
عزیز واقارب کے ساتھ صلہ رحمی اور افشاءِ سلام
سوال… ۱- بائیکاٹ یا مقاطعہ کے بارے میں بیان فرمائیں کہ ایک شخص عام لوگوں سے ناراضگی کی بناء پر قطع تعلقی اور قطع کلامی کتنے دن تک رکھ سکتا ہے؟ ایک آدمی سسرال کی طرف زیادہ جھکاوٴ کی بناء پر اپنی والدہ ماجدہ سے قطع کلامی، بائیکاٹ یا مقاطعہ رکھے ہوئے ہے، شرعی لحاظ سے اسلام کی نظر میں اس کا طرز عمل کیسا ہے؟ اس عمل کی سزا کیا ہے؟ اسے توبہ تائب ہو کر اپنی والدہ کی قدموں پر جھک جانا چاہیے یا نہیں؟ اگر وہ اپنی غلطی نہیں سمجھتا تو پھر اس کے لیے کیا فتوی ہے؟ کیا سزا ہے؟ اور اسے راہ راست پر لانے کے لیے آپ کا فتوی دکھانا پڑھانا چاہیے، شاید خداوند قدوس اسے راہ ہدایت نصیب فرمائے۔
2- ایک دوسرا مسئلہ درپیش ہے کہ یہی لوگ گھر داخل ہوتے ہوئے گھر والوں کو سلام نہیں کرتے۔ کئی مرتبہ ہدایت کی گئی ہے۔ مگر ان کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ آپ مفتیان کرام سے درخواست ہے کہ مطمئن فرمائیں، بہت شکر گزار ہوں گا۔
جواب… 1- واضح رہے کہ شریعت اسلام نے قرابت داری اور صلہ رحمی کی بہت تاکید کی ہے، احادیث مبارکہ میں صلہ رحمی کو عمر میں زیادتی اور مال میں برکت کا سبب بتایا گیا ہے اور بغیر شرعی عذر قطع تعلقی اور بات چیت ختم کرنے کو ناجائز قرار دیا ہے، خاص کر والدین کہ جن کی رضا وناراضگی کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا اور ناراضگی کا سبب بتایا گیا ہے، ان کے ساتھ تعلقات ختم کرنا حرام اور دنیا وآخرت کی بربادی کا سبب ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی رکھے اور ان کے ساتھ تعلق جوڑے اور رشتہ داروں کو بھی چاہیے کہ ان کے ساتھ نرمی اور ملاطفت والا معاملہ رکھیں، تاکہ سب کی زندگی سکون واطمینان سے گزر سکے۔
2- سلام کرنا مسنون عمل ہے، احادیث مبارکہ میں سلام کرنے میں پہل کرنے کی بڑی فضیلت آئی ہے، حدیث میں ہے کہ سلام میں ابتدا کرنے والا تکبر سے بری ہوتا ہے اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ آنحضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ باہم ایک دوسرے کو سلام کیا کرو، اس سے باہمی محبت بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے گھر میں داخل ہوتے وقت سلام کا اہتمام کرنا چاہیے۔
مدرّسین کے لیے چھٹیوں کی تنخواہ کا حکم
سوال… اجرت علی الطاعات جائز ہے حبس النفس کی وجہ سے، جب کہ بعض جگہوں پر مدرسین رجب سے لے کر شوال المکرم کی پندرہ تاریخ تک گھر میں چھٹیاں گزارتے ہیں، لیکن پھر بھی مدرسہ کی طرف سے ان کو اس ماہ کی تنخواہ مل جاتی ہے۔ کیا یہ جائز ہے یا نہیں؟
جواب… واضح رہے کہ مدرسین کا جب کسی مدرسے میں تدریس کے لیے انتخاب کیا جاتا ہے، تو انتظامیہ مدرسہ اور مدرس کا آپس میں تین چیزوں میں سے ایک چیز پر معاہدہ ہوتا ہے:
1- اجرت صرف پڑھائی کے دنوں کی ملے گی۔
2- اجرت چھٹیوں کی بھی ملے گی۔
3- چھٹیوں کی اجرت کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی۔
لہذا پہلی صورت میں ان کو چھٹیوں کی اجرت لینا درست نہیں، دوسری صورت میں درست ہے، کیوں کہ سالانہ (شعبان اور رمضان) کی چھٹیاں پڑھائی کے تابع ہیں اور مقصد یہ ہے کہ ان ایام میں مدرس آرام کرے تاکہ آئندہ سال بہتر طریقے سے طلبہ کو پڑھا سکے، لہٰذا مدرس کے لیے تعطیلات کے زمانے کی تنخواہ لینا جائز ہے، کیوں کہ تسلیم النفس حکماً پایا جارہا ہے اور تیسری صورت میں عرف کا اعتبار ہوگا اور ہمارے عرف میں مدرسین کو تنخواہ دی جاتی ہے، لہٰذا چھٹیوں کی تنخواہ لینا بغیر کسی اشکال کے جائز ہے۔
حالتِ جنگ میں کفار کے ساتھ بیع وشراء کا حکم
سوال… کیا اگر کوئی کافر ملک اسلامی ملک پر حملہ کر دے، تو اس کے ساتھ کاروبار، تجارت لین دین حرام ہو جاتا ہے؟ اور کیا اس کی تمام پراڈکٹس کا بائیکاٹ کرنا فرض ہو جاتا ہے؟ جیسا کہ اسرائیل نے فلسطین پر کیا ہوا ہے، امریکہ نے یمن پر اور بھارت نے پاکستان پر۔
جواب… واضح رہے کہ جب کوئی کافر ملک مسلمانوں پر حملہ آور ہو جائے اور وہاں کے باشندوں پر طرح طرح کے ظلم وستم ڈھانے لگے، جو دینی اصولوں سے قطع نظر اخلاقی، انسانی اور دنیاوی اصولوں کے بھی خلاف ہے، ساتھ دینی حمیت کو مجروح کرنے لگے اور اسلام واسلام کے نام لیوا افراد کو جڑ سے ختم کرنے کے درپے ہو، تو ایسی صورتحال میں صاحبِ اقتدار وصاحبِ اختیار افراد پر مسلمانوں کی مدد کرنا لازم وضروری ہے، لیکن آج کل یہ طبقہ ان کی مدد کرنے کو تیار نہیں، لہٰذا عوام الناس کو چاہیے کہ وہ ظالم کے ظلم سے دور رہیں اور مظلوم کی مدد کریں اور اس وقت عوام الناس کے لیے ان کا معاشی بائیکاٹ مظلوموں کی مدد کا ایک حصہ ہے، اس لیے ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا چاہیے، تاکہ ہم ظالموں کے کسی بھی شکل میں معاون نہ بنیں۔
مصائب اور مشکل حالات میں صرف اجتماعی دعا کے لیے جمع ہونا
سوال… گزشتہ دنوں ملک برما کے مختلف شہروں میں شدید زلزلے آئے، جن کی وجہ سے متعدد عمارتیں منہدم ہو گئیں اور بہت سے لوگ جاں بحق ہو گئے۔ اس کے بعد بھی وقفے وقفے سے ہلکے زلزلے محسوس ہوتے رہے ہیں، جس کی وجہ سے عوام میں خوف و ہراس کی کیفیت ہے۔
ایسے حالات میں مانڈلے شہر کے کچھ علمائے کرام نے عوام الناس کو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے، گناہوں سے توبہ کرنے اور اجتماعی دعا کے اہتمام کی ترغیب دی۔ انہوں نے ایک مناسب تاریخ اور مقام مقرر کر کے وہاں اجتماعی دعا کرنے کا اعلان کیا اور یہ خبر سوشل میڈیا کے مختلف ذرائع سے عوام تک پہنچی، تاہم بعض افراد نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ مصیبت کے موقع پر اس طرح باقاعدہ تاریخ مقرر کر کے اجتماعی دعا نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور نہ ہی سلف صالحین سے، لہٰذا یہ عمل بدعت اور ناجائز ہے، جس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
اس اختلاف کی وجہ سے عوام الناس میں پریشانی پائی جاتی ہے، لہٰذا گزارش ہے کہ اس مسئلہ کے متعلق واضح شرعی رہنمائی فرما دیں:
1) کیا مصیبت اور آزمائش کے وقت اجتماعی دعا کا اہتمام شرعاً جائز ہے؟
2) کیا اس عمل کو بدعت اور ناجائز کہنا درست ہے؟
3) اس سلسلے میں سلف صالحین کا کیا طرز عمل رہا ہے؟
جواب… (1-2) واضح رہے کہ ہر مقصد کے حصول کے لیے ایک اعلیٰ تدبیر خود حق تعالیٰ جل شانہ نے انسان کو سکھلائی ہے، جس میں کام یابی ہی کام یابی ہے اور کبھی نقصان نہیں، وہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد مبارک ہے کہ: ادْعُونِی أَسْتَجِبْ لَکُمْ (المؤمن: 60)۔ ترجمہ: ”مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔“ اس لیے حدیث مبارکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ: ”جس کو اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے کی توفیق ملی، تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کی مراد پوری ہو گی“۔
ساتھ دعا کے متعلق اصل اصول کو بھی خود اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے، چنانچہ ارشاد ربانی ہے کہ: ﴿ادْعُوا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْیَةً إِنَّہُ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِینَ﴾․ (الأعراف: 55) ترجمہ: ”اپنے رب سے التجا کرو عاجزی و آہ وزاری کے ساتھ پوشیدہ یعنی آہستہ سے، بے شک اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتے حد سے تجاوز کرنے والوں کو“۔
اس آیت کریمہ میں دعا کے لیے دو ضروری آداب کا تذکرہ ہے، (1) تضرع و آہ و زاری (2) آہستہ آواز سے، اور آخری جملہ میں بتلا دیا کہ جو لوگ ان آداب بالا کو ملحوظ نہیں رکھتے، وہ حد سے تجاوز کرنے والے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دعا میں خشوع وخضوع اور تضرع وآہ وزاری کے ساتھ آہستہ آواز ہونی چاہیے، یہی وجہ ہے کہ امت کے چاروں مشہور ائمہ کرام کے نزدیک دعا آہستہ اور خفیہ کرنا اولی ومستحب ہے۔ (ملخص من جواہر الفقہ از مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب، 2/ 194… 199، ط: ادارة المعارف)
لہٰذا صورت مسئولہ میں مذکورہ اجتماعی ہیئت کے ساتھ دعا (جس میں صرف دعا کے لیے لوگوں کا اجتماع ہو) سے اجتناب کیا جائے، البتہ اگر عوام الناس کو ایسے مشکل حالات میں رجوع الی اللہ، توبہ واستغفار، حقوق اللہ وحقوق العباد کی تلقین کے متعلق وعظ کے لیے جمع کیا جائے اور بعد میں دعا کی جائے، تو اس صورت میں کوئی مضائقہ نہیں۔
(3) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی کوئی مشکل اور اہم معاملہ پیش آتا تو نماز کی طرف متوجہ ہو جاتے، لہٰذا زلزلہ وغیرہ کی صورت میں ہر ایک اپنے طور پر نماز ودعا کی طرف متوجہ رہے، یہی اصل ہے، اجتماع کی ضرورت نہیں۔
گناہوں میں مبتلا والد کے ساتھ رہنے اور اس کے ساتھ سلوک کرنے کا شرعی حکم
سوال… ایک شخص کا والد جو کہ زانی بھی ہو، جو کہ حرام کماتا ہو، جو کہ لوگوں کا مال بھی کھاتا ہو، مثلا کسی سے ادھار لیا تو پورا واپس نہ کیا یا کسی اور طریقے سے لیا تو واپس نہ کیا، تو ایسے ماں باپ کے ساتھ رہنا ضروری ہے اور ان کا ادب ضروری ہے یا ان سے علیحدگی بھی اختیار کی جاسکتی ہے؟
جواب…اسلام ایک ایسا عالمگیر مذہب ہے کہ جس میں انسان کو اس کی زندگی کے ہر پہلو سے متعلق واضح راہ دکھلائی گئی ہے، حالت چاہے معتدل وموافق ہو یا حالت ناخوشگواری کی ہو، شریعتِ مطہرہ نے بہر صورت موقع ومحل کی مناسبت سے احکامات صادر فرما دئیے ہیں۔
قرآن وحدیث میں غور وخوض کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں اللہ رب العزت نے بندے پر اپنے حق کا ذکر فرمایا ہے، وہیں والدین کے حقوق کا بھی تذکرہ فرمایا ہے کہ: ان کے ساتھ عزت واکرام کے ساتھ پیش آنا چاہیے اور ایسا کوئی قول وفعل، اولاد سے سرزد نہ ہو کہ جس سے والدین کی ناقدری اور بے ادبی کا ذرا سا بھی شائبہ ہو۔
لہٰذا کسی کے والد صاحب اگرچہ ان گناہوں میں مبتلا ہیں کہ جن کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے بڑی سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، لیکن اس سب کے باوجود اس پر لازم ہے کہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے پیش آئے، اگر ان کی وجہ سے گناہوں میں پڑنے کا اندیشہ نہ ہو، تو کوشش کی جائے کہ انہی کے ساتھ رہے اور جس قدر ممکن ہو انہیں سمجھانے کی کوشش کرے اور موقع بموقع کسی صاحبِ نسبت بزرگ کی مجلس میں لے جانے کا اہتمام کرے، اسی طرح ان کے لیے توبہ واستغفار کرے، امید ہے اللہ والوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کی برکت سے ان معاصی سے توبہ کر لیں اور اگر ان کی وجہ سے اولاد کے گناہوں میں پڑنے کا اندیشہ ہے، تو ان سے الگ بھی ہو سکتی ہیں۔
غیر ملکی پٹرول ، ڈیزل اور اشیائے خورد ونوش کا کاروبار کرنا
سوال… السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ! میرا تعلق مکران، بلوچستان سے ہے۔ یہاں کے اکثر وبیشتر لوگوں کا ذریعہ معاش ماہی گیری، ایرانی ڈیزل، پٹرول اور خوردنی اشیاء کی ترسیل ہے۔ ماہی گیری کا شعبہ پہلے ہی سے غیر قانونی ٹرالنگ کی نظر ہوچکا ہے اور ماہی گیر فاقہ کشی اور تنگ دستی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، البتہ ایرانی جائز اشیاء کا کاروبار کسی نعمت سے کم نہیں، لیکن اس کام کے جائز وناجائز ہونے کے حوالے سے بہت سے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں، اس لیے اس کاروبار سے منسلک درج ذیل سوالات کے شرعی طور پر جوابات درکار ہیں:
1- ایران سے پٹرول اور ڈیزل لانے کے لیے ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ایک ”ٹوکن“ جاری کیا جاتا ہے، جس کی بنیاد پر اسپیڈ بوٹ والے بذریعہ سمندر اور گاڑی والے بذریعہ خشکی مذکورہ اشیاء ایران سے لاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود جب ان اشیاء کو قرب وجوار کے علاقوں میں پہنچایا جاتا ہے تو راستے میں مختلف سرکاری اداروں کے افراد رشوت کے طور پر پٹرول، ڈیزل یا نقدی طلب کرتے ہیں۔ اگر رشوت نہ دی جائے تو گاڑی اور سامان ضبط کر لیتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں ان کو رشوت دینا اور اس کاروبار کو جاری رکھنا شرعی طور پر کیسا ہے؟
2- انتظامیہ کی جانب سے ایسے لوگوں کے نام بھی ”ٹوکن“ جاری ہوتے ہیں جن کا کوئی اسپیڈ بوٹ یا گاڑی نہیں ہوتا بلکہ بدعنوانی اور ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر ان کے نام ”ٹوکن“ جاری کیا جاتا ہے اور بعض لوگوں کو زیادہ ڈیزل اور پٹرول کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ اپنے کاروبار کو چلانے کے ان لوگوں سے ”ٹوکن“ خریدتے ہیں تو اس سے حوالے سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ ٹوکن بیچنا اور خریدنا کیسا ہے؟
3- کچھ افراد کو سفارش نہ ہونے کی وجہ سے ”ٹوکن“ حاصل نہیں ہوتا۔ چناں چہ وہ رات کی تاریکی میں سیکیورٹی اداروں کے بعض اہلکاروں کو رشوت دے کر ساحلی علاقوں سے بذریعہ اسپیڈ بوٹ یا لانچ کشتی ایرانی جائز اشیاء کی اسمگلنگ کرتے ہیں۔ اس صورت حال میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ اور ایسے کام میں مزدوری کرنا کیسا ہے؟ واضح فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیراً۔
وضاحت: انتظامیہ علاقائی باشندوں کے نام گاڑیوں اور اسپیڈ بوٹوں کی رجسٹریشن کے بعد انہیں سمندری اور خشکی کے راستے ایران جانے اور تیل (ڈیزل اور پیٹرول) تجارت کی غرض سے پاکستان لانے کی اجازت دیتی ہے، انتظامیہ کی طرف سے روزانہ ایک فہرست شائع کی جاتی ہے، جن جن لوگوں کے نام لسٹ (فہرست) میں آتے ہیں، وہی لوگ بارڈر پر اپنی گاڑیوں اور اسپیڈ بوٹوں کو گزارنے کے مجاز ہوتے ہیں اور جن کے نام اسپیڈ بوٹس اور گاڑیوں کا اندراج نہ ہو یا جن کی باری اور نوبت نہ ہو وہ جانے کے ہر گز مجاز نہیں ہوتے ، انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ فہرست میں جن کے نام آ جاتے ہیں تو کچھ لوگ اپنی باری اور نوبت دوسروں کو دیتے ہیں اور اس کے بدلے بڑی رقم وصول کرتے ہیں، یہ باقاعدہ عام ہے، معاوضہ کی رقم مارکیٹ ریٹ کے مطابق طے ہوتی ہے، جو لوگ اپنی باری دوسروں کو بیچ دیتے ہیں تو وہ اپنا اصل شناختی کارڈ مشتری (خریدار) کو دے دیتے ہیں، پھر یہ خریدار اس شناختی کارڈ کو لے کر بارڈر انتظامیہ کو دکھا دیتا ہے اور نام ونوبت دیکھ کر اسے گزرنے کے لیے ایک پرچی دیتے ہیں، جسے عرف میں ٹوکن کہا جاتا ہے۔
جواب… 1- صورت مسئولہ میں چوں کہ تیل وغیرہ کا کاروبار حکومت کی اجازت سے کیا جاتا ہے، لہٰذا اس کے باوجود چیک پوسٹوں پر روکنا اور بغیر رشوت لیے آگے نہ چھوڑنا ناجائز ہے، البتہ گاڑی والوں کے لیے بحالت مجبوری مذکورہ رقم دے کر کاروبار جاری رکھنے کی گنجائش ہے، اس کا گناہ رشوت لینے والوں کے ذمہ ہوگا۔
2۔ صورت مسئولہ میں مذکورہ ٹوکن ایک اجازت نامہ ہے، جو ایک حق کی حیثیت رکھتا ہے، اور حقوق مجردہ پر مال کی تعریف صادق نہ آنے کی وجہ سے ان کی خرید و فروخت جائز نہیں، لہٰذا مذکورہ ٹوکن کی خرید وفروخت بھی جائز نہیں۔
3- واضح رہے کہ بیرون ملک سے جائز اشیاء ملک میں لاکر بیچنا فی نفسہ جائز ہے، البتہ بغیر اجازت نامہ کے چوں کہ حکومت کی طرف سے منع ہے لہٰذا ناجائز ہے، چناں چہ اس کام کے لیے رشوت دینا بھی جائز نہیں۔
نیز جس کام کا تعلق براہ راست اسمگلنگ سے ہے جیسے بارڈر کراس کرانا وغیرہ، ایسے کام کی مزدوری ناجائز ہے، مزید اس میں جان کا بھی خطرہ ہے اور عزت کا بھی، البتہ جس کام کا تعلق براہ راست اسمگلنگ سے نہیں ہے جیسے سامان گاڑی میں چڑھانا یا اتارنا وغیرہ تو ایسے کام میں مزدوری کی گنجائش ہے اور آمدنی دونوں مزدوریوں کی حلال ہے۔