کام یابی کی کلید

idara letterhead universal2c

کام یابی کی کلید

مولانا خالد سیف الله رحمانی

طوفان اس لیے آتے ہیں کہ اپنی تباہ خیزیوں کے ساتھ گزر جائیں، موجیں اس لیے متلاطم ہوتی ہیں کہ ساحل کو روند کر واپس چلی جائیں، آتش فشاں اس لیے پھوٹتے ہیں کہ زمین کے سینہ میں جولاوے چھپے ہوئے ہیں وہ باہر آ کر ساکت و جامد ہو جائیں ، ان کی ہلاکت خیزیاں اور تخریب انگیزیاں اتنی شدید ہوتی ہیں کہ لگتا ہے کہ کائنات کا کوئی ذرہ ان کے پنجہ استبداد سے بچ نہیں سکے گا، لیکن ان کو ثبات و دوام حاصل نہیں ہوتا ، انسان کی شخصی اور اجتماعی زندگی میں بھی ایسے طوفان اٹھتے ہیں کہ جس سے دل لرز نے اور قدم ڈگمگانے لگتے ہیں، لیکن اصل میں یہ اس کے لیے آزمائش کے لمحات ہیں، اگر وہ کچھ دیر اس میں استقامت کا ثبوت دے، کم ہمتی سے دوچار نہ ہو، جذبات سے مغلوب نہ ہو اور رد عمل کی نفسیات میں مبتلا ہو کر کوئی غیر دانش مندانہ اقدام نہ کر بیٹھے ، تو یہی مصیبت اس کے لیے راحت کا مقدمہ اور یہی وقتی پستی اس کے لیے سر بلندی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔

مؤمن کو قرآن نے ایسے مواقع پر دو باتوں کا حکم دیا ہے، صبر اور صلوٰة صبر کیا ہے؟ عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ کسی عزیز و قریب کی موت پر رونے دھونے سے اجتناب کا نام صبر ہے، لیکن حقیقت میں صبر کا دائرہ بہت وسیع ہے اور اس کا تعلق زندگی کے تمام شعبوں سے ہے، صبر کے معنی برداشت کرنے کے ہیں ، قوت برداشت بہت بڑا جو ہر ہے اور اس قوت سے محرومی بہت بڑا عیب ہے ، جس آدمی میں قوت برداشت ہوتی ہے، اس میں تدبیر کی صلاحیت ہوتی ہے اور وہ مخالفت سازشوں سے نمٹنے کی مؤثر کاروائی کر سکتا ہے، انبیاء کو چوں کہ سب سے زیادہ مخالف حالات سے گذرنا پڑتا ہے، اس لیے ان میں حلم و برد باری اور مخالفت کو سہنے کی صلاحیت من جانب اللہ سب سے زیادہ ودیعت ہوتی ہے۔

میر امنشا یہ نہیں ہے کہ صبر کا مطلب بزدلی اختیار کرنا اور حوصلہ ہار جانا ہے، بلکہ مقصد یہ ہے کہ حکمت کا دامن ہاتھ سے چھوٹنا نہیں چاہیے اور اپنے جذبات کو بے محل خرچ کرنے سے بچنا چاہیے ، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمکی حیات طیبہ میں قدم قدم پر اس کی مثالیں ملتی ہیں، صلح حدیبیہ کے موقعہ پر اہل مکہ کی جانب سے ایک جتھے نے مسلمانوں پر حملہ کیا، جو کم و بیش چالیس افراد پر مشتمل تھا، ظاہر ہے کہ وہ لوگ مسلمانوں کے جان کے درپے ہو کر حملہ آور ہوئے تھے اور ان کی حقیقی سزا یہ تھی کہ یہ جس مقصد کے لیے آئے تھے، وہی رویہ ان کے ساتھ اختیار کیا جاتا، یعنی انہیں قتل کر دیا جاتا یا کم سے کم وہ قید کر لیے جاتے، لیکن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمنے انہیں یوں ہی رہا فرما دیا ، کیوں کہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو یقینا جنگ کی آگ بھڑک اٹھتی اور اس سے چاہے جانی یا مالی نقصان کسی بھی فریق کا ہوتا، لیکن عربوں میں اسلام کے تئیں نفرت اور بڑھ جاتی، کیوں کہ وہ حرم کا بے حد احترام کرتے تھے، انہیں خیال ہوتا کہ مسلمانوں نے اب حرم کی حرمت کو بھی پامال کرنا شروع کر دیا ہے ، یہ ہوش کو جوش اور حکمت و مصلحت کو جذبات پر غالب رکھنے کی ایک مثال ہے۔

حضور صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کا ایک معرکہ غزوہ بنو مصطلق کے نام سے معروف ہے، اس غزوہ میں ایک انصاری اور حضرت عمر رضی الله عنہ کے غلام کے درمیان معمولی سی بات پر کچھ تیز و تند، گفت گو ہوگئی ، پھر انصاری نے اپنی مدد کے لیے انصار کو اور حضرت عمر رضی الله عنہ کے غلام نے مہاجر کو آواز دی اور اس طرح دو افراد کا جھگڑا دو گروہ کا جھگڑا بن گیا ، عبداللہ بن ابی، جو نفاق کے مرض میں مبتلا تھا، بلکہ گروہ منافقین کی قیادت کرتا تھا اور کسی ایسے موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیتا تھا ، جس سے اسلام کو اور مسلمانوں کو نقصان پہنچے ، اس نے اس موقع کو اپنی ناشائستہ حرکت کے لیے بہت غنیمت جانا اور انصار کو یہ کہہ کر برانگیختہ کیا کہ مہاجرین کے معاملہ میں تمہاری مثال عربوں کے اس محاورہ کی سی ہے کہ اپنے کتے کو کھلا پلا کر موٹا کرو کہ وہ تمہیں ہی کاٹ کھائے ، ”سمن کلبک یاکلک“ عبد اللہ بن ابی کی اس ریشہ دوانی کی اطلاع حضور صلی الله علیہ وسلم کو ایک کمسن انصاری صحابی نے دی، جب آپ صلی الله علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی کو بلا کر استفسار فرمایا تو وہ صاف مکر گیا ، کچھ دوسرے بزرگ انصار جو عبد اللہ بن ابی کے نفاق سے واقف نہیں تھے، انہوں نے بھی عبداللہ بن ابی کی حمایت کی ، اس موقع پر قرآن مجید کی آیت ان کمسن انصاری صحابی کی تصدیق میں نازل ہوئی ، حضور صلی الله علیہ وسلم نے از راہ شفقت ان کی گوش مالی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق کی ہے۔

حضرت عمر رضی الله عنہ پر حق کا جوش غالب رہتا تھا، انہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے اجازت مانگی کہ عبد اللہ بن ابی کی گردن مار دی جائے ، اگر حضور صلی الله علیہ وسلم اس کی اجازت مرحمت فرماتے تو یقینا یہ بجا ہوتا کہ:” الفتنة اشد من القتل“لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا، تا کہ اگر میں ایسا کروں تو انصار کو غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہے اور لوگ بھی ایسا سوچیں گے کہ محمد صلی الله علیہ وسلم خود اپنے رفقاء کو قتل کرا رہے ہیں، اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی اور صحابہ کو کوچ کرنے کا حکم دیا ، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم اس پورے دن، رات اور آئندہ دن دو پہر تک خلاف معمول چلتے رہے، یہاں تک کہ صحابہ تھک کر چور ہو گئے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے پڑاؤ کرنے کا حکم فرمایا، اس مسلسل سفر کا مقصد یہ تھا کہ لوگ اتنا تھک جائیں کہ انصار و مہاجرین کے درمیان جو تلخی وہاں پیدا ہوگئی تھی ، اس کا اثر جاتا رہے، پھر ایک وقت آیا کہ خود عبداللہ بن ابی کے صاحب زادے حضور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، یہ بہت مخلص مسلمان اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے خاص محبین میں تھے، انہوں نے درخواست کی کہ میں اپنے والد کے نفاق سے واقف ہوں اور اگر آپ صلی الله علیہ وسلم کا حکم ہو تو میں خود انہیں قتل کر سکتا ہوں ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا اور ارشاد ہوا کہ جب تک کوئی شخص اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرے گا، میں اس کے ساتھ مسلمانوں کا ساہی معاملہ کروں گا ، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عمر کو یہ صورت حال بتائی کہ اگر ہم اس وقت عبداللہ بن ابی کے قتل کا حکم دیتے تو اس سے بعض مخلص مسلمانوں کو بھی غلط فہمی ہو سکتی تھی، لیکن اب یہ صورت حال ہے کہ خود ان کے بیٹے ان کا سر قلم کرنے کو تیار ہیں ، حضرت عمر رضی الله عنہنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی رائے میں برکت رکھی ہے، بارک اللہ فی رأی رسولہ․

یہ وہی حکمت و مصلحت اور ہوش کو جذبات اور جوش پر ہوش کو غالب رکھنے کی بات ہے ، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں اس کی کتنی ہی مثالیں ملتی ہیں ، موجودہ حالات میں مسلمانوں پر ضروری ہے کہ وہ اس صورت حال کو سمجھیں ، اگر ہم نے مغلوب الجذ بات ہو کر چند پتھر پھینک دیے، تو اس سے یقینادوسروں کا کچھ خاص نقصان نہیں ہوگا اور نہ اس سے آپ کو کوئی فائدہ حاصل ہوگا ، البتہ اس سے آپ کے لیے بہت زیادہ نقصان و مضرت کا اندیشہ موجود ہے، کوئی انسان کتنا بھی ظالم اور بدخو ہو، اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کو اپنے ظلم وجور کے لیے کوئی دلیل ہاتھ آجائے ، خواہ وہ کم زور سے کم زور تر کیوں نہ ہو، شیطان نے بھی اپنی عدول حکمی کے لیے ایک دلیل دریافت کر لی تھی کہ حضرت آدمعلیہ السلام کا مادہ تخلیق اس کے مادہ تخلیق سے کمتر ہے، اس لیے وہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہیں کرے گا۔

اگر ہم مشتعل اور بے برداشت ہو کر کوئی معمولی سی حرکت بھی کر گزریں تو جو لوگ اپنے سینوں میں بغض چھپائے رکھتے ہیں، ان کو اپنی زیادتی کے لیے سند جواز ہاتھ آجاتی ہے، گویا ہم اپنے ہاتھوں ان کو اشتعال کا ہتھیار دے دیتے ہیں، پھر لوگ واقعات اور اس کے اصل محرکات کو نہیں دیکھتے ، بلکہ ظاہری سبب کو ہی اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، اس لیے ایسے مواقع پر سوچنا چاہیے کہ کون سا قدم ہمارے مقصد کے لیے مفید و معاون ہوگا۔

خدا کی مدد کا دوسرا ہتھیار” صلوٰة“ہے ،صلوة کے اصل معنی نماز کے ہیں ، نماز ایک ایسی عبادت ہے، جس میں انسان خدا کے سامنے اپنے آپ کو مکمل طور پر بچھا دیتا ہے اور پیشانی سے لے کر پاؤں تک انگ انگ خدا کی بندگی میں مشغول ہوتا ہے، اس لیے نماز در اصل رجوع الی اللہ کا عنوان ہے، یعنی مشکل حالات میں انسان اپنے رب کی طرف پوری طرح رجوع ہو جائے ، وہ خدا کی چوکھٹ پر اپنی پیشانی رکھ دے کہ ہم محتاج ہیں توغنی، ہم فقیر ہیں تو داتا ، تو ان ہاتھوں کو خالی واپس نہ فرما، خدا کی طاقت بے پناہ ہے، یوں تو روز و شب خدا کی قدرت کو ہم دیکھتے ہی رہتے ہیں، لیکن یہ قدرت اسباب کے پردہ میں ظہور پذیر ہوتی ہے، کبھی کبھی خدا کی طاقت اسباب سے آزاد ہو کر بھی انسان کے مشاہدہ میں آتی ہے ، غور کرو کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اور قوم بنی اسرائیل کا پیچھا کرنے کے لیے فرعون کا لشکر جرار جمع ہو رہا تھا اور کبر و غرور سے مغرور ہو کر نکل رہا تھا، تو لوگ یہی دیکھ رہے تھے کہ یہ لشکر مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کے لیے چل رہا ہے، لیکن اللہ کے یہاں یہ بات مقدر تھی کہ ان کا یہ اجتماع خودان کے نیست و نابود ہونے کا ذریعہ بن جائے گا، چناں چہ وہی ہوا، بدر کے معرکہ میں بڑے بڑے سورما اور بہادر مکہ سے چلے آئے تھے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا کہ مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو تمہارے سامنے ڈال دیا ہے، ان کے جوش وخروش کو دیکھ کر لوگوں کو خیال گذرا ہو گا کہ یہ تو مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے، لیکن کے خبر تھی کہ اللہ تعالیٰ ان سورماؤں کو اس لیے جمع کر رہا ہے کہ خود ان کا وجود صفحہ ہستی سے مٹ جائے اور مکہ کو اپنے ضدی سرداروں سے نجات مل جائے ، آئندہ اہل مکہ کے لیے دعوت حق کو قبول کرنا آسان ہو۔ غزوہ احزاب میں اتحادیوں کی ایک پہاڑ جیسی فوج اس لیے جمع ہوئی تھی کہ مسلمانوں کے مقابلہ تمام اسلام مخالف طاقتوں کو متحد و مربوط کر دیا جائے، لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ بات منظور تھی کہ اس آخری کوشش کی ناکامی کے بعد ہمیشہ کے لیے ان کی ہمت ٹوٹ جائے اور خود ان کی صفیں بکھر جائیں۔

اس لیے ہمیں خدا کی طرف اور اس کے خزانہ و طاقت سے مدد لینا چاہیے ، پھر اس کے لیے نہ کوئی چیز انہونی ہے اور نہ کوئی بات ناممکن ، وہ چاہے تو وقت کی سپر طاقتوں کو راکھ کا ڈھیر بنادے اور اپنے کم زور بندوں کو آہن و فولاد سے زیادہ طاقت ور۔ دعا کا مقصد یہی ہے کہ مومن خدا کے غیبی خزانہ سے اپنا مدعا حاصل کریں، یہی صبر اور رجوع الی اللہ، اللہ کی مدد کی کلید اور کام یابی کا ہتھیار ہے اور بے صبری اور خالق کے بجائے مخلوق پر بھروسہ ، مؤمن کے لیے ناکامی و نامرادی کا پیش خیمہ، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ صبر اور صلوٰة کے ذریعہ اللہ سے مدد چاہو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے، یہ آخری فقرہ صبر کی مزید تاکید کے لیے ہے، کیوں کہ صبر ایک مشکل کام ہے، یہ اپنے جذبات کی آگ کو اپنے آپ بجھانا اور نفس کے تقاضوں کو آپ قتل کرنے کے مترادف ہے، انسان کا کسی مقصد کے لیے یکبارگی جان دے دینا ، نسبت آسان ہے، لیکن کسی کاز کے لیے گھٹ کر مرنا اور مسلسل اپنے جذبات کو تختہ دار پر چڑھانا بہت دشوار، اسی لیے شاعر نے خوب کہا ہے:
           سلگنا اور شے ہے جل کے مرجانے سے کیا ہوگا؟
           ہوا ہے کام جو ہم سے وہ پروانوں سے کیا ہوگا؟

موجودہ حالات میں ہمیں اپنے آپ سلگنے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہیے ، ہمارے دل حوصلہ و ہمت سے معمور ہوں ، ہمارے جذبات کی لگام حکمت و شعور کے ہاتھوں میں ہو، ہماری پیشانی میں خدا کے یقین کا نور ہو، اور ہمارے ہاتھ اپنے خالق کے حضور اٹھے ہوئے ہوں، یہی ہمارے لیے کام یابی کا راستہ ہے اور اسی طرح ہم اللہ کی مدد کے مستحق ہو سکتے ہیں۔

تعمیر حیات سے متعلق