حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمہ الله ایک مرتبہ سہارن پور سے کان پور جارہے تھے، جب ریل میں سوار ہونے کے لیے اسٹیشن پہنچے تو محسوس کیا کہ ان کے ساتھ سامان اس مقررہ حد سے زیادہ ہے جو ایک مسافر کو بک کرائے بغیر اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت ہوتی ہے، چناں چہ وہ اس کھڑکی پر پہنچے جہاں سامان کا وزن کرکے زائد سامان کا کرایہ وصول کیا جاتا ہے، تاکہ سامان بک کراسکیں، کھڑکی پر ریلوے کا جو اہلکار موجو دتھا، وہ غیر مسلم ہونے کے باوجود حضرت مولانا کو جانتا تھا اور ان کی بڑی عزت کرتا تھا، جب حضرت نے سامان بُک کرنے کی فرمائش کی تو اس نے کہا کہ ” مولانا! ا رہنے دیجیے، آپ سے سامان کا کیا کرایہ وصول کیا جائے؟ آپ کو سامان بک کرانے کی ضرورت نہیں، میں ابھی گارڑ سے کہہ دیتا ہوں، وہ آپ کو زائد سامان کی وجہ سے کچھ نہیں کہے گا“۔
مولانا نے فرمایا:” یہ گارڈ میرے ساتھ کہاں تک جائے گا؟ ”غازی آباد تک“ ریلوے افسر نے جواب د یا۔
” پھر غازی آباد کے بعد کیا ہو گا؟“ مولانا نے پوچھا۔” یہ گارڈ دوسرے گارڈ سے بھی کہہ دے گا“ اس نے کہا۔ مولانا نے پوچھا ” وہ دوسرا گارڈ کہاں تک جائے گا؟“ افسر نے کہا ” وہ کان پور تک آپ کے ساتھ جائے گا“” پھر کان پور کے بعد کیا ہو گا؟“ مولانا نے پوچھا۔
افسر نے کہا” کان پور کے بعد کیا ہونا ہے؟ وہاں تو آپ کا سفر ختم ہو جائے گا“۔
حضرت نے فرمایا” میرا سفر تو بہت لمبا ہے، کان پور پر ختم نہیں ہو گا، اس لمبے سفر کی انتہا تو آخرت میں ہوگی۔ یہ بتائیے کہ جب الله تعالیٰ مجھ سے پوچھے گا کہ اپنا سامان تم کرایہ دیے بغیر کیوں اور کس طرح لے گئے؟ تو یہ گارڈ صاحبان میری کیا مدد کرسکیں گے؟“
پھر مولانا نے ان کو سمجھایا کہ” یہ ریل آپ کی یا گارڈ صاحب کی ملکیت نہیں ہے اور جہاں تک مجھے معلوم ہے، ریلوے کے محکمے کی طرف سے آپ کو یا گارڈ کو یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ جس مسافر کو چاہیں ٹکٹ کے بغیر یا اس کے سامان کو کرائے کے بغیر ریل میں سوار کر دیا کریں، لہٰذا اگر میں آپ کی رعایت سے فائدہ اٹھا کر بغیر کرائے کے سامان لے بھی جاؤں تویہ میرے دین کے لحاظ سے چوری میں داخل ہوگا او رمجھے الله تعالیٰ کے سامنے اس گناہ کا جواب دینا پڑے گا اور آپ کی یہ رعایت مجھے بہت مہنگی پڑے گی، لہٰذا براہ کرم مجھ سے پورا پورا کرایہ وصول کر لیجیے“۔
ریلوے کا وہ اہلکار مولانا کو دیکھتا رہ گیا، لیکن پھر اس نے تسلیم کیا کہ بات آپ ہی کی درست ہے۔
اسی طرح کا ایک واقعہ میرے والد ماجد( حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب رحمہ الله) کے ساتھ پیش آیا، وہ ایک مرتبہ ریل میں سوار ہونے کے لیے اسٹیشن پہنچے، لیکن دیکھا کہ جس درجے کا ٹکٹ لیا ہوا ہے اس میں تِل دھرنے کی جگہ نہیں، گاڑی روانہ ہونے والی تھی او راتنا وقت بھی نہ تھاکہ جاکر ٹکٹ تبدیل کروالیں، مجبوراً اوپر کے درجے کے ایک ڈبے میں سوار ہو گئے، خیال یہ تھا کہ ٹکٹ چیک کرنے والا آئے گا تو ٹکٹ تبدیل کرالیں گے، لیکن اتفاق سے پورے راستے میں کوئی ٹکٹ چیک کرنے والا نہ آیا، یہاں تک کہ منزل آگئی، منزل پر اتر کر وہ سیدھے ٹکٹ گھر پہنچے، وہاں جاکر معلومات کیں کہ دونوں درجوں کے کرائے میں کتنا فرق ہے؟ پھر اتنی ہی قیمت کا ایک ٹکٹ وہاں سے خرید لیا اور وہیں پھاڑ کر پھینک دیا، ریلوے کے جس ہندو افسر نے ٹکٹ دیا تھا، جب اس نے دیکھا کہ انہوں نے ٹکٹ پھاڑ کر پھینک دیا ہے تو اسے سخت حیرانی ہوئی، بلکہ ہو سکتا ہے کہ والد صاحب کی دماغی حالت پر بھی شبہ ہوا ہو، اس لیے اس نے باہر آکر ان سے پوچھ گچھ شروع کر دی کہ آپ نے ٹکٹ کیوں پھاڑا؟ والد صاحب نے اسے پورا واقعہ بتایا او رکہا کہ اوپر کے درجے میں سفر کرنے کی وجہ سے یہ میرے پیسے میرے ذمہ رہ گئے تھے، ٹکٹ خرید کر میں نے یہ پیسے ریلوے کو پہنچا دیے، اب یہ ٹکٹ بیکار تھا، اس لیے پھاڑ دیا، وہ شخص کہنے لگا کہ” مگر آپ تو اسٹیشن سے نکل آئے تھے، اب آپ سے کون زائد کرائے کا مطالبہ کر سکتا تھا؟“ والد صاحب نے جواب دیا کہ “ جی ہاں، انسانوں میں اب تو کوئی مطالبہ کرنے والا نہیں تھا، لیکن جس حق دار کے حق کا مطالبہ کرنے والا کوئی نہ ہو، اس کا مطالبہ الله تعالیٰ ضرور کرتے ہیں، مجھے ایک دن ان کو منھ دکھانا ہے، اس لیے یہ کام ضروری تھا“۔
یہ دونوں واقعات قیام پاکستان سے پہلے اُس دور کے ہیں جب برصغیر پر انگریزوں کی حکومت تھی اور مسلمانوں کے دل میں اس حکومت کے خلاف جو نفرت تھی وہ محتاج بیان نہیں، چناں چہ ملک کو انگریزی حکومت سے آزاد کرانے کی تحریکیں شروع ہو چکی تھیں، خود حضرت مولانا تھانوی بر ملا اپنی اس خواہش کا اظہارفرما چکے تھے کہ مسلمانوں کی کوئی الگ حکومتہونی چاہیے، جس میں وہ غیر مسلموں کے تسلط سے آزاد ہو کر شریعت کے مطابق اپنا کاروبارِ زندگی چلا سکیں، لیکن انگریز کی حکومت سے متنفر ہونے کے باوجود اس کے قائم کیے ہوئے محکمے سے تھوڑا سا فائدہ بھی معاوضہ ادا کیے بغیر حاصل کرنا انہیں منظور نہ تھا۔
بات دراصل یہ ہے کہ چوری کی قانونی تعریف جو کچھ ہو، لیکن گناہ وثواب کے نقطہ نظر سے کسی دوسرے کی چیز اس کی آزاد مرضی کے بغیر استعمال کرنا چوری ہی میں داخل ہے، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے دسیوں احادیث میں مختلف انداز سے یہ حقیقت بیان فرمائی ہے، چند ارشاد ملاحظہ فرمائیے، ارشاد ہے کہ #
”حرمة مال المسلم کحرمة دمہ“․
” مسلمان کے مال کی حرمت بھی ایسی ہی ہے جیسے اس کے خون کی حرمت۔“ (مجمع الزوائد، ص:172،ج:4)
واضح رہے کہ حدیث میں اگرچہ مسلمان کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، لیکن دوسری احادیث کی روشنی میں مسلمان حکومت کے غیر مسلم باشندے جو امن کے معاہدے کے ساتھ رہتے ہوں یا اس غیر مسلم حکومت کے غیر مسلم باشندے جس کے تحت مسلمان پرامن طور پر رہتے ہوں، ان کے جان ومال کا احترام بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا مسلمان کے جان ومال کا احترام، لہٰذا اس لفظ سے یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہیے کہ غیر مسلموں کی جان ومال قابل احترام نہیں ہے۔
او رایک حدیث میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”لا یحل مال امریءٍ مسلم إلا بطیب نفس منہ“․
”کسی مسلمان شخص کا مال اس کی خوش دلی کے بغیر حلال نہیں ہے۔“(مجمع الزوائد،ص:172،ج:4)
حجة الوداع کے موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے منی میں جو خطبہ دیا، اس میں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ :”لا یحل لامریءٍ من مال أخیہ الا ما طابت بہ نفسہ“․
کسی شخص کے لیے اپنے بھائی کا کوئی مال حلال نہیں سوائے اس مال کے جو اس نے خوش دلی سے دیا ہو۔ (مجمع الزوائد:4/171)
حضرت ابو حمید الساعدی رضی الله عنہ روایت فرماتے ہیں کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” لا یحل لمسلم أن یاخذ مال أخیہ بغیر حق، وذلک لما حرم الله مال المسلم علی المسلم وأن یأخذ عصا أخیہ بغیر طیب نفس․“
”کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی کا کوئی مال ناحق طور پر لے، اس لیے کہ الله تعالیٰ نے مسلمانوں کا مال مسلمانوں پر حرام کیا ہے اور اس کو بھی حرام قرار دیا ہے کہ کوئی شخص اپنے بھائی کی لاٹھی بھی اس کی خوش دلی کے بغیر لے“۔ (مجمع الزوائذ:4/171)
ان تمام احادیث میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے یہ بات بھی واضح فرمادی ہے کہ دوسرے کی کوئی چیز لینے یا استعمال کرنے کے لیے اس کا خوشی سے راضی ہونا ضرور ی ہے، لہٰذا اگر کسی وقت حالات سے یہ معلوم ہو جائے کہ کسی شخص نے اپنی ملکیت استعمال کرنے کی اجازت کسی دباؤ کے تحت یا شرما شرمی میں دے دی ہے، وہ دل سے اس پر راضی نہیں ہے، تو ایسی اجازت کو اجازت نہیں سمجھا جائے گا۔ بلکہ اس کا استعمال بھی دوسرے شخص کے لیے جائز نہیں ہو گا۔
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے ان ارشادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اپنے حالات کا بغور جائزہ لیں تو نظر آئے گا کہ نہ جانے کتنے شعبوں میں ہم شعوری یا غیر شعوری طور پر ان احکام کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، ہم چوری اور غصب بس یہی سمجھتے ہیں کہ کوئی شخص کسی کے گھر میں چھپ کر داخل ہو اور اس کا سامان چرائے یا طاقت کا باقاعدہ استعمال کرکے اس کا مال چھینے ،حالاں کہ کسی کی مرضی کے خلاف اس کی ملکیت کا استعمال، کسی بھی صورت میں ہو، وہ چوری یا غصب کے گناہ میں داخل ہے، اس قسم کی چوری اور غصب کی جو مختلف صورتیں ہمارے معاشرے میں عام ہو گئی ہیں او راچھے خاصے پڑھے لکھے اور بظاہر مہذب افراد بھی ان میں مبتلا ہیں، ان کا شمار مشکل ہے، تاہم مثال کے طور پراس کی چند صورتیں درج ذیل ہیں:
ایک صورت تو وہی ہے جس کی طرف حضرت مولانا تھانوی کے مذکورہ واقعے میں اشارہ کیا گیا ہے، آج یہ بات بڑے فخر سے بیان کی جاتی ہے کہ ہم اپنا سامان ریل یا جہاز میں کرایہ دیے بغیر نکال لائے، حالاں کہ اگر یہ کام متعلق افسروں کی آنکھ بچا کر کیا گیا تو اس میں اور چوری میں کوئی فرق نہیں او راگر ان کی رضا مندی سے کیا گیا، جب کہ وہ اجازت دینے کے مجاز نہ تھے، تو ان کا بھی اس گناہ میں شریک ہونا لازم آیا، ہاں! اگر کسی افسر کو ریلوئے یاا ئیر لائنز کی طرف سے یہ اختیار حاصل ہو کہ وہ زیادہ سامان بغیر کرائے کے چھوڑ دے، تو دوسری بات ہے۔
ٹیلی فون ایکسچینج کے کسی ملازم سے دوستی گانٹھ کر دوسرے شہروں میں مفت بات چیت نہ صرف یہ کہ کوئی عیب نہیں سمجھی جاتی، بلکہ اسے اپنے وسیع تعلقات کا ثبوت قرار دے کر فخر یہ بیان کیا جاتا ہے، حالاں کہ یہ بھی ایک گھٹیا درجے کی چوری ہے او را س کے گناہ عظیم ہونے میں کوئی شک نہیں۔
بجلی کے سرکاری کھمبے سے کنکشن لے کر مفت بجلی کا استعمال چوری کی ایک اور قسم ہے، جس کا رواج بھی عام ہوتا جارہا ہے اور یہ گناہ بھی ڈنکے کے چوٹ پر کیا جاتا ہے۔
اگر ہم کسی شخص سے اس کی کوئی چیز مانگتے ہیں جب کہ ہمیں غالب گمان یہ ہے کہ وہ زبان سے انکار نہیں کرسکے گا، لیکن دینے پر دل سے راضی نہ ہو گا اور دے گا تو محض شرما شرمی او ربادلِ ناخواستہ دے گا، تو یہ بھی غصب میں داخل ہے اور ایسی چیزوں کا استعمال حلال نہیں، کیوں کہ دینے والے نے خوش دلی کے بجائے وہ چیز دباؤ میں آکر دی ہے۔
اگر کسی شخص سے کوئی چیز عارضی استعمال کے لیے مستعارلی گئی اور وعدہ کر لیا گیا کہ فلاں وقت لوٹا دی جائے گی ، لیکن وقت پر لوٹانے کے بجائے اسے کسی عذر کے بغیر اپنے استعمال میں باقی رکھا تو اس میں وعدہ خلافی کا بھی گناہ ہے او راگر وہ مقرر وقت کے بعد اس کے استعمال پر دل سے راضی نہ ہو تو غصب کا گناہ بھی ہے۔ یہی حال قرض کا ہے کہ واپسی کی مقررہ تاریخ کے بعد قرض واپس نہ کرنا ( جب کہ کوئی شدید عذر نہ ہو) وعدہ خلافی اور غصب دونوں کا گناہ ہے۔
اگر کسی شخص سے کوئی مکان، زمین یا دوکان ایک خاص وقت تک کے لیے کرائے پر لی گئی، تو وقت گزر جانے کے بعد مالک کی اجازت کے بغیر اسے اپنے استعمال میں رکھنا بھی اسی وعدہ خلافی اور غصب میں داخل ہے۔
اگر مستعار لی ہوئی چیز کو ایسی بے دردی سے استعمال کیا جائے جس پر مالک راضی نہ ہو، تو یہ غصب کی مذکورہ تعریف میں د اخل ہے، مثلاً کسی بھلے مانس نے اگر اپنی گاڑی دوسرے کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اس کے ساتھ ” مال مفت دل بے رحم“ کا معاملہ کرے اور اسے خراب راستوں پر اس طرح دوڑائے پھرے کہ اس کے کل پرزے پناہ مانگنے لگیں، اگر کسی نے اپنا فون استعمال کرنے کی اجازت دی ہے تو اس کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اس پر طویل فاصلے کی کالیں دیر دیر تک کرتے رہنے یقینا غصب میں داخل اور حرام ہے۔
بک اسٹالوں میں کتابیں، رسالے او راخبارات اس لیے رکھے جاتے ہیں کہ ان میں سے جو پسند ہوں، لوگ انہیں خرید سکیں، پسند کے تعین کے لیے ان کی معمولی ورق گردانی کی بھی عام طور سے اجازت ہوتی ہے۔ لیکن اگر بک اسٹال پر کھڑے ہو کر کتابوں، اخبارات یا رسالوں کا باقاعدہ مطالعہ شروع کر دیا جائے، جب کہ خریدنے کی نیت نہ ہو تو یہ بھی ان کا غاصبانہ استعمال ہے، جس کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔
یہ چند سرسری مثالیں ہیں جو بے ساختہ قلم پر آگئیں، مقصد یہ ہے کہ ہم سب مل کر سوچیں کہ ہم کہاں کہاں چوری اور غصب کے گھٹیا جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں؟