کسبِ حلال کی اہمیت، فضیلت اور شرعی حدود

idara letterhead universal2c

کسبِ حلال کی اہمیت، فضیلت اور شرعی حدود

مفتی محمد راشد ڈسکوی

اسلامی نقطہ نظر سے کسب یعنی کمائی کرنے کا محمود ومطلوب ہونا تو واضح ہے۔ جاننا چاہیے کہ کسب یعنی کمائی کی دو قسمیں ہیں: ایک حلال کمائی اور دوسری حرام کمائی، شریعت نے جس کمائی کو پسند کیا ہے اور اس کی ترغیب دی ہے وہ حلال کمائی ہے، حرام نہیں، چناں چہ حلال کمائی کی طلب کو اُجاگر کرنے کے لیے قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں جا بجا انسانوں کی راہ نمائی کی گئی ہے، اس کے لیے جہاں اللہ تعالیٰ کے ارشادات واحکامات نظر آتے ہیں وہاں ہی انبیائے کرام علیہم السلام کے اَقوال واَفعال سے بھی حلال کمائی کے پسندیدہ ہونے اور اسے اختیار کرنے کا علم ہو تا ہے اور اس کے برعکس حرام کمائی کی مذمت، اس کی بے برکتی، اس کے نقصانات اور دنیا وآخرت میں اس کا نقصان دہ ہونا بھی پوری طرح واضح کیا گیا ہے، ذیل میں رزق حلال کی اہمیت، ضرورت اور اس کے دنیوی واخروی فوائد پر کچھ گفتگو کی جائے گی، سب سے پہلے اس موضوع پر اللہ تعالیٰ کے ارشادات پر غور کیا جائے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ اپنی کتاب قرآن حکیم میں ساری انسانیت کوپھر انسانوں میں سے سب سے افضل انبیائے کرام کو اور پھر ان کے بعد ایمان والوں کو جدا جدا خطاب کر کے رزق حلال اور پاکیزہ ، طیب وطاہر اشیاء کے حاصل کرنے اور اختیار کرنے کی طرف متوجہ فرما رہے ہیں:
 
 سارے انسانوں کے نام حلال کھانے کا حکمِ خداوندی
 
∗…اللہ تعالی نے انسانیت کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: 
 
﴿یَآ اَیُّہَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلَالًا طَیِّبًا وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ اِنَّہ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ﴾ (البقرة:168)
 
 ترجمہ:” اے دنیا بھر کے لوگو! تم زمین میں سے صرف وہ چیزیں کھاؤ جو حلال اور پاک ہوں اور تم شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو،کیوں کہ وہ تمہارا کُھلا دشمن ہے“۔
 
 انبیاء ورسل علیہم السلام کے نام حلال کھانے کا حکمِ خداوندی
 
∗…اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں انبیاء ورسولوں علیہم الصلوٰة والسلام کی مقدس و مطہر جماعت کو قرآن مجید میں خطاب فرمایا:
 
﴿یَآ اَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ﴾․(المومنون:51)
 
 ترجمہ: اے رسولو! صاف وستھری چیزیں کھاؤ اور اچھے کام کرو، بے شک میں جانتا ہوں جو تم کرتے ہو۔
 
اللہ تعالیٰ نے ہر نبی ورسول علیہ السلام کے ساتھ اس کے زمانہ میں یہ خطاب کیا اور اس کو یہ نصیحت فرمائی اور قرآن پاک کی اس آیت مبارکہ میں اپنے اس حکم کو جمع کے صیغے سے اس لیے ذکر فرمایا کہ سننے والا یہ جان لے کہ یہ وہ حکم ہے جو تمام انبیاء ورسل علیہم السلام کو دیا گیا ہے اور سب کو اس حکم کی وصیت کی گئی ہے ، اس لیے یہ حکم اس لائق ہے کہ تمام امتیں اس حکم پر مضبوطی کے ساتھ عمل پیرا ہوں۔ یعنی اس خطاب سے مقصود انبیاء ورسل علیہم السلام کی وساطت سے ان کی امتوں تک پیغام پہنچانا ہے کہ رزق حلال وطیب کھائیں اور حرام و ناپاک رزق سے پرہیز کریں اور اعمال صالحہ کریں۔
 
حضرت شدادبن اوس رضی اللہ عنہ کی بہن حضرت اُم عبداللہ رضی اللہ عنہانے حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں افطاری کے وقت دودھ کا ایک پیالہ بھیجا،اس دن آپ صلی الله علیہ وسلم روزے سے تھے،سخت گرمی کا موسم اور طویل دن تھا،آپ صلی الله علیہ وسلم نے دودھ قاصد کو دے کر واپس بھیج دیا کہ یہ پوچھ کر آؤ کہ یہ دودھ تمہارے پاس کہاں سے آیا ہے؟ حضرت اُم عبداللہ رضی اللہ عنہا نے جواب بھیجا: ”مِنْ شَاةٍ لِي، قَالَ: أَنّٰی لَکِ ہَذِہِ الشَّاةُ؟ قَالَتِ: اشْتَرَیْتُہَا مِنْ مَالِي، فَشَرِبَ، فَلَمَّا أَنْ کَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَتْ أُمُّ عَبْدِ اللّٰہِ رَسُولَ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! بَعَثْتُ إِلَیْکَ بِذَلِکِ اللَّبَنِ مُرْثِیَةً لَکَ مِنْ شِدَّةِ الْحَرِّ وَطُولِ النَّہَارِ فَرَدَّدْتَہَا إِلَيَّ مَعَ الرَّسُولِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله علیہ وسلم : ”بِذَلِکَ أُمِرَتِ الرُّسُلُ أَلَّا تَأْکُلَ إِلَّا طَیِّبًا وَلَا تَعْمَلَ إِلَّا صَالِحًا“․ (المستدرک علی الصحیحین، الرقم: 7159)
 
ترجمہ: کہ یہ دودھ میری بکری سے حاصل ہوا ہے،قاصد نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر بتایا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے قاصد کو دوبارہ واپس بھیجا کہ یہ معلوم کرو کہ وہ بکری تجھے کہاں سے ملی ہے ؟ حضرت ام عبداللہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ وہ بکری میں نے خریدی ہے۔ تب آپ صلی الله علیہ وسلم نے وہ دودھ پی لیا۔ دوسرے دن حضرت اُم عبداللہ رضی اللہ عنہا آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یارسول اللہ ! میں نے سخت گرمی اور لمبے دن کی وجہ سے آپ کی خدمت میں دودھ بھیجا تھا،مگر آپ صلی الله علیہ وسلم نے واپس کر دیا ؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ رسولوں (علیہم السلام) کو یہی حکم ہے کہ صرف پاکیزہ چیز ہی کھاؤ اور نیک عمل ہی کرو “۔
 
خاص ایمان والوں کے نام حلال کھانے کا حکمِ خداوندی 
 
∗…اور پھر اس کے بعد قرآن مجید میں اس امت محمدیہ کے اہل ایمان کو خاص طور پر جداگانہ خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
 
﴿یَآ اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَاشْکُرُوْا لِلّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ﴾․(البقرة:172)
 
ترجمہ: ”اے ایمان والو! اگر تم اللہ ہی کی عبادت کرنے والے ہو تو ہم نے تمہیں جو پاکیزہ چیزیں دی ہیں،انہی میں سے کھاؤ اور اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے رہو “۔
 
مذکورہ بالا اور دیگر بہت سی آیات مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ :
∗…رزق حلال و طیب حاصل کرنا اور استعمال کرنا حکم خداوندی ہے، حصول حلال کی کوششوں میں لگنے والی کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد ہوتی ہے، رزق حلال کھانے سے نیکیوں اور عمل صالح کی توفیق ملتی ہے،گویا کہ رزق حرام سے بچنے والے انسان کے لیے نیک اعمال کرنے آسان ہو جاتے ہیں، رزق حلال سے تقوی و طہارت کا حصول اور شیاطین کی اتباع سے بچاوٴ ہوتا ہے۔اور رزق حلال وہ عظیم دولت ہے کہ جس کو یہ حاصل ہو جائے اُسے اور کچھ نہ ملے تو کوئی پروا نہیں،یعنی انسان رزق حلال کی برکت سے دنیوی اور اخروی نقصانات سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
 
حلال کمائی کے حصول میں مزاج شریعت کی رعایت
 
قرآن مجید کے احکامات کی روشنی میں ہی جناب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنی امت کو اپنے ہاتھ سے کماکر کھانے کی ترغیب دی، دوسروں کے سامنے مانگنے کے لیے ہاتھ پھیلانے سے روکا، اس کی مذمت بیان فرمائی اور امت کو اس مقام پر لانے کی محنت فرمائی کہ حلال کما کر خود بھی عزت سے زندگی گزارو اور دوسروں کی بھی حاجات پوری کرنے کا ذریعہ بنو اور اس خرچ کے ذریعے اپنی حیات اور بعد الممات کے لیے صدقہ جاریہ کی بے شمار صورتوں سے فائدہ اٹھاوٴ۔چناں چہ رزق حلال کی ترغیب دیتے ہوئے انسان کو اس معاملے میں افراط وتفریط سے بچنے کی طرف سے متوجہ کیا گیا،اس بارے میں کچھ اصولی باتیں ذیل میں ذکر کی جا رہی ہیں، انہیں ملاحظہ فرمائیں: 
ؤ… کمائیں اور حلال طریقے سے حلال اشیاء حاصل کریں، یعنی حلال اشیاء کا حصول اور وہ بھی حلال طریقے سے، مثلا: کھانے پینے کی اشیاء حلال تو ہوں، لیکن انہیں چوری کر کے حاصل کرنا یا کمائی تو کرنا، لیکن دھوکہ، خیانت، جھوٹ اور کمانے کے فاسد طریقوں سے کمانا، یہ نہ ہو۔
 
 حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جناب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”أَرْبَعٌ إِذَا کَانَ فِیکَ لَا یَضُرُّکُ مَا فَاتَکَ مِنَ الدُّنْیَا: حِفْظُ أَمَانَةٍ، وَصِدْقُ حَدِیثٍ، وَحُسْنُ خَلِیقَةٍ، وَعِفَّةُ طُعْمَةٍ“․ (المستدرک علی الصحیحین، الرقم: 7876)
 
ترجمہ: ” اگر تیرے اندر یہ چار باتیں ہوں تو دنیا تجھ سے فوت بھی ہو جائے تو تجھے کوئی نقصان نہیں، ایک: امانت کی حفاظت، دوسری : بات میں سچائی،تیسری: اچھے اخلاق اور چوتھی : کھانے میں پاکیزگی (یعنی رزق حلال)۔
 
∗…اور اس کمانے میں اتنا زیادہ بھی نہیں لگنا کہ اپنے اصل فرائض منصبی سے ہی غافل ہو جائیں، ایک حد تک کمانا ہے، موجودہ زمانے میں جیسے کمائی کرنے والے نمازوں سے بھی غافل، روزوں کے بھی تارک، دعوت وتبلیغ، حصول علم، دین اور جہاد وغیرہ جیسے امور سے بھی غافل اور ان کے تار ک وغیرہ نظر آتے ہیں، ایسا نہ ہو۔کمائی کے ساتھ ساتھ اِن سب اُمور کے لیے بھی وقت نکالیں، ورنہ ایک وقت آئے گا کہ یہ مال؛ اس شخص کی سب کچھ یعنی اَعمالِ صالحہ سے چھٹی کروا دے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک مقام ایسا آئے کہ یہ دائرہ اسلام سے ہی باہر نکل جائے گا۔
 
ایک طبقہ تو نماز کی طرف آتا ہی نہیں، کچھ نماز ادا کرتے ہیں، لیکن کاروباری مصروفیات کی وجہ سے فارغ ہو کر اکیلے ہی پڑھ لیتے ہیں، کچھ مزید احتیاط کر لیں تو اپنی کاروباری مراکز میں ہی نماز باجماعت کا نظم بنا لیتے ہیں، یہ سب کچھ درجہ بدرجہ مسجد، جماعت یا نماز کو ہی چھوڑ دینے کی مختلف صورتیں ہیں،جو یقینا تحسین اور حوصلہ افزائی کے قابل نہیں ہیں، اسی طرح اس سے بھی قبیح صورت؛ جمعہ والے دن دیکھنے میں آتی ہے کہ دکان دار؛ ایک فرد کو سب سے نزدیکی مسجد میں جمعہ ادا کرنے کیلیے بھیج دیتے ہیں، دوسرے کو اس کے بعد جمعہ قائم ہونے والی مسجد میں بھیج دیتے ہیں اور اسی طرح تیسرے فرد کو تیسری مسجد میں بھیج دیتے ہیں، یہ سب کچھ کیا ہے؟! یہ ہم اپنے آپ کو دھوکہ دینے والے ہیں، کاروبار پر حرف نہیں آنا چاہیے، ہم چاہے بھلے سے بنی اسرائیل قوم سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر حیلے بہانے اختیار کرتے رہیں۔اپنے آپ کو اس سب سے بچانا ہے، کمائی کریں؛ لیکن جب نماز کا وقت آ جائے تو اب چھٹی، اب پہلے اللہ تعالیٰ کا نماز والا حکم ہونا چاہیے، اُس کے بعد رزق حلال کے حصول کے لیے جستجو۔
 
∗… مخصوص (یعنی حلال)طریقے سے کماناہے، یعنی کمائی کے شرعی قواعد وضوابط اور احکامات کو سامنے رکھتے ہوئے کمائی کرنا، حرام ذرائع آمدن سے بچنا اور جو بھی حلال ذریعہ آمدن اختیار کیا جائے، اس میں شریعت کی تعلیمات کو سیکھ کر کمائی کرنا۔اگر اس شعبے کے علم کو سیکھے بغیر اس کمائی کے ذریعے میں لگا گیا تو سخت خطرہ ہے کہ ایسا شخص اپنی کم علمی کی وجہ سے حرام ذرائع کے حصول میں جا پڑے اور اللہ کا مجرم بن جائے، جیسا کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ ”یَطُوْفُ فِی الْأَسْوَاقِ یَضْرِبُ بَعْضَ التُّجَّارِ بِالدُّرَّةِ“بازاروں میں چکر لگاتے تھے اور بعض تاجروں کو کو اپنے درے سے مارتے تھے اورفرمایا کرتے تھے : ”لا یَبِعْ فِيْ سُوْقِنَا إِلَّا مَنْ قَدْ تَفَقَّہَ فِي الدِّیْنِ“․ (سنن الترمذي، الرقم: 487)
 
کہ ہمارے بازار میں وہی شخص خرید وفروخت کیا کرے، جس نے اپنے اس کاروبار سے متعلق علم حاصل کر لیا ہو۔امام بغوی نے اپنی شرح السنہ میں اوپر ذکر کردہ الفاظ کے بعد مزید یہ الفاظ بھی نقل کیے ہیں : ”وَإِلَّا أَکَلَ الرِّبَا شَآءَ أَوْ أَبٰی“․ (شرح السنة للبغوي، الرقم:810)کہ اگر اس نے اس کاروبار کے متعلق علم حاصل نہ کیا تو وہ چاہنے یانا چاہنے کے باوجود سود کھانے کے گناہ میں مبتلا ہو جائے گا۔ 
 
∗… مخصوص وقت میں اور مخصوص وقت ہی تک کمانا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے کام کے لیے دن بنایا ہے، رات نہیں، رات آرام کے لیے بنائی ہے، زمانے کی موجودہ روِش فطرت کے خلاف ہے کہ رات گئے تک کاروباری مصروفیات اور پھر دن چڑھے تک سوتے رہنا ، یہ طرزِ زندگی مزاجِ شریعت کے خلاف ہے اور بے برکتیاں پیدا کرنے والا ہے۔
 
اور پھر دن میں بھی کمائی کے لیے بابرکت وقت صبح فجر کے بعد کا قرار دیا گیا ہے، چناں چہ حتی الوسع ان اوقات میں کمائی کی صورتوں کو قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، نمازوں کے اوقات میں کاروبار کو ترک کر دیا جائے، بالخصوص جمعہ والے دن، نماز جمعہ کی اذان اول کے وقت بہر حال کاروبار ترک کر دیا جائے، پھر نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد دوبارہ تجارت وغیرہ میں مشغول ہونے کی اجازت ہے۔ملاحظہ ہو فرمانِ عز وجل:﴿فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَ ابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْن﴾․ (الجمعة:10)ترجمہ: پھر جب نماز (جمعہ)پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤ اوراللہ کا فضل تلاش کرو اوراللہ کو بہت یاد کرو اس امید پر کہ تم کامیاب ہوجاؤ۔
 
﴿فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْض﴾ِ میں مذکور امر، امرِ وجوبی نہیں کہ فرض نماز کا سلام پھیرتے ہی مسجد سے فوراً نکلنا لازم ہو، بلکہ یہ امرِ اباحت ہے ،جیسا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں فرمایا(تفسیر الخازن: 4/ 294)۔
 
الغرض! جمعہ والے دن کمائی کرنے کا حکم یہ تھا جو مذکور ہوا، جب کہ ہمارا عمل اس کے برعکس نظر آتا ہے، جمعہ والے صبح سے دوپہر تک تو اکثر پیشہ ور اپنے اپنے کسبِ معاش میں مشغول رہتے ہیں اور جمعہ کے بعد کاروبار سے چھٹی کر لیتے ہیں، حالاں کہ مذکورہ بالا آیت مبارک کی روشنی میں کسب معاش کے لیے جمعہ والے دن افضل وقت ؛جمعہ کے بعد کا سمجھ میں آتا ہے، اُس وقت کو اِس طرح چھٹی کر کے ضائع نہیں کر دینا چاہیے۔
 
اکابر علمائے کرام اس چیز کی ترغیب دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ صبح؛ اشراق یاچاشت کے وقت سے عصر کے وقت تک کمائی میں لگا جائے اور اس کے بعد عصر سے لے کر عشاء تک اپنا وقت دین کی محنت دعوت وتبلیغ اور حصول علم دین میں مصروف کیا جائے اور نماز عشاء کے بعد ایک مخصوص وقت تک اہل خانہ کے ساتھ میل ملاپ رکھا جائے، پھر اس کے بعد جلد سو کر رات کے آخری پہر اللہ تعالیٰ کے حضور سر بسجود ہوا جائے، اللھم وفقنا لما تحب وترضیٰ یہ دنیا انہماک کی چیز نہیں ہے کہ دن رات آدمی اسی دنیا کی فکر میں منہمک رہے، اس کے علاوہ کوئی فکر اور دھیان انسان کے دماغ میں نہ رہے، جناب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی دعاوٴں میں سے ایک لمبی دعاہے، جس کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ کم ہی ایسا ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی مجلس سے اپنے صحابہ کے لیے یہ دعا کیے بغیر اٹھے ہوں، اس دعا کا ایک جملہ یہ ہے: ”اَللّٰھُمَّ … لَا تَجْعَلِ الدُّنْیَا أَکْبَرَ ہَمِّنَا وَلَا مَبْلَغَ عِلْمِنَا“․ (سنن الترمذي، الرقم:3502)
 
ترجمہ: ” دنیا کو ہمارا بڑا غم/ مقصد نہ بنا دے اور نہ ہمارے علم کی انتہا بنا (کہ ہمارا سارا سیکھنا سکھانا صرف دنیا کی خاطر ہو) “۔
 
اس دعا میں ہمارے لیے پیغام ہے کہ ہم دنیا کمانے کو ہی اپنا مقصد اصلی نہ بنا لیں، جیسا کہ آج ہم نے اپنے دماغوں پر یہ مسلط کیا ہوا ہے کہ پیسہ کہاں سے آئے اور اس میں اضافہ کس طرح ہو، اچھا محل بنگلہ کیسے بنے، مہنگی سے مہنگی کار گاڑی کیسے حاصل ہو، جدید سے جدید موبائل وغیرہ کس طرح حاصل کیا جائے؟ چناں چہ اس غم اور اس مقصد کو پورا کرنے کی خاطر نہ ہم دن دیکھتے ہیں ، نہ رات، نہ حلال حاصل کی پروا ہے اور نہ حرام سے بچنے کی فکر۔یاد رکھیں! یہ اسلام کی تعلیمات نہیں ہیں، یہ جناب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا طرز عمل نہیں ہے۔
 
حضرت جبیر بن نفیر رضی اللہ عنہ سے مرسلا مروی ہے کہ جناب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مَا أُوحِيَ إِلَيَّ أَنْ أَجْمَعَ الْمَالَ وَأَکُونَ مِنَ التَّاجِرِینَ، وَلَکِنْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنْ ﴿سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَکُنْ مِنَ السَّاجِدِین. وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتَّی یَأْتِیَکَ الْیَقِیْنُ﴾“․ (مشکوٰة المصابیح، الرقم: 5506)
 
ترجمہ: ”میری طرف یہ وحی نہیں کی گئی کہ میں مال جمع کروں اور تاجروں میں سے ہو جاوٴں، بلکہ میری طرف تو یہ وحی کی گئی ہے کہ ”اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کریں اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں، حتیٰ کہ آپ وفات پا جائیں۔“
 
ملا علی قاری  اس حدیث میں موجود لفظ: ”مَا أُوحِيَ إِلَيَّ أَنْ أَجْمَعَ الْمَالَ وَأَکُونَ مِنَ التَّاجِرِینَ“ کے تحت لکھتے ہیں کہ اس سے مراد مال کو جمع کرنے میں غلو کرنے اور تجارت میں غلو کی حد تک مشغول رہنے کی وحی نہیں بھیجی گئی، (مرقاة المفاتیح: ۸/۳۲۵۹)یعنی: ضرورت کی حد تک مال کو جمع رکھنا یا تجارت میں لگنا جائز ہے، لیکن اس میں ایسا غلو کرنا کہ دین کے دیگر فرائضِ منصبیہ میں ہی کوتاہی ہونے لگے، یہ جائز نہیں ہے۔
 
∗… کمائے ہوئے مال کی محبت کو دل میں رچا بسا لینے سے بچنا ہے، غور کیا جائے کہ قدم قدم پر اسلام میں انسان پر خرچ کرنے کو لازم کیا گیا ہے، اُس کو صدقہ وخیرات کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، کہیں روزانہ صدقہ نفلی کی ترغیب ہے تو کہیں صدقہٴ وجوبی کی، اس میں مال کی زکوٰة بھی ہے اور فصلوں کا عشر بھی، ا س میں انسانی جرائم کے پیش آنے کی صورت میں تعزیراتی خرچ کفارہٴ (قسم، صوم ، ظہار) اور دیت وضمان وغیرہ بھی ہے، انسانی فلاح وبہبود میں خرچ کرنا بھی ہے اور اسلامی اوقاف مساجد ومدارس، دعوت وتبلیغ اور جہاد میں خرچ کرنا بھی ۔ یہ سب اس لیے کہ اس مال کی محبت ہمارے دل میں رچ بس نہ جائے، دل میں تو اللہ اور اس کے رسول کی محبت ہی ہونی چاہیے اور بس۔
 
حلال کمائی سے خرچ کرنے کی فضیلت
 
ایک روایت میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جناب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”أَیُّمَا رَجُلٍ کَسَبَ مَالًا مِنْ حَلَالٍ فَأَطْعَمَ نَفْسَہَ، وَکَسَاہَا، فَمَنْ دُونَہُ مِنْ خَلْقِ اللّٰہِ لَہُ زَکَاةٌ“․(المستدرک علی الصحیحین، الرقم: 7175) ترجمہ: ” جس آدمی نے حلال مال کمایا،پھر اس کو اپنی ذات پر(خرچ کیا) یا دوسری اللہ تعالی کی مخلوق کو کھلایایا (اس مال میں سے) کپڑا پہنایا تو اُس کے لیے یہ چیز پاکیزگی وطہارت کا ذریعہ بنے گی“۔
 
خرچ کرنے کے اعتبار سے قرآن وسنت کی روشنی میں یہ منزل دکھائی دی گئی ہے کہ اپنی آمدن کے تین حصے کیے جائیں، ایک حصہ: راہِ خدا میں خرچ کیا جائے، ایک حصہ: اپنے اہل خانہ، اعزہ واقربا پر خرچ کیا جائے اور ایک حصہ : واپس اپنے ذرائع آمدن میں ہی لگا یا جائے۔راہِ خدا اور اہل خانہ میں حق طریقے سے خرچ کرنے کو اللہ تعالیٰ کے پاس جمع ہونے اور انسان کی اصل ضرورت پیش آنے کے وقت یعنی روزِ محشر میں اصل خرچ کردہ مقدار سے کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس مل جانا بتلایا گیا ہے۔
 
حضرت حسن رحمہ اللہ سے مرسلا ہے کہ جناب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا ارشاد نقل فرمایا:”یَا ابْنَ آدَمَ! أَوْدِعْ مِنْ کَنْزِکَ عِنْدِيْ لَا حَرَقَ، وَلَا غَرقَ، وَلَا سَرَقَ، أُوفِیکَہُ أَحْوَجَ مَا تَکُونُ إِلَیْہِ“․ (شعب الإیمان للبیھقي، الرقم: 3071)․ 
 
ترجمہ: ” اے آدم کے بیٹے!اپنے خزانے میں سے میرے پاس اپنے مال میں سے کچھ جمع کرواتے رہو، (میرے پاس حفاظت کا ایسا نظام ہے کہ میرے پاس تمہارا جمع کیا ہوا مال) نہ آگ میں جلے گا، نہ پانی میں ڈوبے گا اور نہ ہی وہ چوری ہو سکے گا، میں اُس وقت تمہیں (تمہارا میرے پاس جمع کروایا ہوامال پورے کا)پورا واپس لوٹا دوں گا (اس وقت) جب تمہیں اس مال کی (دنیا سے) زیادہ ضرورت ہو گی“۔
 
کسبِ حلال میں لگنے کی شرعی حیثیت
 
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”طَلَبُ کَسْبِ الْحَلَالِ فَرِیضَةٌ بَعْدَ الْفَرِیضَةِ “․ (السنن الکبریٰ للبیہقي، الرقم: 11695) ترجمہ:” حلال روزی کمانافرائضِ (لازمہ)کے بعدفریضہ ہے“۔
 
یہ حدیث مبارک الفاظ کے اعتبار سے تو بہت مختصر سی حدیث ہے، لیکن یہ چھوٹا سا جملہ اپنے اندر علوم ومعارف کا ایک خزانہ سمیٹے ہوئے ہے، اس حدیث مبارک میں جناب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے دین کا ایک مبارک اور عظیم اصول ذکر فرمایا ہے کہ رزق حلال کو طلب کرنے کی کوشش میں لگنا اسلام کے اولین فرائض (مثلا: ارکان اسلام؛ نماز، روزہ، زکوٰة اور حج وغیرہ) کے بعد دوسرے درجہ کا فریضہ ہے، یعنی اس حدیث مبارک کے ذریعے یہ ذہن دیا گیا ہے کہ رزق حلال کی طلب میں لگنا بھی دین ہے، دین کا ہی حصہ ہے، یہ دنیا نہیں ہے اور اس دین کے بے شمار فضائل احادیث مبارکہ میں بتلائے گئے ہیں، بشرطیکہ اس کو صحیح طریقے سے کرے اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی رزق کے حصول سے متعلق مبارک تعلیمات کے مطابق کرے۔
 
 طلبِ حلال کی فرضیت کی وجہ
 
حلال مال کی طلب کو فرض اس لیے قرار دیا گیا ہے کہ دین کے بہت سے فرائض (مثلا: اقربا واعزہ میں سے مختلف افراد کا نان ونقفہ، زکوٰة، حج، حج کے دوران ہوجانے والی کوتاہیوں کی وجہ سے واجب ہونے جانے والا دم، صدقہ، کفارات ؛ جیسے: کفارہ قسم، کفارہ صوم، کفارہ ظہار، دیت، دم جنایات، ضمانات وغیرہ ، نیز تمام مصارفِ خیر ،مسجد مدرسہ، انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے کوششیں )معاش پر ہی موقوف ہیں۔(التیسیر بشرح الجامع الصغیر للمناوي: 2/116) 
 
کسبِ حلال میں لگنے کاحکم کس کس کے لیے ؟ 
 
تاہم حصول معاش میں لگنے کا یہ حکم ہر ہر شخص کے لیے نہیں ہے، یعنی وہ افراد جن کا نان ونفقہ دوسرے کے ذمہ ہے، (جیسے: بیوی، نابالغ اولاد، بہن، اپاہج ومعذور قریبی رشتہ دار، بوڑھے والدین وغیرہ) پر حصول معاش کی طلب میں لگنا فرض وواجب نہیں ہے۔واضح رہے کہ نفقہ کے وجوب کے لیے شرائط وضوابط بھی ہیں، جو مفتیان کرام سے رابطہ کر کے دریافت کر لیے جائیں۔
 
بلکہ یہ فرضیت ووجوب صرف اُن افراد کے لیے ہے جن کا نان ونفقہ وخرچ دوسروں کے ذمّہ نہ ہو، بلکہ اپنے ہی ذمّہ ہو اور اس کے پاس (کسی بھی جہت مثلا: میراث یا ہدیہ وغیرہ سے آیا ہوا یااز خود کمایا ہوا) مال بھی موجود نہ ہو یا وہ شخص جس کے ذمے دوسروں کا نان ونفقہ لازم ہو، جیسے: شوہر کے ذمہ اس کی بیوی کا خرچہ، والد کے ذمہ اپنی نابالغ اولاد اور معذور بالغ اولاد کا خرچہ، اولاد کے ذمہ بوڑھے ، محتاج والدین کا خرچہ وغیرہ۔
 
علامہ طیبی اس حدیثِ مبارک کی شرح میں لکھتے ہیں کہ یہ ایسا فرض ہے کہ جس کی انتہا نہیں ہے، اس لیے کہ حلال کمانا پرہیزگاری اورتقویٰ کی بنیاد ہے۔ یعنی مال کے پاس موجود ہونے میں دوسروں کی طرف محتاجگی سے حفاظت ہے، دوسروں کے سامنے دستِ سوال پھیلانے سے حاصل ہونے والی ذلت سے بچاوٴ اور خود داری ہے اور دوسرے کے اموال میں طمع وحرص سے بچنا ہے۔ (الکاشف عن حقائق السنن: الرقم:2781، 7/1221)
 
دوسری اہم بات اس حدیث مبارک سے یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ یہ عمل فرض تو ہے ،لیکن یہ فریضہ دوسرے فرائض دینیہ کے بعد ہے۔ 
 
 کسبِ حلال کی وجہ سے دیگر عبادات میں سستی کا حکم
 
موجودہ دور میں کئی افراد ایسے بھی ملتے ہیں کہ جو اس حدیث مبارک سے غلط استدلال کرتے ہوئے دین کے اولین احکامات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے نظر آتے ہیں، جو حصول معاش کی طلب میں ایسے مگن نظر آتے ہیں کہ کمائی کی اس کوشش میں وہ نمازیں تک ضائع کر دیتے ہیں(جیسا کہ اکثر ملازم طبقہ اپنی ملازمت کی وجہ سے نمازوں کو چھوڑ دیتا ہے اور اس سے بڑھ کے بے دینی کی فضا یہ بن چکی ہے کہ کاروبار کے مالک حضرات اپنے ملازمین کو نماز کی اجازت نہیں دیتے کہ اس سے کام میں حرج پیدا ہو گا)، بعضے اپنی کاروباری جگہوں میں ہی نماز ادا کر لیتے ہیں، بعضے کمائی کی اس مشقت کی وجہ سے روزے جیسا عظیم فریضہ بھی چھوڑ دیتے ہیں(جیسے: گارے مٹی کا کام کرنے والے مستری اور مزدور یا کھیتوں میں کام کرنے والے کاشت کار وغیرہ اپنے کام کی مشقت کو عذر بنا کر پیش کرتے ہیں اور روزہ چھوڑ دیتے ہیں) اور جب انہیں نماز روزے کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے تو وہ فورا اس حدیث مبارک سے استدلال کرتے ہوئے کہتے نظر آتے ہیں کہ ”بھائی! اہل ِ خانہ کے لیے حلال کمانا بھی تو فرض ہے، ہم اس فرض کے پورا کرنے میں لگے ہوئے ہیں“۔ 
 
تو واضح رہے کہ اس حدیثِ پاک میں حلال کمائی کو اگرچہ فرض فرمایا گیا ہے ، لیکن یہ ایسا فرض نہیں کہ اس میں لگنے کی وجہ سے اسلام کے دوسرے عظیم فرائض کو چھوڑ دیا جائے، چناں چہ ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ اس حدیث ِپاک کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
 
کسبِ حلال کی فرضیت کے انکار کا حکم
 
 حلال کمائی کی طلب کرنا ایسا فرض نہیں ہے کہ وہ جو نماز ،روزہ اور حج وغیرہ فرائض کے برابر ہو۔(مرقاة المفاتیح: 5/1904)یعنی کمائی میں لگنے کی فرضیت نماز روزے کی فرضیت کے مثل نہیں کہ کمائی میں مصروفیت والے وقت میں نماز وغیرہ ارکان اسلام کو ترک کر دینا جائز ہو، بلکہ نماز وغیرہ ارکان کی فرضیت اس درجے کی ہے کہ اس کو ترک کر کے کسی دوسرے دینی کام میں لگے رہنا جائزنہیں ہے، دوسرا معنی یہ بھی بنتا ہے کہ جس طرح نماز وغیرہ ارکان اسلام کا انکار کرنے والا کافر اور انہیں چھوڑنے والا فاسق ہوتا ہے، اس طرح حلال کمائی کی فرضیت کا انکار کر دینے والا کافر اور کمائی کو چھوڑنے والا فاسق نہیں بنتا۔
 
اللہ تعالیٰ نے مال کو ضرورتوں کے پورا کرنے کے لیے پیدا فرمایا ہے؛ تاکہ بندہ اپنی ضروری حاجتیں پوری کرکے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہوجائے؛ کیوں کہ رہنے سہنے، کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے کے بغیر صحیح طرح سے اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں ہوسکتی۔ نہ یہ کہ اس مال کو حاصل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی دیگر عبادات ہی ترک کر دے، گویا اصل مقصود مال کمانا نہیں ہے؛ بلکہ اصل مقصود اس مال کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں یک سوئی سے مشغول ہونا ہے اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہے۔

مقالات و مضامین سے متعلق