کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

idara letterhead universal2c

کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

تبلغی جماعت کے مقیم اور مسافر ہونےکی مختلف صورتیں او ران کے احکام

سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک جماعت رائیونڈ سے مانسہرہ کی طرف بھیجی گئی، پھر مانسہرہ مرکز سے کسی قصبے میں وہ جماعت بھیج دی گئی۔

1)…کیا اس قصبے میں پندرہ دن سے زائد ٹھہرنے کی وجہ سے جماعت مقیم ہو گئی؟

2)…جماعت کا مقیم ہونا مشورہ کے تابع ہو کر ہو گا یا نہیں؟

3)…اگر جماعت کا مقیم یا مسافر ہونا مشورہ کے تابع ہے تو کس مشورہ کے تابع ہے، مانسہرہ یا رائیونڈ؟

4)…جماعت کے ساتھی ایک ہی جگہ کے ہوں تو کیا حکم ہے؟

5)…ہر ساتھی کی الگ الگ نیت کا اعتبار ہو گا یا نہیں؟

6)…اگر جماعت کے ساتھی الگ الگ جگہ کے ہیں تو کیا حکم ہے؟

7)…کیا جماعت امیر جماعت کے پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت سے مقیم ہو جائے گی۔

8)…اگر جماعت کا امیراسی جگہ کا ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟

9)… اگر جماعت کے ساتھی تقاضوں پر چلتے ہوں توان کے لیے کس کی نیت کا اعتبا رہوگا؟ ( جس مسجد میں رُکے ہوں وہاں سے نئی جماعت بنا کر لے جانا وغیرہ)

10)…زید کی جماعت کا قیام مانسہرہ میں ہے اب وہ ہری پور کے سفر کے ارادہ سے نکلا ہے ( جس کی مسافت مانسہرہ سے ہری پور تک 65 کلو میٹر ہے) بیچ میں وہ اپنے وطن اصلی حویلیاں ٹھہر کر پھرہری پور کے لیے نکلتا ہے ( مانسہرہ سے مروڑا42کلو میٹر/ حویلیاں اور ہر ی پور کلو میٹر ہے) زید اپنے وطن اصلی سے ہری پور اور ہری پور سے واپس مانسہرہ آگیا جب کہ واپسی میں اپنے وطن اصلی کے علاوہ راستہ سے آیا اور زید وہاں ہری پور صرف تفریح کی غرض سے گیا تھا، اب کل مسافت حویلیاں سے میل کھیڑلا ہو کر ہری پورتک 116 کلو میٹر ہوتی ہے، اس صورت میں زید مسافر ہوگایا مقیم؟

11)…بکر ایک مدرسہ میں مدرس ہے، مدرسہ اور وطن اصلی کے درمیان سوا ستتر سے زیادہ فاصلہ ہے، اس کی فیملی سب ساتھ ہی رہتی ہے اور اس کا پندرہ سے کم مدت میں اسفار وغیرہ ہوتے رہتے ہیں، مسئلہ دریافت طلب ہے کہ بکر کی وجہ سے اس کی فیملی مقیم ہوگی یا مسافر؟ جب کہ بکر کا اس مدرسہ کی عمر بھر خدمت کرنے کی نیت ہے، تو کیا اس کی اس نیت کا اعتبار ہو گا یا نہیں؟ او راگر بکر کے ساتھ اس کے بالغ بچے بھی ساتھ رہتے ہیں تو اس کیا حکم ہے؟

12)…وطن اقامت کب باطل ہوتا ہے، صرف اس جگہ کو چھوڑ دینے سے جہاں اس نے اقامت کی نیت کی تھی یا سفر شرعی کے ارادے سے نکلنا ضروری ہے؟

13)…ہائی وے یا پل وغیرہ پر واپس مڑنے کے لیے کئی کلو میٹر تک آگے چل کرریٹرن آنا پڑتا ہے، جب کہ نفس راستہ 40 کلو میٹر کا ہے، جب کہ اس جگہ تک پہنچنے کے لیے اسی ہائی وے (راستہ) کی دوسری جانب سے گھوم کر آنا پڑتا ہے، جس سے مسافت 80 کلو میٹرتک پہنچ جاتی ہے تو اس کا کیا حکم ہے؟

14)… تبلیغی جماعت کے امیر کی اطاعت کی شرعی حیثیت کیا ہے واجب، سنت یا صرف اخلاقی او رانتظام کے اعتبار سے بہتر ہے؟ جو امیر کے متعلق احادیث مبارکہ میں اطاعت پر اجروثواب اور نافرمانی پر وعیدیں وغیرہ ہیں ان کو تبلیغی جماعت کے امیر پر منطبق کرنا درست ہے یا نہیں؟

جواب…1) واضح رہے کہ آدمی کسی جگہ شرعاً مسافر اس وقت شمار ہوتا ہے جب وہ شرعی مسافت (48 میل انگریزی یا 77.24 کلو میٹر) یا اس سے زیادہ طے کرکے کسی جگہ پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کا ارادہ رکھتا ہو، لہٰذا صورت مسئولہ میں مذکورہ قصبے میں پندرہ دن سے زیادہ ٹھہرنے کی وجہ سے جماعت کے لوگ مقیم شمار ہوں گے۔

2,3)…جماعت کا مقیم یا مسافر ہونا مشورہ کے تابع نہیں ہے، بلکہ جماعت کا جوبھی ساتھی شرعی مسافت طے کرکے کسی جگہ پندرہ دن یا اس سے زیادہ کی نیت کرتا ہے، تو مقیم شمار ہو گا اور پوری نماز پڑھے گا۔

4,5,6)…جماعت کے سب ساتھی چاہے ایک جگہ سے تعلق رکھتے ہوں، یا مختلف جگہوں سے ان میں سے جو بھی ساتھی شرعی مسافت طے کرکے کسی جگہ پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت کرے گا ، تو مقیم شمار ہو گا۔

7,8,9)…تبلیغی جماعت احکام سفر میں امیر جماعت کے تابع نہیں، بلکہ ہر ساتھی کی اپنی نیت کا اعتبار ہوگا۔

10)…صورت مسئولہ میں اگر زید کی نیتمانسہرہ میں پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی ہے، تو مسافرشمار ہو گا اور قصر کرے گا، نیز زیدحویلیاں سے ہری پور کے راستے سے مانسہرہ جاتے ہوئے راستے میں قصر کرے گا۔

11)…صورت مسئولہ میں بکر کی نیت کا اعتبار ہوگا او راس کی وجہ سے مذکورہ جگہ بکر کی فیملی مقیم شمار ہو گی، نیر بکر کی بالغ اولاد کا ارادہ اگر اپنے والدین کے ساتھ رہنے کا ہو، تو وہ بھی مقیم شمار ہوں گے۔

12)…وطن اقامت باطل اس وقت ہو گا جب کہ وطن اقامت سے بنیت سفر جاتے ہوئے سامان وغیرہ بھی ساتھ لے جائے او رجانے والا اس مقام کی وطنیت کو بھی ختم کرچکا ہو۔

13)…جب کسی جگہ جانے کے لیے دو راستے ہوں: ایک کی مسافت سفر شرعی کی بقدر ہو اور دوسرا راستہ شرعی مقدار سے کم ہو، تو جوشخص طویل راستے سے جائے گا، تو سفر شرعی کی مقدار پوری ہونے کی بناء پر مسافر شمار ہو گا، مختصر راستے سے جائے گا تو مقیم شمار ہو گا۔

14)…تبلیغی جماعت کے امیر کی اطاعت واجب ہے، جب تک وہ خلاف شریعت کسی چیز کا حکم نہ کرے ، احادیث مبارکہ میں اطاعت پر جو ثواب اور نافرمانی پر جو وعیدیں آئی ہیں، ان کو تبلیغی جماعت کے امیر پر منطبق کرنا درست ہے۔(233-243/187)

طلاق بائن کے بعد طلاق رجعی کا الحاق اور رجعی کا بائن ہونا

سوال …کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک طلاق بائن دے دی، اس کے بعد ایک طلاق رجعی دی، تو ہم نے اپنے امام مسجد سے مسئلہ پوچھا، تو انہوں نے بتایا کہ طلاق بائن کے بعد اگر طلاق رجعی دی جائے، تو طلاق رجعی بھی بائن ہو جاتی ہے ، یہ مسئلہ ہمیں سمجھ نہیں آرہا، اب آپ سے درخواست ہے کہ ہماری رہنمائی فرمائیں، کہ کیا ہمارے امام صاحب کا بتایا ہوا مسئلہ درست ہے ؟ اگر درست ہے تو اس کی وجہ بھی بتادیجیے۔ آپ کی مہربانی ہو گی۔ جزاکم اللہ خیراً

جواب…واضح رہے کہ رجعی اور بائن جب جمع ہوتی ہیں تو دونوں بائن ہوتی ہیں ، چاہے بائن پہلے ہو یا بعد میں ہو، یا یوں تعبیر کر لیں کہ بائن طلاق رجعی طلاق کو بھی بائن بنادیتی ہے۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں امام صاحب کا بتایا ہوا مسئلہ درست ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ طلاق بائن سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اور بغیر تجدید نکاح کے رجوع ممکن نہیں ہوتا، لہٰذا جب کوئی طلاق بائن کی عدت میں طلاق رجعی دے تو وہ واقع ہو جاتی ہے اورچوں کہ پہلی طلاق کی وجہ سے نکاح ختم ہو چکا ہے اور رجوع ممکن نہیں، لہٰذا یہ دوسری طلاق بھی اس کے ساتھ مل کر ہائن ہو جائے گی۔(186/187)

نوکری کے لییعمربڑھا کر دستاویزات تیار کرنے کا حکم

سوال…کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام اس مسئلے کہ بارے میں کہ میرے گھر والوں نے نوکری پر لگنے کے مقصد کے لیے میری لاعلمی میں میری عمر دو سال بڑھا کر لکھوائی، لیکن گورنمنٹ نے مجھے پر منٹ کی جگہ ڈیلی ویجز پر بھرتی کر دیا، لیکن جب میری عمر اٹھارہ سال ہوئی تو میرا پر منٹ ہونے کا لیٹر آگیا۔

آیا میری دو سال کی نوکری جائز تھی یا نہیں اور اگر کفارہ ادا کرنا ہے تو اُس وقت کی سیلری (کے اعتبار سے)ادا کرنا ہوگایا اس وقت کی سیلری کے اعتبار سے ؟

جواب…صورت مسئولہ میں گھر والوں نے جو کام کیا وہ دھوکا دہی کے زمرے میں آتا ہے ، ان پر لازم ہے کہ توبہ واستغفار کریں، کیوں کہ احادیث میں دھوکا دینے سے منع کیا گیا ہے، مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو ہمیں دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں۔ جہاں تک نوکری کا تعلق ہے تو اگر آپ میں اس کام کے کرنے کی صلاحیت تھی اور دیانت داری کے ساتھ آپ نے ڈیوٹی کی تو آپ کے لیے پچھلے دو سالوں کی مدت میں جو پیسے کمائے وہ حلال ہیں، کفارہ دینے کی ضرورت نہیں۔(304/187)

اپنی زندگی میں کسی ایک وارث کو جائیداد میں سے حصہ دینے کا حکم

سوال… کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ جب ایک آدمی کی جائیداد ہو، یعنی زمین ہو اس میں بعض باغات ہوں اور بعض خالی ہو اور اس کے ساتھ اس کے پاس سرمایا اور کاروبار بھی ہو اور یہ اپنی موت سے پہلے اپنی شادی شدہ بیٹی کو اس کا حصہ دینا چاہتا ہے اور اس کی اور بیٹیاں بھی ہوں، لیکن وہ شادی شدہ نہ ہو اور ساتھ ساتھ بیٹے بھی ہوں، تو اس شخص کا اس طرح دینا کیسا ہے، آیا جائز ہے یا نہیں ؟ اور پھر دینے کی کیا صورت ہو گی ، یعنی زمین میں سے اس کو حصہ دینا ہے یازمین سے جو آمدنی حاصل ہو گی ، اور کاروبار سے جو آمدنی حاصل ہو گی اس میں سے دینا ہے ؟ اگر آمدنی سے دینا ہے تو پھر خالی زمین اور گھر کی صورت کیا ہو گی ؟ اس کے بارے میں دلائل کے ساتھ وضاحت کریں۔

جواب…واضح رہے کہ اپنی زندگی میں جائیداد کو اولاد کے درمیان تقسیم کر ناشر عاہد یہ کہلاتا ہے، اور ہدیہ قبضہ سے تام ہوتا ہے۔ اولاد میں ہدیہ کے بارے میں یہ اصول ہے کہ تمام اولاد میں برابری کی جائے، البتہ اگر ان میں سے کوئی ایک زیادہ خدمت گزار یا اس کی ضروریات زیادہ ہوں تو اس بناء پر اسے دوسروں کی نسبتکچھ زیادہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ صورت مسئولہ میں بیٹی اگر ضرورت مند ہے تو اس کو جائیداد میں سے بھی کچھ دیا جا سکتا ہے اور اس کی آمدنی میں سے بھی۔ لیکن صرف اس وجہ سے کہ یہ بیٹی شادی شدہ ہے ، دیگر اولاد کو ہدیہ سے محروم رکھنا درست نہیں ہے، باقی یہ جو کچھ دیا جارہا ہے ، اس کا حکم چونکہ صرف ہدیہ کا ہے ، اس لیے والد کے انتقال کے بعد اس بیٹی کو میراث میں بھی حصہ ملے گا ،لہٰذا بہتر یہی ہے کہ پوری جائیداد تمام اولاد میں برابر تقسیم کی جائے یا فی الحال تقسیم نہ کی جائے، بلکہ والد کے انتقال کے بعد تقسیم شرعی عمل میں لائی جائے۔ (154/188)

انشاء سلام، اور اعزاء واقرباء کے ساتھ صلہ رحمی کرنا

سوال…کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہبائیکاٹ یا مقاطعہ کے بارے میں بیان فرمائیں کہ ایک شخص عام لوگوں سے ناراضگی کی بناء پر قطع تعلقی اور قطع کلامی کتنے دن تک رکھ سکتا ہے اور اس کے برعکس ایک آدمی سسرال کی طرف زیادہ جھکاؤ کی بناء پر اپنی والدہ ماجدہ سے قطع کلامی، بائیکاٹ یا مقاطعہ رکھے ہوئے ہے، شرعی لحاظ سے اسلام کی نظر میں اس کا طرز عمل کیسا ہے؟ اس عمل کی سزا کیاہے ؟ اسے تو بہ تائب ہو کر اپنی والدہ کی قدموں پر جھک جانا چاہیے یا نہیں؟ اگر وہ اپنی غلطی نہیں سمجھتا تو پھر اس کے لیے کیا فتوی اور کیا سزا ہے؟ اسے راہ راست پر لانے کے لیے آپ کا فتوی دکھانا پڑھانا چاہیے ، شاید خداوند قدوس اسے راہ ہدایت نصیب فرمائے۔

ہاں ایک دوسرا مسئلہ در پیش ہے کہ یہی لوگ گھر داخل ہوتے ہوئے گھر میں موجود افراد کو سلام نہیں کرتے، کئی مرتبہ ہدایت کی گئی ہے، مگر ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔

آپ مفتیان کرام سے درخواست ہے کہ مطمئن فرمائیں، بہت شکر گزار ہوں گا۔

جواب… واضح رہے کہ شریعت اسلام نے قرابت داری اور صلہ رحمی کی بہت تاکید کی ہے ، احادیث مبارکہ میں صلہ رحمی کو عمر میں زیادتی اور مال میں برکت کا سبب بتلایا گیا ہے ، اور بغیر شرعی عذر قطع تعلقی اور بات چیت ختم کرنے کو ناجائز قرار دیا ہے، خاص کر والدین کہ جن کی راضی، ناراضگی کو اللہ تبارک و تعالی کی راضی و ناراضگی کہا گیا ہے، ان کے ساتھ تعلقات ختم کرنا حرام اور دنیا و آخرت کی بربادی کا سبب ہے، لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی رکھے اور ان کے ساتھ تعلق جوڑے اور رشتہ داروں کو بھی چاہیے کہ اس کے ساتھ نرمی اور ملاطفت والا معاملہ رکھیں، تاکہ سب کی زندگی سکون و اطمینان سے گزر سکے۔

واضح رہے کہ سلام کرنا مسنون عمل ہے، احادیث مبارکہ میں سلام کرنے میں پہل کرنے کی بڑی فضیلت آئی ہے، حدیث میں ہے کہ سلام میں ابتداء کرنے والا تکبر سے بری ہوتا ہے، اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ آں حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ باہم ایک دوسرے کو سلام کیا کرو، اس سے باہمی محبت بڑھ جاتی ہے، اس لیے گھر میں داخل ہوتے وقت سلام کا اہتمام کرنا چاہیے۔(46/188)

شرعی معذور شخص کے فرض ، سنت اور دیگر نمازوں اور عمرہ کی ادائیگی کا حکم

سوال… کیا فرماتے مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرا چھوٹا پیشاب نہیں رکتا، وضو کرتا ہوں، دوران جماعت اٹھتے یا بیٹھتے وقت اچانک نکل جاتا ہے ، اور کپڑے بھی ناپاک ہو جاتے ہیں، میں جہاں پیشاب لگا ہو، وہاں سے کپڑے دھو تو لیتا ہوں مگر کچھ باتوں کی راہ نمائی فرمائیں۔

اگر دوران نماز پیشاب نکل جائے تو میں کیا کروں ؟

فرض نماز کے بعد اسی حالت میں سنت ادا کر سکتا ہوں ؟

فرض نماز یا جماعت کے دوران اگر پیشاب نکل جائے تو کیا کروں ؟

اور بقایا سنت نماز کے لیے کیا طریقہ اختیار کروں ؟ کیوں کہ پیشاب کسی وقت بھی نکل جاتا ہے علاج بہت کرایا ہے کوئی فائدہ نہیں ہوتا، عمر 60 برس ہے۔

اور میرا ان شاء اللہ عمرہ کا ارادہ بھی ہے ، عمرہ کے دوران میں کیا طریقہ اختیار کروں ؟

اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔ شکریہ

جواب:…) واضح رہے کہ شریعت مطہرہ میں اگر ایک مرتبہ کسی نماز کا کامل وقت اس حالت میں گزرے کہ مسلسل پیشاب یا پیشاب کے قطرے نکلتے ہوں، یعنی اتنی دیر کے لیے بھی بند نہ ہوں کہ وضو کر کے وقتی فرض نماز کو پاکی کی حالت میں پڑھ سکے تو ایسا شخص معذور ہے، اس کا حکم یہ ہے کہ ہر وقت نماز کے لیے اس کے ذمے وضو کرنا ہے، اس وضو سے فرض ہو یا واجب، ادا ہو یا قضاء ، تلاوت قرآن ہو یا نماز جنازہ جو دل چاہے پڑھ سکتا ہے ، اور پیشاب یا پیشاب کے قطروں کا نکلنا اس کے لیے ناقض وضو نہیں ہو گا، بلکہ وقت کے نکلنے سے دوبارہ نیا وضو لازم آئے گا، اور ایسا شخص اس وقت تک معذور سمجھا جائے گا جب تک کسی ایک نماز کا کامل وقت اس عذر سے خالی نہ گزرے۔

صورت مسئولہ میں چوں کہ آپ شرعا معذور ہیں، لہٰذا آپ کو ہر نماز کے وقت کے لیے ایک ہی وضو کافی ہو گا اور اس وضو سے فرض ہو یا واجب، ادا ہو یا قضاء ، تلاوت قرآن ہو یا نماز جنازہ جو دل چاہے پڑھ سکتے ہیں، اور اس درمیان اگر پیشاب کے قطرے آتے ہیں تو ان سے آپ کا وضو ناقض (ختم) نہ ہو گا جب تک کوئی اور ناقض وضو عمل کا صدور نہ ہو، اور جیسے ہی اس نماز کا وقت ختم ہو گا تو آپ کا وضو بھی ختم ہو جائے گا اور آنے والے نماز کے وقت کے لیے دوبارہ وضو کریں گے اور یہی حکم عمرہ میں بھی ہے، یعنی ایک مرتبہ کے وضو سے ایک کامل نماز کے وقت کے تمام امورِ عمرہ اس وضو سے ادا کیے جا سکتے ہیں، لیکن جیسے ہی نماز کا وقت ختم ہو گا ، تو دوسرے نماز کے وقت کے لیے نیا وضو کر نالازم ہوگا، اور یہ صورت آپ کے لیے اس وقت تک جائز ہے جب تک آپ کو یہ عذر لاحق ہو ، جیسے ہی یہ عذر ختم ہو گا (یعنی مذکورہ عذر ایک نماز کے کامل وقت کے بقدر لاحق نہ ہو)تو آپ پر ہر مرتبہ وضو بھی کرنا لازم ہو گا اور کپڑوں کو دھونا بھی ضروری ہوگا۔ (157-161/188)

بالغ بیٹے کے لیے والد کی حرام کمائی کا استعمال کرنا

سوال…کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بار میں کہ اگر کسی کی کمائی حرام ہے تو اس کے بالغ بیٹے کے لیے شریعت کا کیا حکم ہے؟

جواب…واضح رہے کہ والد پر اپنے بالغ بیٹوں کا خرچہ لازم نہیں، بلکہ وہ خود کما کر اپنے اوپر خرچ کریں ، البتہ اگر کوئی بیٹا عذر کی وجہ سے کما نہ سکتا ہو، تو اس کا خرچہ والد پر ہوگا۔لہٰذا بیٹے کے لیے بوقت ضرورت اور بقدر ضرورت والدسے خرچ لینے کی گنجائش ہوگی۔

تاہم بالغ بیٹے پر لازم ہے کہ نرمی کے ساتھ اپنے والد کو حلال کمانے کی ترغیب دے، کیوں کہ حلال کمانا ہر مسلمان پر فرض ہے، غیر معذور بالغ بیٹے پر باپ کی حرام کمائی کا استعمال جائز نہیں۔(124/188)