اللہ تبارک و تعالیٰ جو کہ اس پوری کائنات کا خالق و مالک ہے اور کوئی اس کے سوا نہ اس کا خالق ہے، نہ مالک ہے، نہ کوئی معبود ہے، نہ کوئی مسجود ہے، نہ اس کے سوا کوئی سجدے کے قابل ہے، اس نے کائنات کو پیدا کیااور اس میں ایک مخلوق انسان بھی ہے۔ انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے برتری عطا فرمائی ، علم حاصل کرنے کی صلاحیت اور استعداد اس کو عطا کی، چناں چہ یہ علم حاصل کرتا ہے، دنیا کاعلم بھی حاصل کرتا ہے، دین کا علم بھی حاصل کرتا ہے ۔ اس طرح یہ اپنے جوہر دکھاتا ہے، لیکن انسان اپنی عقل پر بھروسہ نہیں کرسکتا، عقل کا فیصلہ کئی مرتبہ غلط ہوتا ہے، دنیا میں بہت سے عقلاء گزرے ہیں اور اگر آپ جائزہ لیں گے اورتحقیق کریں گے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ان میں آپس میں بڑا اختلاف ہے۔ ایک ہی مسئلہ ہے ، ایک ہی قضیہ ہے اور اس کے بارے اہل ِدانش وبینش عقلاء اور فلسفی غور کرتے ہیں، سعی و کوشش کرتے ہیں، کاوش کرتے ہیں، لیکن سب ایک نتیجہ پر نہیں پہنچتے ،ان کی آراء میں اختلاف ہوتا ہے، مثالیں دی جائیں تو سینکڑوں مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ بات معلوم ہے، اس لیے یہ کہا جائے گا کہ انسان کی عقل کوئی ضروری نہیں ہے کہ صحیح فیصلے پر پہنچ جائے، وہ ٹھوکر کھاتی ہے، اس سے غلطی ہوتی ہے۔ علم حاصل کرنے کا ایک ذریعہ انسان کے پاس یہ آنکھیں ، یہ کان اور یہ حواسِ ظاہرہ ہیں، آنکھوں سے دیکھ کر علم حاصل کیا جاتا ہے، کانوں سے سن کر علم حاصل کیا جاتا ہے، زبان سے چکھ کر علم حاصل کیا جاتا ہے، ناک سے سونگھ کر علم حاصل کیا جاتا ہے ، ہاتھ سے چھو کر علم حاصل کیا جاتا ہے، لیکن اس میں بھی غلطی ہوتی ہے ، آپ نے دیکھا ہوگا کبھی آپ بستر پر لیٹے ہوئے ہوتے ہیں، آسمان پر چاند نکلا ہوا ہوتا ہے، بادل بھی ہوتے ہیں تو محسوس ایسا ہوتا ہے کہ چاند دوڑ ا جا رہا ہے، حالاں کہ بادل دوڑتے ہیں ، چاند اپنی جگہ پر ہوتا ہے۔ یہ بھی آپ نے دیکھا ہوگا کہ ریلوے اسٹیشن پرآپ ایک گاڑی میں سوار ہیں اور گاڑی آپ کی کھڑی ہے اور بازو سے دوسری گاڑی گزرتی ہے، تو آپ سمجھتے ہیں کہ ہماری گاڑی چل رہی ہے ،حالاں کہ وہ کھڑی ہوتی ہے اور بازو والی گاڑی چلتی ہے، آپ کو یہ نظر آتا ہے کہ ہماری گاڑی چل رہی ہے۔ یہ بھی آپ نے دیکھا ہوگا کہ آپ ریل گاڑی میں سوار ہیں اور وہ سرپٹ دوڑتی ہوئی جارہی ہے، آپ نے کھڑکی سے سر باہر نکال کر جو دیکھا تو محسوس ہوا کہ گویا درخت جو کھڑے ہیں وہ دوڑ رہے ہیں، حالاں کہ وہ درخت نہیں دوڑتے، گاڑی آپ کی دوڑ رہی ہے۔ جہاں آپ کی گاڑی کھڑی ہے وہاں آپ کو دوڑتی ہوئی نظر آتی ہے، جہاں آپ کی گاڑی دوڑ رہی ہے اور درخت کھڑے ہوئے ہیں، وہاں آپ کو درخت دوڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔سماعت کا فرق تو رات دن آپ کے تجربہ میں آتا رہتا ہے، آپ ایک بات کو صحیح نہیں سن پاتے، جب آپ اس کو نقل کرتے ہیں کسی کی طرف سے تو وہ آپ کا گریبان پکڑتا ہے کہ آپ نے یہ کیوں کہا؟ تو آپ کہتے ہیں کہ میں نے تو آپ سے سنا تھا ،وہ کہتا ہے واہ! میں نے یہ کب کہا تھا؟ آپ نے غلط سنا اورآپ کو یہ کئی مرتبہ ماننا پڑتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ علم حاصل کرنے کے جو ذرائع انسانوں کے پاس موجود ہیں وہ نامکمل ہیں، ان کے اوپر ایسا اعتماد نہیں کیا جاسکتاکہ انسان کی دائمی فلاح اور کامیابی کاان کے اوپر انحصار سمجھا جائے۔ اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو اس کی عقل پر نہیں چھوڑا اور اس کی آنکھوں اورکانوں پر نہیں چھوڑا، بلکہ اس نے علم کا ایک ایسا محفوظ ذریعہ عطا فرمایا کہ جس کے اندر کسی غلطی کا کوئی امکان اور احتمال نہیں۔