کتے پالنے کا بڑھتا ہوا شوق اور اسلامی نقطہ نظر !

idara letterhead universal2c

کتے پالنے کا بڑھتا ہوا شوق اور اسلامی نقطہ نظر !

مولانا محمد عمرقاسمی کاماریڈی

انسان انس و محبت کا پیکر اور اپنائیت ویگانگت کا مجسمہ ہے ؛ اسی وجہ سے وہ انسانی سماج اور برادری میں زندگی بسر کرنے میں رغبت رکھتا ہے، اجتماعیت سے انحراف اور درندوں کی ہم راہی فطرت سے بغاوت اور انسانیت سے عداوت ہے ، لیکن تعجب ہے مغربی کلچر اور یورپی معاشرہ پر! جہاں انسانوں سے زیادہ چوپایوں اورحیوانوں کیقدر ہے؛ یہی وجہ ہے کہ ان کی عورتیں شادی کرکے مردوں کو اپناجیون ساتھی بنانے کے بجائے”کتوں“ کی ہم راہی کو ترجیح دیتی ہیں اور اب یہ مغربی مزاج غیر مسلم مستشرقین سے آگے بڑھ کر مسلم معاشرہ تک متعدی ہو رہا ہے؛ چناں چہ شہری علاقے کے صاحب ثروت اور ذی اثر لوگ گھروں میں شوقیہ کتا پال رہے ہیں، نیز اسے فیشن اور باعث نمائش سمجھا جا رہا ہے، حالاں کہ شریعت مطہرہ نے بلا ضرورتِ خاص کتا پالنے سے منع کیا ہے اور اُسے حبطِ اعمال و بعد رحمت کا ذریعہ بتایا ہے اور بندہٴ مؤمن اس سے احتیاط کرتا ہے؛ کیوں کہ #
            تقدیر کے پابند نباتات وجمادات
            مومن فقط احکام الہی کا ہے پابند

مغربی مزاج اور کتے کی حقیقت و خباثت!

اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت کے لوگ کتا پالنے کے بڑے شوقین تھے، گھروں اور بیٹھکوں میں کتوں کی آمد و رفت عام سی بات تھی، حتی کہ اگرکسی قبیلہ کاکتا دوسرے کے ہاتھوں مارا جاتا تو اس کے انتقام اور بدلہ کے لیے آپس میں تلواریں میانوں سے نکل جاتیں اور جنگیں چلتیں، لیکن اسلام نے اپنے ماننے والوں کو تعلیم دی کہ وہ کتوں کو اپنے سے دور اور علاحدہ رکھیں،ان کی صحبت ورفاقت سے گریز کریں؛ یہی وجہ ہے کہ مسلم معاشرہ میں اسے معیوب اور نجس تصور کیا جاتا ہے، لیکن اس کے برعکس مغربی معاشرہ میں کتا گھر کا ایک فرد شمار کیا جاتا ہے اور حد تو یہ ہے کہ ہر وقت (سفر میں ہو کہ حضر میں، دکان پر ہو کہ مکان پر ) ساتھ ہی رہتا ہے، گویا کتا ان کے لیے باعث زینت اور ذریعہ نمائش ہے، ہاں!کتے سے حاصل ہونے والے منافع وفوائد سے کسی کو انکار نہیں ، لیکن دوسری جانب کچھ ایسی صفات بھی اس میں موجود ہیں جن کی بنا پر ایک سلیم الفطرت اور نفیس الطبع شخص اس سے گھن کرتا ہے اور اس سے علاحدہ رہنے ہی کو پسند کرتا ہے، جیسا کہ اس کے بعض مذموم اوصاف کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت تھانوی رقم طراز ہیں: کتا باعتبار اوصاف مذمومہ کے شیطان ہوتا ہے؛ چناں چہ اس کو آن حضرت صلی الله علیہ وسلم نے شیطان فرمایا، وہ اوصاف ذمیمہ یہ ہیں کہ جتنا کتا خبیث ترین و ذلیل ترین و خسیس ترین و حریص ترین حیوانات میں سے ہے اس کی محبت پیٹ سے آگے نہیں گزرتی، اس کی شدت حرص میں سے ایک بات یہ ہے کہ جب وہ چلتا ہے تو شدت حرص کی وجہ سے ناک زمین پر رکھ کر زمین سونگھتا جاتا ہے اور اپنے جسم کے سارے اعضاء چھوڑ کر ہمیشہ اپنی دبر (پاخانہ کی جگہ) سونگھتا ہے اور جب اس کی طرف پتھر پھینکو تو وہ فرط حرص و غصہ کی وجہ سے اس کو کاٹتا ہے۔ الغرض یہ جانور بڑا حریص و ذلیل و دنی ہمت ہوتا ہے، گندے مردار کو بہ نسبت تازے گوشت کے زیادہ پسند کرتا ہے اور نجاست کو بہ نسبت حلوا کے بڑی رغبت سے کھاتا ہے اور جب کسی ایسے مردار پر پہنچے جوصد ہاکتوں کے لیے کافی ہو تو شدت حرص و بخل کی وجہ سے اس مردار سے دوسرے کتے کو ذرہ برابر کھانے نہیں دیتا، پس جب کتے کے ایسے اوصاف مذمومہ ہیں تو جو شخص اس کو کھا تا وہ بھی ان ہی اوصاف سے متصف ہوتا، لہٰذا یہ جانور حرام ٹھہرایا گیا اور چوں کہ کتا پالنے میں اس کے ساتھ زیادہ تلبس ہوتا ہے، جیسا کہ مشاہدہ ہے، اس لیے بلا خاص ضرورت کی صورتوں کے اس کا پالنا بھی ممنوع قرار دیا گیا کہ اس کی صفات خبیثہ اس شخص میں اثر کریں گی اور چوں کہ ان صفات خبیثہ سے ملائکہ کو نفرت ہے تو اس شخص سے ملائکہ بعد اختیار کرتے ہیں، چناں چہ وہ ایسے گھر میں بھی نہیں آتے جہاں کتا ہوتا ہے اور سیاست کے ملائکہ (انتظامِ عالم، اسی طرح حفاظت اور عذاب وسزا والے فرشتے ) اس سے مستثنیٰ ہیں ۔ ( احکامِ اسلام عقل کی نظر میں:272)

ہماری صورت حال !

کتا پالنے کا یہ شوق یورپ کی دَین اور اغیار کی نقالی کا نتیجہ ہے ، لیکن چشم دید صورت حال سے ایسا لگتا ہے کہ نادان مسلمان خود بھی اس کے بڑے شوقین اور دل دادہ ہیں؛ کیوں کہ کتا ہمہ وقت ان کے ہم راہ رہتا ہے، خواہ دکان پر ہو کہ مکان پر، حد تو یہ ہے کہ کھانے کی ٹیبل پر اور بیڈ روم کے بستر پر بھی ساتھ ہوتا ہے اور یہ سب محض دیکھا دیکھی اور تکمیل شوق کا اثر ہے، مقام افسوس تو یہ کہ اپنے بال بچوں اور عزیز واقارب سے زیادہ کتے کی دیکھ بھال کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ کتا دل بہلانے کا ذریعہ اور کٹھن حالات میں سہارا ہے، جب کہ اسلام نے کتوں سے باز رہنے کی تعلیم دی اور رشتے نبھانے کی تاکید کی ہے، ہمارا معاملہ تو بالکل برعکس ہے، جو سراسر قابل افسوس اور لائق تبدیل ہے، اس کے مضرات اور نقصانات سے بچنا ہی دانش مندی کا تقاضا ہے۔

کتا پروری حبط اعمال اور بعد ِملائکہ کا باعث !

اسلام اپنے پیروکاروں کو کسی کام کے کرنے یا کسی عمل سے باز رہنے کی تاکید کرتا ہے تو اس کے پیچھے کئی ایک وجوہات اور مصلحتیں مضمر اورپوشیدہ ہوتی ہیں، جہاں تک عقل انسانی کی رسائی ممکن نہیں اور مصلحت جوئی میں پڑنا مسلمان کی شان بھی نہیں؛ کیوں کہ بندگی کا تقاضا ہے کہ بندہ بلاچوں و چراں حکم خداوندی کو مان لے، لیکن یہ خدا کی کرم فرمائی اور ذرہ نوازی کہیے کہ وہ اس کی کچھ مصلحتوں کو بندوں پر منکشف کر دیتا ہے؛ چناں چہ کتا پالنے کی ممانعت پر سخت ترین وعید یں آئی ہیں کہ نبیصلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”من اتخذ کلباً إلا کلب ماشیة، أو صید، أو زرع، انتقص من أجرہ کل یوم قیراط“․(سنن الترمذی:4/80)

یعنی جس شخص نے جانور اور کھیتی وغیرہ کی حفاظت یا شکار کے علاوہ کسی اور مقصد سے کتا پالا، تو اس کے ثواب میں ہر روز ایک قیراط کم ہو گا۔ (ایک روایت میں دو قیراط کا ذکر ہے۔)

مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بلا ضرورت کتا پالنے کی ایک نحوست یہ سامنے آئی کہ روزانہ بندہ کا اجر و ثواب گھٹتا رہتا ہے اور نقص اجر یہ کسی خسارہ سے کم نہیں اور تو اور ملائکہ رحمت بھی اس گھر کا رخ نہیں کرتے جس میں کتا ہو، جیسا کہ حدیث میں وارد ہے:”لا تدخل الملائکة بیتا فیہ صورة ولا کلب“․(البخاری، رقم:4002،5/18)

ترجمہ: رحمت کے فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں ( جان دار کی )تصویر یا کتا ہو۔

اور جب گھر میں رحمت کے فرشتوں کی آمد ورفت نہیں ہوگی تو گھروں سے خیر و برکت اور سکون و اطمینان کا خاتمہ ہو جانا یقینی ہے، اس میں کسی اور کا کیا قصور؟ بس
            اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

دنیاوی و طبی نقصانات

کتا نجس الفطرت اور خبیت الطبیعت ہوتا ہے ؟ اگر اس کی صحبت و ہم راہی اختیار کی جائے گی تو اس کے نجس اثرات اس کی ذات میں منتقل ہو جائیں گے، اور صحبت کا اثر ہونا یقینی امر ہے، خواہ انسان سے ہو کہ حیوان سے اور چوں کہ خنزیر کی بے حیائی اور کتے کی نجاست خوری ایک ضرب المثل چیز ہے اور کتا پالنے اور اس کے ساتھ رہنے کے نتیجے میں اس کے اوصاف و عادات غیر محسوس طور پر منتقل ہوتے ہیں اور اسلام نہیں چاہتا کہ کتے کے اوصاف و اخلاق انسان میں منتقل ہوں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے بلاضرورت کتا رکھنے کی ممانعت فرمادی ہے۔

طبی اعتبار سے خسارہ و نقصان یہ ہے کہ سائنسی تحقیقات کے مطابق کتے کے جراثیم بہت ہی مہلک اور بے حد ضرر رساں ہوتے ہیں اور اس کا زہر اگر آدمی کے بدن میں سرایت کر جائے تو اس سے جاں بر ہونا بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے۔ ذرا سوچیں کہ یہ اسلام کا انسانیت پر کتنا بڑا احسان ہے کہ اسلام نے نہ صرف کتے کو حرام کر دیا، بلکہ اس کی مصاحبت ورفاقت پر بھی پابندی عائد کر دی ، جیسا کہ ڈاکٹر زکسی مجذوم اور طاعونی مریض کے ساتھ رہنے سے روک دیتے ہیں ، لیکن اس کے باوجود پھر بھی بعض نا اہل و کج فہم لوگ استفسار کرتے رہتے ہیں کہ اس میں مصلحت کیا ہے؟ کتا پالنے میں نقصان کیا ہے؟ حالاں کہ اس کے نقصانات چشم کشا اورعیاں ہیں، البتہ اس کے لیے نگاہ بلالی چاہیے نہ کہ نظر سوالی!

شرعی نقطہ نظر

کتا پالنا اور اس کو ساتھ ساتھ رکھنا اور پیار محبت کا برتاؤ کرنا صحیح نہیں ہے اور اس مقصد کے لیے اس کی خرید وفروخت بھی جائز نہیں ہے، لیکن بسا اوقات کتے پالنے کی ضرورت پیش آتی ہے، مثلاً شکار کے لیے یاکھیتوں کی نگہبانی کے لیے یا گھر کی حفاظت کے لیے تو پھر ایسی صورت میں کتوں کو ضرور تاً رکھ سکتے ہیں اور اس مقصد کے لیے خرید و فروخت بھی درست ہے اور اس کی کمائی بھی حلال ہے؛ چناں چہ اگر کوئی شخص شکاری کتوں یا حفاظتی کتوں کی تجارت کرتا ہے تو یہ تجارت درست ہے؛ کیوں کہ اس سے ایک جائز ضرورت کی تکمیل ہوتی ہے، صحیح مسلم اور دیگر کتب حدیث کی بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے بھی شکاری کتوں اور حفاظتی کتوں کو پالنے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے، البتہ وہ کتے جو صرف شوقیہ رکھے جاتے ہیں یا بلا ضرورت ان کی خرید کی جاتی ہے تو پھر اس کی ممانعت ہوگی، مسلمانوں کو اس قسم کے کاروبار سے پر ہیز کرنا چاہیے، تا کہ ایسی بے برکت چیزوں سے حفاظت ہو سکے ۔ ( ردالمحتار علی الدر المختار:5 /69)

الحاصل

اس تحریر کے ذریعہ راقم السطور ان تمام فریب خوردہ لوگوں کو، جو کتے پالنے کے شوق میں یورپی کلچر اور کافروں کے فعل سے دھوکا کھائے ہوئے ہیں، یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ سب سے پہلے کتوں کو اپنے گھروں سے نکالیں، بے جا اعتراضات کرنے اور مصلحت جوئی کرنے سے بچیں، اپنی آنکھوں سے مادیت پرستی کا چشمہ ہٹائیں، فرامین خداوندی اور ارشادات نبوی سے سمجھیں، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں رجوع کریں، تو بہ کریں، غیروں کی نقالی سے بالکلیہ احتراز کریں، خواہشات کی اتباع سے باز آجائیں، اسلامی حدود و شرعی قیود سے واقف ہوں، اور تعلیمات و احکام سے باخبر ہوں، علمائے کرام کی رہبری و راہ نمائی میں زندگی گزاریں۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو شریعت پر عمل اور دین کا فہم عطا فرمائے ۔ آمین!

عصر حاضر سے متعلق