ہمارے استاذ کے ادب کا حال

idara letterhead universal2c

ہمارے استاذ کے ادب کا حال

استاذ المحدثین حضرت مولانا سلیم الله خان

ہمارے استاذ تھے، ان کے ادب کا حال یہ تھا کہ ہم نے کبھی ان کو ننگے سر نہیں دیکھا، چاہے سردی ہو یا گرمی ہو، لیکن وہ ٹوپی نہیں اتارتے تھے، دوسری بات یہ کہ ہم نے کبھی ان کو پاؤں پھیلائے ہوئے نہیں دیکھا ، وہ یہ محسوس کرتے تھے کہ اللہ دیکھ رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے پاؤں پھیلا کر لیٹنا ادب کے خلاف ہے، اسی طرح سر سے ٹوپی اتارنا ادب کے خلاف ہے، اس لیے وہ ٹوپی بھی نہیں اتارتے، حالاں کہ کوئی مضائقہ نہیں ، قرآن میں ہے :﴿اَلاَ اِنَّہُمْ یَثْنُوْنَ صُدُوْرَہُمْ لِیَسْتَخْفُوا مِنْہُ اَلاَ حِیْنَ یَسْتَغْشَوْنَ ثِیَابَہُمْ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ﴾․ (سورة الہود :5 )

ترجمہ : ”یاد رکھو! وہ دوہرے کرتے ہیں اپنے سینے، تاکہ چھپائیں اس (الله)سے ، یاد رکھو! جس وقت اوڑھتے ہیں اپنے کپڑے جانتا ہے جو کچھ چھپاتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں“۔

حضرت ابن عباس رضی الله تعالیٰ عنہ نے شان نزول یہ بیان کیا ہے کہ صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم جب قضا ئے حاجت کے لیے بیٹھتے تو سینے جھکادیتے یا پردہ ڈال دیتے تھے، محض اللہ تعالیٰ سے حیا کی بنیاد پر تو قرآن نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تو چھپانے کے باوجود دیکھ رہا ہے، اس تکلف کی ضرورت نہیں، یہ ضروریات بشریہ میں سے ہیں، ان کے لیے ضرورت کے مطابق جسم کھولنا جائز ہے اس میں کراہت نہیں۔ لیکن اس کے لیے یہ کیا جائے کہ آدمی جب قضائے حاجت کے لیے جائے تو جب بیٹھنے کے قریب ہو ازار کو اس وقت نیچے کرے، اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ آپ بے پردہ نہیں ہوں گے ،کھڑے ہونے کی حالت میں ازار کو اپنی جگہ سے نیچے کرنا یہ حیا کے خلاف ہے، اس میں آدمی بالکل ننگا ہو جاتا ہے ،باقی یہ نہیں کہ سینہ جھکائے یا اپنے اوپر پردہ ڈالے، اس تکلیف کی ضرورت نہیں ، تو صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم کا یہ حال تھا اور ان کو اس طرح بے پردہ ہونا بھی گوارا نہ تھا، لیکن شریعت نے منع کردیا ۔

بہر حال ہمارے استاذ پاؤں نہیں پھیلاتے تھے یہ ان کا حال تھا اور اچھا حال تھا، لیکن شریعت نے اس کا مکلف نہیں بنایا اور یہ بھی ان کاحال تھا کہ کہیں کاغذ کا پرزہ پڑاہوتا اٹھا لیتے اور فرماتے یہ تحصیل علم کا آلہ ہے اور اس کا احترام کرنا چاہیے ، تو اس ادب کا نتیجہ یہ تھا کہ جب استاذ کے ہاں بخاری کا ختم ہوتا تو پچاس ہزار افراد شریک ہوتے اور ایک جم غفیر ہوتا تھا۔ جمعہ کے روز مولانا کی مجلس ایک گھنٹے کی ہوتی اور اس میں شرکت کے لیے پچاس ، ساٹھ ، ستر میل دور سے لوگ آتے اور مجمع اتنا ہوتا کہ شامیانے لگے ہوئے ہیں، لیکن ناکافی ہیں۔ یہ اس ادب کا نتیجہ تھا کہ اللہ نے لوگوں کے دِلوں میں ایسی کشش پیدا کی کہ وہ دور دراز سے آتے تھے، ادب سے علم میں برکت ہوگی ، آپ جتنے با ادب ہوں گے اتنی ہی آپ کے علم میں برکت ہوگی اور اللہ تعالیٰ علوم کی فراوانی عطا فرمائیں گے ۔