
قطع رحمی کرنے والے رشتہ دار سے صلہ رحمی کرنا
سوال… میری والدہ محترمہ کے بھائی (یعنی میرے ماموں) کا بیٹا پچھلے دو سال سے ہمارے گاؤں میں رہائش پذیر تھا۔ وہ اسکول نہیں جاتا اور نہ ہی دینی یا دنیاوی تعلیم حاصل کرتا ہے۔ وہ صرف ایک مقامی ٹیلر کی دکان پر کام سیکھنے جاتا ہے، مگر یہ استاد اس کے والد صاحب کا دوست نہیں ہے۔ ہم نے ان دو سالوں میں اس بچے کو مکمل سہولت دی: رہائش، کھانا پینا، دیکھ بھال، ہم نے اپنے ماموں کی کئی بار مدد بھی کی، جب بھی ان کو ضرورت پڑی۔ لیکن اب حالات بہت خراب ہوچکے ہیں۔ اس لڑکے میں بُری عادتیں آگئی ہیں، ہماری بات نہیں مانتا اور ماحول بھی بہت خراب ہے۔ اس وجہ سے ہم مزید اس کی ذمہ داری لینے سے ڈر رہے تھے اور نرمی سے اسے واپس بھیج دیا، ہمارے ماموں نے بہت اصرار کیا کہ میرے بیٹے کو واپس نہ بھیجو، لیکن ہم نے نرمی سے معذرت کی۔ اس کے بعد وہ ناراض ہو گئے، ہم سے بات چیت، سلام دعا بند کر دی۔ جب کبھی میرے ماموں اپنے بیٹے کو لینے گاؤں میں آتے ہیں ٹیلر شاپ پر، تو میری والدہ انہیں سلام کرتی ہیں، مگر وہ جواب بھی نہیں دیتے۔ ہم بار بار کوشش کرتے ہیں کہ کوئی ناراضگی نہ ہو، لیکن ہم صرف اس لیے خاموش رہتے ہیں کہ وہ مزید ناراض نہ ہوں۔ ہمارا مقصد ان کو تکلیف دینا نہیں ہے۔ اب ان کا بیٹا روزانہ صبح کام سیکھنے آتا ہے اور شام کو واپس چلا جاتا ہے، لیکن ہمارے گھر نہیں آتا۔ ہماری گزارش ہے کہ آپ درج ذیل سوالات کے جوابات قرآن و سنت کی روشنی میں دیں:
1- کیا ہم نے اپنے ماموں کے بیٹے کو واپس بھیج کر کوئی ظلم یا گناہ کیا؟
2- اگر اب ہم صرف نانی کے گھر جائیں اور ان کے گھر نہ جائیں (کیوں کہ وہ بات چیت نہیں کرتے) تو کیا یہ قطعی رحمی ہوگی؟
3- اگر ہم مزید صلح کی کوشش نہ کریں تو کیا ہم گناہ گار ہوں گے؟
4- ہماری والدہ ان سب باتوں میں شرعی طور پر گناہ گار ہوں گی یا نہیں؟
جواب… حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص صلہ رحمی کرنے والا نہیں جو بدلے میں صلہ رحمی کرے، بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جو اس سے رشتہ توڑے تو وہ پھر بھی رشتہ جوڑتا ہے“۔ مذکورہ حدیث پاک سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر کوئی رشتہ دار تعلق توڑتا ہے تو اسلام ہمیں اس سے تعلق جوڑنے اور حسن سلوک کا حکم دیتا ہے، لیکن اگر کوئی آدمی بات نہیں کرنا چاہتا، پھر بھی نیت صاف ہو اور دل میں کسی قسم کا بغض نہ ہو تو ان شاء اللہ گناہ نہیں ہوگا۔
مذکورہ تمہید کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:
1- نہیں۔
2- ماموں کے گھر نہ جانے سے قطع رحمی نہیں ہوگی، البتہ اپنے ماموں کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے رہیے اور وقتاً فوقتاً انہیں راضی کرنے کی کوشش کرتے رہیے، کبھی آمناسامنا ہو تو سلام کریں، لیکن پھر بھی باتیں نہ کرنے کی وجہ سے آپ لوگ گناہ گار نہیں ہوں گے۔
3، 4- آپ اپنی طرف سے صلہ رحمی اور مصالحت کی کوشش کرتے رہیں، لیکن اگر وہ اس کے باوجود راضی نہ ہوں تو آپ لوگوں پر گناہ نہیں ہوگا، نیز آپ کی والدہ کے فعل کا اس میں کوئی دخل نہیں، لہٰذا والدہ گناہ گار نہیں ہوں گی۔ (1 – 4 / 193)
مشترکہ جائیداد کو (تقسیم کیے بغیر) ہبہ کرنے کا حکم
سوال… 1982ء میں غلام حیدر مرحوم نے اپنار قبہ دو بیٹوں کے نام کر دیا، جب کہ غلام حیدر مرحوم کی پانچ بیٹیاں رقبہ سے محروم کر دی گئیں، غلام حیدر مرحوم کا انتقال 2000ء میں ہوا۔
غلام حیدر مرحوم کا رقبہ پانچ خسروں میں موجود ہے، ان پانچ خسروں میں دوسری برادری والے بھی مشترک ہیں، اب برادری والوں کا کاشت کا طریقہ یہ ہے کہ ایک برادری والے ایک سال ایک خسرہ میں کاشت کرتے ہیں، پھر دوسرے سال دوسرے خسرہ میں، یوں ہر سال تبدیل ہوتا رہتا ہے، کسی ایک جگہ پر کوئی متعین نہیں ہوتا، تقریبا 2007ء میں باہمی رضامندی سے غلام حیدر مرحوم کے بیٹوں کو ایک خسرہ میں زمین دے دی گئی۔
غلام حیدر مرحوم نے جو انتقال بیٹوں کے نام کر وایا وہ سب جگہوں پر پایا جاتا ہے، لیکن قبضہ ایک جگہ پر ہے، اب بھی ان بیٹوں کے، باقی خسروں میں برادری موجود ہے، باقی پلاٹوں پر برادری والوں کا قبضہ ہے، اس صورت میں شرعا آیا بہنیں حقدار ہیں یا نہیں؟
جواب… واضح رہے کہ کوئی شخص اپنی حیات ہی میں بحالت صحت وبقائے ہوش وحواس اپنی مملوکہ جائیداد میں ہر قسم کے مالکانہ تصرف کا حق رکھتا ہے، لہٰذاہبہ بھی کر سکتا ہے، تاہم جو چیز ہبہ کی جارہی ہو، اگر وہ قابل تقسیم ہو، تو اسے تقسیم کر کے ہبہ کیا جائے گا، اگر تقسیم کیے بغیر مشترکہ جگہ کو ہبہ کیا، تو شر عایہ ہبہ درست نہ ہو گا۔
لہٰذا صورت مسئولہ میں چوں کہ مرحوم کی جائیداد برادری کے ساتھ مشترک ہے، جس کی وجہ سے ہبہ شر عا تام نہ ہوگا اور جائیداد بدستور مرحوم کی ملکیت شمار ہو گی، لہٰذا مرحوم کی وفات کے بعد یہ جائیداد مرحوم کا ترکہ شمار ہوگی، جسے مرحوم کے جملہ شرعی ورثاء کے درمیان بقدر حصص تقسیم کیا جائے گا۔ (64/ 194)
زکوة میں دیئے گئے مکان کے کاغذات اپنے پاس رکھنے کا حکم
سوال… ہماری برادری کا ایک اجتماعی نظام ہے، جس میں ہم زکوٰة جمع کرتے ہیں اور کمیونٹی کے اندر ضرورت مندوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
اسی طرح ہم نے ضرورت مندوں کو مکان/فلیٹ بھی فراہم کیے۔ ہم نے تجربہ کیا کہ ان میں سے کچھ افراد نے
کچھ عرصے بعد مکان بیچ دیا اور سب کچھ خرچ کر دیا اور دوبارہ رہنے کے لیے جگہ مانگنے لگے۔ جو ظاہر ہے کہ ہم ایک ہی شخص کو بار بار فراہم نہیں کر سکتے۔ تو پھر ہم نے یہ طے کیا کہ اصل لیز/ سب لیز دستاویزات کو ان کے نام کر کے اوریجنل پیپرز اپنے پاس رکھنا شروع کر دیئے، تاکہ کوئی فرد کسی بھی وجہ سے اسے فروخت نہ کر سکے۔
ان میں سے کچھ اپنے کاغذات مانگ رہے ہیں، تاکہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق فروخت کر سکیں، جیسے کہ مختلف جگہوں پر دوسرا مکان خریدنا، اس رقم سے چھوٹا کاروبار کرنا۔ اور ہو سکتا ہے کہ کسی نے بیچنے اور پیسے خرچ کرنے اور پرانی پوزیشن پر واپس آنے کا ارادہ کیا ہو۔ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ شوہر نے گھر بیچ دیا اور پیسے خرچ کر دیے، بیوی بچوں کو اکیلا چھوڑ دیا۔ ایسی مثال بھی ہے کہ انہوں نے مکان بیچ دیا اور غلط کاموں میں پڑ گئے۔
ان سب میں ہمارا سوال یہ ہے کہ ہمارا یہ عمل کہ کاغذات اپنے پاس رکھیں اور گھر کے مالک کو نہ دیں، حالاں کہ وہ ان کے نام ہیں۔ اگر وہ پوچھیں تو ہم کہتے ہیں کہ اگر آپ وہاں رہنا چاہتے ہیں تو آپ رہ سکتے ہیں، ورنہ کسی اور کے لیے گھر چھوڑ دیں۔
1- کاغذات اپنے پاس رکھنے اور اسے بیچنے کے حقوق نہ دینے سے زکوٰة ادا ہوگی یا نہیں؟
2- زکوٰة ادا نہ ہونے کی صورت میں کیا زکوٰة ادا کرنے والے کے ذمہ کوئی ذمہ داری ہے یا زکوٰة کمیٹی کے ارکان اس کے ذمہ دار ہیں؟
سوال… (1 – 2) واضح رہے کہ زکوٰة دینے والے کے لیے بہتر یہ ہے کہ زکوٰة خود ادا کرے، البتہ اگر کوئی وکیل یا کمیٹی وغیرہ کے ذریعے ادا کرنا چاہے تو وکیل یا کمیٹی پر لازم ہے کہ وہ کوئی شرط لگائے بغیر مستحقین کو تمام حقوق کے ساتھ قبضہ دے کر زکوٰة ادا کرے، یوں زکوٰة دینے والے کی طرف سے زکوٰة ادا ہو گی، ورنہ نہیں۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں کمیٹی والوں کو چاہیے کہ اصل کاغذات مستحقین کے حوالہ کریں، جس آدمی پر زکوٰة واجب ہو، اس نے زکوٰة کی رقم کمیٹی والوں کو دی کہ آپ لوگ ادا کرنا اور انہوں نے ادا نہیں کی، تو ضمان کمیٹی والوں پر لازم آئے گا۔ نیز جو لوگ مکان بیچ کر دوبارہ مکان کا مطالبہ کرتے ہیں، اس کے تدارک کے لیے یوں کیا جا سکتا ہے کہ کمیٹی والے اندراج کی ترتیب بنائیں اور گھر کے کاغذات کی فوٹو کاپی اپنے پاس رکھیں، مکان دیتے وقت مستحقین کو صراحت کے ساتھ اس بات کی تاکید کریں کہ بیچنے کے بعد دوبارہ مکان نہیں ملے گا۔ البتہ اگر آپ کو مکان کے علاوہ کوئی ضرورت ہو تو ہم آپ کے ساتھ تعاون کریں گے، ان شاء اللہ۔ (218، 219/ 194)
حج کس پر فرض ہے؟
سوال… 1- حج کس پر فرض ہے؟
2- جس پر حج فرض ہو اور نقد رقم نہ ہو، تو کیا اسے قرضہ لینا پڑے گا؟
3- اگر بچوں کی تعلیم ادھوری ہو یا لڑکوں لڑکیوں کی شادی کرنی ہوں، تو ایسی صورت میں پہلے کیا کیا جائے،حج یا تعلیم اور شادیاں؟
4- پیسہ نقد نہ ہو، بلکہ زمین، پلاٹ، سونا، گاڑیوں وغیرہ کی شکل میں ہو اور باقی سارے خرچے اور اخراجات تنخواہوں وغیرہ سے پورے ہو رہے ہوں تو کیا حکم ہے؟
جواب… 1- واضح رہے کہ حج مالی اور بدنی عبادات کا مجموعہ ہے اور صاحب استطاعت آدمی پر پوری زندگی میں ایک مرتبہ حج کرنا فرض ہے، جب کہ شرائطِ حج (اسلام، عقل، بلوغ، حریت، وقت وغیرہ) موجود ہوں۔
2- صورت مسئولہ میں اگر اس شخص کا ظن غالب یہ ہو کہ قرض لینے کی صورت میں وہ ادا کرنے پر قادر نہیں ہو گا تو ایسا شخص حج پر جانے کے لیے کسی سے قرض نہیں لے سکتا۔
3- حج فرض ہونے کے بعد اس کی ادائیگی میں تاخیر نہ کی جائے، بلکہ شادی وغیرہ کو ترک کر کے حج ادا کرے۔
4- اگر کسی کے پاس ضرورت سے زیادہ اتنا سامان ہو جس کو فروخت کرنے سے اس کی قیمت مصارف سفر حج کے لیے کافی ہو جاتی ہو تو ایسے شخص پر حج فرض ہے۔(311 – 314/ 194)
اٹھارہ سال سے کم عمر میں نکاح پر پابندی کا حکم
سوال… صغر سنی میں نکاح کا کیا حکم ہے؟ قرآن وحدیث سے تحقیقا ثابت کریں، آیا ملک پاکستان کا اٹھارہ سال سے کم عمر میں نکاح پر پابندی لگانا شریعت کے مطابق ہے یا نہیں؟ اگر شریعت کے مطابق نہیں ہے تو اس پر عمل کرنا اور عمل نہ کرنے پر حکومت کی طرف سے جرمانہ عائد کر کے سزا دینا کیسا ہے؟
جواب… سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ شریعت مطہرہ نے نکاح کے لیے کوئی خاص عمر مقرر نہیں کی، جیسا کہ آیت شریفہ ﴿وَاللَّائِی لَمْ یَحِضْنَ ﴾(الطلاق: 4) سے معلوم ہوتا ہے کہ جن عورتوں کو ابھی تک حیض نہیں آیا (یعنی نابالغ ہیں)تو ان کی عدت تین مہینے ہوگی اور ظاہر ہے کہ عدت تو ہوتی ہی طلاق کے بعد ہوتی ہے، جس سے یہ معلوم ہوا کہ چھوٹی نابالغ بچیوں کا جن کو ابھی تک حیض نہیں آیا ان کا نکاح ان کے بچپن میں ہو سکتا ہے، تب ہی تو ان کی طلاق کی صورت میں ان کی عدت بیان کی گئی ہے، نیز حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا چھ سال کی عمر میں نکاح ہونا صحیح اور صریح احادیث سے ثابت ہے، جس کے انکار یا تاویل کی کوئی گنجائش نہیں۔
پھر جب یہ بات واضح ہوگئی کہ نکاح کی کوئی خاص عمر شریعت مطہرہ میں نہیں ہے تو حکومت کا نکاح کی کوئی خاص عمر مقرر کرنا بالکل درست نہیں ہے، رہی بات کہ چھوٹی عمر میں نکاح کرنے سے کچھ مفاسد وجود میں آجاتے ہیں، جیسے زوجین کے بڑے ہونے کے بعد ان کے درمیان آپس میں موافقت نہ ہونا، تو اس کا یہ طریقہ کسی طرح درست نہیں کہ قانون وضع کر دیا جائے، کیوں کہ اگر مان بھی لیا جائے کہ قانون کی وضع سے یہ مفاسد ختم ہو جائیں گے، تب بھی اس قانون کی وضع بالکل بے جا ہے۔
کیوں کہ ایسے قانون سے شریعت کی مخالفت کے ساتھ ساتھ دیگر مفاسد بھی وجود میں آئیں گے، جن میں سر فہرست زنا کا فروغ ہے، اس کے علاوہ بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ والدین بچے کی شادی کرانا چاہتے ہیں کہ بچہ بگڑ رہا ہوتا ہے یا باپ بیمار ہوتا ہے اسے زیادہ جینے کی امید نہیں ہوتی یاماں بیوہ ہوتی ہے، وہ اپنے ساتھ ساتھ اپنی بیٹی کو بھی سنبھال رہی ہوتی ہے، جس کا اس کے اوپر بوجھ ہوتا ہے یا باپ غریب ہوتا ہے اور وہ اپنی بیٹی پر ڈرتا ہے کہ اگر اس کی شادی نہ کرائے تو اس کی عزت محفوظ نہیں رہے گی، جب کہ قانون ایسی صورتوں میں نکاح کرانے سے منع کرتا ہے، اس سے بڑھ کر اس قانون کی وجہ سے پیدائشی رجسٹری بھی کرانی پڑتی ہے، جو ایک دیہاتی کے لیے بہت مشکل ہے۔
جب کہ جن مصالح کی وجہ سے یہ پابندی لگائی گئی ہے، ضروری تو نہیں کہ قانون کے ذریعہ ہی اس کا سد باب کیا جائے، جب کہ شریعت مطہرہ نے ان مفاسد کی روک تھام کے لیے خود اس نابالغ کو بالغ ہونے کے بعد خیار بلوغ دیا ہے، نیز بجائے اس کے کہ ایک قانون بنادیا جائے لوگوں کے دین اور اخلاقیات پر محنت کی جائے، کیوں کہ بہت سے مسائل ایسے ہوتے ہیں جو صرف لوگوں کی اخلاقیات کے صحیح ہونے سے ہی حل ہوتے ہیں، لہٰذا حکومت کا مذکورہ قانون بنانا اور اس کی خلاف ورزی پر سزا مقرر کرنا کسی طرح درست نہیں۔
لقولہ تعالی: ﴿وَاللَّائِی لَمْ یَحِضْنَ﴾ (الطلاق: 4) فی الدر مع الرد: (وللولی… إنکاح الصغیر والصغیرة)․ (کتاب النکاح، باب الولی: 4/166، رشیدیة).
وفی صحیح البخاری:عن عائشة رضی اللّٰہ عنہا أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم تزوجہا وہی بنت ست سنین وأدخلت علیہ وہی بنت تسع، ومکثت عندہ تسعا. (کتاب النکاح، باب إنکاح الرجل ولدہ الصغار: 5133، ص 918، دار السلام، الریاض).
حضرت محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ ، جواہر الفقہ میں فرماتے ہیں:
اس دفعہ کا منشا ان خرابیوں کا انسداد ہے جو نکاح صغر سنی پر عام طور سے مرتب ہوتی ہیں اور اس میں شبہ نہیں کہ بہت سی برادریوں میں جو صغر سنی کی حالت میں نکاح کا رواج ہے اس سے بہت سے مفاسد پیدا ہوتے ہیں، بہت سی لڑکیوں کی پوری زندگی تباہ ہو جاتی ہے، لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے کہ ہر بُرائی کو صرف قانون اور سزا ہی کے ذریعہ روکنے کا اصول صحیح نہیں اور تجربے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ برائی کو روکنے کے لیے کافی بھی نہیں۔
1- بہت سی بُرائیاں جو انسانی معاشرہ میں پیدا ہوتی ہیں ان کا صحیح علاج بجز ذہنی اصلاح اور اخلاقی تربیت کے اور کچھ نہیں ہوتا، اس معاملہ میں بھی اگر نشر واشاعت کے تمام وسائل سے عوام کو ان مفاسد سے آگاہ کیا جائے اور جن برادریوں میں اس کا زیادہ رواج ہے ان کو اجتماعی طور سے سمجھایا جائے تو کوئی بعید نہیں کہ وہ اس غلطی سے باز آجائیں، لیکن قانونی طور پر اس کو قابل سزا جرم قرار دینے میں قانون شریعت سے تصادم ہوتا ہے، اس سے اجتناب کیا جائے۔
2- شریعت اسلام نے انہیں مفاسد کی اصلاح کے لیے یہ قانون پہلے سے بنایا ہوا ہے کہ اگر نابالغ لڑکے یا لڑکی کے اولیاء صغر سنی میں ان کا نکاح کر دیں تو جب یہ لڑکا لڑکی بالغ ہوتے ہیں تو فوراً اس نکاح کا اعلان کر کے اسلامی عدالت کے ذریعہ نکاح فسخ کر سکتے ہیں، شرط یہ ہے کہ یہ نکاح نابالغ کے باپ یا دادا کے علاوہ کسی اور ولی نے کیا ہو اور باپ دادا کے کیے ہوئے نکاح میں بھی اگر ان کی بد دیانتی یا خود غرضی کا ثبوت ہو جائے تو ان کے کیے ہوئے نکاح کو بھی فسخ کیا جا سکتا ہے۔ (شامی)
یہ چند تجاویز کا ایک سرسری خاکہ ہے، جن کے تحت ماہر علماء اور قانون دان حضرات کے اشتراک سے ان مسائل کی تفصیلات سامنے رکھ کر قانون بنایا جاسکتا ہے۔ واللّٰہ الموفق والمعین۔
(عائلی قوانین پر مختصر تبصرہ، دفعہ 12 (نکاح میں عمر کی پابندی): 4/282، مکتبہ دار العلوم کراچی)․ فقط․ (297 / 193)
کیا کسی شادی شدہ عورت کو بھگا کر لے جانے والا دائرہ اسلام سے خارج ہے؟
سوال… بستی مسلم آباد میں ایک لڑکا ایک شادی شدہ عورت، جو کہ تین بچوں کی ماں تھی، کو بھگا کر لے گیا اور عدالت میں جا کر اس سے نکاح کر لیا، وہ عورت جب تک فیصلہ نہ ہو جائے اسی لڑکے کے پاس ہے، اسی اثناء میں وہاں علاقے کے ایک عالم نے فتوی دیا ہے کہ یہ لڑکا چوں کہ ابھی تک اس عورت کو اپنے پاس رکھے ہوئے ہے، لہٰذا یہ اس گناہ پر اصرار کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج ہے اور اس کے رشتہ دار جو اس کی طرف سے عدالت میں جاتے ہیں وہ، یا وہ جن کے پاس رہتے ہیں اور جنہوں نے اس کا نکاح کیا اور جو گواہ ہیں سب دائرہ اسلام سے خارج ہیں، ان سے تعلق رکھنا اور ان سے کلام کرنا بالکل ختم کر دیں، ان کو اپنی مسجدوں میں نہ آنے دیں، ان کا جھوٹا کتے اور خنزیر کے جھوٹے سے بد تر ہے۔
کیا واقعتا یہ لوگ دائرہ اسلام سے خارج ہیں؟؟ اور ان کے ساتھ اس طرح بائیکاٹ کیا جائے؟؟ اور ان کو مسجدوں میں نہ آنے دیا جائے؟؟ یا ان کا جھوٹا کتے اور خنزیر کے جھوٹے سے بد تر ہے، تمام لوگ اس عالم کے فتوے کو لے کر ان کو کافر کہتے ہیں اور اگر وہ مسجدوں میں جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہماری مسجدوں میں نہ آئیں، براہِ کرم اس مسئلے کا جواب عنایت فرمائیں؟؟
جواب… صورت مسئولہ میں بیان کردہ صورت حال اگر مبنی برحقیقت ہے اور اس میں کسی قسم کی غلط بیانی سے کام نہیں لیا گیا، تو غیر کی منکوحہ کو بھگا کر لے جانا انتہائی قبیح حرکت ہے اور سخت گناہ ہے، ایسا کرنے والا فاسق ہے، لہٰذا اس کو چاہیے کہ فورا اس عورت سے علیحدگی اختیار کرے اور اللہ تعالی سے تو بہ اور استغفار کرے، عدالت میں جو اس کا دوسرا نکاح ہوا ہے یہ بھی درست نہیں ہے، بلکہ وہ زوج اول ہی کی بیوی ہے، البتہ اس فعل کی وجہ سے اس کو کافر نہیں کہا جائے گا اور نہ ہی ان کو مسجدوں سے روکا جائے گا اور ان کے جھوٹے کو کتے اور خنزیر سے بد تر کہنا بھی درست نہیں ہے اور لوگوں کا ان کو کافر کہنا بھی درست نہیں، البتہ علی الاعلان زنا پر اصرار کی وجہ سے اس سے مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔ (300 / 194)