کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

idara letterhead universal2c

کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

اسائنمنٹ کی سیٹنگ پر اجرت لینا

سوال… میرا ایک دوست انگلینڈ کی یونیورسٹی کے طلباء کے لیے اسائنمنٹ لکھتا ہے، میں اس اسائنمنٹ کی تزیین وآرائش یعنی سیٹنگ کرتا ہوں، جس کے عوض وہ مجھے بارہ سو روپے فی اسائنمنٹ دیتا ہے، کیا میرے لیے یہ اجرت لینا جائز ہے یا نہیں؟

جواب… واضح رہے کہ یونیورسٹی کی طرف سے طلباء کو جو اسائنمنٹ (مقالہ) ملتا ہے، جس پر ان کی ڈگری موقوف ہوتی ہے، اس اسائنمنٹ کو لکھنا طلباء کی اپنی ذمہ داری ہے، کسی دوسرے شخص کو پیسے دے کر لکھوانا دھوکا اور خیانت ہے، جو جائز نہیں، لہذا صورت مسئولہ میں اگر اس شخص (سیٹنگ کرنے والے) کو معلوم ہے کہ یہ اسائنمنٹ طلباء نے دوسرے شخص کو پیسے دے کر لکھوائے ہیں، تو اس شخص کو سیٹنگ کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔ (275/191)

سودی کاروبار کرنے والے کی دعوت میں شرکت کرنا

سوال… حضرات مفتیان کرام! ایک شخص جس کو معلوم ہو کہ اس کا والد سود کا کاروبار کرتا ہے، اس کا بیٹا اگر اس کے گھر پر مہمان کے طور پر جائے اور باپ اسے کھانا کھلائے، تو اس کا کھانا جائز ہے یا نا جائز، اس کی دعا اور عبادات قبول ہوں گی یا نہیں؟ اگر عبادت قبول ہو، تو وجہ کیا ہے، نہیں قبول ہو، تو وجہ کیا ہے اور بیٹے کو بھی معلوم ہے کہ اس کا باپ حرام کھاتا ہے اور کماتا ہے، اس بارے میں آپ حضرات نظر کرم فرمائیں؟

جواب… صورت مسئولہ میں اگر والد حرام مال سے دعوت کرتا ہے ، تو اس کا کھانا جائز نہیں اور اگر مال مخلوط (حرام و حلال دونوں)سے دعوت کرتا ہے ، تو اگر حرام مال غالب ہو، تو بھی کھانا جائز نہیں اور اگر حلال مال غالب ہو،تو کھانا جائز ہے ، لیکن نہ کھانا بہتر ہے، تاہم حرام مال کھا نے کی وجہ سے دعا قبول نہیں ہوتی، لیکن عبادات (مثلاً: نماز، روزہ وغیرہ) کے متعلق اگر کوئی صحیح حدیث موجود ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ فریضہ اس کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گا، مگر ثواب نہیں ملے گا، کیونکہ عبادت کے صحیح ہونے کا مدار اس کی شرائط وارکان کی رعایت رکھنے پر ہے، اگر ان شرائط و ارکان کی پاسداری کی جائے تو فریضہ ذمہ سے ساقط ہوجائے گا، اسی طرح حصول ثواب کے لیے بھی کچھ چیزوں کی پابندی ضروری ہے (مثلاً: اخلاص، حلال مال وغیرہ) اگر یہ چیزیں نہ پائی جائیں، تو عبادت کا بھی ثواب نہیں ملتا۔(204/191)

کیا تین سالہ بچی کو والد اپنی پرورش میں لے سکتا ہے؟

سوال… میں کراچی کا رہائشی ہوں اور اپنی ساڑھے تین سالہ بیٹی کی حضانت کے حوالے سے شرعی رہ نمائی چاہتا ہوں۔ میری اہلیہ کا انتقال ڈیلیوری کے وقت کورونا وائرس کی وجہ سے ہوگیا تھا، جس کے بعد میری بیٹی میرے سسرال (نانی کے گھر) میں پرورش پا رہی ہے۔

میں ایک صاحبِ حیثیت، دین دار اور ذمے دار باپ ہوں۔ اللہ کے فضل سے میرے پاس ذاتی گھر اور کاروبار موجود ہے اور میں اپنی بیٹی کو ایک اسلامی ماحول میں بہترین پرورش فراہم کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہوں۔

میں جوائنٹ فیملی میں رہتا ہوں، جہاں میرے ماں باپ اور میرے بڑے بھائی کی تین بیٹیاں بھی ہیں، یعنی میری بیٹی کو مکمل خاندانی اور دینی ماحول میسر ہوگا۔

میرے لیے سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ
1- میرے سسرالی عقیدے کے لحاظ سے غیر مقلد ہیں اور مجھے خدشہ ہے کہ اگر میری بیٹی مزید وہاں رہی تو اس کی دینی تربیت پر غلط اثرات پڑ سکتے ہیں اور اصل دین اسلام سے محروم ہوسکتی ہے۔

2- اس گھر میں میری بیٹی کی ایک طلاق یافتہ خالہ بھی رہتی ہے، جو ذہنی طور پر معذور ہے اور اس کا ذہنی توازن درست نہیں ہے۔ کئی بار اس کا رشتہ طے پایا، لیکن اسی ذہنی کیفیت کی وجہ سے رشتے ختم ہوگئے۔

3- یہ خاندان اپنا گھر ہونے کے باجود کرائے کے مکان میں رہتا ہے اور بار بار مکان تبدیل کرتا رہتا ہے، کیوں کہ علاقے میں بھی ذہنی معذور خالہ کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس غیر مستحکم رہائش کی وجہ سے میری بیٹی کی ذہنی اور جذباتی نشوونما متاثر ہورہی ہے۔

4- بچی کی نانی کافی ضعیف العمر اور بیمار ہیں۔ وہ ہائی بلڈ پریشر کی مریضہ ہیں اور اکثر اسپتال میں علاج کے لیے جانا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے بچی کی دیکھ بھال میں دشواریاں پیش آتی ہیں۔

قرآن وحدیث میں والد کو اولاد کی کفالت، پرورش اور تربیت کی اولین ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿یُوْصِیکُمُ اللّٰہُ فِيْ أَوْلَادِکُمْ﴾ (النساء: 11) ”اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے“۔ اس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الرَّجُل رَاع فِي أَہْلِہِ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ“ (بخاری ومسلم) ”مرد اپنے اہل وعیال کا ذمہ دار ہے اور اس سے ان کے بارے میں باز پرس ہوگی“۔

ان واضح نصوص کی روشنی میں، میں شرعی فتویٰ طلب کرتا ہوں کہ آیا اسلامی تعلیمات کے مطابق مجھے اپنی بیٹی کی حضانت لینے کا مکمل حق حاصل ہے؟ کیوں کہ میں اسے ایک محفوظ، دینی اور مستحکم ماحول میں پرورش دینا چاہتا ہوں تاکہ وہ ایک نیک اور صالحہ مسلمان بن سکے۔

میں نے اپنی بیٹی کو لینے کے لیے سٹی کورٹ میں کیس بھی داخل کیا ہوا ہے۔

جواب… واضح رہے اولاد کی پرورش کا حق بنیادی طور پر ماں کو حاصل ہے اور ماں کے بعد یہ حق نانی کو منتقل ہوجاتا ہے، لیکن پرورش کے حق میں بہت ساری چیزوں کو مد نظر رکھا جاتا ہے:

1) پرورش پر قدرت کا ہونا: صورت مسئولہ میں خالہ خود ذہنی مریضہ ہیں اور نانی ضعیف العمر اور بیمار ہیں، لہذا ان کو حق پرورش حاصل نہیں۔

2) بچے کی تعلیم وتربیت مد نظر ہوتی ہے، تاکہ وہ ان تمام ضروری امور، اخلاق وعادات اور معاشرتی رویوں سے آگاہ ہو، جو کسی بھی اچھے انسان کی بہترین صفات سمجھے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جہاں کہیں والدہ کی پرورش میں رہ کر اس کی تربیت میں کمی آنے کا قوی اندیشہ ہو، وہاں والدہ سے بھی حق چھینا جاتا ہے۔

لہذا اگر نانی کی پرورش میں رہ کر بھی واقعی اس کی تربیت اور اخلاق میں کمی اور دینی نقصان کے ہونے کا اندیشہ ہو، تو پرورش کا حق اصول کے مطابق دیگرخواتین کو منتقل ہوگا۔ جیسا کہ:

1)ماں، 2)نانی، 3)دادی، 4)بہن، 5)خالہ،6)پھوپھی وغیرہ۔

اگر حق حضانت (پرورش کے حق)میں مذکورہ خواتین نہ ہوں یا ان میں سے کسی ایک میں مندرجہ ذیل باتیں پائی جاتی ہوں، تو اس سے حق پرورش ساقط ہوجاتا ہے:

1) اگر ان میں سے کوئی عورت بچی کے غیر ذی رحم محرم سے نکاح کرلے۔

2) بچی کی پرورش پر اجرت طلب کرلے۔

3) کمائی وغیرہ کی وجہ سے بکثرت باہر نکلتی ہو، جس سے بچی کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو۔

4) ایسے فسق وفجور میں مبتلا ہو، جس سے بچی کی تربیت میں کوتاہی کا اندیشہ ہو۔

5) اگر فاسقہ کے پاس بچی کے ضیاع کا خطرہ نہ ہو، تو اس کے پاس اتنی عمر تک چھوڑا جائے، جس میں برے اخلاق سے متاثر ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔

6) کافرہ ہو۔

7) مرتدہ ہو۔

لہذا صورت مسئولہ اگر کسی میں بھی پرورش کی شرائط موجود نہ ہوں، تو پھر پرورش کا حق باپ کی طرف منتقل ہوجاتا ہے، تاکہ اسے ایک محفوظ دینی اور مستحکم ماحول میں پرورش مل سکے اور وہ نیک اور صالحہ مسلمان بن سکے۔(235/191)

والد کی جائیداد سے بھائی کا بہنوں کو حصہ نہ دینا

سوال… جناب عالی! عرض یہ ہے کہ میرے والد کی وراثت کا حصہ ہونا ہے ہم 7 بہنوں اور 1 بھائی میں۔جائیداد میں ایک مکان ہے اور کچھ رقم ہے جو میری والدہ جن کا انتقال دو سال پہلے ہوا ہے ان کے اکاؤنٹ میں تھی، جو میرے بھائی نے بے وقوف بنا کر ہم سے سائن کرواکر نکال لی، کہ یہ رقم میری ہے جو میں نے امی کے اکاؤنٹ میں رکھوائی تھی، کیوں کہ 60سال کی عمر والوں کو سود زیادہ ملتا ہے، 2 سال سے گھر پر قبضہ کرکے بیٹھا ہوا ہے، اور کرایہ بھی 2 سال سے لے رہا ہے اور خود بھی رہ رہا ہے، جو کرائے کی مد میں جو رقم لے رہا ہے کیا وہ اس کا حق ہے؟ اور جہاں وہ خود رہ رہا ہے وہ بھی وراثت میں شامل ہوگا، یا نہیں؟ اس کا بھی کرایہ ہوگا یا نہیں؟

ایک عدد لاکٹ جو میری بڑی بہن نے جس کا انتقال والدہ سے پہلے ہوچکاہے والدہ کو دیا تھا وہ بھی ترکہ میں شامل ہوگا یا نہیں؟ وہ میری دوسری بہنوں نے یہ کہہ کر بھائی کو دے دیا کہ امی نے کہا تھا اور مکان کی مارکیٹ ویلیو زیادہ ہے، جب کہ میرا بھائی اس کی قیمت کم لگارہاہے، اور میں مارکیٹ ویلیو کے حساب سے اپنا حصہ مانگ رہی ہوں تو نہیں دے رہا ہے، اور اپنی لگائی ویلیو کے حساب سے دوں گا یہ کہہ رہا ہے، میرے حصے پر قبضہ کیے ہوئے ہے، مہربانی فرماکر اس کے مطابق فتوی جاری فرمائیں، اور میری بہنیں بھی اس کا ساتھ دے رہی ہیں غلط کام میں، ان کے متعلق بھی ضرور تحریر کریں، جو شرع کے خلاف جاتی ہیں ان کا کیا انجام ہے؟ مہربانی فرماکر تفصیلی فتوی جاری فرمائیں، عین نوازش ہوگی۔

جواب… صورت مسئولہ میں اگر واقعتًا صورتحال وہی ہے جو سوال میں ہے اور اس میں غلط بیانی سے کام نہیں لیا گیا ہے تو مرحوم کے ترکہ میں تمام ورثاء کا حق ہے، کسی ایک کا تمام ترکہ پر قبضہ کرنا ناجائز ہے، اور قرآن وحدیث میں بہنوں کے حصوں کی ادائیگی سے متعلق خاص تاکید آئی ہے، جیسا کہ آیت شریفہ میں ہے ﴿یا أیہا الذین آمنوا لا یحل لکم أن ترثوا النساء کرہا﴾ (النساء:19) ترجمہ: تمہیں یہ بات حلال نہیں کہ عورتوں کی جان یا مال کے جبرًا مالک بن جاؤ، اور اسی طرح حق ادا نہ کرنے پر سخت وعید بھی آئی ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالی وارث کا حصہ ضبط کرنے والے کو جنت سے اس کے حصہ سے محروم فرمائیں گے اور ایک بالشت زمین ناحق قبضہ کرنے پر سات زمینیں طوق بنا کر اس کے گلے میں ڈالی جائیں گی۔

لہذا آپ کے بھائی کو چاہیے کہ جو کچھ مرحوم کے ترکہ میں ہے بشمول لاکٹ، رقم (سود منہا کرکے) اور مکان کے، ان سب چیزوں کو تمام ورثاء میں شرعی طور پر تقسیم کرے، اور آپ کی بہنوں کو بھی چاہیے کہ غلط کام میں آپ کے بھائی کا ساتھ نہ دیں، کیونکہ غلط کام میں ساتھ دینے والا بھی گناہ گار ہے، اور ترکہ کی تقسیم میں رکاوٹ نہ بنیں۔

البتہ اگر آپ مکان میں سے اپنے حصہ کے بقدر قیمت لینے پر راضی ہیں اور بھائی بھی تقسیم کی بجائے مذکورہ رقم لینے پر راضی ہے اور باقی ورثاء تقسیم کا مطالبہ نہیں کررہے ہیں تو یہ بھی جائز ہے، اس طرح مکان میں آپ کا حصہ آپ کے بھائی کا ہوگا اور اگر دونوں ایک قیمت پر راضی نہ ہوں تو پھر مکان شرعی طور پر تقسیم کیا جائے گا، جب کہ بینک سے حاصل ہونے والے سود کو بغیر نیت ثواب کے صدقہ کردیا جائے۔

نیز جتنا عرصہ آپ کے بھائی مذکورہ مکان میں رہے اس کا ان کے اوپر کرایہ نہیں اور جو کرایہ انہوں نے وصول کیا ہے اسے تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصص کے بقدر تقسیم کریں۔(322/191)

عورت کے ذمے خاوند کے گھر کے کام کاج کرنے کا حکم

سوال: گھر کے باہر کے کام مرد حضرات پر واجب ہیں اور محنت مزدوری کرنا بھی ان پر واجب ہے لیکن گھر کے اندر کے کام عورت پر واجب ہیں کہ نہیں؟ اگر عورت پر واجب نہیں تو پھر کون کرے گا، کیونکہ مرد تو باہر کے معاملات دیکھتے ہیں۔ بیویاں کہتی ہیں کہ مجھ پر گھر کے کام لازم نہیں، میں کیوں کروں؟ مجھے مجبور نہیں کیا جاسکتا تو گھر خاندان کا توازن بگڑ جاتا ہے اور فتنہ فساد ہوتا ہے اور مرد بھی بے سکون ہوجاتا ہے، سمجھانے کے باوجود بھی نہ سمجھے تو پھر کیا کریں؟ نکاح کا مقصد گھر آباد کرنا بھی ہوتا ہے۔

جواب: واضح رہے کہ ازدواجی زندگی پرسکون اور خوشگوار گزارنے کے لئے ضروری ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو اپنے شوہر کی اطاعت اور فرماں برداری کرنے کا حکم دیا ہے، چناں چہ حدیث پاک میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں کسی کو کسی کے لئے سجدہ کا حکم دیتا تو بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے،اسی طرح دوسری حدیث میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو خاوند کے گھر کا نگہبان قراردیا ہے، لہذا ان احادیث کے پیش نظر عورت کا اخلاقی فریضہ ہے اور اس پر دیانة واجب ہے کہ وہ اپنے خاوند کے لئے کھانا پکائے اور اس کے گھر کے کام کاج کرے، البتہ عورت پر خاوند کے گھر کے کام کاج کرنا قضاء ًواجب و ضروری نہیں، عورت کے انکار کرنے پر خاوند عورت پر زبردستی نہیں کرسکتا، لہذا عورت کو چاہیے کہ وہ اپنے خاوند کی اطاعت کرتے ہوئے اس کے حکم کی پاسداری کرے تاکہ گھر اور خاندان کے درمیان بگاڑ پیدا نہ ہو اور اگر عورت نہیں کرتی تو شوہر دوسری شادی بھی کرسکتا ہے، کیونکہ ایک شادی پر اکتفاء کرنا بھی ضروری نہیں۔ (167/191)

پریشانی اور مصائب میں مبتلا آدمی کے لیے اعمال

سوال… گزارش یہ ہے کہ میں کئی برس سے بے روزگار ہوں، جہاں کہیں بھی پہلے نوکری کرتا تھا، وہاں کوئی نہ کوئی مسئلہ درپیش آجاتا تھا، جس کی وجہ سے نوکری چھوڑنا پڑجاتی تھی، اب تقریباً آٹھ ماہ سے بے روزگار ہوں، میں ہی گھرکا واحد کفیل ہوں، جس کی وجہ سے گھر کے حالات بہت خراب ہیں، رشتہ دار شادی کے طعنے بھی دیتے ہیں، مگر مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اس چیز سے بھی قاصر ہوں، کئی دنوں سے رات کو نیند بھی نہیں آرہی اور خواب میں ایسا لگتا ہے جیسے کوئی جانور پیچھا کر رہا ہو، مگر اللہ پاک بچا لیتے ہیں (جانور شاید کوئی کتا تھا) زندگی سے بالکل مایوس ہوگیا ہوں، پہلے نماز کی طرف کوئی رغبت نہیں تھی، مگر اب اللہ پاک نے خود ہی توفیق دی ہے، اس رمضان سے بہت پریشانی میں مبتلا ہوں۔ برائے کرم رہ نمائی فرمائیں۔

جواب… نمازوں کی پابندی کریں، نمازِ فجر کے بعد سورہٴ یٰسین اور نمازِ مغرب کے بعد سورہٴ واقعہ پڑھنے کا اہتمام کریں اور منزل پڑھنے کا بھی اہتمام کریں اور مسلسل کوشش کرتے رہیں کہ کوئی ملازمت مل جائے، جب مسلسل کوشش کرتے رہیں گے، تو اللہ تعالیٰ راستے کھول دیں گے۔ اور دعاوٴں کا اہتمام کریں، ہم بھی آپ کے لیے دعاء گو ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ آپ کی پریشانی دور فرمائے، رزق کے اسباب پیدا فرمائے اور پریشانیوں کو خوشی میں تبدیل فرمائے۔ آمین ثم آمین(306/191)