی مثال یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے ہمارے گھر کھانا پکا کر بھیج دیا تو یہ کھانا ہمار یملکیت ہے، خواہ ہم اسے خود کھائیں یا کسی اور کو تحفہ بھیج دیں یا صدقہ کر دیں، بلکہ جائز یہ بھی ہے کہ کسی کو بیچ کر اس کی قیمت وصول کر لیں، لیکن اگر کسی شخص نے اپنے گھر میں ہماری دعوت کی تو جو کھانا وہاں موجو دہے، وہ ہمار ی ملکیت نہیں، البتہ مالک کی طرف سے اجازت ہے کہ ہم اپنی ضرورت یا خواہش کے مطابق جتنا چاہیں کھالیں۔ لیکن ظاہرہے کہ اس اجازت کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اس کھانے پر اپنے مالکانہ حقوق جتلانے لگیں، لہٰذا یہ جائز نہیں ہے کہ ہم مالک کی مرضی کے بغیر اس پر کسی اور کو دعوت دینے لگیں، اسی طرح اگر کوئی شخص دعوت کا کھانا اپنے ساتھ باندھ کر گھر لے جانے لگے تو اسے کتنا گھٹیاآدمی سمجھا جائے گا اور اس سے بھی زیادہ گھٹیا اور شرم ناک بات یہ ہوگی کہ کوئی شخص اگر خود کسی وجہ سے کھانا نہ کھا سکا تو میزبان سے یہ مطالبہ کرے کہ میرے کھانے کے پیسے ادا کرو۔
بالکل یہی صورت ملازمت سے حاصل ہونے والی سہولیات کی بھی ہے، جہاں تک نقد تنخواہ کا تعلق ہے وہ ملازم کی ملکیت ہے، اسے وہ جس طرح چاہے استعمال کرسکتا ہے یا جو الاؤنس کی رقمیں یکمشت محکمے کی طرف سے ادا کر دی جاتی ہیں او ران کی وصولیابی کے لیے بل پیش کرنے نہیں پڑتے، ان کا بھی یہی حکم ہے، لیکن جو دوسری سہولیات ملازم کو فراہم کی جاتی ہیں، مثلاً پیٹرول، علاج معالجے اور کرائے وغیرہ کے بلوں کی ادائیگی، وہ محکمہ کی طرف سے ایک اجازت ہے، لہٰذا اس کا مطالبہ اسی حد تک جائز اور درست ہے جس حد تک اس اجازت سے واقعی فائدہ اٹھایا گیا ہے، اس سے زیادہ نہیں، اس فائدے میں اپنے کسی عزیز، دوست یا پڑوسی کو شریک کرنا بھی جائز نہیں، اسی طرح اگر خود اسے اجازت سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت پیش نہیں آئی یا اس کا موقع نہیں ملا، تو اس کا غلط بل پیش کرکے پیسے وصول کرنا بھی سرسرا ناجائز ہے اور اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہے کہ کوئی شخص دعوت میں شریک نہ ہو اور داعی کے پاس اس وقت کے کھانے کا بل بھیج دے کہ میں چوں کہ دعوت سے فائدہ نہیں اٹھاسکا، اس لیے یہ بل تم ادا کرو، ظاہر ہے کہ کوئی گھٹیا سے گھٹیا آدمی بھی ایسی حرکت نہیں کرے گا، مذکورہ سہولیات سے فائدہ اٹھائے بغیر ان کا بل محکمے کو بھیج دینا بھی ایسی ہی شرم ناکحرکت ہے ،لیکن افسو س ہے کہ اس کی برائی عام طور سے محسوس نہیں کی جاتی، بلکہ اسے اپنا حق سمجھا جاتا ہے، حالاں کہ اس میں جھوٹ اور فریب کا گناہ بھی ہے اور دوسرے کا مال ناحق کھانے کاگناہ بھی۔
اس صورتِ حال کا بنیادی سبب یہ ہے کہ روپیہ پیسہ اور مادی منافع کو زندگی کا وہ بنیادی مقصد قرار دے لیا گیا ہے جس کے آگے دینی، اخلاقی اور روحانی قدریں اور ملک وملت کی اجتماعی فلاح وبہبود کی فکر یا توبے معنی ہو کر رہ گئی ہے یا پس منظر میں چلی گئی ہے، یہ درست ہے کہ معاشرے کا عمومی مزاج راتوں رات تبدیل نہیں ہوسکتا، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جس شخص کو الله تعالیٰ نے ضمیر کی پاکیزگی عطا فرمائی ہو، وہ اس ماحول سے شکست کھا کر بیٹھ جائے، حسن ِ کردار ایک خوش بو ہے، جو بالآخر پھیل کر رہتی ہے۔