گھر والوں کا دین پر چلنے میں رکاوٹ ڈالنا اور اس سے بچنے کا طریقہ
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں شدید ذہنی دباؤ میں ہوں جس کو الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا ،یہ سوال لکھتے وقت بھی میں رو رہا ہوں، وجہ یہ ہے کہ میرے گھر والے میرے دین کوفالو کرنے میں کچھ چیزوں میں بہت غلط رویہ رکھتے ہیں جس سے مجھے شدید تکلیف ہوتی ہے، جیسے ٹی وی پر ناچ گانا چل رہا ہوتا، میں وہاں کھانا کھانے سے منع کرتا تو بہت سخت غصہ کرتے مجھ پر، تبلیغ میں جانے نہیں دیتے، غریبوں کو گرم کپڑے دے کر آیا تو اس پر منع کر رہے ہیں کہ ان کو ضرورت نہیں ہوتی، ایسی مدد نہیں کرو، او رمیں جب مدد کرکے آیا تو سب کا منہ بنا ہوا تھا کہ کیوں کر رہا ہے یہ کام، سب کے پاس ہے، کسی کو ضرورت نہیں، اور میں جب سے دین پر آیا ہوں مجھے عجیب سا بنا دیا، ان سب باتوں کی وجہ سے شدید ڈپریشن میں ہوں اور روتا رہتا ہوں، آپ اگر مدد کردیں گے میری تو میں الله سے خوب دعا کروں گا آپ کے لیے ان شاء الله۔
جواب… واضح رہے کہ اسلام ایک کامل ومکمل دین ہونے کی بناء پر اپنے ماننے والوں کو ہر قسم کے حالات میں راہ نما ، ہدایات فراہم کرتا ہے، تبلیغ چوں کہ دین اسلام کی نشر واشاعت کا ایک مؤثر ذریعہ ہے، دین اسلام نے اس کے بھی آداب وانداز بتائے ہیں۔
مندرجہ ذیل اوصاف دعوت کے طریقہٴ کار کو زیادہ مؤثر بناتے ہیں:
1.. تبلیغ سے الله تعالیٰ کی رضا مندی اور دین اسلام کی سر بلندی مقصود ہو۔
2.. جس کو دعوت دی جارہی ہو اس کے ساتھ شفقت کا معاملہ ہو او رحکمت وبصیرت اور نرم لہجہ وانداز سے اس کو سمجھایا جائے۔
3.. دعوت دینے والا صابر(صبر کرنے) اور بردبار ہو،تا کہ جس کو دعوت دی جارہی ہے وہ اگر کوئی خلاف مزاج بات کرے تو مبلغ اس کو الله تعالیٰ کے لیے برداشت کرے۔
4.. دعوت دینے والا لوگوں کے مزاج کو پہچانے او رموقع محل کے اعتبار سے دعوت دے۔
5.. اگر دعوت دینے والے کو اس کا یقین یا غالب گمان ہو کہ اس کے دعوت دینے سے لوگ برے کام سے رک جائیں گے، تو اس صورت میں دعوت دینا ضروری ہے، او راگر دعوت دینے سے کسی قسم کے فساد کا اندیشہ ہو، تو اس صورت میں د عوت نہیں دینی چاہیے، البتہ الله تعالیٰ کے احکامات پر اپنی ذات سے عمل کرنے میں مخلوق کی ایسی اطاعت جس میں الله تعالیٰ کی نافرمانی لازم آتی ہو، جائز نہیں، جیسے کہ فرائض، نماز روزہ کی ادائیگی سے گھر والے روکیں، یا کسی ناجائز کام کے ارتکاب پر اصرار کریں، تو ان کا کہنا ماننا جائزنہیں۔
لہٰذا مذکورہ بالا ہدایات کو مدنظر رکھ کر اگر گھر والوں کی اصلاح کی جائے او ران کے ساتھ اخلاق سے پیش آیا جائے تو الله تعالیٰ سے کام یابی واصلاح کی قوی امید ہے، باقی دین پر چلنے کی وجہ سے لوگوں کے طعنے سننا اوران کی اذیتیں برادشت کرنا انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے، اس سے پریشان نہ ہوں، الله تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی نصرت کا وعدہ فرمایا ہے جو الله تعالیٰ کے دین کے لیے کوشش کرتے ہیں۔(62/183)
خائن کو خیانت کرتے ہوئے دیکھنے کی صورت میں حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ زید نے عمرو کے پاس دس لاکھ روپے بطور امانت رکھے تھے، کچھ عرصہ بعد واپس لے لیے، لیکن عمرو نے بطور خیانت اور چوری کے پچاس ہزارروپے اپنے پاس رکھ کر بقایا ساڑھے نو لاکھ روپے واپس کیے ، زید کو پتہ نہیں چلا،یا بھول گیا، لیکن درمیان میں یاسر کو معلوم تھا کہ عمرو نے چوری کی ہے، زید کو پتہ نہیں چلا ہے ،اب یا سرزید کو بتائے گا تو عمروناراض ہو گا، اوراگر نہ بتائے تو زید کا حق تلف ہو گا، اب یاسر کے لیے شریعت کا کیا حکم ہے؟ راہ نمائی فرمائیں۔
جواب… صورت مسئولہ میں واقعتا اگر عمرو نے زید کی رقم میں خیانت کی ہے اور پیسے اٹھائے ہیں اور یاسر کو اس بات کا پختہ علم بھی ہے تو یاسر کو چاہیے کہ حکمت وبصیرت کے ساتھ عمرو کو خیانت اور چوری کے نقصانات اور دنیا وآخرت میں ہونے والے نقصانات سے آگاہ کرے، او رکسی طریقے سے اسے وعظ ونصیحت کرے، اس صورت میں الله تعالیٰ کی ذات سے امید ہے کہ عمروناراض نہ ہو گا او رزید بھی حق تلفی سے بچ جائے گا، بصورت دیگر زید کو آگاہ کر لے۔(73/183)
مسافت ِ سفر کی ابتداء کہاں سے ہو گی؟ نیز سفر میں سنن مؤکدہ کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام کہ میں پشاور میں نوکری کرتا ہوں اور روزانہ آتا جاتا ہوں۔ میرے گھر (واقع تور ڈھیر)سے دفتر کا فاصلہ74 کلو میٹر ہے“ بعض اوقات میں دفتر سے آدھی چھٹی لے کر کسی کام کے لیے دفتر سے دور یا کسی مریض کی عیادت کے لیے ہسپتال جاتا ہوں جس کی وجہ سے میرا گھر سے فاصلہ 80 کلو میٹر بن جاتا ہے، تو میرا سوال یہ ہے کہ:میں اب گھر واپس آنے تک سفرانہ نماز ادا کروں گا یا پوری نماز؟نیز سنت مؤکدہ ادا کرنا ضروری ہے یا نہیں؟۔
وضاحت :مستفتی سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ دفتر سے آدھی چھٹی لے کر جس جگہ یا ہسپتال جانا ہوتا ہے ( کہ جہاں سے گھر تک کا فاصلہ80 کلو میٹر بن جاتا ہے) وہ جگہ بھی پشاور میں ہی واقع ہے۔
جواب…واضح رہے کہ سفرِ شرعی کی مسافت میں شہر کی ابتدا وانتہاء کا اعتبار کیا جائے گا، شہر کے اندر کا نہیں، لہٰذا صورت ِ مسئولہ میں دفتر سے دور جس جگہ آپ گئے ہیں، وہاں سے یا ہسپتال سے آپ کے گھر کا فاصلہ اگرچہ اسی (80) کلو میٹر بن جاتا ہے، لیکن اس صورت میں سفری نماز کے لیے حدودِ پشاور کے اختتام سے لے کر آپ کے علاقے (تور ڈھیر) کی آبادی شروع ہونے تک کے فاصلے کو دیکھا جائے گا، اگریہ فاصلہ سوا ستتر(77.2485) کلو میٹر یا اس سے زیادہ ہے تو دوران ِ سفر آپ سفر کی نماز پڑھیں گے، ورنہ نہیں۔
نیز بحالت سفر فجر کی دو سنتوں کے علاوہ دیگر مؤکدہ سنتوں کی تاکید تو ختم ہو جاتی ہے، البتہ اگر اطمینان کی کیفیت ہو تو پڑھ لینی چاہییں، ورنہ ترک کر دیں۔(86/183)
EPF Contribution کی مد میں تنخواہ سے کٹوتی پر نفع لینے کا حکم
سوال … کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ: میں ایک نجی کمپنی میں ملازم ہوں، میری تنخواہ جوہر مہینے مجھے باقاعدگی سے ملتی ہے، اس تنخواہ میں سے انکم ٹیکس،EOBI اورEPF Contribution وغیرہ کی مد میں کچھ رقم کمپنی کٹوتی کرتی ہے، جس میں سے کمی بیشی کا مجھے کوئی اختیار نہیں، اصل سوال میرا اوپر دیے گئےEPF Contribution سے ہے، جس کا Profit (نفع) ہمیں کمپنی ہر سال دیتی ہے ،مثال کے طور پر اگر میرا Profit(نفع) ایک لاکھ بنتا ہے تو مجھے گیارہ ہزار روپے اضافی دیتی ہے، اس پر بھی میرا کوئی اختیار نہیں کہ میں اس رقم کے Profit(نفع) کو کم وبیش کرسکوں، اسProfit(نفع) پر مجھے آپ سے دینی صلاح اور فتویٰ درکار ہے کہ کیا یہ میرے لیے جائز ہے یا نہیں؟
جواب… سرکاری ونجی اداروں کی طرف سے ملازمین کے لیے (EPF Contribution) ایمپلائز پراویڈنٹ فنڈ اور(EOBI) کی سہولت فراہم کی جاتی ہے او راس فنڈ میں شمولیت کے لیے ملازمین اپنی تنخواہ میں سے کچھ فی صد کٹوتی کرواتے ہیں جو کہ ہر ماہ اس فنڈ میں جمع کر لی جاتی ہے، پھر ریٹائرمنٹ کے وقت یا ہر سال کمپنی جمع شدہ رقم اضافہ کے ساتھ ملازم کو دے دیتی ہے۔
اس کی دو صورتیں ہیں:
1.. بعض کمپنیاں اپنے ہر ملازم کو جبراً اس فنڈ کا حصہ بناتی ہیں اورملازم کو عدم ِ شمولیت کا اختیا رنہیں دیتیں، جس کی وجہ سے ہر ماہ تنخواہ دینے سے پہلے ہی طے شدہ شرح کے مطابق جبری کٹوتی کر لی جاتی ہے اور بقیہ تنخواہ ملازم کو دے دی جاتی ہے۔
2.. بعض کمپنیوں کی طرف سے ہر ملازم کے لیے اس فنڈ کا حصہ بننا لازمی نہیں ہوتا، بلکہ کمپنی اپنے ملازمین کو اختیار دیتی ہے کہ اپنی مرضی سے جو ملازم اس فنڈ سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے وہ اس فنڈ کا حصہ بن سکتا ہے اورکمپنی ملازمین کی اجازت سے ہر ماہ طے شدہ شرح کے مطابق ان کی تنخواہوں سے کٹوتی کرکے مذکورہ فنڈ میں جمع کرتی رہتی ہے۔
1.. پہلی صورت(جبری کٹوتی) کا حکم یہ ہے کہ یہ رقم ملازم کی تنخواہ سے کاٹی جاتی ہے، ملازم کی خدمت کا معاوضہ ہے جو کہ اس کی ملکیت ہے، لیکن ابھی تک اس کے قبضہ میں نہیں آئی ہے، تو اب اگر کمپنی اس کے ساتھ کچھ اضافی رقم بھی دیتی ہے تو اس کا لینا او راپنے استعمال میں لانا جائز ہے۔
2.. دوسری صورت ( اختیاری کٹوتی) کا حکم یہ ہے کہ ملازمین نے اپنی تنخواہوں سے جتنی کٹوتی کرائی ہے اتنی ہی جمع شدہ رقم وہ لے سکتے ہیں، زائد رقم لینا جائز نہیں، اس لیے کہ یہ سود کے مشابہ ہے اور خطرہ ہے کہ لوگ اس کو سود خوری کا ذریعہ بنائیں گے، لہٰذا اس سے اجتناب کیا جائے اوراپنے استعمال میں نہ لایا جائے۔ فقط(93/183)
بہنوں کو میراث میں حصے نہ دینے کے متعلق چند احکام
سوال…(کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام خواتین کے حقوق کے بارے میں کہ 1… میرے والد صاحب اور چچاؤں نے باہم زمین جنگل وغیرہ تقسیم کی ہیں دادا کے انتقال کے بعد، لیکن اپنی بہنوں کو زمین وغیرہ میں حصہ نہیں دیا۔
∗… مذکورہ زمین کی پیداوار کا کیا حکم ہے؟
∗…اگر مذکورہ زمین کا مقصودی چارہ جانوروں کوکھلایا جائے تو جانوروں کے دودھ کا کیا حکم ہے؟
∗…مذکورہ جنگل کی لکڑیوں سے اگر کھانا پکایا جائے تو کھانے کا کیا حکم ہے؟
2…مذکورہ تمام صورتوں میں اگر نان نفقہ کا ذمہ دار والد صاحب ہو تو احتراز ممکن نہ ہونے کی صورت میں بچوں کو کیا کرنا چاہیے؟
∗…اگر کوئی بچہ بطور احتراز گھر میں رہنا چھوڑ دے، جب کہ والدین اس پر ناراض ہوتے ہوں، تو والدین کو ناراض کرنا چاہیے یا گھر جانا چاہیے؟
بہنوں کو حق دلوانے کے بارے میں کہہ چکا ہوں، لیکن اگر اس مسئلہ پر میں زور دے دوں تو خاندان میں بہت بڑا اختلاف پیدا ہو سکتا ہے، کیوں کہ بہت جنگ بڑائیوں کے بعد تقسیم ہوئی ہے۔
جواب… واضح رہے کہ شریعت مطہرہ نے میراث میں بہنوں کا حصہ بھی مقرر کیا ہے او رنہ دینے پر سخت وعیدیں آئی ہیں، جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ ” اگر کسی شخص کا ظلم کسی دوسرے کی عزت پر ہو یا کسی بھی طریقے سے ظلم کیا ہو، تو آج ہی اس دن کے آنے سے پہلے معاف کرالے، جس دن نہ دینار ہوں گے، نہ درہم ، بلکہ اگر اس کا کوئی نیک عمل ہو گا، تو اس کے ظلم کے بدلے میں وہی لیا جائے گا، او راگر کوئی نیک عمل اس کے پاس نہ ہو گا، تو اس کے مظلوم ساتھی کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی“ اور صحیح بخاری کی دوسری حدیث ہے کہ ” جس شخص نے ایک بالشت کے بقدر بھی کسی کی زمین ظلماً لے لی، تو قیامت کے دن سات زمینوں تک اس کا طوق بنا کر اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا“ چوں کہ میراث میں بہنوں کا بھی حق ہے اورنہ دینے میں ان کے ساتھ ظلم ہے، اس لیے اس معاملے میں احتیاط کرنی چاہیے، تاکہ الله تعالیٰ کی ناراضگی اور غصے سے بچا جاسکے۔
1.. صورت مسئولہ میں زمین کی پیداوار اُگانے والوں کے لیے حلال ہے، او راس زمین کا چارہ جو جانوروں کو کھلایاگیا ہے اس کی وجہ سے جانوروں کا دودھ حرام نہیں ہوا، بلکہ حلال ہے، اور اس زمین کے جنگل کی لکڑیوں سے پکایا گیاکھانا بھی حلال ہے، لیکن ان تمام صورتوں میں بہنوں کو ان کے حصوں کے بقدر اجرت دے دیں۔
2.. بچوں کو الگ رہنے کی ضرورت نہیں ہے، والدین کے ساتھ ہی رہیں، البتہ اخلاقا اپنے والدین کو پیار ومحبت سے بتائیں کہ آپ کی بہنوں کا بھی میراث میں حق ہے او رحق نہ دینے پر وعیدیں آئی ہیں، اور مذکورہ زمین کا غلہ اُگانے والوں او ران کے بچوں کے لیے حلال ہے۔ (104-105/183)
وضو کے درمیان مسوڑوں سے خون آنا
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ جب میں وضو شروع کرتا ہوں او رہاتھ دھو کر منہ اور ناک میں پانی ڈال کر جب منہ دھوتا ہوں، تو میرے مسوڑوں سے تھوڑا خون نکلتا ہے، جو تھوڑی دیر بعد خود بخود بند ہو جاتا ہے، اب میرا سوال یہ ہے کہ میں دوبارہ وضو کروں گا یا اسی وضو کو جاری رکھوں گا؟
جواب…واضح رہے کہ اگر تھوک میں خون معلوم ہو تو دیکھا جائے، اگر خون غالب یا برابر ہو، یعنی تھوک کا رنگ گہرا سرخ یا سرخی مائل ہو، تو وضو ٹوٹ جائے گا، او راگر تھوک غالب ہو، یعنی تھوک کا رنگ سفید یا پیلا ہو، تو وضو نہیں ٹوٹے گا۔
لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر مسوڑوں سے اتنا خون نکلے کہ جس سے وضو نہ ٹوٹتا ہو، تو اسی وضو کو حاری رکھیں اور اگر اتنا خون نکلے، جس سے وضو ٹوٹ جائے، تو خون بند ہونے کے بعد از سر نووضو کریں۔ (247/183)