مغرب کی تیسری رکعت ملنے کے بعد دوسری رکعت میں قعدہ نہ کرنے کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ جس شخص کی مغرب کی نماز کی دو رکعت جماعت سے چھوٹ گئی ہوں اور اس نے اپنی جب چھوٹی گئی دو رکعت کو مکمل کیا تو اس نے صرف آخری رکعت میں قعدہ کیا اور التحیات، درود شریف، دعا پڑھنے کے بعد سلام سے نماز مکمل کر دی، جماعت کے مکمل ہونے کے بعد اس نے جو اپنی پہلی رکعت پڑھی اس میں قعدہ نہیں کیا تو کیا ایسے شخص کی نماز ہو جائے گی، اس پر سجدہ سہو لازم نہیں ہو گا؟
جواب… صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص نماز مغرب کی تیسری رکعت میں امام کے ساتھ شریک ہوا، اس نے باقی دو رکعت اس طرح ادا کیں کہ پہلی رکعت پر قعدہ کی بجائے دوسری رکعت پر قعدہ کیا، اس طرح کرنے سے نماز ہو جاتی ہے اور سجدہٴ سہو بھی لازم نہیں ہوتا۔ اگرچہ اولیٰ یہ تھا کہ ایک رکعت کے بعد قعدہ کر لیتا۔
گھر میں قرآن کریم کی تعلیم دینا
سوال… کیا فرماتے مفتیان ِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم گھر میں بچوں کو قرآن کی تعلیم پچھلے سات آٹھ سالوں سے دے رہے ہیں ۔اب کچھ دنوں سے میری والدہ کی طبیعت خراب ہے، ان کو دماغ کا مسئلہ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ بچوں کو نہیں پڑھانا، حالاں کہ ایک دو ماہ پہلے وہ بالکل ٹھیک تھیں، خود سارا دن قرآن پڑھتی رہتی تھیں اور ان بچوں کے قرآن پڑھنے پر بھی انہیں کوئی اعتراض نہ تھا۔
برائے مہربانی ہمیں مشورہ دیں کہ اب کیا کریں۔ الله عزوجل آپ کو جزائے خیر دے۔
جواب… واضح رہے کہ قرآن شریف پڑھنا اور پڑھانا بہت نیک عمل ہے، حضور صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ” تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو خود قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ والدہ کا بھی خیال رکھا جائے اور ہو سکے تو تعلیم کا علیحدہ انتظام کرنا چاہیے یا پڑھانے کے اوقات میں و الدہ کو ایسے کمرے میں رکھا جائے جہاں آواز نہ جائے، کیوں کہ بڑھاپے کی وجہ سے اونچی آواز بھی تکلیف دیتی ہے، البتہ اگر کوئی ایسی جگہ نہ ہو تو والدہ کو نرمی کے ساتھ قرآن شریف کے فضائل سنائیں، (کہ قرآن سننے سے بھی اجر ملتا ہے اور جس گھر میں قرآن شریف پڑھاجاتا ہے وہاں سے شیطان بھی بھاگ جاتا ہے اور یہ بچے آپ کے لیے بھی صدقہ جاریہ بنیں گے)۔تاکہ طیب خاطر کے ساتھ قرآن کریم پڑھانے پر راضی ہوئے۔
مضاربت کا حکم اور اس کی شرائط
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص ہے جو بیکولائٹ( بجلی کے بٹنوں) کا کام کرتا ہے، وہ میرے پاس آیا او رکہا کہ مجھے پیسے دیں، میں آپ کو اس پر نفع دوں گا، میں نے علماء کرام سے پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ نفع فی صد کے اعتبار سے طے ہونا ضرور ی ہے، تو اس نے مجھے سے اس طرح طے کیا کہ اخراجات نکال کر کل منافع سے نوے فیصد آپ کا اور دس فیصد میرا ہو گا۔ معاملات طے ہو گئے، چند ماہ وہ مسلسل منافع دیتا رہا،میرے چند متعلقین کو معلوم ہوا تو انہوں نے بھی رقم کاروبار میں انویسٹ کر دی، ان کو بھی اسی طرح منافع ملتا رہا۔ جب انویسٹ بڑھی تو اس شخص نے کاروبار بڑھا دیا اور بیکولائٹ کے ساتھ ڈائیوں(بٹن بنانے کے سانچے)کا کام بھی شروع کر دیا، اس میں انویسٹ بھی زیادہ ہے اور فی صد کے اعتبار سے منافع بھی زیادہ ہے، پھر تقریباً ڈیڑھ سال پہلے اس نے مشینوں کا کام شروع کیا، اس میں بھی انویسٹ بھی زیادہ ہے اور 75 فی صد منافع میں سے انویسٹرکو دیتا ہے اور 25 صد خود رکھتا ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ یہ کاروبار شرعی اعتبار سے درست ہے یا نہیں؟ بعض ساتھی کہہ رہے ہیں کہ یہ سودی کاروبار ہے، تو اس کی شرعی حیثیت متعین فرما کر عندالله ماجور ہوں۔ جزاکم الله خیرا واحسن الجزاء فی الدارین․
جواب…صورت مسئولہ میں یہ معاملہ شرعی اعتبار سے درست ہے، البتہ اس میں چند شرائط کا لحاظ رکھا جائے۔
1.. متعاقدین عاقل بالغ ہوں۔ 2.. اصل سرمایہ مروجہ کرنسی یعنی کیش کے قبیل سے ہو۔ 3.. اصل سرمایہ معلوم ومتعین ہو۔ 4.. سرمایہ کار نے اصل سرمایہ کام کرنے والے کے حوالہ کیا ہو۔ 5.. کام کرنے والے اور سرمایہ کار منافع میں شریک ہوں۔ 6.. عقد کرتے وقت نفع میں سے سرمایہ کار اور کام کرنے والے کا حصہ فی صدی تناسب کے اعتبار سے طے ہو۔ 7.. کام کرنے والے کے لیے متعین کردہ حصہ نفع میں سے ہو، اصل سرمایہ سے نہ ہو۔ 8.. اور اگر اس معاملہ میں کوئی نقصان ہو جائے تو سب سے پہلے اس کی تلافی حاصل شدہ منافع سے کی جائے گی، پھر اگر نقصان اس سے بھی زائد ہو تو سرمایہ سے پورا کیا جائے گا اور کام کرنے والے کے ذمہ کوئی نقصان لازم نہیں ہو گا۔
مؤذن کے لیے مسجد میں جگہ متعین کرنا اور مؤذن کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے اقامت کہنا
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا مسجد میں مؤذن کی جگہ مقرر کرنا ضروری ہے یا یہ غیر ضروری ہے کہ امام کے پیچھے کھڑا ہو گا؟ اور کیا مؤذن کے علاوہ کوئی او راقامت نہیں کہہ سکتا یا کہہ سکتا ہے؟ او راگر کوئی مؤذن کی جگہ کھڑا ہو جائے تو کوئی حرج تو نہیں؟
جواب… واضح رہے مسجدمیں کسی کے لیے کوئی خاص جگہ متعین نہیں، لہٰذا اقامت کہنے والے کا امام کے پیچھے کھڑا ہونا ضروری نہیں، کہیں اورکھڑے ہو کر بھی اقامت کہہ سکتا ہے، مگر چوں کہ آج کل کے عرف میں اقامت کہنے والا امام کا نائب بھی ہوتا ہے تو بہتر یہ ہے کہ وہ امام کے قریب رہے، تاکہ بوقت ضرورت امام کی نیابت کرسکے۔ باقی اگر کوئی شخص اقامت کہنے والے کی جگہ پہ کھڑا ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ” جو شخص اذان دے، اقامت کہنا اسی کا حق ہے“۔ لہٰذا مؤذن کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر کوئی دوسرا اقامت کہے اور یہ مؤذن کو ناگوار گزرے تو مکروہ ہے، او راگر کوئی شخص مؤذن کی اجازت سے یا بغیر اجازت کے اقامت کہے او راس سے مؤذن کو تکلیف نہ ہو یا مؤذن موجود ہی نہ ہو تو ان صورتوں میں کسی دوسرے کا اقامت کہنا بغیر کراہت کے درست ہے۔
حالت حیض میں درس وتدریس کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ حالت حیض میں عورت درس وتدریس کرسکتی ہے یا نہیں؟ تفسیر اورحدیث کے علاوہ باقی کتابیں پڑھا سکتی ہے یا نہیں؟ مہربانی فرماکر جواب بتا دیجیے۔ آپ کی عین نوازش ہو گی۔
جواب… واضح رہے کہ ایام حیض میں عورت کے لیے قرآن مجید کو ہاتھ لگانا اور تلاوت کرنا جائز نہیں، البتہ معلمہ اور طالبہ کے لیے قرآن کریم کا کلمہ کلمہ یا ہجاء کرکے پڑھنے کی گنجائش ہے کہ وہ ہر کلمہ پر سانس توڑ دے او رپھر دوسرا کلمہ پڑھے یاروانی سے پڑھنے کے بجائے ہجاء کرتی رہے۔
نیز کتب تفسیر ( جن میں تفسیر غالب ہو) کتب حدیث او رکتب فقہ کو ہاتھ لگانے او رانہیں پڑھنے یا پڑھانے کی گنجائش ہے، تاہم اس حالت میں کتب تفسیر یا کتب حدیث میں جہاں قرآنی آیات لکھی ہوں، انہیں بغرض تلاوت پڑھنایا بلا حائلہاتھ لگانا درست نہیں ہوگا، البتہ دیگر دینی کتب کی درس وتدریس حالت حیض میں جائز ہے۔
مخصوص استغفار پڑھنے کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے کہیں سے سنا پڑھا تو نہیں لیکن استغفار پڑھتے پڑھتے یہ زبان پہ آیا، اس کو پڑھنے میں کوئی حرج تو نہیں ہوگا؟
”استغفر الله الذی لا الہ الا ھو الحی القیوم، ھو الله، والہ واحدا، أحداً صمدا، لاوالد ولا ولد، ولم یکن لہ کفوا احد، وھو الرحمن الرحیم، اتوب الیہ“․
(”لاوالد ولا ولد“
کی جگہ کبھی”لم یلد ولم یولد“
بھی پڑھ لیتا ہوں)
جواب…واضح رہے کہ استغفار پڑھنا باعث اجر وثواب ہے، احادیث مبارکہ میں استغفار کی بڑی فضیلتیں وارد ہوئی ہیں، چناں چہ سنن ابی داؤد کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” جو شخص استغفار کا التزام کرتا ہے الله تعالیٰ اس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ ہموار کرتے ہیں اور ہر پریشانی کو آسان فرماتے ہیں او رایسی جگہ سے رزق عطا فرماتے ہیں جہاں سے وہم وگمان بھی نہیں ہوتا۔“
مذکورہ صورت میں استغفار کے مذکورہ الفاظ بعینہ ہمیں نہیں ملے، البتہ بعض الفاظ حدیث سے ثابت ہیں، بہ ظاہر اس کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن افضل یہ ہے کہ ماثور اور منقول استغفار پڑھیں، جن کی فضیلت اور الفاظ احادیث مبارکہ میں وارد ہوئے ہیں۔
سید کو علاج کے لیے زکوٰة کی رقم دینے کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی سید بندہ زکوٰة کے پیسوں پر علاج کرانا چاہتا ہے تو اس مسئلہ کا شرعی اور مناسب حل بتا دیں۔
جواب… صورت مسئولہ میں سیدکا علاج زکوٰة کی رقم سے جائز نہیں، نفلی صدقات اور عطیات کے ذریعے اس کی مدد کریں۔ جواز کا حیلہ یہ ہے کہ کسی مستحق زکوٰة شخص کو یہ کہا جائے کہ آپ کسی سے قرض لے کر سید کو علاج کے لیے دے دیں، آپ کا قرض ہم ادا کرلیں گے، جب وہ قرض لے کر سید کو عطیہ کر دے، تو زکوٰة کی رقم اُسے دے دی جائے تاکہ وہ اپنا قرض ادا کر لے، اس طرح سید کا علاج بھی ہو جائے گا اور زکوٰة دینے والے کی زکوٰة بھی ادا ہو جائے گی اور غریب کو نفلی صدقہ کا ثواب بھی مل جائے گا۔