کیا ابھی تک اس کا وقت نہیں آیا؟

idara letterhead universal2c

کیا ابھی تک اس کا وقت نہیں آیا؟

مولانا سید محمد الحسنی

دین ایک بہت وسیع لفظ ہے، اس سے مراد زندگی گزارنے کا طریقہ، دنیا میں رہنے کا سلیقہ اور معاش و معاد اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کے ہر شعبہ میں انبیائے کرام کی لائی ہوئی ہدایات و تعلیمات پر مکمل عمل درآمد ہے۔

دین کا یہ وہ تصور ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں ، ہر مسلک اورہر ادارہ اور ہر جماعت اور ہر طبقہ کے لوگ اس کے قائل ہیں، لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کی عملی زندگی میں ہمیں آج بڑی تقسیم اور تفریق نظرآتی ہے، انھوں نے زندگی کو مختلف خانوں میں بانٹ دیا ہے، کچھ شعبوں کے متعلق انھوں نے طے کر دیا ہے کہ یہ دینی شعبے ہیں، کچھ کے متعلق یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ یہ خالص دین کے دائرہ میں نہیں آتے ، مثلاً مسجد کے پہلو میں اس سے بڑی مسجد تعمیر کرنا، حج پر حج کرتے چلے جانا، میلاد کی محفلوں پر ہزاروں لاکھوں روپیہ صرف کر دینا ، بلکہ بعض اوقات عقیقہ ، قربانی اور شادی پر پانی کی طرح بے دردی سے روپیہ بہا دینا تو ان کے نزدیک دین ہے، لیکن دین کے احیا دین کی حفاظت و نصرت اور دین کی بقا و تحفظ کے لیے اگر کوئی اجتماعی کام کیا جائے تو وہ اس میں اپنا وقت اپنی محنت اور اپنا روپیہ صرف کرنا تقریباً بالکل بے سود سمجھتے ہیں، دینی مدارس اور دینی ادارے تبلیغی اور اشاعتی پروگرام کی بات تو ان کی سمجھ میں بمشکل کسی نہ کسی طرح آجاتی ہے، لیکن اگر کوئی ان کے سامنے مسلمانوں کی تنظیم اور ان کے سیاسی استحکام کی بات کرنے لگے اور اس کے طریقہ اور و سائل ان کے سامنے رکھے تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ باتیں دین کے دائرہ میں نہیں آتیں اور ان کا دل و دماغ اس کو قبول نہیں کرتا کہ وہ اپنا تعاون ، وقت اور کوشش اور روپیہ پیسہ اس پر ضائع کریں۔

دین کا صحیح تصور، دوسرے الفاظ میں صحیح دینی مزاج اس کے مقابلہ میں یہ ہے کہ دین کی جو ضرورت اس وقت پیش آئے ، اس کو پورا کیا جائے اور اس میں افتراق و انتشار کے بجائے اس اجتماعیت، عملی وحدت ،نظم وضبط اور اطاعت کا مظاہرہ کیا جائے جو صحابہ کرام کا امتیاز اور سچے مسلمانوں کا طریقہ ہے اور جس کو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے حضور یہ ان کے سامنے اس جملہ میں ادا کیا تھا۔

”فواللہ لئن سرت حتی تبلغ البرک من غمدان لنسیر معک وواللہ لئن استعرضت بنا ہذا البحر خضناہ معک․“ (خدا کی قسم اگر آپ ہم کو برک غمدان (ایک دور کا مقام ) تک بھی لے جائیں گے، تو ہم آپ کے ساتھ ہی چلیں گے اور خدا کی قسم! اگر ہم کو سمندر میں بھی لے جائیں گے تو ہم آپ کے ساتھ اس میں داخل ہو جائیں گے۔)

مسجد سے بڑھ کر مقدس اور حج سے زیادہ بابرکت چیز اور کیا ہو سکتی ہے، لیکن اگر کوئی شخص مسجد ہوتے ہوئے بلاضرورت ایک اور مسجد تعمیر کر دے یا سارے فرائض ترک کر کے اپنی ساری دولت حج پر خرچ کرنے لگے تو اس کو دینی کام نہ کہا جائے گا، خواہ اس کی صورت سو فیصدی دینی ہو، اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ دین ایک کل ہے اور نظام پر قائم ہے، ہمارے بچے دین سے بے بہرہ ہوتے چلے جائیں ، فسادات پر فسادات ہوں اور اس میں بے گناہ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جائے ، ان کی دینی شخصیت کو ختم کرنے اور مسخ کرنے اور ان کو نا کارہ، بے ضرر، مفلوج ، خوشامدی اور بے ضمیر بنانے کی بھر پور سازشیں ہر طرف کی جا رہی ہوں، تو اس وقت مسجدیں بنوانے اور نماز پڑھنے ، بلا ضرورت حج پر حج کرنے ، اور سونالانے ، شادی بیاہ اور خوشی کی دوسری تقریبات سے فائدہ اٹھا کر اپنی دولت کا مظاہرہ کرنے سے نہ ہمارے دین کا بھلا ہوگا نہ دنیا کا، بلا ضرورت شاندار مسجدیں بنوانا اور فرائض چھوڑ کر نفلی حج کرنا عین دینی جذبہ اور ثواب کی نیت کے ساتھ بھی غلط ہے، چہ جائیکہ وہ رویہ جو ہم نے اپنا رکھا ہے کیا یہی وہ قرض حسنہ ہے، جس کا خدا نے قرآن مجید میں مسلمانوں سے بار بار مطالبہ کیا ہے، دینی اور ملی اور سیاسی و اجتماعی امور کے ساتھ جو ہمارا معاملہ ہے اس سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم (نعوذ باللہ ) اللہ تعالیٰ کو رشوت دے کر اپنا کام نکالنا چاہتے ہیں، یہ رشوت نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک مسجد بنوادی، بس سارے اگلے پچھلے گناہ معاف، ایک مدرسہ کھول دیا اور ایک مولوی صاحب کو کہیں سے پکڑ کر اس میں رکھ دیا، بس فرصت، کسی مدرسہ کو دو چار روپیہ دے دیے، وہ بھی مدرسہ کے سفیر یا محصل کو بہت پریشان کرنے ، دوڑانے اور بعض وقت ذلیل کرنے کے بعد، اب نہ کچھ کرنے کی ضرورت ہے، نہ سوچنے سمجھنے کی، نہ مسلمانوں کے کسی دینی اور تعلیمی مسئلہ کو حل کرنے کی۔

لیکن ٹیکس سے بچنے ، لائسنس اور پرمٹ حاصل کرنے اور کاروبار کی توسیع میں سہولتوں کی فراہمی اور سازگار فضا کے حصول کے لیے اور جن لوگوں سے مستقبل بعید میں بھی کسی رعایت سہولت یا مالی فائدہ کی توقع ہے، ان کو خوش رکھنے کے لیے ہماری جیب بھی حاضر ہے اور تجوری بھی، نگاہیں بھی فرش راہ ہیں اور دل بھی۔
یہ حالت ہرگز وہ حالت نہیں ، جو خدا اور رسول کو مطلوب ہے، دین کی روح اور دین کا مطالبہ یہ ہے۔

﴿انفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَاہِدُوا بِأَمْوَالِکُمْ وَأَنفُسِکُمْ﴾․ (سورہ توبہ،آیت:41) (اٹھ کھڑے ہو ہلکے یا بھاری (خواہ کم سامان سے اور خواہ زیادہ)اور جہاد کرو اللہ کے راستہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ ) کے لیے کہا جائے تو نکلو لیکن اگر مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے کہا جائے تو پھر بات نہ ماننا ، اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ دین کی جس ضرورت کے لیے سینہ سپر ہو جانا چاہیے خواہ وہ تبلیغ ہو، مدرسہ ہو، مسلمانوں کی سیاسی تنظیم ہو یاکوئی صنعتی اورتجارتی اسکیم ہوں یا مسلمانوں کے دشوار اور پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کے لیے کسی مستقل فنڈ کا قیام ہو یا اردوزبان کا مسئلہ ہو یا بچوں کی تعلیم کا سوال ہو، الیکشن اور انتخاب ہو ، غرض کہ ہر وہ چیز جس کا تعلق اسلام اور مسلمانوں کی بقا و تحفظ سے ہے وہ اس جملہ میں شامل ہے ، ترتیب صرف یہ رہے گی کہ کس وقت کسی چیز کی ضرورت زیادہ ہے، اس بات کا تعلق عقل سلیم اور فہم وشعور سے بھی ہے اور اجتماعیت اور قیادت سے بھی ہمارا بھی یہ فرض ہے کہ ہم سمجھیں کہ کس وقت کسی چیز کا مطالبہ ہے کس موقع پرکیا قدام کرنا چاہیے ، حالات کا تقاضا اور واضح اشارہ کیا ہے؟ اگر اخلاص کے ساتھ ہم اس عقل سلیم اور فہم و شعور سے کام لیں ، جس سے خدا نے ہر انسان کو نوازا ہے، تو سارے مسائل خود بخود حل ہوتے جائیں گے اور ہر بات ہماری سمجھ میں آجائے گی، آخر جب تجارت اور کاروبار اور اس طرح کے دوسرے شعبوں میں ہماری عقل خوب کام کرتی اور ہمارا ذ ہن اس پر خوب چلتا ہے کہ ہمیں کس موقع پر کیا کام کرنا چاہیے کہیں ہم اس طرح ہاتھ کھول کر خرچ کر دیتے ہیں کہ دیکھنے والوں کو حیرت ہوتی ہے، کبھی ہماری جیب سے ایک پیسہ بھینکلنا دشوار ہوتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم خوب سمجھتے ہیں کہ جتنا ہم آج خرچ کر رہے ہیں کل اس سے کہیں زیادہ خالص نفع کی شکل میں وصول کر لیں گے، ساری زندگی ہی ضرورت اور احساس ضرورت کا نام ہے، ہمیں پیاس لگتی ہے تو ہم پانی پیتے ہیں، کھانا نہیں کھانے لگتے، بھوک لگتی ہے تو پہلے کھانے کی فکر کرتے ہیں ،پانی کی بعد میں، پیٹ میں درد ہوتا ہے تو دردسر کی دوا نہیں کھاتے ، پیٹ ہی کا علاج کرتے ہیں، یہ تو ضرورت کی بات ہوئی ، احساس ضرورت کا حال یہ ہے کہ بعض وقت کام کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اپنی طبیعت کا اندازہ کر کے ہم آرام کو ترجیح دیتے ہیں ، ایسا ہم اس لیے کرتے ہیں کہ اس کے بعد ہمیں اس سے زیادہ نازک اور اہم کام در پیش ہوتا ہے اور اس کے لیے یہ درمیانی آرام جس میں تھوڑا بہت وقتی نقصان نظر آتا ہے، ہمیں ناگوار نہیں ہوتا ، اس کے علاوہ سردی گرمی کے احساس کے ساتھ ہماری کیفیات اور حالات بھی بدلتے رہتے ہیں، لیکن دین کے معاملہ میں اور اپنی اجتماعی اور ملی مسائل پر قابو پانے کے لیے ہم کبھی یہ سوچنے تک کی زحمت نہیں کرتے کہ ملت کو اس وقت کسی چیز کی ضرورت ہے، کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہماری کوشش، ہمارا روپیہ اور ہماری عقل و ذہانت اور قوت و صلاحیت بے جگہ صرف ہو رہی ہو اور ضائع ہورہی ہو یا محض سمت ٹھیک نہ ہونے اورضرورت کا صحیح احساس نہ کرنے کی وجہ سے الٹی نقصان پہنچا رہی ہو؟

اپنی روز مرہ کی زندگی میں ہم اگر سردی سے بچنے کے لیے شام کو لحاف یا کمبل اوڑھ لیتے ہیں توصبح کو فوراً اتار پھینکتے ہیں، اس لیے کہ حالات اور موسم کا یہی تقاضا ہوتا ہے، لیکن اپنی سیاسی اور اجتماعی زندگی میں ہم نے ایک ایسا کمبل اوڑھ رکھا ہے جو نہ ہمیں چھوڑتا نہ ہم اسے چھوڑ پاتے ہیں ، رات کی سردی ہو یا دو پہر کی گرمی ، ہم اس لبادہ کو اتارنے کی ضرورت نہیں سمجھتے ہیں اور اگر کوئی اس کی دعوت دیتا ہے تو برا مانتے ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان مسائل میں بھی جو روز روشن کی طرح صاف اور واضح ہیں اور ان کھلی ہوئی حقیقتوں میں بھی جن میں کسی سچے اور مخلص انسان کو کوئی شک یا اختلاف نہ ہونا چاہیے ، یہ کمبل یا لبادہ ہمارا پیچھا نہیں چھوڑ تا ریا ہم اس کو نہیں چھوڑتے ، ہم دین کے کسی سند کے بغیر اپنے بنائے اور تراشے ہوئے خانوں میں خود ہی قید ہیں اور ان خانوں سے باہر اگر کسی چیز کی دعوت ہمیں دی جاتی ہے، کوئی آواز ہمارے کانوں سے ٹکراتی ہے، تو وہ ہمیں بہت نامانوس، اجنبی اور بعض وقت مشکوک اور مشتبہ اور کبھی کبھی مضر اور مہلک معلوم ہوتی ہے، ہم میں سے جو اپنے طلسم میں جتنا گرفتار ہے، حالات کے ادراک ، بروقت اور صحیح فیصلہ کی صلاحیت اور اخلاقی جرات سے اسی قدر دور اور محروم ہے۔

ہم نے شاید اپنے لیے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم دین کو اپنا تابع بنا رکھیں گے اور اس کی آواز پراسی وقت تک لبیک کہیں گے، جس وقت تک وہ ہمارے مزاج کا ساتھ دے گا۔ ہم نے شاید اپنے لیے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم کو اس طرز زندگی پر ہمیشہ قائم رہنا ہے، جو گزشتہ برسوں سے مسلمانوں کا شعار ہے، یعنی بد سے بدتر حالت اور ہر نوع کی ذلت کے ساتھ مستقل مفاہمت یا بقائے باہمی، تا کہ ہماری روزی ، ہماری جیب، ہمارا معدہ اور شکم، ہمارا بزنس اور کاروبار اور ہمارے شخصی یا زیادہ سے زیادہ گروہی مفادات محفوظ رہیں، لیکن کیا دین کو اپنا تابع بنا کر ہم خدا کو راضی رکھنے کی توقع رکھتے ہیں اور کیا کاروبار اور معیار زندگی کی حفاظت اور ضمانت کے لیے یہ طرز زندگی ہماری کچھ بھی مدد کر سکے گا ، جو قرآن مجید کی رو سے قابل مذمت اور دنیا والوں کی نظر میں بھی حقیر اور بے قیمت ہے اور جس کو کچھ لوگ منافقت، خوشامد ، بے ضمیری، مفاد پرستی سے تعبیر کرتے ہیں، کچھ لوگ بے حسی اور بے شعوری سے اور اسلام اورمسلمانوں کے حق میں سخت ترین کو تا ہی ہے۔

کیا ابھی تک اس کا وقت نہیں آیا کہ مسلمان اہل ثروت اس غلط طرز زندگی کو خیر باد کہیں، جس نے ہندوستان کے مسلمانوں کو خود اپنی نظروں میں شرمندہ اور ذلیل کر دیا ہے، آج اس بھری دنیا میں جہاں خدا اور رسول اور آخرت کی جواب دہی پر یقین نہ رکھنے والے لوگ اپنی سیاسی اور قومی ضرورتوں کے لیے آسانی کے ساتھ کثیر سرمایہ جمع کر لیتے ہیں، مسلمان اپنے نادان اہل ثروت کی بدولت ایک ایسی رسوا کن اور مضحکہ خیز صورت حال سے دوچار ہیں، جس کی تصویر کشی نہ آسان ہے نہ خوش گوار، یہ ہماری قومی زندگی اور دینی بصیرت کا وہ المیہ ہے جس کے لیے الفاظ کافی نہیں اور جس کا تذکرہ بہتوں کے لیے باعث تکلیف بن سکتا ہے۔
          اند کے پیش تو گفتم غم دل ترسیدم
          کہ آزردہ شوی، ورنہ سخن بسیار است

مقالات و مضامین سے متعلق