
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہل سنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)
پاوٴں کے مسح پر روافض کے استدلال کا جائزہ
روافض کے نزدیک وضو میں پاوٴں پر مسح کرنا واجب ہے، نہ کہ دھونا۔ ان کا استدلال ہے کہ آیت کریمہ کی دو قرائتیں ہیں: أرجُلَکم کی ایک قراء ت لام پر زبر کے ساتھ اور دوسری قراء ت لام پر زیر کے ساتھ ہے۔ دونوں صورتوں میں اس کا عطف بروٴسِکم کے محل پر یا لفظ پر ہورہا ہے۔ اس لیے جس طرح سر پر مسح کا حکم ہے، اسی طرح پیروں پر بھی مسح کرنے کا حکم ہے۔
پہلا جواب: اگر أرجلَکم لام پر زبر کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کا عطف قرب کے اعتبار سے أیدیکم پر اور بعد کے اعتبار سے وجوھکم پر ہورہا ہے۔ یعنی جس طرح چہرے اور ہاتھوں کو دھونا ہے اسی طرح پاوٴں کو دھونا ہے، کیوں کہ جو حکم معطوف علیہ کا ہوتا ہے وہی حکم معطوف کا ہوتا ہے۔
امام النحاة ابو زکریا یحییٰ بن زیاد الفراء نے لکھا ہے: وأرجلکم مردودة علی الوجوہ․(معانی القرآن للفراء: 1/302) یعنی پیروں کا حکم چہرے کے حکم کی طرف لوٹتا ہے، جس طرح چہرے کو دھونے کا حکم ہے اسی طرح پیروں کو دھونے کا حکم ہے۔
امام بیہقی فرماتے ہیں: رجع القران إلی الغسل قرآن کریم نے پاوٴں کا حکم أرجلکم لام کے زبر کے ساتھ غسل کی طرف لوٹایا ہے۔ (السنن الکبری للبیھقي: 1/17)
دوسرا جواب: ایک قراء ت میں أرجلکم لام کے زیر کے ساتھ ہے۔ اس صورت میں اس کا عطف بروٴسکم پر ہوتا ہے۔ لیکن محض اس اعراب کی وجہ سے سر کے مسح کی طرح پاوٴں کا مسح ثابت نہیں ہوگا، کیوں کہ اسے جر یعنی زیر کا اعراب بروٴسکم کی قربت اور پڑوس میں ہونے کی بنا پر دیا گیا ہے۔ اور عربی میں کسی لفظ کو محض کسی دوسرے لفظ کی قربت کی وجہ سے بھی اعراب دیا جاتا ہے۔ جیسا قرآن کریم میں ہے ﴿إِنِّيْ أَخَافُ عَلَیْکُمْ عذابَ یَوْمٍ أَلِیْمٍ﴾ (ہود: 26) اس آیت میں ”ألیم“ عذاب کی صفت ہے، اس اعتبار سے اس پر عذاب کی طرح نصب آنا چاہیے تھا، لیکن اس کے قریبی لفظ ”یوم“ پر زیر تھی، اس وجہ سے ”ألیم“ پر بھی زیر آگئی۔
تیسرا جواب: جن علمائے کرام نے أَرْجُلِکُمْ لام کے زیر کے ساتھ پڑھا ہے وہ بھی پاوٴں پر مسح کی بجائے اسے دھوتے تھے۔ چناں چہ امام بیہقی a نے امام اعمش کا قول نقل فرمایا ہے۔ قال الاعمش: کانوا یقروٴونھا بالخفض، وکانوا یغسلون۔ پڑھتے تو لام کے زیر کے ساتھ، تھے مگر اس کے باوجود وضو میں پاوٴں کو دھویا کرتے تھے۔
صحابی رسول حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
نزل القرآن بالمسح، والسنة الغسل․ قرآن تو مسح کے الفاظ میں نازل ہوا اور سنت پاوٴں کو دھونا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم میں سر پر مسح کے حکم پر عطف کرتے ہوئے وأرجلکم لام کے زیر کے ساتھ پاوٴں پر مسح کرنے کا حکم دیا گیا ہے مگر مسح کا صحیح معنی دھونا ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول اور عمل سے ثابت ہے۔
خود حضرت انس رضی اللہ عنہ کے متعلق مشہور تابعی حمید بیان کرتے ہیں۔ إن انسًا کان یغسل قدمیہ ورجلیہ حتی یسیل الماء․ (مصنف ابن أبي شیبہ: 1/18) حضرت انس رضی اللہ عنہ اپنے پاوٴں کو اس قدر دھوتے تھے کہ پانی بہنے لگتا تھا۔
چوتھا جواب: عربی میں لفظ مسح بھی دھونے کے معنی میں آتا ہے۔ لہٰذا أرجلکم کی دونوں قراء توں میں ایسی تطبیق دینی چاہیے کہ ان میں تعارض نہ رہے۔ اور یہ اس صورت میں آسان ہے کہ جب یہ تسلیم کر لیا جائے کہ مسح بھی غسل کے معنی میں ہے۔ چناں چہ حافظ ابن عبد البر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
وإن کانت قد قرأت: وأرجلکم بالجر فذلک معطوف علی اللفظ دون المعنی، والمعنی فیہ الغسل علی التقدیم والتاخیر، فکأنہ قال عزوجل: إذا قمتم إلی الصلوة فاغسلوا وجوہکم وأیدیکم إلی المرافق وأرجلکم إلی الکعبین وامسحوا بروٴسکم․ والقرائتان بالنصب والجر صحیحتان مستفیضتان، والمسح ضد الغسل ومخالف لہ وغیر أن تبطل إحدی القراأتین بالأخری ما وجد إلی تخریج الجمع بینہما سبیل، وقد وجدنا العرب تخفض بالجوار فعلی ما ذکرنا تکون معنی القراء ة بالجر النصب، ویکون الخفض علی اللفظ للمجاورة والمعنی الغسل، وقد یراد بلفظ المسح الغسل عند العرب، من قولہم: تمسحت للصلوة والمراد الغسل ویشیر إلی ہذا التاویل کلہ قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم: ویلٌ للأعقاب من النار․ (التمہید لما في الموطأ من المعانی والأسانید: 24/254)
”اگر چہ اسے زیر کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے، لیکن یہ لفظ پر عطف ہے، معنی پر نہیں۔ یہ تقدیم وتاخیر کے قبیل سے ہے اور اس کا معنی دھونا ہی ہے۔ اللہ تعالی کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ جب تم نماز کے لیے کھڑے ہونے لگو تو اپنے چہروں، کہنیوں سمیت اپنے ہاتھوں اور ٹخنوں سمیت اپنے پاوٴں کو دھولو اور اپنے سروں کا مسح کرلو، نصب اور جر کے ساتھ دونوں قراء تین صحیح اور مشہور ہیں، مسح دھونے کی ضد ہے اور اس کے خلاف ہے، لیکن دونوں قراء توں میں سے ایک کو اس وقت تک باطل کہنا جائز نہیں جب تک دونوں میں کوئی موافقت اور مطابقت کا راستہ موجود ہو۔
ہم نے دیکھا ہے اہل عرب کسی لفظ کو کسی مجرور کے قریب ہونے کی وجہ سے جر دے دیتے ہیں لہذا زیر والی قراء ت کا معنی زبر والی قراء ت کا ہے۔
پھر کبھی اہل عرب مسح کا لفظ دھونے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں: جیسا کہ عرب کہتے ہیں:
تَمسَّحْتُ للصلاة۔ میں نے نماز کے لیے مسح کیا اور اس مراد وضو کے اعضا کو دھونا ہوتا ہے کہ میں نے نماز کے لیے اعضائے وضو دھوئے۔ اس معنی کی طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول بھی دلالت کرتا ہے: ویل للاعقاب من النار خشک ایڑھیوں کے لیے ہلاکت ہے“۔
ابن ابی العز حنفی a لکھتے ہیں۔
ولفظ الاٰیة لا یخالف ما توٴاترت من السنة فإن المسح کما یطلق ویراد بہ الإصابة، کذلک یطلق ویراد بہ الإسالة کما تقول (العرب): تمسحت للصلاة، وفي الاٰیة ما یدلّ علی أنہ لم یرد بمسح الرجلین المسح الذی ہو قسیم الغسل، بل المسح الذی الغسل قسم منہ․․․“ (شرح العقیدة الطحاویة ص: 386)
زیر والی قراء ت متواتر سنت (پاوٴں کو دھونا) کے خلاف نہیں ہے۔ کیوں کہ جس طرح مسح سے مراد ہاتھ لگانا ہے اسی طرح مسح سے مراد پانی بہانا بھی ہے، اس سلسلے میں عربوں کا یہ قول دلیل ہے کہ تمسحت للصلاة میں نے وضو کے لیے مسح یعنی وضو کیا۔ آیت کریمہ میں وہ قرینہ موجود ہے جو بتاتا ہے کہ اللہ کی مراد وہ مسح نہیں جو دھونے کے برعکس ہے، بلکہ وہ مسح مراد ہے جس کی ایک قسم دھونا ہے۔
روایاتِ مسح کی حقیقت
جن احادیث میں پاوٴں پر مسح کرنے تذکرہ ہے وہ چار صحابہ کرام کی طرف منسوب ہیں۔ جسے شیعہ اپنے حق میں استدلال کے طور پر پیش کرتے ہیں یہاں ان کا مختصر جائزہ لیا جاتا ہے۔
1- حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب روایت
ایک حدیث جو حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ کے طریق سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں: ”میں نے حضرت علی کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، آپ نے سر کا مسح کیا، پھر اپنے دونوں پاوٴں کا مسح کیا“۔ یہ حدیث بالکل من گھڑت اور موضوع ہے، کیوں کہ اس روایت کی سند میں غیر ثقہ متروک اور کذاب راوی عبد الرحمن بن مالک بن مغول موجود ہے، جسے حضرت امام نسائی نے غیر ثقہ کہا ہے اور حضرت امام احمد بن حنبل، امام دار قطنی رحمتہ اللہ علیہما نے اس شخص کو متروک قرار دیا ہے۔ اور حضرت امام ابو داوٴد رحمتہ اللہ علیہ نے اسے کذاب تک کہہ دیا اور فرمایا یہ کذاب شخص حدیثیں وضع کیا کرتا تھا۔ یعنی من گھڑت حدیثیں پیش کیا کرتا تھا۔ (دیکھئے لسان المیزان: 3/427)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب دوسری روایت جو ان کے شاگرد نزّال بن سبرہ اور ابراہیم سے ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ نے نقل فرمائی ہے کہ ”حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں پاوٴں پر مسح فرمایا“۔ اس کا جواب اسی روایت کے آخر میں موجود ہے کہ وضو کر چکنے کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا تھا: ہذا وضوء من لم یحدث یہ اس شخص کا وضو ہے جس کا وضو نہ ٹوٹا ہو۔ اس سے معلوم ہوا بے وضو شخص جب وضو کرے گا تو پاوٴں دھوئے گا، نہ کہ مسح کرے گا۔
اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر کھانے کے بعد ہاتھ دھوکر گیلے ہاتھ سر اور چہرے پر پھیر دیے، پھر عکراش کو خطاب کر تے فرمایا ہذا الوضوء مما مست النار یعنی یہ وہ والا وضو ہے جو آگ پر پکی ہوئی چیزوں کے کھانے کے بعد کیا جاتا ہے، متعارف وضو مراد نہیں۔
2- حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب روایت
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں تو کتاب اللہ میں مسح ہی پاتا ہوں۔ (سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث: 458) لیکن یہ روایت بھی صحیح نہیں ہے، کیوں کہ اس کا راوی عبد اللہ بن محمد بن عقیل ہے، جسے امام ترمذی نے اپنی جامع میں اور علامہ محمد طاہر پٹنی نے (قانون موضوعات ص: 273، 274) کہا ہے یہ صدوق تو ہے، مگر اس کا حافظہ ٹھیک نہ تھا اور چوتھے طبقے کا راوی اور منکر الحدیث۔ اور یحییٰ بن سعید القطان جیسا امام فن جرح وتعدیل اس سے روایت نہیں لیتا تھا اور حضرت علی بن مدینی نے کہا ہے کہ حضرت امام مالک بن انس بھی اس سے روایت نہ لیتے تھے اور یحییٰ بن معین نے کہا کہ اس کی حدیث کوئی حجت نہیں ہے۔ نیز کہا کہ عاصم، فلیح اور ابن عقیل ان تینوں کی بیان کردہ حدیث سے احتجاج نہ کیا جائے، اس کے علاوہ علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آخر عمر میں ان کے حافظے میں تغیر آچکا تھا۔ (تقریب التہذیب ص 214) دوسری بات یہ ہے کہ یہ راوی یعنی عبد اللہ بن محمد بن عقیل رجال شیعہ امامیہ میں سے ہے۔ تنقیح المقال میں لکھا ہے عبد اللہ بن محمد بن عقیل بن ابی طالب، حضرت جعفر صادق کے ساتھیوں (شاگردوں) میں سے ہے۔ نیز یہ بھی لکھا ہے: ولا شک في کونہ إمامیّا․
خود حضرت عبد اللہ بن عباس کا عمل اور ان کی دوسری روایات بھی اس روایت کے خلاف ہے، اس لیے یہ استدلال ناقابل اعتبار ہے۔
3- حضرت انس بن مالک کی طرف منسوب روایت
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالی سچا ہے اور حجاج بن یوسف سقفی جھوٹا ہے، جو کہتا ہے خوب زیادہ پانی بہا کر دھویا کرو“۔
تو اس سلسلے میں اصل بات یہ ہے کہ حجاج بن یوسف ثقفی نے خطبہ دیا تھا کہ وضو میں پاوٴں دھونا نہایت ضروری حکم ہے اور حجاج نے اس کے استدلال میں یہی آیت پڑھی اور کہا پاوٴں دھونے میں خوب کوشش کی جائے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے یہ بات سنی تو اس مبالغہ اور غلو کی وجہ سے کہا اللہ تعالی سچا ہے اور حجاج بن یوسف ثقفی جھوٹا ہے، کیوں کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے: ﴿وامسحوا بروٴسکم وارجلکم﴾اور حضرت انس کا معمول تھا فضول زیادہ پانی نہ بہاتے تھے بلکہ تھوڑا تھوڑا پانی ڈال کر پاوٴں ملتے تھے اور ان کو پانی سے تر کر دیتے تھے۔ (تفسیر در منثور ص 28- 29) عموما انسانی طبیعت پاوٴں دھونے میں وافر پانی خرچ کرنے کا تقاضا کرتی ہے، اس لیے مسح راس کے ساتھ غسل رجلین کی ایک حکمت یہی ہے کہ پاوٴں کو اتنے تھوڑے پانی سے دھویا جائے کہ مسح کا گمان ہو اور عربی میں اس طرح ہلکے پانی سے عضو دھونے کو مسح بھی کہتے ہیں۔
6- حضرت رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ کی روایت
حضرت رفاعہ بن رافع کی روایت ابن ماجہ میں ہے:
اس کے علاوہ شرح معانی الاٰثار جلد ۱ ص21 میں امام طحاوی نے اور المعجم الکبیر جلد 5 ص29 میں امام طبرانی نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے کہ یمسح برأسہ ورجلیہ إلی الکعبین۔ جس کے ظاہری معنی تو یہ ہیں اپنے سر کا مسح کرے اور ٹخنوں سمیت اپنے پاوٴں کا مسح بھی کرے۔
اس کا ایک جواب تو ہے کہ یہاں مسح سے مراد موزوں پر مسح ہے، جیسے علامہ عینی رحمتہ اللہ علیہ نے عمدة القاري ج3، ص: 25، 26 میں بیان فرمایا ہے۔
اس کا دوسرا جواب یہ ہے یہ روایت اس سند کے سوا کسی اور سند سے ثابت نہیں اور تمام ثقہ راوی اس کے خلاف بیان کرتے ہیں، اس لیے یہ روایت اصول حدیث کی اصطلاح میں شاذ کہلاتی ہے اور شاذ قابل استدلال نہیں ہوتی۔
علامہ آلوسی رحمتہ اللہ علیہ روافض کی بیان کردہ روایات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
”وما یزعمہ الإمامیة من نسبة المسح إلی ابن عباس وانس بن مالک وغیرہما کذب مفتری علیہم، فإن أحدًا منہم ما روی عنہ بطریق صحیح أنہ جوّز المسح“․ (روح المعاني، المائدة: ذیل آیت 6)
”اور امامیہ کا جو گمان ہے کہ ابن عباس اور انس بن مالک وغیرہما پاوٴں کا مسح کرتے تھے تو وہ سفید جھوٹ ہے، جو گھڑ کر ان پر باندھا گیا ہے، ان بزرگوں میں سے ایسا کوئی بھی نہیں جس سے صحیح سند کے ساتھ مسح روایت کیا گیا ہو“۔
پاوٴں دھونے کاثبوت شیعہ کتب سے
امامیہ کے نزدیک وضو میں پاوٴں دھونے سے وضو باطل ہوجاتا ہے۔ چناں چہ ایک امامی مصنف پروفیسر غلام صابر اپنی کتاب ”وضوءِ رسول“ میں لکھتا ہے:
”اہل سنت وضو میں پاوٴں کو دھوتے ہیں، جب کہ شیعہ پاوٴں کا مسح کرتے ہیں، پاوٴں دھونے سے ان کا وضو باطل ہوجاتا ہے“۔ (وضوءِ رسول، ص: 11)
لیکن ذیل میں شیعہ ائمہ کی روایات بیان کی جاتی ہیں، جس سے وضو میں پاوٴں دھونے کا ثبوت ملتا ہے۔
1- شیعہ حضرات کا شیخ الطائفہ طوسی روایت نقل کرتا ہے کہ ابو عبد اللہ علیہ السلام سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جس نے باقی سارا وضو کرنے کے بعد پھر اپنے پاوٴں پانی میں ڈبو دیے تو کیا اس کا وضو جائز ہے؟ تو انہوں نے کہا ”أجزأہ ذلک“ اس کے لیے یہ کافی ہے۔ (الاستبصار: 1/56، تہذیب الاحکام: 1/66)
2- ایک اور روایت میں ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے وضو کیا تو اس روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وغسلت قدمی فقال لی یا علي خلل ما بین الأصابع لا تخلل بالنار․ (تہذیب الاحکام: 1/93) اور میں نے اپنے پاوٴں دھوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا اے علی! انگلیوں کے درمیان خلال کرو، تاکہ آپ کو آگ سے خلال نہ کرنا پڑے۔
اس روایت میں شیعہ امامیہ تقیہ کا دعوی بھی نہیں کرسکتے، کیوں کہ آپ علیہ السلام حضرت علی کو سمجھا رہے ہیں، اس میں تقیہ کا کوئی موقع نہیں ہے۔
3- ایک روایت میں ہے کہ ایوب بن نوح کہتے ہیں: میں نے ابو الحسن u کی جانب لکھا اور ان سے پاوٴں پر مسح کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا: الوضوء بالمسح، ولا یجب فیہ إلا ذلک، ومن غسل فلا بأس․ (تہذیب الاحکام: 1/64، الاستبصار: ۱/65) وضو میں واجب تو مسح ہی ہے اور جس نے پاوٴں کو دھولیا اس میں کوئی حرج نہیں۔
4- ایک اور روایت میں ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا: وإن نسیت مسح رأسک حتی تغسل رجلیک، فامسح رأسک ثم اغسل رجلیک․ (فروع کافی: 3/35) اگر تو بھول کر سر کے مسح سے پہلے پاوٴں کو دھولے تو یاد آنے پر سر مسح کر اور پھر اپنے پاوٴں دھولے“۔
ائمہ اثناعشریہ کی ان تمام روایات سے ثابت ہوا پاوٴں کو دھونا بھی درست ہے، اس سے بھی وضو ہوجاتا ہے۔
تیمم کی مشروعیت
﴿وإن کنتم مرضی أو علی سفر أو جاء احدکم من الغائط أو لٰمستم النساء فلم تجدوا ماء فتیمموا صعید طیبا…﴾
تیمم کی مشروعیت سورت النساء کی آیت نمبر 43 کی تفسیر میں گزر چکی ہے۔ جو شخص مریض ہو، پانی کے استعمال پر قادر نہ ہو یا پانی کے استعمال سے مرض کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہو یا سفر میں ہونے کی وجہ سے پانی دست یاب نہ ہو یا حضر میں اور شہر میں پانی ایک میل شرعی کے فاصلے پر دور ہو اور حدث اصغر یا اکبر لاحق ہونے کی وجہ سے وضو اور غسل کی حاجت ہو تو وہ تیمم کر کے نماز کا فریضہ انجام دے سکتا ہے۔ اللہ تعالی نے حالت عذر میں طہارت کا حکم تبدیل کر کے آسانی پیدا فرمائی ہے۔
تیمم کا مسنون طریقہ
1- پہلے نیت کی جائے۔ کیوں کہ اللہ نے فرمایا: فَتیمَّمُوْا ارادہ کرو۔
2- دونوں ہتھیلیوں کو مٹی پر مار کر پورے چہرے پر پھیر لیا جائے، پھر اس کے بعد دوبارہ مٹی پر مار کر دونوں ہاتھ کہنیوں تک پھیر لیے جائیں۔ (جامع الترمذي رقم الحدیث: 124)۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان فرماتے ہیں۔التیمم ضربة للوجہ وضربة للیدین إلی المرفقین․ (السنن الکبری للبیھیقی، رقم الحدیث: 999، 1/913، وأما کیفیة التیمم فذکر ابو یوسف في الأمالی، فضرب بیدیہ علی الارض فأقبل بہما وأدبر ثم نفضہما ثم مسح بہما وجہہ ثم اعاد کفیہ إلی الصعید ثانیا فاقبل بھا وادبر ثم نفضہما ثم مسح بذلک ظاہر الذراعین وباطنہما إلی المرفقین․ (بدائع الصنائع: 1/167))
دونوں ہتھیلیوں کو ایک دفعہ زمین پر چہرے کے لیے مارا جائے، دوسری دفعہ دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک پھیرنے کے لیے مارا جائے۔
امام اعظم ابو حنیفہ اور امام محمد رحمتہ اللہ علیہما کے نزدیک زمین کی جنس میں سے ہر چیز کے ساتھ تیمم جائز ہے، مثلا مٹی، ریت، پتھر ، چونا، وغیرہ، تیمم ہر اس چیز سے ٹوٹ جاتا ہے جس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ نیز جب پانی میسر آجائے اور وہ اس کے استعمال پر قادر ہو تو بھی تیمم ٹوٹ جاتا ہے، تیمم سے فرائض ونوافل سب کچھ پڑھا جاسکتا ہے، اگر نماز جنازہ یا عید کی نماز فوت ہونے کا خطرہ ہو تو پانی ہوتے ہوئے بھی بلا عذر تیمم کرکے نماز جنازہ اور نماز عید میں شریک ہوسکتے ہیں۔ (ہدایہ اولین، ص: 49)
نعمتوں کی یاد دہانی، انصاف کی گواہی اور عدل پر قائم رہنے کا حکم
﴿واذکروا نعمة اللہ علیکم…﴾
اللہ تعالی نے اہل ایمان کو جن نعمتوں سے نوازا ہے اس کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا، مگر ان نعمتوں کے استحضار سے منعم حقیقی سے محبت اور اس کی فرماں برداری کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس لیے نعمتوں کی یاد دہانی کا حکم دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالی نے امت محمدیہ کو معتدل شریعت عطا فرمائی اور زمان ومکان اور مخاطب کے اختلاف سے اس میں لچک رکھی ہے، تاکہ اہل ایمان پر تنگی نہ ہو، مرد وعورت، صحت مند، بیمار، جوان، بوڑھے، امیر وغریب ہر ایک کے احوال کے موافق اسے مکلف بنایا، اسی کی ایک مثال تیمم کا حکم ہے، اس لیے نعمتوں کی یاد ہانی کا حکم دیا، تاکہ شکر اور اطاعت کا جذبہ کبھی سرد نہ ہونے پائے۔ ﴿ومیثاقہ الذي واثقکم بہ…﴾ یہ میثاق وہ عہد نامہ ہے جو کلمہ شہادت پڑھنے کے ساتھ ہر مومن اللہ تعالی کے ساتھ کرتا ہے۔ صحابہ کرام کلمہ شہادت پڑھنے کے ساتھ زبانی اقرار واظہار بھی کرتے تھے سمعنا واطعنا گویا یہ کہا گیا کہ عمومی میثاق کے ساتھ خصوصی میثاق بھی باندھتے ہو تو اس کا تقاضا ہے اللہ تعالیٰ سے ڈرو، اس کی نافرمانی سے بچو، اس کے احکام کو نظر انداز مت کرو، احکام شرعیہ بہت آسان ہیں، تمہاری فطرت اور حالت کے عین موافق ہوتے ہیں۔
﴿یا ایھا الذین اٰمنوا کونوا قوامین…﴾
اہل ایمان کو ہر ایک کے ساتھ انصاف پسند ہونا چاہیے، خواہ وہ اپنا ہو یا غیر، مومن ہو یا کافر، انصاف پسندی سچی گواہی کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی، اس لیے اللہ تعالی کی خالص رضا کے لیے ہمیشہ سچی گواہی دی جائے، خواہ اس سے فائدہ ہو یا نقصان، کسی قوم کی دشمنی میں اتنے حد سے نہ گزرا جائے کہ انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے۔
عدل وانصاف کا اہتمام کیا جائے، عدل نام ہے صاحب حق کو اس کا حق دینے کا، خواہ وہ صاحب حق دشمن ہو یا دوست، عدل تمام حقوق کی ادائیگی میں بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی کے ذریعے معاشرے میں نیکیاں پھیلتی ہیں، شریعت کا حسن نمایاں ہوتا ہے اور معاشرے کو استحکام نصیب ہوتا ہے۔ (جاری ہے)