وقوفِ عرفات اور عرفہ کا روزہ

idara letterhead universal2c

وقوفِ عرفات اور عرفہ کا روزہ

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی

حج کے ایام شروع ہو گئے ہیں۔ حج، نماز، روزہ اور زکوٰة کی طرح اسلام کا ایک اہم بنیادی رکن ہے۔ تمام عمر میں ایک مرتبہ ہر اس شخص پر حج فرض ہے جس کو اللہ نے اتنا مال دیا ہو کہ اپنے گھر سے مکہ مکرمہ تک آنے جانے پر قادر ہو اور اپنے اہل وعیال کے مصارف واپسی تک برداشت کرسکتا ہو۔

لاکھوں عازمین حج ،حج کا ترانہ یعنی لبیک پڑھتے ہوئے مکہ مکرمہ پہنچیں گے ہیں۔ حجاج کرام اسلام کے پانچویں اہم رکن کی ادائیگی کے لیے، دنیاوی ظاہری زیب وزینت کو چھوڑکر اللہ جل شانہ کے ساتھ والہانہ محبت میں پانچ یا چھ روز مشاعر مقدسہ (منی، عرفات اور مزدلفہ) میں رہیں گے اور وہاں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ پر حج کی ادائیگی کرکے، اپنا تعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عظیم قربانیوں کے ساتھ جوڑیں گے۔ حج کو اسی لیے عاشقانہ عبادت کہتے ہیں ،کیوں کہ حاجی کے ہر عمل سے وارفتگی اور دیوانگی ٹپکتی ہے۔ حج اس لحاظ سے بڑی نمایاں عبادت ہے کہ یہ بیک وقت روحانی، مالی اور بدنی تینوں پہلوؤں پر مشتمل ہے، یہ خصوصیت کسی دوسری عبادت کو حاصل نہیں ہے۔ عازمین حج نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں8 ذو الحجہ کو منی میں رہ کر عبادت کریں گے۔ منی مکہ سے 4۔5 کیلومیٹرکے فاصلہ پر دو طرفہ پہاڑوں کے درمیان ایک بہت بڑا میدان ہے۔ حجاج کرام8 ذی الحجہ کو اور اسی طرح 11، 12 اور 13 ذی الحجہ کومنی میں قیام فرماتے ہیں۔ منی میں ایک مسجد ہے جسے مسجد خیف کہا جاتا ہے۔ اسی مسجد کے قریب جمرات ہیں جہاں حجاج کرام کنکریاں مارتے ہیں۔ منی ہی میں قربان گاہ ہے جہاں حجاج کرام کی قربانیاں کی جاتی ہیں۔

9/ذو الحجہ کو عازمین حج منی سے عرفات کے لیے روانہ ہو جائیں گے، جہاں انہیں ظہر تک پہنچنا ہوتا ہے۔ عرفات منی سے تقریباً 10 کیلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ عرفات کے شروع میں مسجد نمرہ واقع ہے، جہاں ظہر کے وقت حج کا خطبہ پیش کیا جاتا ہے اور اس کے بعد ظہر وعصر کی نمازیں ظہر کے وقت میں ادا کی جاتی ہیں۔ اسی جگہ پر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے خطبہ دیا تھا جو خطبہ حجة الوداع کے نام سے معروف ہے۔ جس کے بعد حجاج کرام وقوف عرفہ کی ادائیگی میں غروب آفتاب تک دعاؤں میں مشغول رہتے ہیں۔ عرفات کے میدان میں ایک پہاڑ ہے، جسے جبل رحمت کہتے ہیں، اس کے قریب قبلہ رخ کھڑے ہوکر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے وقوف عرفہ کیا تھا۔ پہاڑ پر چڑھنے کی کوئی فضیلت احادیث میں وارد نہیں ہوئی ہے، بلکہ اس کے نیچے یا عرفات کے میدان میں کسی بھی جگہ کھڑے ہوکر کعبہ کی طرف رخ کرکے ہاتھ اٹھاکر دعائیں کرنی چاہییں۔وقوف عرفات حج کا سب سے اہم رکن ہے، جس کے متعلق حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:الحج عرفة یعنی وقوف عرفات ہی حج ہے۔ یہ چند گھنٹے حجاج کرام اور پوری امت مسلمہ، بلکہ پوری انسانیت کے لیے بہت اہم ہیں، اس لیے حجاج کرام کو اس موقع پر اپنے لیے، اپنے گھر والوں اور پوری امت کے لیے خوب دعائیں کرنی چاہییں۔ اس مبارک گھڑی کے لیے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے دو فرمان پیش ہیں:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:عرفہ کے دن کے علاوہ کوئی دن ایسا نہیں جس میں اللہ تعالیٰ کثرت سے بندوں کو جہنم سے نجات دیتے ہوں، اس دن اللہ تعالیٰ (اپنے بندوں کے) بہت زیادہ قریب ہوتے ہیں اور فرشتوں کے سامنے اُن (حاجیوں) کی وجہ سے فخر کرتے ہیں اور فرشتوں سے پوچھتے ہیں (ذرا بتاؤ تو) یہ لوگ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟ (مسلم)

حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلمنے ارشاد فرمایا:غزوہ بدر کا دن تو مستثنیٰ ہے ،اس کو چھوڑکر کوئی دن عرفہ کے دن کے علاوہ ایسا نہیں جس میں شیطان بہت ذلیل ہورہا ہو، بہت راندہ پھر رہاہو، بہت حقیر ہورہا ہو، بہت زیادہ غصہ میں پھر رہا ہو، یہ سب کچھ اس وجہ سے کہ وہ عرفہ کے دن اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا کثرت سے نازل ہونا اور بندوں کے بڑے بڑے گناہوں کا معاف ہونا دیکھتا ہے۔(مشکوٰة)

عرفہ کا روزہ

حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:عرفہ کے دن کے روزے کے متعلق میں اللہ تعالیٰ سے پختہ امید رکھتا ہوں کہ وہ اس کی وجہ سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کو معاف فرمادیں گے۔ (صحیح مسلم) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ عرفہ کے دن کا ایک روزہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کی معافی کا سبب بنتا ہے۔ لہٰذا ہمیں 9 ذی الحجہ کے دن روزہ رکھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہندوپاک کے لوگ اپنے علاقہ کے اعتبار سے ذو الحجہ کی نویں تاریخ کو روزہ رکھیں یا سعودی عرب کے مطابق جس دن حج ہوگا اُس دن روزہ رکھیں۔ سعودی عرب اور ہندوپاک کی چاند کی تاریخ میں عموماً ایک دن کا فرق ہوتا ہے۔ پہلی بات تو عرض ہے کہ احادیث مبارکہ میں پہلی ذو الحجہ سے نویں ذوالحجہ تک روزے رکھنے کی خاص فضیلت وارد ہوئی ہے، اس لیے اگر دونوں دن روزہ رکھ لیا جائے تو سب سے بہتر ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص صرف ایک ہی روزہ رکھنا چاہتا ہے تو اس کے متعلق فقہاء وعلماء کے درمیان اختلاف ہے کہ کون سے دن رکھا جائے۔ ہمارے علماء نے کہا ہے کہ ہندوپاک کے لوگ اپنے علاقہ کے اعتبار سے نویں تاریخ کو روزہ رکھیں، کیوں کہ یوم عید الفطر، یوم عیدالاضحی اور یوم عاشورہ کی عبادتوں کی طرح یوم عرفہ کاروزہ بھی اپنے علاقہ کی چاند کی نویں تاریخ کو رکھا جائے۔ ایک بات عرض کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے بعد سے مکہ مکرمہ پر کفار مکہ کا قبضہ ہونے کی وجہ سے مسلمان حج ادا ہی نہیں کرسکے تھے۔ نویں ہجری میں مسلمانوں نے پہلا حج کیا اور اُس کے اگلے سال یعنی 10 ویں ہجری کو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلمنے حج کیا جو حجة الوداع کے نام سے مشہور ہے، جس کے صرف تین ماہ بعد آپ صلی الله علیہ وسلم اس دنیا سے رخصت فرماگئے۔ ہمارے پاس کوئی ایسی دلیل نہیں ہے کہ جس میں یہ وضاحت ہو کہ یوم عرفہ میں روزہ رکھنے کی فضیلت 9ہجری یا اُس کے بعد آئی ہے۔ نیز یوم عرفہ اور وقوف عرفہ دونوں الگ الگ ہیں۔ وقوف عرفہ کا مطلب احرام کی حالت میں عرفات کے میدان میں وقوف کرنا، یعنی وقوف عرفہ صرف حاجی کرسکتا ہے اور عرفات کے میدان میں ہی۔ خلاصہ کلام یہ ہے دونوں دن روزہ رکھیں اور اگر ایک ہی دن رکھنا چاہتے ہیں تو جو آپ کے علماء کہیں اُس کے مطابق عمل کرلیں۔