کبار تابعین کی اصطلاح تعارف ،تجزیہ اور مرتبہ ومقام

idara letterhead universal2c

کبار تابعین کی اصطلاح تعارف ،تجزیہ اور مرتبہ ومقام

مولانا عصمت اللہ نظامانی

علومِ حدیث کا کوئی طالبِ علم ”کبار تابعین“ کی اصطلاح سے ناواقف نہیں ہوگا، متعدد حدیثی فروع اور مصطلحات میں ”کبار تابعین“ کا حکم صحابہ کرام کی طرح دیگر رواة اور لوگوں سے مختلف ہوتا ہے اور اس کا بعض فقہی مسائل پر بھی اثر پڑسکتا ہے۔ نیز فنِ رجال اور جرح وتعدیل کی کتب میں کئی حضرات کے تراجم میں ”وکان من کبار التابعین“ جیسے الفاظ موجود ہوتے ہیں، لیکن کبار تابعین کا مفہوم ذکر نہیں کیا جاتا، اسی طرح اصولِ حدیث کی کتب میں بھی کبار تابعین سے متعلق معلومات یکجا مذکور نہیں، لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ”کبار تابعین“ کی اصطلاح کا تعارف اور اس سے متعلقہ اصولی وحدیثی مباحث اختصار کے ساتھ جمع کردیے جائیں؛ تاکہ کبار تابعین سے متعلق مباحث ذہن نشین اور مستحضر رکھنا آسان ہو۔
کبار تابعین کا معنی و مصداق
کبار تابعین کے لغوی معنی” بڑے تابعین“ کے ہیں اور یہ جمع ہے، واحد کے لیے ”تابعی کبیر“ کا لفظ استعمال ہوتا ہے، لیکن اصطلاح میں”تابعی کبیر“ کا معنی ومفہوم کیا ہے؟ اور یہ لفظ کن حضرات کے لیے بولا جاتا ہے تو اس بارے میں اہلِ علم کا کچھ اختلاف ہے، جوکہ حسبِ ذیل ہے:
جس شخص نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اسلام قبول کیا ہو، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب نہ ہوئی ہو توایسے شخص کو” تابعی کبیر“ کہیں گے۔ نیز اس کو مخضرم بھی کہتے ہیں، تو گویاکہ مخضرمین حضرات ہی کبار تابعین ہیں۔ (نزہة النظر شرح نخبة الفکر لابن حجر، ص:136، الناشر: قدیمی کتب خانہ)
جس شخص نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی جماعت سے ملاقات کی ہو، اس کو” تابعی کبیر“ کہیں گے، بخلاف اس تابعی کے جس کو چند صحابہ سے ملاقات کا شرف حاصل رہا ہو۔ (فتح المغیث بشرح ألفیة الحدیث للسخاوی، ص:1/170، الناشر:مکتبة السنة- مصر، ط:1424ھ۔ 2003م)
جو شخص کبار صحابہ یعنی بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے شرفِ ملاقات حاصل کرچکا ہو، اس کو” تابعی کبیر“ کہیں گے، بخلاف اس تابعی کے جس نے چھوٹے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ملاقات کی ہو۔ (النکت علی کتاب ابن الصلاح لابن حجر، 2/563، الناشر: عمادة البحث العلمی بالجامعة الإسلامیة، المدینة المنورة، ط:1404ھ۔ 1984م)
جس شخص کی اکثر روایات بلاواسطہ صحابہ کرام سے ہوں، وہ ”تابعی کبیر“ ہے، نہ کہ وہ تابعی جس کی اکثر روایتیں حضرات تابعین سے ہوں۔ (حاشیة العطار علی شرح الجلال المحلی علی جمع الجوامع للعطار، 2/203، الناشر:دار الکتب العلمیة، بیروت)
جس تابعی نے تمام ”عشرہ مبشرہ ‘یا ان میں سے اکثر سے ملاقات کی ہو، وہ تابعی کبیر ہے، بخلاف اس تابعی کے جو ان میں سے کسی سے نہ ملا ہو، یا ایک دو سے ملاقات کی ہو۔ (معرفة علوم الحدیث للحاکم، النوع الرابع عشر،ص:88، الناشر:دار إحیاء التراث العربی، بیروت)
ان تمام اقوال میں کوئی تضاد نہیں، لہٰذا ممکن ہے کہ کسی تابعی پر یہ تمام اقوال یا ان میں سے اکثر صادق آتے ہوں۔
کبار تابعین کی مراسیل کا مقبول ہونا
امام شافعی، ان کے مقلدین اور متعدد حضراتِ محدثین مراسیلِ صحابہ اور چند شرائط کے ساتھ کبار تابعین کی مرسل روایات کے علاوہ کسی دوسرے تابعی وغیرہ کی مرسل روایت قبول نہیں کرتے، جب کہ احناف اور مالکیہ وغیرہ کے نزدیک تو مرسل روایت بعض شرطوں کے ساتھ مطلقاً قابلِ قبول ہے، اس اعتبار سے کبار تابعین کی مرسل روایت قبول کرنے پر اکثر اہلِ علم کا اتفاق ہوا، چناں چہ امام شافعی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”ومن نظر فی العلم بخبرة وقلة غفلة، استوحش من مرسل کل من دون کبار التابعین․“ (الرسالة للشافعی، ص:467، الناشر: مکتبة الحلبی، مصر)
ترجمہ:”جو شخص علم میں گہری نظر رکھتا ہوگا وہ کبار تابعین کے علاوہ تمام اشخاص کی مرسل روایت سے وحشت محسوس کرے گا۔“
بلکہ کبار تابعین کے علاوہ دیگر حضرات کی مرسل روایت کے بارے میں امام شافعی نے تو یہاں تک فرمایا ہے:
”فاما من بعد کبار التابعین … فلا اعلم منہم واحداً یقبل مرسلہ․“ (المصدر السابق، ص:465)
ترجمہ:کبار تابعین کے بعد والے حضرات میں سے کسی ایک شخص کو بھی میں نہیں جانتا جس کی مرسل روایت قبول کی جائے۔
اس کی وجہ علامہ ابن ہمام رحمة اللہ علیہ نے یہ بیان کی ہے کہ کبار تابعین جب مرسل روایت ذکر کرتے تو عام طور پر صحابی کا واسطہ حذف ہوتا تھا اور صحابی کے علاوہ کسی دوسرے سے شاذ ونادر حدیث لیتے تو ثقہ سے ہی لیتے تھے، جب کہ یہ بات کبار تابعین کے علاوہ میں نہیں۔ علامہ ابن ہمام رحمة اللہ علیہ کی عبارت ملاحظہ ہو:
”وکبار التابعین قل ان یرسلوا عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إلا عن صحابی، وإن اتفق غیرہ نادرا فعن ثقة․“ (فتح القدیر لابن الہمام، 4/214، الناشر: دار الفکر، بیروت)
کبار تابعین جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسل روایت ذکر کرتے تو عام طور پر صحابی کا واسطہ حذف ہوتا تھا اور صحابی کے علاوہ کسی دوسرے سے شاذ ونادر حدیث لیتے تو ثقہ سے ہی لیتے تھے۔
مرسل روایت کی تعریف میں کبار تابعین کی شرط
کبار تابعین جب مرسل روایت ذکر کرتے تو عام طور پر صحابی کا واسطہ حذف ہوتا تھا اور صحابی کے علاوہ کسی دوسرے سے شاذ ونادر حدیث لیتے تو ثقہ سے ہی لیتے تھے، جب کہ یہ بات کبار تابعین کے علاوہ میں نہیں۔ علامہ ابن ہمام کی عبارت ملاحظہ ہو۔
جمہور فقہاء ومحدثین کے نزدیک اگرچہ مرسل روایت کبار تابعین کے ساتھ خاص نہیں، لیکن اہل ِ علم کی ایک جماعت ایسی بھی ہے جنہوں نے مرسل روایت کی تعریف میں کبار تابعین کی شرط لگائی ہے، یعنی اگر تابعی کبیر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف حدیث منسوب کرکے بیان کرے گا تو اسے مرسل کہیں گے، کبار تابعین کے علاوہ اگر کسی دوسرے تابعی وغیرہ نے صحابی کا واسطہ حذف کرکے روایت بیان کی تو اسے مرسل نہیں کہا جائے گا، چناں چہ علامہ ابن ِحجر نے مرسل روایت کی ایک تعریف حسبِ ذیل ذکر کی ہے:
”ہو ما اضافہ التابعی الکبیر إلی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فیخرج بذٰلک ما اضافہ صغار التابعین ومن بعدہم“․ (النکت علی کتاب ابن الصلاح لابن حجر، 2/543)
ترجمہ:مرسل وہ روایت ہے جو تابعی کبیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرکے بیان کرے، اس تعریف سے وہ روایت نکل جائے گی جو صغار تابعین یا ان کے بعد کے لوگ بیان کریں گے۔
اسی طرح حافظ ابنِ حجر کے استاذ علامہ ابناسی مرسل حدیث کی تعریف کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
”وصورتہ التی لا خلاف فیہا حدیث التابعی الکبیر“․ (الشذ الفیاح من علوم ابن الصلاح للابناسی، 1/147، الناشر: مکتبة الرشد- الریاض، ط:1418ھ۔ 1998م)
یعنی مرسل روایت کی متفقہ صورت تابعی کبیر کی حدیث ہے۔
کبار تابعین کی جہالت کا مضر نہ ہونا
حضراتِ محدثین صحابی کے علاوہ کسی دوسرے راوی کی جہالت کو اسبابِ طعن میں شمار کرتے ہیں، چناں چہ ان کے نزدیک حدیث کی صحت کے لیے راوی کا معلوم ومعروف ہونا ضروری ہے، البتہ کبار تابعین کو وہ اس سے مستثنیٰ کرتے ہیں کہ اگر کوئی راوی تابعی کبیر ہو تو اس کی جہالت صحتِ حدیث سے مانع نہیں ہوگی؛ کیوں کہ ان پر صدق وعدالت جیسے اوصاف غالب تھے، جرح وطعن کے اسباب کم ہی پائے جاتے تھے، نیز اس حکم میں اوساطِ تابعین بھی ان کے ساتھ شریک ہیں۔ علامہ ذہبی تحریر فرماتے ہیں:
”واما المجہولون من الرواة، فإن کان الرجل من کبار التابعین او اوساطہم احتمل حدیثہ“․ (دیوان الضعفاء والمتروکین للذہبی، ص:374)․
یعنی مجہول راوی اگر کبار تابعین یا اوساط میں سے ہو، اس کی حدیث (جہالت کے باوجود) قابلِ تحمل ہوگی، یعنی اسے لیا جائے گا۔
علمِ حدیث میں کبار تابعین کے تفردات مقبول ہونا
علمِ حدیث میں تفرد ایک خاص اصطلاح ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ کوئی روایت یا اس کا جز صرف ایک فرد سے منقول ہو، تو چوں کہ وہ روایت یا اس کا جز صرف ایک ہی فرد نے بیان کیا ہے، دیگر ائمہ فن نے ذکر نہیں کیا، لہٰذا اس میں ایک گونا شک واقع ہوگیا، اس لیے حضرات محدثین اس تفرد کے سلسلے میں یہ دیکھتے ہیں کہ اس کا راوی کیسا ہے؟ اور وہ دوسرے حضرات کی روایت کے مخالف تو نہیں؟ لیکن اگر تفرد کبار تابعین سے صادر ہو تو اس صورت میں اسے قبول کیا جاتا ہے؛ کیوں کہ اس زمانے میں اسناد زیادہ نہیں تھیں، اس لیے یہ عین ممکن تھا کہ کوئی روایت ایک راوی کو ملے، لیکن دوسرے حضرات کو نہ مل سکے۔ (اثر اختلاف الاسانید والمتون فی اختلاف الفقہاء، لماہر یاسین فحل، ص:93، الناشر:دار الکتب العلمیة- بیروت- والشاذ والمنکر وزیادة الثقة لابی ذر عبد القادر المحمدی، ص:45، الناشر:دار الکتب العلمیة- بیروت، ط:1426ھ2005م)․
کبار تابعین کے خصائص وامتیازات
اہلِ علم نے کبار تابعین کے بعض خصائص وامتیازات ذکر کیے ہیں، جو دیگر حضرات تابعین اور بعد میں آنے والوں میں نہیں پائے گئے۔ ایک یہ کہ کبار تابعین میں وضع یعنی احادیث گھڑنے والے بہت کم، بلکہ نہ ہونے کے برابر تھے۔(السنة قبل التدوین، محمد عجاج الخطیب، ص:193، الناشر:دار الفکر- بیروت، ط:1400ھ1980م) پھر بعد میں وضاع وکذاب لوگ ظاہر ہونے شروع ہوئے۔ دوسری یہ کہ کبار تابعین نے احادیث کی نشر واشاعت میں بالکل صحابہ کرام کا سا منہج اپنایا، چناں چہ امام حاکم  فرماتے ہیں:
”اتبع کبار التابعین الصحابة الکرام فی اہتمامہم بشان الحدیث ونشرہ بطریق الروایة․“ (معرفة علوم الحدیث للحاکم، ص:14)
ترجمہ:کبار تابعین نے حدیث کے اہتمام اور روایت کے ذریعے اس کی نشر واشاعت میں صحابہ کرام کی پیروی کی۔
اسی طرح اور بھی متعدد امور ہیں جن میں کبار تابعین دیگر لوگوں سے ممتاز ہیں۔
مشہور کبار تابعین
مدینہ منورہ کے فقہائے سبعہ کو کبار تابعین میں شمار کیا جاتا ہے، اور ان کے نام یہ ہیں:سعید بن المسیب، قاسم بن محمد، عروہ بن زبیر، خارجہ بن زید، ابوسلمہ بن عبد الرحمٰن، عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ اور سلیمان بن یسار۔(معرفة انواع علوم الحدیث لابن الصلاح، ص:408، الناشر:دار الکتب العلمیة- بیروت، ط:1423ھ2002 م) نیز حضرت قیس بن ابی حازم کے بارے میں کہا گیا ہے کہ حضرات تابعین میں ان کے علاوہ تمام عشرہ مبشرہ سے روایت کرنے والا اور کوئی نہیں، چناں چہ علامہ زین الدین عراقی  تحریر فرماتے ہیں:
”قیس بن ابی حازم سمع العشرة وروی عنہم، ولیس فی التابعین احد روی عن العشرة سواہ․“ (التقیید والإیضاح شرح مقدمة ابن الصلاح للعراقی، ص:320، الناشر:المکتبة السلفیة، المدینة المنورة)
ترجمہ:قیس بن ابی حازم نے عشرہ مبشرہ سے سماع کیا ہے، اور تابعین میں ان کے علاوہ کوئی ایسا شخص نہیں جس نے ان تمام سے روایت کی ہو۔
خلاصہ یہ ہے کہ علومِ حدیث سے متعلق متعدد احکام ومصطلحات میں کبار تابعین کو خصوصی اہمیت اور حیثیت حاصل ہے، جس میں وہ دیگر تابعین اور رواةِ حدیث سے ممتاز ہوتے ہیں، ان میں سے چند ایک مسائل اوپر ذکر کردیے گئے ہیں۔ البتہ یہ بات ملحوظ رہے کہ بعض اوقات اوساط، بلکہ صغار تابعین پر بھی کبار تابعین کا لفظ بولا جاتا ہے۔ (المفصل في علوم الحدیث لعلي بن نایف الشحوذ:1/278)اور اس صورت میں اصطلاحی تابعی کبیر مراد نہیں ہوتا، بلکہ لغت وغیرہ کے اعتبار سے کسی کا بلند مقام ومرتبہ ظاہر کرنے کی غرض سے اس کو کبار تابعین میں ذکر کیا جاتا ہے۔

مقالات و مضامین سے متعلق