کیا بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک!

idara letterhead universal2c

کیا بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک!

مولانا خالد سیف الله رحمانی

مسلمان آج کیسی زبوں حالی سے دوچار ہیں، یہ محتاج اظہار نہیں، خون ان کا اتنا ارزاں ہے کہ بعض اوقات اس کی قیمت پینے کے صاف پانی سے بھی کم ہوتی ہے، مسلمانوں کا قتل عام ہو سکتا ہے، لیکن کیا مجال کہ نام زد قاتلوں پر بھی کوئی آنچ آسکے؟ ملیانہ اور ہاشم پورہ کا مقتل ہو، مراد آباد کی عید گاہ ہو یا آسام میں نیلی اور بہار میں بھا گلپور کا مشہد اکبر، کون سی جگہ ہے جو مسلمانوں کے خون ناحق سے لالہ زار نہیں ؟ مال و اسباب اور دکان و کاروبار انہیں مسلمانوں کے لوٹے جاتے ہیں، حیدر آباد میں ، جمشید پور میں ، مراد آباد اور بھاگلپور میں ، راوڑ کیلا اور احمد آباد میں شاید اب بھی ایسے تلخ واقعات کے نقوش موجود ہیں۔ عزت و آبرو چھپ کر بھی نہیں، بلکہ برسر عام کن کی نیلام ہوتی ہے؟ مظلوم مسلمانوں کی !اگر سورت کی سڑکوں کو قدرت کی طرف سے قوت گویائی دے دی جائے تو شاید آج بھی وہ گواہی دے اور پھر اس انسانیت سوز اور شرافت دوز حرکتوں کا ویڈیو بھی تیار ہوتا ہے اور بمبئی کے گلی کوچوں میں اس کی تشہیر کی جاتی ہے ،تا کہ مسلمان خوب بے آبرو ہوں اور ان کی ذلت و رسوائی اپنی نہایت کو پہنچ جائے۔

یہ تو مسلمانوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی بات ہے، لیکن کونسا میدان ہے جس میں ان کا حال بہتر ہے؟ معاشی اعتبار سے وہ اتنے گئے گزرے ہیں کہ معاشی پس ماندگی میں اب کوئی قوم ان کی شریک و سہیم نہیں، تعلیمی صورت حال یہ ہے کہ اب نا خواندگی کی سطح مسلمانوں میں ہریجنوں سے بھی آگے بڑھ گئی ہے اور ہماری تعلیمی پس ماندگی ملک میں ضرب المثل بنی ہوئی ہے ، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اعلیٰ ملازمتوں میں ہمارا حصہ دو تین فیصد بھی نہیں رہ گیا ہے۔ اتر پردیش ملک کی اہم ترین ریاست ہے۔ جہاں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب بھی قابلِ لحاظ ہے، لیکن ریاست کے اضلاع میں سے ایک میں بھی مسلمان ڈی ایم نہیں ، کوئی کمشنر مسلمان نہیں ، کوئی آئی جی ، ڈی آئی جی مسلمان نہیں، ملک میں قومیائے ہوئے ہینکسن ہیں، جن میں 467/ ڈائرکٹرس ہیں، ان میں مسلمان صرف چار ہیں ۔

ہم ملک کی دوسری بڑی اکثریت ہیں، لیکن صورت حال یہ ہے کہ ہم سب سے بے وزن سیاسی قوت ہیں، ہندوستان میں سکھوں کی آبادی کا تناسب دو فیصد ہے اور مسلمانوں کی آبادی کا تناسب حکومت کے بیان کے مطابق بھی 13/فیصد ہے، جو یقیناحقیقت پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے، لیکن سکھ بھی اپنی ایک سیاسی قوت رکھتے ہیں ، اسی طاقت کا نتیجہ ہے کہ 31/اکتوبر1984 ء کے فساد میں مارے گئے سکھوں کے قاتلوں کو انہوں نے سزائیں دلوائیں اور ایک ایک مقتول کا معاوضہ دس دس لاکھ منظور کرایا۔ لیکن مسلمانوں کو فسادات میں جو نقصان پہونچے ، بعض اوقات تحقیقاتی کمیشن قائم ہوئے، لیکن اس کی رپورٹ پر کبھی عمل نہیں ہوا، اور بمبئی کے فساد کے سلسلہ میں شری کرشنار پورٹ کو تو نہایت ہی بے شرمی کے ساتھ حکومت مہاراشٹر نے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا، اور مسلمان کچھ نہیں کر سکے ، یہ تفاوت محض سیاسی بے وزنی کی وجہ سے ہے۔

آخر جو قوم صدیوں ، اس سرزمین پر فرماں روائی کر چکی ہے اور جس کی عزت و شوکت کے نقوش اور شرافت و انسانیت کے عکوس اس ملک کے چپہ چپہ پر ثبت ہیں، آج کیوں ذلت و انحطاط کے اس مقام تک پہنچ چکی ہے اور وقت کی ٹھوکریں بھی اس کو خواب خرگوش سے بیدار کرنے میں ناکام و نامراد ہیں؟ _ غور کریں تو ان سب کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے خدا سے اپنا رشتہ کمزور کر لیا ہے اور فرقہ بندیوں اور باہمی عدالتوں نے ہمیں سمندر کی سی طاقت رکھنے کے باوجود قطروں میں تقسیم کر دیا ہے، ایسا قطرہ جسے دھوپ کی ہلکی سی تمازت اور ہوا کا معمولی سا جھونکا بھی وجود سے محروم کر سکتا ہے۔ ہجرت کے تیسرے سال غزوہ اُحد کا واقعہ پیش آیا جس میں مسلمانوں کو ایک گونہ ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا اور ستر صحابہ شہید ہو گئے ، قرآن نے تفصیل سے اس واقعہ کا تذکرہ کیا ہے، قرآن میں اس شکست کے اسباب اور اثرات کا تجزیہ بھی کیا گیا ہے، اس واقعہ کے پس منظر میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّہِ جَمِیعًا وَلَا تَفَرَّقُوا﴾ (آل عمران:130) یعنی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور ٹکڑیوں میں بٹنے سے بچو۔ اللہ تعالیٰ نے ایک اور موقع سے بھی ارشاد فرمایا کہ آپس میں جھگڑو نہیں کہ آپسی نزاع تمہارے لیے ناکامی اور نقصان کا پیش خیمہ بنے گا اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی ﴿وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْہَبَ رِیحُکُمْ﴾․ (الانفال:46)

اس میں شبہ نہیں کہ اس وقت مسلمانوں کی بے وزنی، بحیثیت قوم کے ان کی بے وقعتی اور ہوا خیزی کا اصل سبب یہی آپسی نزاع و اختلاف اور بکھراؤ ہے۔ اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت یوں تو ہمیشہ اور ہر حال میں ضروری ہے ،لیکن ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے آج کے سیاسی پس منظر میں یہ اتنی بڑی ضرورت ہے کہ شاید ہی کبھی اس قدر ضروری رہا ہو۔ فرقہ پرستی کی گھنگھور گھٹائیں ہرسو چھائی ہوئی ہیں۔ پورے ملک کے افق پر زعفرانی شفق چھایا چاہتا ہے ، شمال و جنوب اور مشرق و مغرب کا کوئی فرق نہیں، پڑھے لکھے لوگوں، دانش وروں اور جاہل عوام سب پر فرقہ پرستی کا نشہ سا چھاتا جا رہا ہے اور اس آتش فشاں سے جو لا وا ابلنے والا ہے، یقینا مسلمان ہی اس کا نشانہ ہیں، اور ہماری صفوں میں اتحاد و یکجہتی اور اشتراک و تعاون کے سوا کوئی اور ہتھیار نہیں، جس کے ذریعہ اس فتنہ کا مقابلہ کیا جاسکے اور اس ملک کے امن و امان کی حفاظت ہو سکے، یہ سیلاب اتنا ہلاکت خیز ہے کہ اگر مسلمان اس کو روکنے میں کام یاب نہ ہوئے تو یہ نہ صرف مسلمانوں کے جان و مال کو، بلکہ ان کی تہذیب و ثقافت اور مذہبی وجود کو بھی خدا نخواستہ اور ہزار بار خدا نخواستہ بہا لے جائے گا۔

اسلام میں اتحاد امت کو جو اہمیت حاصل ہے وہ محتاج اظہار نہیں ، امت کی وحدت کو برقرا رکھنے کے لیے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمنے بعض ایسی چیزوں کی اجازت دی جو عام حالات میں گناہ، بلکہ گناہ کبیرہ ہے، جھوٹ بدترین گناہ ہے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمنے اس کی کس قدر مذمت فرمائی ہے؟ لیکن دو مسلمانوں میں اختلاف کو دور کرنے اور شکستہ دلوں کو ملانے کی غرض سے آپ صلی الله علیہ وسلم نے جھوٹ بولنے کی بھی اجازت دی، جب دو اشخاص و افراد کا اتحاد اتنا اہم ہے تو مسلمانوں کے دو گروہوں، جماعتوں اور تنظیموں کے اختلاف کو دور کرنا اور ان کو ایک صف میں کھڑا کرنا کتنا اہم عمل ہوگا کہ اس کے لیے تو شاید سو جھوٹ بھی جائز ہو ۔

اسی طرح برائی سے روکنا اور برائی کے خلاف آواز اٹھانا مسلمانوں کا مذہبی اور ملی فریضہ ہے، لیکن جہاں نھی عن المنکر فساد و اختلاف کا باعث بن جائے اور اندیشہ ہو کہ اس سے ملت کا شیرازہ بکھر جائے گا تو ایسے موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے وقتی طور پر بُرائی کو انگیز کر لینے اور تحمل برتنے کا حکم دیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک بار حضرت ابوذرغفاری رضی الله عنہسے فرمایا کہ ایک وقت آئے گا کہ تم پر ایسے امراء مسلط ہو جائیں گے جو تم سے وصول کریں گے اور اپنی عیش کو شیوں میں خرچ کریں گے، ایسے موقعہ پر تم کیا کرو گے؟ حضرت ابوذررضی الله عنہ عرض کیا کہ میں اس کو نوک شمشیر سے سیدھا کر دوں گا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا نہ کرنا ، بلکہ اس وقت کا انتظار کرنا جب تم بھی اللہ سے آملو اور یہ امراء بھی، منشائے نبوی یہ تھا کہ منکر اور برائی کو روکنے میں ایسے تشدد سے کام نہ لیا جائے جو امت میں تفریق اور انتشار کا باعث بن جائے، بلکہ ایسے موقع پر صبر و تحمل اور بردباری کا راستہ اختیار کیا جائے اور ان کے عمل کو اللہ کے سپرد کر دیا جائے کہ وہی احکم الحاکمین ہے۔

حضور صلی الله علیہ وسلمنے فرمایا کہ امام مقتدیوں کی نماز کا ضامن ہے، اسی لیے امام کی نماز فاسد ہو جائے تو مقتدی کی نماز آپ سے آپ فاسد ہو جاتی ہے۔ ارشاد ہے:”الامام ضامن“، اس لیے امام کو بہتر سے بہتر اوصاف کا حامل ہونا چاہیے ، وہ صاحب علم ہو ، عمدہ قرآن پڑھتا ہو، ورع و تقویٰ کا حامل ہو، لیکن اگر کوئی خراب شخص ہی امام بن جائے اور اس کو ہٹانے میں فتنہ و انتشار کا اندیشہ ہو تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسے شخص کے پیچھے بھی نماز پڑھی جائے ۔ ”صلوا خلف کل بر و فاجر“․ گویا امام کا نسبتاً کم بہتر ہونا امت کے اختلاف و انتشار اور نزاع وافتراق سے کمتر ہے، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امت کی وحدت اور اجتماعیت کو برقرار رکھنا کس قدر اہم اور ضروری ہے۔

ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ایک تو ہم چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹے ہوئے ہیں اور با ہم دست و گریباں ہیں، دوسرے مسلمانوں میں پڑھے لکھے سمجھ دار اور باشعور لوگ اس بات کی کوشش بھی نہیں کرتے کہ وہ مسلمانوں کے ایسے اختلاف کو دور کرنے اور ان کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کریں، حالاں کہ مسلمانوں کے درمیان صلح کرانا اور ان کی باہمی کدورتوں کو دور کرنے کی سعی کرنا بھی امت کے اجتماعی فرائض میں سے ایک ہے۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمکے نزدیک نماز میں جماعت کی کس قدر اہمیت تھی ، اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلمنے مرض وفات میں بھی جب بالکل مجبور ہو گئے تب ہی آپ صلی الله علیہ وسلم کی جماعت فوت ہوئی ،لیکن قبیلہ عمر و بن عوف کے مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم کو مسجد تشریف آوری میں تاخیر ہو گئی ، تاخیر کے باعث حضرت ابو بکر کو امام بنایا گیا، بعد میں آپ صلی الله علیہ وسلم شریک جماعت ہوئے ۔(بخاری عن سہل بن سعد ساعدی ) غرض ، یہ نہایت اہم اور مبارک کام ہے، جس کی طرف مسلمانوں کے ارباب حل و عقد کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

اتحاد اس طرح نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص یا کوئی تنظیم سوچنے لگے کہ تمام لوگ اپنے وجود کو اس کے وجود میں گم کر دیں اور اس کے تابع ہو کر اتحاد قائم کریں ، اس کی تنظیم اور جماعت کو اپنا مرکز تسلیم کر لیں ، ایسا خیال کرنا یقینا خود فریبی اور خوش فہمی ہی کی بات ہوگی ، اتحاد کی بنیاد یہی ہو سکتی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے وجود کو برداشت کرنا، بلکہ ایک دوسرے کے کام اور طریقہ کار کا احترام کرنا سیکھیں، اگر کام کے میدان الگ الگ ہوں تو اپنے اپنے دائرے بنائیں اور دوسرے کے کام کو بھی قدر و منزلت سے دیکھیں اور اگر ایک ہی میدان میں کام کر رہے ہیں تو اس میں بھی تقسیم ہو سکتی ہے، مثلاً اگر ایک شہر میں دو مسلمان سیاسی جماعتیں ہیں تو کیا یہ ممکن نہیں کہ اس شہر کے حلقہ ہائے انتخاب کو باہم تقسیم کر لیں، تا کہ مسلمانوں کا ووٹ بٹنے نہ پائے اور ہمارا اختلاف فرقہ پرست طاقتوں کو فائدہ نہ پہنچائے؟ اس کے لیے اپنی انا کو قربان کرنے ، خود پرستی کے خول سے باہر آنے اور جرات مندی کے ساتھ حقائق کو سمجھنے کی ضرورت پڑے گی، لیکن اگر ہماری سیاسی جماعتیں اس پر تیار ہو جائیں تو یہ نہایت ہی اہم قدم ہوگا۔ اس میں امت کی سرخ روئی بھی ہے اور ان جماعتوں کی بقا بھی۔

ہندوستان کا سیاسی نقشہ اس وقت جس تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے ، وہ کھلی کتاب کی طرح ہمارے سامنے ہے۔ ایسے لوگ جن کا ایک ساتھ بیٹھنا، سال دو سال پہلے ناممکن سمجھا جاتا تھا اور ایسی جماعتیں جن کے اشتراک کا چند ہفتوں پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا ، وہ آج ایک دوسرے سے بغل گیر اور سیاست کی بساط پر ایک دوسرے سے ہاتھ ملا کر کھڑے ہوئے ہیں، پھر مسلمان جن میں اتحاد کی کتنی ہی بنیادیں موجود ہیں، کیا وہ اپنے اختلافات کو بھلا کر ایک ساتھ نہیں بیٹھ سکتے ؟ مصیبت اور پریشانی شیر اور بکری اور سانپ اور نیولے کو بھی ایک جگہ جمع کر دیتی ہے، لیکن کیا ہم اس قدر بے حس اور بے شعور اور شخصی مفادات کے حریص اور لالچی ہیں کہ سیلاب بلا اور طوفان بے درماں بھی ہم کو متحد نہیں کر سکتا ؟ ۔ شاید علامہ اقبال کی روح ہم پر نوح کناں ہو اور استفسار کر رہی ہو کہ:
منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کیا بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک!
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں؟
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

اسلامی دنیا سے متعلق