الله جل شانہ نے انسانیت کی ہدایت اور راہ نمائی کے لیے حضور ہادی عالم صلی الله علیہ وسلم کو آخری نبی بناکر مبعوث فرمایا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات چوں کہ قیامت تک کے لیے ہیں، اس لیے یہ ضروری ٹھہرا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی ذات میں وہ تمام صفات وکمالات جمع ہوں، جن کی نسلِ انسانی کو ضرورت ہے۔ اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ دنیائے عالم پر جو نقوش حضور صلی الله علیہ و سلم کی ذات مبارکہ نے چھوڑے ہیں، تاریخِ انسانی اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی ذات گرامی تمام کمالات کا مجموعہ اور تمام صفات عالیہ کا مظہر ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم معلم بھی ہیں، مزکی بھی ہیں، ہادی بھی ہیں، شارع بھی ہیں، منتظم بھی ہیں، سیاست دان بھی ہیں، جرنیلبھی ہیں، سپہ سالار بھی ہیں، معاشرت بھی آپ نے سکھائی، معیشت سے بھی آپ نے روشناس کرایا، جنگ کرنے کے طریقوں سے بھی آپ نے باخبر کیا، تجارت کے اصول بھی آپ نے بتلائے۔ بچوں کے ساتھ معاملات، بڑوں کے آداب ، بیویوں کے درمیان برابری اور بین الاقوامی تعلقات بھی آپ نے بتلائے۔ آپ صلی الله علیہ و سلم کی سیرتِ طیبہ کے مختلف پہلو ہیں اور وہ تمام پہلو اپنے اندر اس قدر جامعیت رکھتے ہیں کہ نسل انسانی کی مکمل ہدایت کا سامان ہو جائے۔ سیرت کے انہی مختلف پہلوٴوں میں سے ایک پہلو آپ صلی الله علیہ وسلم کا قاضی ہونا بھی ہے۔ ایک کام یاب اور پرامن معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ قوم کا قاضی عادل ہو، جو عدل وانصاف کو یقینی بنائے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے بڑھ کر کون عادل ہو سکتا ہے؟
حضرت جابر بن عبدالله رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم مقام جعرانہ میں تشریف فرما تھے اور آپ صلی الله علیہ وسلم حضرت بلال رضی الله عنہ کی گود میں سے سونا، چاندی اور اموالِ غنیمت (لوگوں میں) تقسیم فرمارہے تھے، تو ایک شخص نے کہا: اے محمد! عدل وانصاف کیجیے، آپ نے عدل سے کام نہیں لیا۔ آپ صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا:”تیرا برا ہو، اگر میں عدل وانصاف نہ کروں گا تو میرے بعد کون عدل کرے گا؟“ حضرت عمر رضی الله عنہ نے کہا: الله کے رسول! مجھے اجازت دیجیے، میں اس منافق کی گردن اڑا دوں، آپ صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا: ”اس کے اور بھی ساتھی ہیں جو قرآن کو پڑھتے ہیں، لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتا ہے، وہ دین سے ایسے ہی نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔“(سنن ابن ماجة، باب فی ذکر الخوارج)
بلاشبہ آپ صلی الله علیہ و سلم کا ہر فیصلہ ہمیشہ عدل وانصاف کے لیے اعلیٰ معیار ہے۔
حضور صلی الله علیہ وسلم کے فیصلے کی اہمیت
الله جل شانہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو مسلمانوں کے مابین حَکم اور فیصلہ کرنے والا بنا کر بھیجا اور لوگوں کے ایمان کو آپ کے فیصلے پر راضی ہونے سے مشروط کر دیا، چناں چہ قرآن مجید میں ہے کہ :﴿فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُونَ حَتَّیٰ یُحَکِّمُوکَ فِیمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوا فِی أَنفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوا تَسْلِیمًا﴾․ (سورة النساء:65)
ترجمہ:”پھر قسم ہے آپ کے رب کی! یہ لوگ ایمان دارنہ ہوں گے جب تک یہ بات نہ ہو کہ ان کے آپس میں جو جھگڑا واقعہ ہو اس میں یہ لوگ آپ سے تصفیہ کروائیں، پھر اس آپ کے تصفیہ سے اپنے دلوں میں تنگی نہ پاویں اور پورا پورا تسلیم کر لیں۔“ ( ترجمہ بیان القرآن از حضرت مولانا اشرف علی تھانوی)
اور ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا:﴿إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاکَ اللَّہُ﴾․(سورة النساء:105)
ترجمہ:” بے شک ہم نے آپ کے پاس یہ نوشتہ بھیجا ہے واقع کے موافق، تاکہ آپ لوگوں کے درمیان اس کے موافق فیصلہ کریں جو کہ الله تعالیٰ نے آپ کو بتلادیا ہے اور آپ ان خائنوں کی طرف داری کی بات نہ کیجیے۔“(ترجمہ بیان القرآن از حضرت مولانا اشرف علی تھانوی)
نبوت سے قبل آپ صلی الله علیہ وسلم کے فیصلے
آپ صلی الله علیہ وسلم کی بعض صفات ایسی ہیں کہ اہل ِ عرب، نبوت سے پہلے بھی ان کے معترف رہے او رنبوت کے اعلان کے بعد بھی ان صفات کا چرچا ان کے درمیان رہا، او رکیا دشمن، کیا دوست، سب ہی ان صفات کے معترف اور قائل رہے۔ ان صفات میں سے ایک صفت درست اور مبنی برحق فیصلہ کرنے کی تھی۔ نہ صرف نبوت کے بعد، بلکہ نبوت سے پہلے بھی مشرکین مکہ، اپنے مختلف جھگڑوں اور تنازعات میں آپ کے فیصلوں پر سرِ تسلیم ختم کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ محض بیس سال کی عمر میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم امن وآشتی کے پر چار اور ظلم کے خلاف مظلوم کی داد رسی کرنے کے لیے حلف الفضول نامی معاہدے میں شریک ہوئے۔ ایسے ہی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو نبوت ملنے سے قبل جب خانہ کعبہ کی تعمیر ہوئی اور حجرِ اسود کو نصب کرنے پر جھگڑا ہوا تو آپ صلی الله علیہ و سلم کو سب سے نے حکم مان کر آپ کے فیصلے پر عمل کیا، ابو طالب نے اس موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم کی شان میں اشعار پڑھے:(أبو عبدالله، محمد بن سعد، الطبقات الکبریٰ، ذکر ھدم قریش الکعبة:1/117، ط: دارالکتب العلمیة)
”إن لنا أولہ وآخرہ فی الحکم والعدل الذی لا ننکرہ․“
ترجمہ:”وہی ہمارے لیے اول ہیں اور وہی ہمارے لیے آخر ہیں اور فیصلے میں اور عدالت میں ہم ان کا انکار نہیں کرتے۔“
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے فیصلے کرنے کا طریقہ
آپ صلی الله علیہ وسلم فریقین کے ساتھ یکساں سلوک فرماتے اوران کے درمیان ایسا فیصلہ فرماتے تھے کہ جس سے صاحب حق کو اس کا حق مل جائے۔ اکثر اوقات آپ صلی الله علیہ وسلم فریقین میں صلح کروا دیا کرتے تھے او رانہیں دوسرے کا حق دبانے پر خدا تعالیٰ کی طرف سے وعید سناتے تھے۔ ذیل میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے فیصلے کرنے کے مختلف طریقے ذکر کیے جاتے ہیں:
صلح کروانا
آپ صلی الله علیہ وسلم کی اکثر وبیشتر یہی کوشش ہوتی تھی کہ فریقین کے مابین صلح ہو جائے اور خوش اسلوبی کے ساتھ معاملہ نمٹ جائے اوراگر مصلحت دیکھتے تو ایک فریق کے حصہ میں سے کچھ کمی بھی کر دیتے، تاکہ معاملہ سلجھ جائے، چناں چہ حضرت کعب بن مالک رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ : ان کا کچھ قرض ابن ابی حدردرضی الله عنہ پر تھا او رانہوں نے مسجد نبوی میں ان سے قرض وصول کرنے کا تقاضا کیا، اس دوران کچھ آواز بلند ہوئی ، تو رسول الله صلی الله علیہ و سلم نے اپنے حجرہٴ مبارکہ کا پردہ ہٹا کر حضرت کعب کو آواز دی او رکچھ قرض کم کرنے کا کہا، جسے انہوں نے فوراً کم کر دیا۔ اب آپ صلی الله علیہ و سلم نے ابن ابی حدرد رضی الله عنہ کو بقایا قرض ادا کرنے کا حکم دیا، یوں دونوں کے مابین نزاع دور ہوا۔ (البخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، کتاب الصلاة، باب التقاضی والملازمة فی المسجد، رقم الحدیث:457،ط: دار طوق النجاة)
شرعی حکم کے مطابق فیصلہ
اگر فریقین میں صلح نہ ہو سکتی تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم شریعت کے حکم کے عین مطابق ان کے درمیان فیصلہ فرماتے، جیسے:” ایک موقع پر ایک انصاری صحابی نے حضرت زبیر بن العوام رضی الله عنہ کے ساتھ پانی کے حوالے سے جھگڑا کیا، آپ صلی الله علیہ و سلم نے پہلے صلح کے طور پر تخفیف فرمائی، لیکن انصاری کے نہ ماننے پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے شریعت کے مطابق فیصلہ فرمایا۔“ (البخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، کتاب المساقاة، باب سکر الأنھار، رقم الحدیث: 2359، ط: دار طوق النجاة)
یہاں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ابتدا میں کچھ تخفیف والا فیصلہ فرمایا اور علامہ آلوسی لکھتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت زبیر رضی الله عنہ کو اشارہ بھی کیا کہ وہ کچھ تخفیف کریں۔( الآلوسی، شھاب الدین محمود، تفسیر روح المعاني، سورة النساء، الآیة:65، 5/95، ط: مکتبہ رشیدیہ) تاکہ فریقین کی رعایت ہو جائے، لیکن دوسری مرتبہ حضرت زبیر رضی الله عنہ کو ان کا مکمل حق دیا اورانصاری کے حق میں بھی کوئی کوتاہی نہیں ہوئی۔
جھوٹی قسم کھانے سے ڈرانا
اگر مدعی کے پاس اپنے دعوی پر گواہ نہ ہو تو مدعا علیہ سے قسم لی جاتی ہے، یہی اسلامی طریقہ ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم گواہ نہ ہونے کی صورت میں مدعا علیہ کو قسم کھانے کا حکم دیتے، لیکن جھوٹی قسم کھانے پر وعید سے ڈراتے اور یہ بھی آپ کی رحمت ہی کا ایک مظہر تھا، تاکہ انسان سمجھ جائے اور دنیا کے تھوڑے فائدے کے لیے اپنے اُخروی اور دائمی فائدے سے ہاتھ نہ دھوبیٹھے۔
ایک فیصلے کے دوران جب مدعا علیہ قسم کھانے لگا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس سے فرمایا:”من اقتطع ارضا ظالما لقی الله وھو علیہ غضبان․“(القشیري، مسلم بن الحجاج، صحیح مسلم، کتاب الإیان، باب وعید من اقتطع حق مسلم بیمین فاجرة، رقم الحدیث:200،ط: المکتبة الفاروقیة)
ترجمہ:”جس کسی نے دوسرے کی زمین ظلم کرتے ہوئے ہتھیالی، تو وہ الله سے اس حال میں ملے گا کہ الله جل شانہ اس پہ غضب ناک ہوں گے۔“
خلافِ شرع حکم کو رد کرنا
آپ صلی الله علیہ وسلم نہ صرف شریعت کے مطابق فیصلے کیا کرتے تھے، بلکہ خلافِ شریعت کیے گئے فیصلوں کو بدل کر درست فیصلہ کیا کرتے تھے، چناں چہ جب ایک موقع پر دو شخص آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور وہ دونوں کسی مسئلے میں آپسی رضا مندی سے فیصلہ کرچکے تھے، لیکن آپ صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا:”لاقضین بینکما بکتاب الله، اما الولیدة والغنم فرد علیک، وعلی ابنک جلد مائة، وتغریب عام․“(البخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، کتاب الصلح، باب إذا صلحوا علی جور، رقم الحدیث: 2695، ط:دار طوق النجاة)
ترجمہ:” میں تمہارے درمیان کتاب الله کے مطابق فیصلہ کروں گا، وہ باندی او رتمہاری بکریاں تمہیں لوٹا دی جائیں گی اور تمہارے بیٹے کو سو کوڑے لگائے جائیں گے اور سا ل بھر کی جلا وطنی ہوگی۔“
یہاں آپ صلی الله علیہ وسلم نے خلاف شریعت فیصلے کو منسوخ کرکے عد ل وانصاف کے مطابق فیصلہ فرمایا۔
نزاع ختم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنا
آپ صلی الله علیہ وسلم فریقین میں صلح کروانے او رنزاع ختم کرنے کے لیے ہرممکن کوشش کیا کرتے تھے، یہاں تک کہ اگر کسی معاملہ میں کوئی ذمہ داری قبول کرنے والا نہ ہوتا تو آپ صلی الله علیہ و سلم اپنی طرف سے مظلوم کی داد رسی فرماتے، چناں چہ ایک موقع پر جب عبدالله بن سہل رضی الله عنہ کا مقتول جسمخیبر میں پایا گیا اور کسی طرح بھی اس کے قاتل کی تعیین نہ ہو سکی اور معاملہ کسی طور پر نہ سلجھ سکا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے پاس سے ان کی دیت ادا فرمائی۔ (البخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، کتاب الأحکام، باب کتاب الحاکم إلی عمالہ، رقم الحدیث:7192،ط:دار طوق النجاة)
ایسے ہی آپ صلی الله علیہ وسلم حضرت جابر بن عبدالله رضی الله عنہ کے والد کا قرض ادا کرنے کے لیے خود تشریف لائے اور قرض خواہوں کو اپنے دستِ مبارک سے کھجوریں دیں، جب کہ اس سے پہلے قرض خواہ ان کھجوروں کے لینے سے انکار کر چکے تھے۔ ( النسائی، أحمد بن شعیب، کتاب الوصایا، باب قضاء الدین قبل المیراث، رقم الحدیث:3639،ط: دارالمعرفة)
ظاہری حالت پر فیصلہ کرنا
رسول الله صلی الله علیہ وسلم فریقین کی ظاہری حالت پر فیصلہ فرماتے تھے او ربسا اوقات وحی کے ذریعے اس فیصلے کی تائید یا اس کے بارے میں کوئی آیت نازل ہو جاتی، خود آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”إنکم تختصمون إلی وإنما انابشر لعل بعضکم ان یکون الحن بحجتہ من بعض، فإن قضیت لأحد منکم بشیءٍ من حق أخیہ، فإنما اقطع لہ قطعة من النار، فلا یاخذ منہ شیئا․“ (الترمذی، محمد بن عیسی، سنن الترمذی، ابواب الأحکام، باب ماجاء فی التشدید علی من یقضی لہ بشيء، رقم الحدیث:1339، ط: دارالغرب الإسلامي)
ترجمہ:” تم لوگ میرے یہاں اپنے مقدمات لاتے ہو او رکبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک تم میں دوسرے سے دلیل بیان کرنے میں بڑھ کر ہوتا ہے، پھر میں اس کو اگر اس کے بھائی کا حق دلا دوں ، تو میں اس کو دوزخ کا ایک ٹکڑا دلارہا ہوں۔“
قاضیوں کے لیے ہدایات نبوی
آپ صلی الله علیہ وسلم نے زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق امت کو ہدایات دی ہیں، قضاة اور حاکم کو بوقتِ قضا اور فیصلہ کرتے وقت کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ارشادات سے ان کے حوالے سے مکمل راہ نمائی کی ہے، چناں چہ فرمان ِ نبوی ہے:” لا یحکم الحاکم بین اثنین وھو غضبان․“(الترمذی، محمد بن عیسیٰ، سنن الترمذي، ابواب الأحکام، باب ماجاء القاضی لا یقضی وھو غضبان، رقم الحدیث:1334، ط:دارالغرب الإسلامي)
”قاضی غصہ کی حالت میں فیصلہ نہ کرے“۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت علی رضی الله عنہ سے فرمایا:” فإذا جلس بین یدیک الخصمان فلا تقضین حتی تسمع من الآخر․“(السجستانی، سلیمان بن أشعث، سنن أبی داود، کتاب الأقضیة، باب کیف القضاء؟، رقم الحدیث:3582،ط: دارالمعرفة)
آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں کئی فیصلے کیے۔ یہ تمام فیصلے مبنی برحق ہونے کے ساتھ ساتھ پوری امت کے لیے کئی اسباق لیے ہوئے تھے۔ ذیل میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے چند فیصلے ذکر کیے جاتے ہیں:
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے بنی مخزوم کی عورت کا ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ کیا، باوجود یہ کہ اس عورت کے حق میں کئی سفارشیں آئیں۔ (السجستانی، سلیمان بن أشعث، سنن أبی داود، کتاب الأقضیة، باب کیف القضاء؟، رقم الحدیث:3582،ط: دارالمعرفة)
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ جو کوئی قتل خطا میں مارا جائے، اس کی دیت سو اونٹ ہو گی۔( السجستاني، سلیمان بن أشعث، سنن أبی داود ، کتاب الدیات، باب الدیة کم ھی؟، رقم الحدیث:4543،ط: دارالمعرفة)
بچہ کے نسب کے متعلق آپ صلی الله علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ بچہ کا نسب اپنی ماں کے شوہر سے ہی ثابت ہو گا۔ ( البخاری، محمد بن إسماعیل، صحیح البخاریي، کتاب الفرائض، باب الولد للفراش، رقم الحدیث:6749،ط: دار طوق النجاة)
آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے اورآپ صلی الله علیہ وسلم نے کارخانہ قدرت میں کام کرنے والے ہر شخص کے لیے اس کے میدان سے متعلق مکمل راہ نمائی فرمائی ہے۔ موجودہ زمانے کے جج اور جرگہ وپنچائیت کے فیصلہ کنندگان کے لیے یہ درس ہے کہ وہ اس منصب وذمہ داری کو امانت سمجھیں، ان کے قلم کی جنبش کسی ظالم کا سر بھی قلم کرواسکتی ہے او رمظلوم کے خلاف بھی استعمال ہو سکتی ہے، اس لیے قاضی کو بہت سنبھل کر رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ بہت ہی نازک مرحلہ ہے، اسی لیے ایک حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے قاضی کے متعلق فرمایا:”جسے قاضی بنا دیا گیا، وہ بغیر چھری کے ذبح کر دیا گیا۔“ (السجستاني، سلیمان بن أشعث، سنن أبي داود، کتاب الأقضیة، باب فی طلب القصاء، رقم الحدیث:3574،ط: دارالمعرفة)
بحیثیت مسلمان جج اور فیصل ایسے لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کریں۔