نافرمان بیوی کے احکام
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک خاتون زوجیت کے حقوق پورے نہیں کر رہی، عرصہ سترہ سال ہو گئے ہیں ،ہر وقت پریشان کرتی رہتی ہے اور خود کشی کی دھمکی دیتی ہے،اس خاتون کو شوہر کے حقوق کے بارے میں بتائیں۔
یہ خاتون والدین کے گھر جا کر بیٹھ جاتی ہے اور شوہر سے خرچے کا مطالبہ کرتی ہے، کیا وہ خرچے کے مطالبے کا حق رکھتی ہے؟ وہ میرے ساتھ رہنا نہیں چاہتی جب کہ میں اپنے بچوں کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہوں۔
میری اہلیہ اور اس کی والدہ شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے۔
ایسی صورت حال کے پیش نظر میں نے7 اگست کو اس کی والدہ کو کہا: اپنی بیٹی کو لے جاؤ، میری طرف سے فارغ ہے، اس وقتمیں نے طلاق کی نیت نہیں کی تھی، نیز دوبارہ نکاح کی صورت میں کوئی شرط نہیں مانوں گا، میاں بیوی کے معاملات میں اس کے بھائی بہن کوئی نہیں آئے گا۔
جواب… واضح رہے کہ دین اسلام ایک مکمل دستور حیات ہے، اس میں جہاں بیوی کے حقوق ہیں،وہاں بیوی پر شوہر کے حقوق کو بھی لازم قرار دیا گیا ہے، تاکہ طرفین میں محبت والفت کا یہ رشتہ بدستور قائم ودائم رہے، شوہر کے حقوق پامال کرنے او راسے ڈرادھمکا کر پریشان کرنے والی عورت پر احادیث مبارکہ میں لعنت اوروعیدیں وارد ہوئی ہیں، ایسی عورت دین کے ساتھ ساتھ اپنی دنیا وآخرت کو بھی تباہ کر دیتی ہے، ایسی عورت دنیا میں بھی اپنی زندگی جہنم بنا دیتی ہے اور آخرت کا عذاب بھی الگ ہے ،لہٰذا بیوی کو چاہیے کہ وہ شوہر کے حقوق کی ادائیگی کو اپنا فرض جانے اور اسے اپنے لیے دنیا وآخرت کے سنور نے کا سامان سمجھے۔
صورت مسئولہ میں ایسی عورت جو شوہر کی حق تلفی بھی کرتی ہو او راپنی والدہ کے گھر بھی رہتی ہو اسے نان ونفقہ اور شوہر سے خرچے کے مطالبے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے اور نہ ہی شوہر پر ایسی بیوی کا خرچہ لازم ہے، نیز شریعت مطہرہ نے سات سال تک لڑکے کے اور نو سال تک لڑکی کی پرورش کا حق والدہ کو دیا ہے، بشرطیکہ بچوں کی ماں بچوں کے کسی نامحرم کے ساتھ نکاح نہ کرے، ورنہ حق پرورش ساقط ہو جائے گا، لہٰذا بچوں کی عمر اگر مذکورہ مدت سے زیادہ ہو، تو انہیں اپنے ساتھ رکھنا آپ کا حق ہے، ماں کو شرعاً یہ اختیارنہیں ہے کہ وہ بچوں کو آپ کے ساتھ رہنے سے روکے۔
شرعا ساس کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ داماد سے اپنی بیٹی کے لیے طلاق کا مطالبہ کرے ، میاں بیوی کے بیچ منافرت اور مفارقت پیدا کرنا او ران کوایک دوسرے سے بدظن کرنا موجب گناہ بھی ہے او رالله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے ایسے شخص کو مسلمانوں کی جماعت سے خارج بھی قراردیا ہے، لہٰذا ان کے درمیان صلح او ران کی زندگی کو خوش گوار بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ باقی شوہر کا اگر بیوی کے ساتھ اچھا سلوک ہے اور بیوی کے حقوق بجالاتا ہو، تو بیوی کے پاس بھی ایسے شوہر سے طلاق لینے کا کوئی جواز نہیں رہتا۔
صورت مسئولہ میں ”میری طرف سے فارغ ہے“ کہنے سے آپ کی بیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہو گئی ہے، اب دوبارہ ایک ساتھ رہنے کے لیے تجدید نکاح ضروری ہے اور آئندہ کے لیے آپ کے پاس فقط دو طلاقوں کا اختیار باقی رہے گا۔ (298-36/186)
مہر فاطمی اور اس کی تفصیل
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسئلے کے بارے میں کہ حضرت فاطمہ رضی الله عنہا کا مہر کتنا مقرر ہوا تھا اور آج کل کے حساب سے اس کی کیا قیمت بنتی ہے؟ رقم بتا کر ممنون فرمائیں۔
حضرت فاطمہ رضی الله عنہا کا مہر معجل تھا یا مؤجل، یا بعض مؤجل اور بعض معجل تھا؟
اگر کوئی آدمی آج کل مہر فاطمی دینا چاہے اگر وہ اس مہر کو معجل نہ دے بلکہ کچھ معجل او رکچھ مؤجل دے، تو کیا اس طرح مہر ادا کرنے سے مہر فاطمی جو کہ مسنون ہے وہ سنت ادا ہو گی یا نہیں یا سنت کی ادائیگی کے لیے مہر فاطمی کا معجل ہونا شرط ہے۔
جواب… حضرت فاطمہ اور دیگر بنات مطہرات رضی الله تعالیٰ عنہن کا مہر ساڑھے بارہ اُوقیہ چاندی تھا او رایک اُوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے ،اس حساب سے مہر کی مقدار پانچ سو درہم بنتی ہے، موجودہ دور کے اعتبا رسے اس کی مقدار ایک سو اکتیس تولہ تین ماشہ چاندی ہے او رگرام کے لحاظ سے 1.5309 کلو گرام چاندی بنے گی، چوں کہ چاندی کی قیمت میں ہر روز کمی بیشی ہوتی ہے، اس لیے ایک سو اکتیس تولہ تین ماشہ کی قیمت مارکیٹ سے معلوم کر لی جائے۔
حضرت فاطمہ رضی الله عنہا کا پورا مہر معجل تھا۔
شریعت نے مہر کی زیادہ مقدار متعین نہیں کی، جتنی مقدار ادا کرنا سہل ہو اور لڑکی کے حالات کے بھی مناسب ہو، تجویزکر لیا جائے، البتہ مہر فاطمی دینا مستحب ہے، خواہ معجل ہو یا مؤجل ہو یا بعض معجل اور بعض مؤجل۔ (266-267/186)
والدین کے اختلاف کی صورت میں اولاد کیا کرے؟
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ والدین کے آپسی اختلافات کی صورت میں اولاد کس کا ساتھ دے؟ اگر والدین کی طرف سے اولاد کو متعارض کاموں کا حکم ہو تو ایسی صورت میں شریعت کا کیا حکم ہے؟والدین کی اطاعت اور نافرمانی کا کیا معیار ہے؟اگر والدین اور شوہر یا والدین اور بیوی کے حقوق میں تعارض ہوجائے تو کس کا حکم مقدم ہو گا؟
جواب… والدین کے آپسی اختلافات کی صورت میں اولاد کسی ایک کا ساتھ دے کر دوسرے کی دل آزاری نہ کرے، بلکہ ان کے ساتھ صلہ رحمی والا معاملہ کرے او ران کے اختلافات کو خوش اُسلوبی سے ختم کرنے کی کوشش کرے اور اگر ختم نہ ہو رہے ہوں توان کے لیے دعا اور استغفار کرتا رہے۔
واضح رہے کہ جب اولاد کو والدین کی طرف سے متعارض امور کا حکم ہو تو اولاد کے لییان امور پر عمل کرنا جائز نہیں ہے جو شریعت مطہرہ کے مخالف ہوں، بلکہ وہ امور جو شریعت مطہرہ کے موافق ہوں او ران پر بیک وقت عمل کرنا ممکن ہو، تو دونوں پر عمل کرنا ضروری ہے، لیکن اگر بیک وقت دونوں پر عمل کرنا ممکن نہ ہو توپھر وہ امور جن کا تعلق تعظیم او راحترام سے ہو تو اس میں والد صاحب کا حکم مانا جائے گا اور جن کا تعلق خدمت سے ہو ان میں والدہ کا حکم مانا جائے گا۔
والدین کی اطاعت اور نافرمانی کا معیار شریعت مطہرہ نے یہ مقرر فرمایا ہے کہ جوعمل شریعت کے مخالف نہ ہو اس میں والدین کی اطاعت ضروری ہے اورجو عمل شریعت کے مخالف ہو اس میں اطاعت ضروری نہیں ہے۔
واضح رہے کہ اگر والدین اور بیوی کے حقوق میں تعارض آجائے تو والدین کے حقوق مقدم ہیں، اسی طرح اگر والدین اور شوہر کے حقوق میں تعارض آجائے، تو شوہر کا حق مقدم ہو گا۔ (321-324/187)
گانا سننے اور سنانے سے روکنے کا طریقہ
سوال… کیا فرماتے مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کسی سواری بس وغیرہ میں جب ڈرائیور لوگ یا سیٹ میں بیٹھے ہوئے شخص میوزک لگاتے ہیں تو ایسے موقع پر مندرجہ ذیل سوالات ذہن میں آتے ہیں، براہ کرام ان سوالات کے جواب دیں:
بس میں سارے یا اکثر علماء ہوں، تو کس طرح ڈررائیور کو سمجھائیں تاکہ وہ گانانہ لگائے۔
نیز مذکورہ بالا پہلی صورت میں اگر ڈرائیور یہ کہے کہ اگر میں گانا نہ لگاؤں توایکسڈنٹ ہو گا یا بس گر جائے گی۔
اگر بس میں اکثر عوام ہو، علماء ایک دو ہوں یا اکثریت سے کم ہوں اور عوام گانا سننا چاہے ڈرائیور سے تو علماء کرام کیاکریں؟
سیٹ میں بیٹھا ہواشخص گانا لگائے تو عالم دین کی کیا ذمہ دار ی بنتی ہے؟
عالم اگر بس ڈرائیور کو گانا لگانے سے رکنے کا کہے تو یہ خدشہ ہو کہ بس ڈرائیور عالم دین کو بس سے اتارنے کا کہے، عالم کے پاس دوسری گاڑی میں جانے کا کرایہ ہو یا نہ ہو، یا دوسری گاڑی میں بھی گانے کاامکان ہو تو ان تینوں صورتوں کا کیا حکم ہے؟
ڈرائیور یا سیٹ میں بیٹھا ہوا شخص میوزک لگائے، جس کی وجہ سے ساتھ والے افراد کے نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے کانوں میں میوزک کی آواز آتی ہے، کیا وہ بھی گناہ گار ہوتے ہیں یا نہیں اور میوزک نہ چاہنے والوں کی کس حد تک ذمہ داری بنتی ہے کہ میوزک سنانے سے منع کریں؟
گانا خود سننایا دوسروں کو سنانے کا کیا حکم ہے؟کیا عالم دین کا یہ کہنا کہ گانا سننا ہے تو ہیڈفون میں سنو، کیا یہ درست ہے؟ مذکورہ بالا سب صورتوں میں اگرنرمی سے دعوت مفید نہ ہو تو کیا کرنا چاہیے؟(80-88/187)
جواب… واضح رہے کہ گانا سننا اور سنانا شرعاً جائز نہیں، تمام علماء کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ گانا سننا اور سنانا حرام ہے۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں گاڑی کے ڈرائیور اور عوام کو نرمی سے سمجھایا جائے ،پھر بھی اگر باز نہیں آتے تو ان کو اپنی استطاعت اور قدرت کے مطابق منع کیا جائے (قول یا فعل کے ذریعے)،اگر پھر بھی باز نہیں آئے تو ان کو ہیڈ فون وغیرہ استعمال کرنے کا کہا جائے او راگر دوسری گاڑی کی ترتیب آسانی سے بن سکتی ہے، (وہاں پر دوسری گاڑی موجود ہو، کرایہ وغیرہ کی سہولیات بھی موجودہوں) تو دوسری گاڑی کی ترتیب بنائی جائے ،ورنہ اسی گاڑی میں ہی بیٹھے رہیں، لیکن گانوں وغیرہ کی طرف دھیان او رتوجہ نہ دیں۔
سوشل میڈیا سے کمائے ہوئے پیسوں اور ان سے عبادات بجالانے کا حکم
سوال… کیا فرماتے مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ سوشل میڈیا، یوٹیوب، ٹک ٹاک ودیگر پلیٹ فارم وغیرہ سے کمائی ہوئے پیسوں کا کیا حکم ہے؟ آیا حلال ہیں یا حرام؟ او ران پیسوں سے کار خیر مثلا عبادات میں عمرہ حج قربانی کرنا اورصدقہ کرنا کیسا ہے اور اس فیلڈ کے لوگوں کی تقریبات اور دعوتوں میں شرکت کرنا کیسا ہے، تسلی بخش جواب عنایت فرما کر مشکور وممنون فرمائیں۔
واضح رہے کہ سوشل میڈیا پر وی لاگنگ کرکے پیسہ کمایا جاتا ہے ، مثال کے طوراپنی ویڈیو بنا کر روزمرہ کی روٹین بنائی جاتی ہے اور اپنے گھر والوں (خواتین وغیرہ) کو بھی اس ویڈیو میں لایا جاتا ہے اور ایسی ویڈیوز کے ذریعہ پیسہ کمایا جاتا ہے۔
جواب… موبائل کے ذریعے جائز طریقہ پہ جو کاروبار ہوتے ہیں ، وہ جائز ہیں، البتہ موبائل کے ذریعہ وی لوگنگ (Vloging) کرنا، اپنی ویڈیو بنا کر اس میں اپنی روز مرہ کی روٹین کو اس میں دکھانا او راپنے گھر والوں (خواتین وغیرہ) کو اس ویڈیو میں لانا، جس میں ان کی بے پردگی ہوتی ہو جائز نہیں اور وی لاگ بنانے والوں کو دیکھنے والوں کی ایک خاص تعداد تک کاٹاسک دیا جاتا ہے یا پھر لائیک اور کمنٹ کی ایک خاص تعداد متعین ہوتی ہے کہ اس تک ویوز (دیکھنے والے) لائیک، کمنٹ یا شیئر پہنچ جائیں تو رقم کی ایک خاص مقدار اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کی جائے گی اور اس سے زیادہ ہوئے تو اسی تناسب سے دیکھا جائے گا اور رقم بھیجی جائے گی۔
ذکر کردہ اس پوریتفصیل کے پیش نظر وی لاگنگ کے ذریعہ پیسے کمانا درج ذیل وجوہ کی بنا پر ناجائز ہے:
وہ ویڈیو جس میں جان دار کی تصویر ہوتی ہے اس کو اپ لوڈ کرنا۔
حرام او رناجائز چیزوں کی تشہیر کا ذریعہ بننا لازم آتا ہے۔
شرعاً اس معاملے کی صورت اجارہ کی ہے، اس میں اجرت مجہول ہے، اس لیے اس وی لاگنگ پر جو پیسے ملیں گے، وہ متعین نہیں ہیں، بلکہ دیکھنے والوں کی تعداد، لائیک، کمنٹ یا شیئر پر معلق ہیں، لہٰذا یہ معاہدہ (اجارة) ہی شرعاً درست نہیں۔
اس اجارہ کے معاملہ میں جو کام سپرد کیا جاتا ہے وہ غیر شرعی اورتعاون علی المعصیة کے قبیل سے ہوتا ہے اور ایسے حرام کاموں کے عوض اُجرت لینا جائز نہیں۔
ایسی ناجائز آمدنی سے عبادات ( حج و عمرہ اور قربانی) کو بجالانا جائز نہیں، نیز اگر کسی شخص کی کل آمدنی یا اکثر آمدنی حرام ہو تو اس کی دعوتوں اور دیگر تقریبا میں شرکت کرنا جائز نہیں، اگر اکثر آمدنی حلال ہو تو شرکت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
2139 ایپ میں پیسے لگانے کا شرعی حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک ایپ ہے جس کا نام 2139 ہے، اس میں پیسے لگائے جاتے ہیں، شروع میں 30 سے50 ہزار تک لگاتے ہیں اور پھر دن میں دو مرتبہ سگنل آتا ہے، ایک دوپہر ( ڈہائی) بجے کے قریب اور دوسرا رات ( سات) بجے کے قریب، سگنل آتے ہی اس پر کلک کرنا پڑتا ہے،3 سے4 منٹ کے اندر اندر، کلک کرنے سے 5 ڈالر ملتے ہیں اور اگر کلک نہ کریں تو 3 ڈالر ملتے ہیں، یعنی کسی بھی صورت میں نقصان نہیں ہوتا اور آپ جب چاہیں اپنے پیسے واپس لے سکتے ہیں او رجب بھی نکالیں گے تو اس کے بقدر نفع بھی لے سکتے ہیں، اب آپ حضرات سے پوچھنا تھا کہ اس ایپ میں پیسے لگانا کیسا ہے؟
واضح رہے کہ کلک نہ کرنے پر کچھ بھی نہیں ملتا، اور ممبر سے لیے ہوئے پیسے بٹ کوائن(ڈیجیٹل کرنسی) کی خرید وفروخت پر لگائے جاتے ہیں جس میں سے کچھ نفع خود لیتے ہیں او رکچھ نفع اپنے ممبر کو کلک کرنے پر دیتے ہیں، نفع کی مقدار فیصد کے اعتبار سے معلوم نہیں ہوتی ، کبھی کم ملتا ہے اورکبھی زیادہ اور جب بھی ممبر اپنے پیسے واپس لینا چاہے لے سکتا ہے اور اضافی رقم بھی ساتھ ملتی ہے۔
جواب… واضح رہے کہ کسی بھی ایپ میں سرمایہ جمع کرکے منافع کمانا تب حلال ہو گا جب منافع لینے والے کو معلوم ہو کہ اس ایپ میں شرعی اصولوں کے مطابق جائز کاروبار کیا جاتا ہے اور حاصل شدہ منافع کا ٹھیک حساب لگا کر حصہ داروں کو تقسیم کیا جاتا ہے، چوں کہ صورت مسئولہ میں اس رقم کے ذریعہ کیے جانے والے کاروبار کے بارے میں یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ شرعی اصولوں کے مطابق ہے اور اسی طرح جتنے ممبر ان ہیں ان کے درمیان فیصدی اعتبار سے نفع کا تعین بھی نہیں ہے، لہٰذا شرعاً اس طرح کی ایپ میں پیسے لگانا جائز نہیں ہے۔(46/185)