نیک اعمال کیسے آسان ہوں؟

idara letterhead universal2c

نیک اعمال کیسے آسان ہوں؟

 شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیدالله خالد

الحمد اللہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونوٴمن بہ ونتوکل علیہ ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ھادی لہ ونشھد ان لا إلہ إلا اللہ وحدہ وحدہ وحدہ لا شریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولٰنا محمداً عبدہ ورسولہ، ارسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیا إلی اللہ بإذنہ وسراجا منیرا، أما بعد، فأعوذ باللہ من الشیطن الرجیم، بسم اللہ الرحمن الرحیم․

﴿قد أفلح من تزکی وذکر اسم ربہ فصلی بل توٴثرون الحیٰوة الدنیا والأخرة خیر وأبقی، إن ھذا لفی الصحف الأولی صحف إبراہیم وموسیٰ﴾․ صدق اللہ مولٰنا العظیم․

میرے محترم بھائیو بزرگو اور دوستو! اللہ تعالیٰ نے جہاں یہ ساری کی ساری کائنات اور مخلوق بنائی ہے، اسی نے اپنی سب سے اعلیٰ اور اشرف مخلوق انسان بنایا ہے اور اس کو یہ شرف اس لیے عطا فرمایا ہے کہ اس میں یہ استعداد اور صلاحیت رکھی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی، اپنے بنانے والے کی، معرفت حاصل کرسکے، وہ یہ جان سکے کہ مجھے اللہ نے بنایا ہے، یہ خوبی معرفت الہی حاصل ہونے کی جو انسان کو عطا ہوئی ہے وہ اور کسی کو عطا نہیں ہوئی اور اس کے ساتھ ہی ساتھ انسان کو اللہ تعالیٰ نے یہ اختیار بھی دیا ہے کہ یہ چاہے تو معرفت الہی کے ذریعے شیطان سے، نفس سے، اپنے آپ کو بچالے اور چاہے تو یہ دیگر بہائم اور جانوروں اور حیوانات کی طرح زندگی گزارے اور نفس اور شیطان کا شکار ہو جائے۔

یہ آدمی، جو میں بھی ہوں، آپ بھی ہیں، یہ اصل میں ایک نہیں ہے، دو ہیں۔ ایک وہ آدمی ہے جسے آپ میری شکل میں دیکھ رہے ہیں اور میں آپ کی شکل میں آپ کو دیکھ رہا ہوں، لیکن اسی وقت میرے اندر ایک اور آدمی ہے اور آپ کے اندر بھی ایک اور آدمی ہے اور اندر والا آدمی اصل ہے، یہ نظر آنے والا اصل نہیں ہے، یہ تو کبھی ایک دن ، کبھی ایک مہینہ، کبھی ایک سال، کبھی پانچ سال، کبھی دس سال، کبھی بیس سال، کبھی ساٹھ سال، کبھی ستر سال اور اس کے بعد یہ نظر آنے والا آدمی مر جاتا ہے، لیکن یہ جو اندر والا آدمی ہے وہ مرتا نہیں، اس اندر والے آدمی کا انتقال ہوتا ہے اور وہ انتقال اس عالم دنیا سے عالم برزخ کی طرف ہوتا ہے۔

چناں چہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے اندر جو ارشاد فرمایا: ﴿قدأفلح من تزکی﴾ تحقیق کام یاب ہوگیا وہ آدمی جس نے اپنا تزکیہ کیا، تزکیہ اپنے آپ کو رذائل سے، گندگیوں سے پاک کرنا، اب یہ جو تزکیہ ہے یہ ظاہری بھی ہے اور باطنی بھی ہے، اس وقت جو ہم یہاں بیٹھے ہوئے ہیں، ہم نے اپنا ظاہری تزکیہ کیا ہوا ہے۔ مثلاً ظاہری تزکیہ یہ ہے کہ آدمی غسل کرے، اس جسم کو دھولے، اعضائے وضو کو دھولے، مثلا استنجا کرے، پیشاب پاخانے سے طہارت حاصل کرے، بالوں کو درست رکھے، اپنی لبوں اور مونچھوں کو مسنون رکھے، اپنی بغلوں کو زائد بالوں سے صاف کرے، اپنے زیر ناف بال صاف کرے، یہ سب کیا ہے؟ تزکیہ ہے، لیکن یہ تزکیہ ظاہری ہے۔

اور جب کوئی آدمی اپنا ظاہری تزکیہ نہیں کرتا تو شاید وہ کچھ ہی دنوں بعد اپنے آپ کو دیکھے گا تو بھوت نظر آئے گا، خود سے ڈر لگے گا،چناں چہ بعض لوگوں کو جیل میں سزا دی جاتی ہے اور ان سے ہر چیز دور کر دی جاتی ہے، نہ وہ بال تراش سکتے ہیں، نہ ناخن تراش سکتے ہیں، نہ کلی کرسکتے ہیں، نہ استنجا کرسکتے ہیں، تو دو تین مہینوں بعد ڈراوٴنی شکل بن جاتی ہے، لیکن اگر آدمی اپنا تزکیہ کرتا ہے، ہر چیز مرتب منظم کرتا ہے، تو نہ صرف یہ کہ وہ آدمی اپنے آپ سے خوش ہوتا ہے، اس کے دائیں بائیں جو بیٹھے ہوئے افراد ہیں، جہاں وہ آجارہا ہے، وہ بھی خوش، لیکن اصل تزکیہ ہے اندر کا، روح کا، اس وقت جو سب سے بڑا مسئلہ ہے دنیا میں، وہ یہ کہ انسان کی تمام تر کوشش اور سعی، سب اِس جسم کے لیے ہے، ہر آدمی اِس جسم کے لیے کر رہا ہے۔

جتنی ایجادات آج دنیا میں ہیں، خواہ وہ ایجادات مثبت ہوں یا منفی ، مثلا کھانے پینے کے حوالے سے ترقی ہے، غذا اور غلے کے لحاظ سے ترقی، سفر اور سواری کے حوالے سے جو ترقی ہے اور جو کچھ انسان اس دنیا میں برتتا ہے، استعمال کرتا ہے، اس حوالے سے جو ترقی ہے، یہ مثبت ترقی ہے اور منفی ترقی کیا ہے؟ کہ یہی انسان اسی انسان کو مارنے کے لیے بم بناتا ہے، توپ بناتا ہے۔ آج کل میزائل بناتا ہے، جیٹ طیارے، کس لیے؟ اس انسان کو مارنے کے لیے، تو مثبت یا منفی جو بھی ترقی ہے، وہ اس انسان کے ظاہری جسم کے لیے ہے، اس کا روح سے کوئی تعلق نہیں، ہر شخص اسی میں لگا ہوا ہے اور اتنی ترقی کر لی ہے، اتنی ترقی کر لی ہے کہ اب آدمی سوچ سوچ کے حیران ہے۔

میں نے کئی دفعہ عرض کیا ہے کہ پہلے یہ ہوتا تھا کہ محلے میں ایک ڈاکٹر صاحب ہوتے تھے اور لوگ بہت کم بیمار ہوتے تھے، ڈاکٹر کے پاس رش نہیں ہوتا تھا، کئی دفعہ آپ جاتے تھے، ڈاکٹر صاحب فارغ بیٹھے ہوئے ہیں، ہم نے اپنے اسی محلے میں دیکھا آج سے چالیس سال پہلے، لیکن اب طب کے حوالے سے، میڈیکل کے حوالے سے کس قسم کی ترقی ہے، وہ یہ ہے کہ اس انسان کے جسم کو تقسیم در تقسیم در تقسیم کیا گیا، آج آپ ڈاکٹر کے پاس جائیں کہ میرے حلق میں تکلیف ہے وہ کہے گا یہ میرا کام نہیں، حلق کا ڈاکٹر الگ ہے، آپ ڈاکٹر کے پاس جائیں کہ سینے میں تکلیف ہے، وہ کہے گا میرا کام نہیں، سینے کے، دل کے ڈاکٹر کے پاس جائیں، ہر ہر شعبہ الگ، حتی کہ ناخن ، کسی نے آپ کے ناخن دیکھے کہ ناخن پر سفید سفید دھبے پڑ رہے ہیں، کہے گا ناخن کے ڈاکٹر کے پاس جائیں، آپ کے بالوں کی شاخیں نکلنا شروع ہوگئیں تو آپ سے کہیں گے کہ بالوں کے ڈاکٹر کے دکھائیں، اس کے لیے مستقل ڈاکٹر ہے۔

میں کیا عرض کر رہا ہوں کہ یہ جو جسم ہے اس کے لیے اتنی محنت، اتنی محنت! ہسپتال ہیں، اسپیشلسٹ ہیں، فلاں ہیں، فلاں ہیں، جب کہ سب جانتے ہیں کہ یہ جسم مر جائے گا، یہ ساری ادویہ اور طب کی ترقی موت سے نہیں بچا سکتی، چاہے دنیا کا بڑے سے بڑا آدمی ہو، چاہے چھوٹے سے چھوٹا آدمی ہو، موت سے کوئی نہیں بچا سکتا، کوئی دوا نہیں بچا سکتی، کوئی ڈاکٹر نہیں بچا سکتا، لیکن وہ چیز جو اندر والی ہے، جس کو موت نہیں، جو اصل ہے، جس اصل پر یہ جسم سواری کر رہا ہے، اگر وہ سواری نہ ہو تو یہ سوار گر جائے گا۔

اس پر جو محنت ہونی چاہیے تھی، میں نے عرض کیا کہ آج ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ جو بات میں کر رہا ہوں یہ بات ہمارے ہاں اجنبی ہے، کیوں؟ اس لیے کہ وہ جو روح ہے، جو اصل ہے وہ نظر نہیں آتی، جب کہ وہ ہے، یقینا ہے، وہی تو ہے، جب وہ جسم سے نکل جاتی ہے تو جسم مر جاتا ہے، چناں چہ قرآن کریم میں ہے: ﴿ویسئلونک عن الروح﴾، وہ لوگ آپ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، ﴿قل الروح من أمر ربی﴾، آپ کہہ دیجیے کہ روح میرے رب کا امر ہے اور جیسے رب کو فنا نہیں ہے، ایسے ہی رب کے امر کو بھی فنا نہیں ہے، وہ ختم نہیں ہوتا اور جیسے جسم کے امراض ہیں، جن سے ہم سب واقف ہیں اور ہماری واقفیت دن بدن بڑھ رہی ہے، آپ یقین فرمائیں کہ بالکل اسی طرح سے روح کے امراض ہیں، لیکن عام طور پر روح کے امراض سے واقف نہیں، جیسے یہ جسم صحت مند اور بیمار ہوتا ہے، اسی طریقے سے روح بھی صحت مند اور بیمار ہوتی ہے، مرتی نہیں ہے، موت نہیں آتی روح پر، انبیاء علیہم السلام جسمانی امراض بتانے اور ان کے علاج کے لیے نہیں آئے کہ نزلہ ہوجائے تو یہ کھالو، بخار ہوجائے تو یہ کھالو، انبیاء کا مقصد بعثت یہ نہیں، ان کا جو سب سے حقیقی مقصد ہے وہ یہ کہ یہ روح صحت مند ہوجائے اور خوب یاد رکھیں کہ جیسے جسم کے حوالے سے ہم سب جانتے ہیں کہ سیب کھائیں گے تو جسم میں طاقت آئے گی، آم کھائیں گے تو جسم میں طاقت آئے گی، انگور کھائیں گے تو جسم میں طاقت آئے گی، گوشت کھائیں گے تو جسم میں طاقت آئے گی، دودھ پییں گے تو جسم میں طاقت آئیگی، یہ سب ہم جانتے ہیں۔

بالکل اسی طریقے سے روح کو طاقت ور بنانے کے لیے بھی چیزیں ہیں ، چناں چہ روح میں سب سے زیادہ جو طاقت آتی ہے وہ ایمان سے آتی ہے، چناں چہ جب ایمان اندر آجاتا ہے تو یہ روح طاقت ور ہوجاتی ہے اور یہ اتنی طاقت ور ہوجاتی ہے، اتنی طاقت ور ہوجاتی ہے کہ دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں اس ایمان والے کے پیروں کے نیچے آجاتی ہیں، حالاں کہ کپڑے نہیں ہیں، سوائے ستر ڈھانپنے کے، کوئی وردی نہیں ہے، کوئی فوجی بوٹ نہیں ہیں، تلواریں ہیں لیکن ٹوٹی ہوئی، نیزے ہیں لیکن ٹوٹے ہوئے، سواریاں نہیں ہیں، اگر ہیں تو مریل، کم زور، پیر چل چل کے ان میں چھالے پڑ گئے ہیں، تو پیروں پر چیتھڑے اور کپڑے باندھے ہوئے ہیں، تاکہ چلنے میں تکلیف نہ ہو۔

اب یہ ہے جسم کا حال، ظاہر کا حال، لیکن اندر کیا ہے؟ اور کیسا ایمان ہے؟ کہ اس کی نظیر اور مثال شاید قیامت تک نہیں مل سکتی، اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ جو کم زور اور ضعیف نظر آنے والے ہیں، روم کی سلطنت ان کے پاوٴں کے نیچے، فارس کی سلطنت ان کے پاوٴں کے نیچے، دنیا میں انہی کا ڈنکا، انہی کا پرچم۔

اور جب سے ہم نے اپنے اندرونی امراض کو سمجھنا چھوڑ دیا، جیسے جسم کے امراض ہیں، سر کا درد ہے، پیٹ کا درد ہے، کمر کا درد ہے، بخار ہے، ملیریا ہے، آج کل کی زبان میں ڈینگی ہے، فلاں ہے، فلاں ہے، سب جانتے ہیں، لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ ریا، دکھاوا یہ روح کی بیماریاں ہیں، جسم کی بیماریاں نہیں ہیں یہ، میں کوئی بھی عمل کر رہا ہوں، اس وقت میں بات کر رہا ہوں، اگر میرے دل میں یہ جذبہ ہے کہ میں لوگوں کو دکھاوٴں اور لوگ میرے اس بیان کو سنیں اور مجھے بہت اچھا بولنے والا سمجھیں، یہ ریا ہے، میں نماز پڑھ رہا ہوں، دل میں جذبہ ہے کہ لوگ دیکھیں، صدقہ کر رہا ہوں، دل میں جذبہ ہے کہ لوگ دیکھیں، یہ سارے اعمال اگر لوگوں کو دکھانے کے لیے کیے جائیں تو یہ ریا ہے اور اللہ تعالی اسے برداشت نہیں کرتے، اب ہم اس سے واقف نہیں، ہم سب اس میں مبتلا ہیں، یہ ہماری اندر کی بیماری ہے، اس کو ختم کرنے کی ہم کوئی کوشش نہیں کرتے، سُمعہ ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ لوگ میری تعریف کریں اور میں اس کو سنوں، کئی دفعہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ آدمی کوئی کام کرتا ہے اور بعد میں کہتا ہے آپ نے دیکھا میں نے فلاں کام کیسے کیا؟!

اب یہ سننا چاہتا ہے اور اس سے اس کا نفس خوش ہوتا ہے، لوگ کہتے ہیں آپ نے تو تلاوت بھی ایسی کی، آپ نے تو اشعار بھی ایسے پڑھے، تو یہ پوچھنا ہے اور، اور، کہتے ہیں کہ آپ کے بیان کا تو انداز ایسا تھا، سن رہا ہے، یہ کیا ہے؟ یہ سمعہ ہے اور اللہ تعالیٰ کو اس سے سخت نفرت ہے۔ تکبر ہے، اللہ فرماتے ہیں: یہ میری چادر ہے، میری عظمت کی چادر کو متکبر پھاڑنے کی کوشش کرتا ہے، میں اسے گوارا نہیں کرتا، (عن أبی ھریرة رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: قال اللہ تبارک وتعالی: الکبریاء ردائی، والعظمة إزاری، فمن نازعنی واحداً منھما قذفتہ فی النار․ (سنن أبی داود، کتاب اللباس، باب ما جاء فی الکبر، رقم: 4090)) حسد ہے، جبن ہے، بخل ہے، بد نظری ہے، یہ ساری فہرست ہے اور سب سے بڑا گناہ جس سے اللہ تعالیٰ نے ہم سب کی الحمد اللہ حفاظت فرمائی ہے، وہ کفر اور شرک ہے۔

لیکن اسلام اور ایمان کے باوجود یہ جو ریا ہے، سُمعہ ہے، عُجب ہے، تکبر ہے، حسد ہے، حِقد ہے، جُبن ہے، بخل ہے، بد نظری ہے، یہ وہ امراض ہیں جو روح کو کم زور سے کم زور تر کردیتے ہیں، روح مرتی تو نہیں ہے، لیکن کم زور ہوجاتی ہے، جیسے جسمانی بیماری سے جسم کم زور ہوجاتا ہے، ایسے ہی یہ جو امراض ہیں، جن کا میں نے ذکر کیا، ان کی وجہ سے روح کم زور ہوجاتی ہے۔

اور اس بات کو سمجھ لیں کہ اس کا میٹر آپ کے پاس ہے، آپ کو کیسے پتہ چلے گا کہ میری روح صحت مند ہے یا کم زور اور بیمار ہے؟ تو آپ اپنا جائزہ لیں کہ میرا جی نماز پڑھنے کو چاہتا ہے، میرا دل مسجد میں جا کر وقت گزارنے کو چاہتا ہے، فوراً جواب آئے گا، نماز میں دل لگتا ہے یا نہیں؟ نماز کا شوق، طیب خاطر نہیں ہے تو فوراً سمجھ جائیں کہ روح بیمار ہے، قرآن کریم کی تلاوت کو جی چاہتا ہے یا نہیں؟ اپنا محاسبہ کریں، مجھے کتنے دن ہوگئے قرآن کریم کی تلاوت کیے ہوئے اور اگر تلاوت کے لیے قرآن کریم اٹھانے کے لیے الماری کی طرف جاتا ہوں تو کیا کیفیت ہوتی ہے کہ ایک رکوع پڑھ کر رکھ دوں گا، ایک پاوٴ پڑھ کر رکھ دوں گا، ایک پارہ تلاوت کر کے رکھ دوں گا۔ تو الحمد اللہ یہ کیفیت ہے روح کی کہ اس نے کھڑا کردیا اور قرآن اٹھانے کی توفیق عطا فرما دی، لیکن دل نہیں لگ رہا، بار بار گھڑی دیکھ رہا ہے، ذکر کرنے کو جی چاہتا ہے، نہیں چاہتا؟ چناں چہ اگر ان نیک کاموں اور اعمال صالحہ کی طرف رغبت ہے، جی چاہتا ہے تو الحمد للہ ثم الحمد للہ۔ اللہ کا شکر ادا کریں۔

اور اگر طبیعت نہیں چل رہی ہے تو فوراً سمجھ جائیں کہ میری اندر کی کیفیت درست نہیں ہے۔ اور اس کا بھی علاج ہے اور اس علاج کے لیے آپ کو کسی ہسپتال یا ڈاکٹر کے پاس نہیں جانا پڑے گا، اس کے لیے آپ خود ہی، چاہے آپ گھر میں ہیں، چاہے آپ باہر دکان میں ہیں، دفتر میں ہیں، کہیں پر ہوں، آپ فوراً اپنی ندامت کا اظہار کریں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الندم توبة (سنن ابن ماجہ، کتاب الزھد، باب ذکر التوبة، رقم: 4252، مسند احمد، رقم: 4012)

ندامت بھی توبہ ہے، اے اللہ! میں نادم ہوں، اے اللہ! میں اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں، اے اللہ! میں ضعیف ہوں، میں بے بس ہوں، اے اللہ! مجھے نفس وشیطان کے حوالے نہ فرما، اے اللہ! میری دست گیری فرمائیے۔ یہ ایک منٹ کے اندر، نہ کوئی انجکشن لگانا ہے، نہ کوئی کیپسول کھانا ہے، نہ ڈاکٹر کے پاس جانا ہے، چند لمحوں میں زندگی بھر کے تمام گناہ معاف، اس کے نتیجے میں روح قوی ہوگی، اس کا ضعف ختم ہوگا، پھر مسجد کی طرف رغبت بھی ہوگی، نماز کی طرف رغبت بھی ہوگی، تلاوت کی طرف بھی رغبت ہوگی۔

اور یہ خوب یاد رکھیں کہ یہ ایک دفعہ کا قصہ نہیں ہے، یہ جنگ نفس وشیطان کے ساتھ مرتے دم تک جاری رہے گی، ابھی توبہ کریں گے، تھوڑی دیر بعد پھر، شام کو پھر، اگلے دن پھر، دو چار دن بعد پھر، شیطان کے حملے شروع ہوجائیں گے اور میں نے علاج آپ کو بتا دیا کہ فوراً توبہ کریں، اسی طرح سے جب بھی شیطان حملہ کرے، تو ”لا حول ولا قوة إلا باللہ“، کم از کم تین مرتبہ پڑھ لیں، تو آپ بتدریج محفوظ ہونا شروع ہو جائیں گے۔

ایسے ہی باوضو رہنے کا اہتمام کریں، وضو بھی شیطان کے حملوں سے بچنے کا موٴثر ترین ذریعہ ہے۔
اس لیے ہم کو شش کریں کہ ہمارا ظاہری تزکیہ بھی بھرپور ہو اور باطنی تزکیہ تو بہت اہتمام کے ساتھ ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائیں۔

ربنا تقبل منا إنک انت السمیع العلیم، وتب علینا إنک أنت التواب الرحیم․

مجالس خیر سے متعلق